نہ ادھر کے نہ ادھر کے سبحان اللہ ، اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں؟ سخت بات کے سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جاتا ہے اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورہ نور میں کیا جاتا ہے اور ارشاد عالی ہوتا ہے ( فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 62 ) 24- النور:62 ) یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں ۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تو بھی ہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے ۔ نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی ۔ اطاعت گذار تو حاضر ہو جاتے ۔ نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے ۔ کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں ۔ اسی لئے جناب باری نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ حق کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں وہ تو جہاد کو موجب قربت الہیہ مان کر اپنی جان و املاک کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے ۔ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت کے بارے میں شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوار نے کا کوئی رستہ نہ پائے گا ۔
43۔ 1 یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں کو تو نے کیوں بغیر یہ تحقیق کئے کہ اس کے پاس معقول عذر بھی ہے یا نہیں ؟ اجازت دے دی۔ اس لئے اس کوتاہی پر معافی کی وضاحت پہلے کردی گئی ہے۔ یاد رہے یہ تنبیہ اس لئے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
[٤٧] آپ پر عتاب سے پہلے معافی کا اعلان :۔ اس موقع پر منافقوں نے یہ روش اختیار کی کہ جھوٹے حیلے تراش کر آپ سے مدینہ میں رہ جانے کی اجازت طلب کرتے تھے اور آپ بھی کسی حد تک یہ جاننے کے باوجود کہ ان کی یہ معذرت حقیقی نہیں بلکہ عذر لنگ ہے اپنی نرم طبع کی بنا پر انہیں اجازت دے دیتے تھے جبکہ اللہ کو یہ بات پسند نہ تھی۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان منافقوں کا خبث باطن اور مکر کھل کر سب کے سامنے آجائے۔ جہاد پر روانہ ہونے کی ہمت اور ارادہ تو وہ سرے سے رکھتے ہی نہ تھے پھر یہ اس اجازت کا سہارا کیوں لیں۔ کیوں نہ ننگے ہو کر سامنے آئیں۔ اس صورت حال پر اللہ کا عتاب ہوا مگر ساتھ ہی اللہ نے اپنے حبیب پر کمال عنایت بھی ظاہر کی کہ تقصیر بیان کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا۔
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ : ہوا یہ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافقین نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی، حالانکہ انھوں نے طے کر رکھا تھا کہ اجازت نہ ملی پھر بھی نہیں جائیں گے۔ اب ان کی آزمائش کے لیے انھیں اجازت دینے سے اس وقت تک گریز کرنا چاہیے تھا جب تک واضح نہ ہوجاتا کہ کس کا عذر حقیقی ہے اور کون بہانے باز ہے، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی حقیقت کھلنے سے پہلے ہی انھیں مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے ناراض ہونے کا اظہار فرمایا، مگر نہایت لطف و کرم اور مہربانی کے ساتھ کہ اس اظہار سے پہلے معاف کردینے کی اطلاع دی اور پھر فرمایا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ اس میں پیچھے رہنے والوں کی مذمت بھی صاف نمایاں ہے، کیونکہ ان میں کم ہی تھے جن کا عذر صحیح تھا، اکثر جھوٹ ہی بول رہے تھے۔- اللہ تعالیٰ نے یہاں ان لوگوں کو اجازت دینے پر ناراضی کا اظہار فرمایا جنھوں نے آپ سے اجازت مانگی اور انھیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے بتایا جو جہاد میں نکلنا ہی نہیں چاہتے تھے اور سورة نور میں فرمایا : ( ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ) [ النور : ٦٢ ] ” بیشک جو لوگ تجھ سے اجازت مانگتے ہیں وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ “ وہاں مراد یہ ہے کہ منافقین اجتماعی کام مثلاً جہاد وغیرہ میں آئے ہوئے ہوں تو بغیر پوچھے کھسک جاتے ہیں، اجازت مانگتے ہی نہیں، جب کہ اہل ایمان ضرورت کے وقت بھی آپ سے پوچھے بغیر نہیں جانتے۔
خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف ( تو) کردیا ( لیکن) آپ نے ان کو ( ایسی جلدی) اجازت کیوں دے دیتھی جب تک کہ آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے، اور ( جب تک کہ) جھوٹوں کو معلوم نہ کرلیتے ( تاکہ وہ خوش تو نہ ہونے پا تے، کہ ہم نے آپ کو دھوکہ دے دیا ( اور) جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے کے بارے میں ( اس میں شریک نہ ہونے کی کبھی) آپ سے رخصت نہ مانگیں گے ( بلکہ وہ حکم کے ساتھ دوڑ پڑیں گے) اور اللہ تعالیٰ ان متقیوں کو خوب جانتا ہے ( ان کو اجر وثواب دے گا) البتہ وہ لوگ ( جہاد میں نہ جانے کی) آپ سے رخصت مانگتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل ( اسلام سے) شک میں پڑے ہیں سو وہ اپنے شکوک میں پڑے ہوئے، حیران ہیں ( کبھی موافقت کا خیال ہوتا ہے کبھی مخالفت کا) اور اگر وہ لوگ ( غزوہ میں) چلنے کا ارادہ کرتے ( جیسا کہ وہ اپنے عذر کے وقت ظاہر کرتے ہیں کہ چلنے کا تو ارادہ تھا، لیکن کیا کیا جائے فلاں ضرورت پیش آگئی سو اگر ایسا ہوتا) تو اس ( چلنے) کا کچھ سامان تو درست کرتے ( جیسا کہ سفر کے لوازم عادیہ سے ہے) لیکن ( انہوں نے تو شروع سے ارادہ ہی نہیں کیا اور اس میں خیر ہوئی جیسا آگے آنا ہے لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ اور اس کے خیر ہونے کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے ان کے جانے کو پسند نہیں کیا اس لئے ان کو توفیق نہیں دی اور ( بحکم تکوینی) یوں کہہ دیا گیا کہ اپاہج لوگوں کے ساتھ تم بھی یہاں ہی دھرے رہو ( اور ان کے جانے میں خیر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ) اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ شامل ہوجاتے تو سوا اس کے کہ اور دونا فساد کرتے اور کیا ہوتا ( وہ فساد یہ ہوتا کہ) تمہارے درمیان فتنہ پردازی کی فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے ( یعنی لگائی بجھائی کرکے آپس میں تفریق ڈلواتے، اور جھوٹی خبریں اڑا کر پریشان کرتے، دشمن کا رعب تمہارے قلوب میں ڈالنے کی کوشش کرتے، اس لئے ان کا نہ جانا ہی اچھا ہوا) اور ( اب بھی) تم میں ان کے کچھ جاسوس موجود ہیں ( جن کو اس سے زیادہ فساد کی تدبیر میں مہارت نہیں) اور اس ظالموں کو اللہ خوب سمجھے گا ( اور ان لوگوں کی مفسدہ سازی و فتنہ پردازی کچھ آج نئی نہیں) انہوں نے تو پہلے ( جنگ احد وغیرہ میں) بھی فتنہ پردازی کی فکر کی تھی ( کہ ساتھ ہو کر ہٹ گئے کہ مسلمان دل شکستہ ہوجائیں) اور ( اس کے علاوہ بھی) آپ کی ( ضرر رسانی کے) لئے کارروائیوں کی الٹ پھیر کرتے ہی رہے، یہاں تک کہ سچا وعدہ آگیا اور ( اس کا آنا یہ ہے کہ) اللہ کا حکم غالب رہا اور ان کو ناگوار ہی گذرتا رہا ( اسی طرح آئندہ بھی بالکل تسلی رکھئے کچھ فکر نہ کیجئے) اور ان ( منافقین متخلفین) میں بعض شخص وہ ہے جو ( آپ سے) کہتا ہے کہ مجھ کو ( غزوہ میں نہ جانے کی اور گھر رہنے کی) اجازت دیدیجئے، اور مجھ کو خرابی میں نہ ڈالئے، خوب سمجھ لو کہ یہ لوگ خرابی میں تو پڑ ہی چکے ہیں ( کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور کفر سے بڑھ کر اور کونسی خرابی ہوگی) اور یقینا دوزخ ( آخرت میں) ان کافروں کو گھیرے گی اگر آپ کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے تو وہ ان کے لئے موجب غم ہوتی ہے، اور اگر آپ پر کوئی حادثہ آپڑتا ہے تو ( خوش ہوکر) کہتے ہیں کہ ہم نے تو ( اسی واسطے) پہلے سے اپنا احتیاط کا پہلو اختیار کرلیا تھا، ( کہ ان کے ساتھ لڑائی وغیرہ میں نہیں گئے تھے) اور ( یہ کہہ کر) وہ خوش ہوتے ہوئے چلے جاتے ہیں آپ ( جواب میں ان سے دو باتیں) فرما دیجئے ( ایک تو یہ کہ) ہم پر کوئی حادثہ نہیں پڑ سکتا مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر فرمایا ہے وہ ہمارا مالک ہے ( پس مالک حقیقی جو تجویز کرے مملوک کو اس پر راضی رہنا واجب ہے) اور ( کیا تخصیص ہے) اللہ کے تو سب مسلمانوں کو اپنے سب کام سپرد رکھنے چاہئیں ( دوسری بات یہ) فرما دیجئے کہ ( ہمارے لئے جیسی اچھی حالت بہتر ہے ویسے ہی حوادث بھی باعتبار انجام کے کہ اس میں رفع درجات و قطع سیئات ہونا بہتر ہے، پس) تم تو ہمارے حق میں دو بہتریوں میں سے ایک بہتری کے منتظر رہتے ہو ( یعنی تم جو ہماری حالت کے منتظر رہتے ہو کہ دیکھئے کیا ہو تو خواہ وہ حسنہ ہو یا مصیبت ہمارے لئے دونوں ہی میں بہتری ہے) اور ہم تمہارے حق میں اس کے منتظر رہا کرتے ہیں، کہ خدا تعالیٰ تم پر کوئی عذاب واقع کرے گا ( خواہ) اپنی طرف سے ( دنیا میں یا آخرت میں) یا ہمارے ہاتھوں سے ( جب کہ تم اپنے کفر کو ظاہر کردو، تو مثل دوسرے کفار کے قتل کئے جاؤ سو تم ( اپنے طور پر) انتظار کرو ( اور) ہم تمہارے ساتھ ( اپنے طور پر) انتظار میں ہیں۔- معارف و مسائل - اس پورے رکوع کی سترہ آیتوں میں بیشتر ان منافقین کا ذکر ہے، جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے غزہ تبوک میں نہ جانے کی اجازت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کرلی تھی، اس کے ضمن میں بہت سے احکام و مسائل اور ہدایات ہیں۔- پہلی آیت میں ایک لطیف انداز سے رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی شکایت ہے کہ ان منافقین نے جھوٹ بول کر اپنے آپ کو معذور ظاہر کیا اور آپ نے قبل اس کے کہ ان کے حال کی تحقیق کرکے جھوٹ سچ کا پتہ لگاتے ان کو رخصت دیدی، جس کی بنا پر یہ لوگ خوشیاں مناتے اور یہ کہتے پھرتے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوب دھوکہ دیا، اگرچہ اگلی آیتوں میں حق تعالیٰ نے اس کا بھی اظہار فرمایا کہ یہ لوگ محض حیلہ جوئی کے لئے عذر پیش کر رہے تھے، ورنہ اگر ان کو اجازت نہ دی جاتی جب بھی یہ لوگ جانے والے نہ تھے اور ایک آیت میں اس کا بھی اظہار فرمایا کہ اگر بالفرض یہ لوگ اس جہاد میں جاتے بھی تو ان سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا، بلکہ ان کی سازش اور فتنہ پردازی سے اور خطرہ ہوتا۔- لیکن منشاء یہ ہے کہ ان کو اگر اجازت نہ دی جاتی تو پھر بھی یہ جانے والے تو نہ تھے، مگر ان کا نفاق کھل جاتا، اور ان کو مسلمانوں پر یہ طعنے کسنے کا موقع نہ ملتا کہ ہم نے ان کو خوب بیوقوف بنایا، اور مقصد درحقیقت عتاب نہیں بلکہ یہ بات ہے کہ آئندہ ان لوگوں کی چالوں سے باخبر رہیں، اور صورة جو ایک قسم کا عتاب بھی ہے تو کس لطف عنایت کے ساتھ کہ عتاب کی بات جو لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ سے شروع ہوئی ہے، یعنی آپ نے ان لوگوں کو کیوں اجازت دے دیاس کے ذکر کرنے سے پہلے ہی عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ذکر فرما دیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف فرمادیا۔- اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب و مقام اور آپ کے تعلق مع اللہ پر نظر رکھنے والے حضرات نے فرمایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو غایت تعلق حضرت حق جل شانہ کے ساتھ تھا اس کے پیش نظر آپ کا قلب مبارک اس کا تحمل ہی نہ کرسکتا تھا کہ حق تعالیٰ کی طرف سے کسی معاملہ میں آپ سے جواب طلب کیا جائے، اگر شروع میں لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ کے الفاظ ذکر فرما دیئے جاتے جن میں صورة جواب طلبی کا عنوان ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قلب مبارک اس کا تحمل نہ کرسکتا، اس لئے اس سے پہلے عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ فرما کر ایک طرف تو اس پر مطلع کردیا کہ کوئی ایسا کام ہوگیا ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہ تھا، دوسری طرف اس کی معافی کی اطلاع پہلے دے دیتا کہ اگلا کلام قلب مبارک پر زیادہ شاق نہ ہو۔- اور لفظ معافی سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ معافی تو جرم و گناہ کی ہوا کرتی ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہ سے معصوم ہیں تو پھر معافی کے یہاں کیا معنی ہوسکتے ہیں وجہ یہ ہے کہ معافی جیسے گناہ کی ہوتی ہے ایسی ہی خلاف اولی اور ناپسندیدہ چیز کے لئے بھی معافی کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اور وہ عصمت کے منافی نہیں۔
عَفَا اللہُ عَنْكَ ٠ ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ ٤٣- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔
عفا اللہ کے معانی - قول باری ہے (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی ؟ (تمہیں چاہیے کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے) عضو کے کئی معانی ہیں۔ تسہیل و توسعہ کو بیھ عفو کہتے ہیں جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (اول الوقت رضوان اللہ واخرہ عفو اللہ۔ اول وقت میں نماز کی ادائیگی سے اللہ کی رضامندی اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور آخر وقت کی ادائیگی میں اللہ کی طرف سے گنجائش اور وسعت ہوتی ہے) عفو ترک کے معنوں میں بھی آتا ہے جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (احفوا الشوارب واعفوا اللحیٰ ۔ مونچھیں خوب کتروائو اور ڈاڑھی کے بال چھوڑ دو ) عفو کثرت کے معنوں میں بھی آتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (حتیٰ عفو یہاں تک کہ ان کی کثرت ہوگئی) یعنی ان کی تعداد بہت ہوگئی۔- اسی طرح محاورہ ہے۔ ” اعفیت فلانا من کذا وکذا (میں نے فلاں کی فلاں چی سے جان چھڑا دی) یہ فقرہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی شخص کے لئے کسی چیز کو چھوڑ دینا آسان بنادے۔ گناہ سے درگزر کرنا بھی عفو کہلاتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ گنہگار کو اس گناہ کے نتائج سے چھٹکارا دے کر اسے اس کی سزا نہ دی جائے۔ اس مقام پر عفو کا لفظ غفران کے ہم معنی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اصل معنی تسہیل کے ہوں جب خدا اپنے بندے کے گناہ معاف کردیتا ہے تو گویا وہ اس سے اس کا بدلہ نہ لے کر اس کے لئے معاملہ آسان کردیتا ہے۔- اس لفظ کے مذکورہ بالا تمام معانی کے اندر اس بات کی گنجائش ہے کہ اصل معنی ترک اور توسعہ کے ہوں بعض لوگوں کا قول ہے کہ منافقین کو اجازت دے کر گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گناہ صغیرہ کا صدور ہوگیا تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (عضا اللہ عنک لم اذنت لھم) اس لئے کہ ہمارے لئے یہ فقرہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ ” تم نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کے لئے میں نے تمہیں کہا تھا ” جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے کہ تم نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کا میں نے تمہیں حکم دیا تھا “ اس لئے اس فعل پر عفو کا اطلاق درست نہیں ہوگا جسے کرنے کے لئے کہا گیا۔ جس طرح یہ درست نہیں ہوگا کہ جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اس کے سلسلے میں کرنے والے کو معافی دے دی جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اجازت دے کر کسی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جن الفاظ کے ساتھ خطاب کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کی اگرچہ اجازت تھی لیکن ایک دوسرا کام اس سے بہتر اور اولیٰ تھا اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا جائے اور ایک بات دوسری سے اولیٰ ہو۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجات بزینۃ وان یستعففن خیر لھن۔ ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے زائد کپڑے اتار رکھیں بشرطیکہ زینت کا مظاہرہ کرنے والی نہ ہوں اور اگر اس سے بھی احتیاط کریں تو ان کے حق میں اور بہتر ہو) اللہ تعالیٰ نے دونوں باتیں مباح کردیں لیکن ان میں سے ایک کو اولیٰ قرار دیا۔ شعبہ نے قتادہ سے قول باری (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ یہ حکم اسی طرح تھا جیسا کہ تم سنتے ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں یہ آیت نازل فرمائی (واذا کانو معہ علی امر جامع ثم یذھبوا حتی یستاذنوہ ۔ اور جب رسول کے ساتھ کسی ایسے کام پر ہوتے ہیں جس کے لئے لوگوں کو جمع کیا گیا ہو تو جب تک تم سے اجازت نہیں لیتے نہیں جاتے) تا قول باری (فاذن لمن مشئت منھم تو تم ان میں سے جس کو چاہو اجازت دے دو ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رخصت اور اجازت دے دی۔- علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (انما یستاذنک الذین لایومنون باللہ والیوم الاٰخر وارتابت قلوبھم فھم فی ریبھم یترددون۔ جو لوگ سچے دل سے اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے درخواست نہیں کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف کیا جائے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ یہ آیت بعینہ منافقین کے بارے میں ہے جب انہوں نے جہاد سے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مانگی تھی حالانکہ انہیں عذر بھی درپیش نہیں تھا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے عذر کو قبول کرتے ہوئے فرمایا (وآذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ) عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (انما یستاذنک الذین لایومنون) الخ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اسے اس قول باری نے منسوخ کردیا ہے (واذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ) تا قول باری (فاذن لمن شئت منھم) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو باتوں میں سے اعلیٰ بات کو اختیار کرنے کی اجازت دے دی۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں ممکن ہے کہ قول باری (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) منافقین کے ایک گروہ کے متعلق ہوج سے نفاق کی تہمت لگ چکی ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت نہ دے کر ان لوگوں کی حقیقت حال کو پرکھنا چاہا ہو تاکہ جو لوگ جہاد میں نکل پڑنے کے حکم کے بعد بھی نہ نکلیں ان کا نفاق ظاہر ہوجائے۔ اس صورت میں ایسے لوگوں کے متعلق آیت کا حکم ثابت رہے گا منسوخ نہیں سمجھا جائے گا اس پر قول باری (حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین ) بھی دلالت کرتا ہے۔ اس بنا پر قول باری (واذا کانوا معہ علیٰ امر جامع لم یھذبوا حتیٰ یستاذنوہ) نیز (فاذن لمن شئت منھم) ان اہل ایمان کے بارے میں ہوگا جنہیں اگر اجازت نہ ملتی تو نہ جاتے۔ اس تفسیر کی بنا پر دو نوں میں سے کوئی بھی آیت دوسری آیت کو منسوخ نہیں کرے گی۔
(٤٣) اے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا، لیکن آپ نے ان منافقین کو شرکت نہ کرنے کی اتنی جلدی کیوں اجازت دے دی، جب تک کہ آپ کے ساتھ نکل کر ایمان والوں کی سچائی ظاہر نہ ہوجاتی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھوٹے لوگوں کے ایمان کو معلوم کرلیتے کہ وہ بغیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت کے جہاد رہ گئے۔- شان نزول : (آیت) ” عفا اللہ عنک “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عمر بن میمون ازدی سے روایت کیا ہے کہ دو باتیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی کیں جن میں اللہ کی طرف سے اس وقت تک کوئی صاف حکم نہیں دیا گیا تھا ایک تو منافقین کو عدم شرکت کی اجازت دے دی اور دوسری غزوہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے لیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف تو فرما دیا لیکن (حیرت سے دریافت کیا کہ) آپ نے ان کو اجازت کیوں دی تھی۔
آیت ٤٣ (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ ) - یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی منافق آیا اور اپنی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر جہاد سے رخصت چاہی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے اسے اجازت دے دی۔ اب اس شخص کو تو گویا سند مل گئی کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت لی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ تو اس کا تھا ہی نہیں ‘ مگر اجازت مل جانے سے اس کی منافقت کا پردہ چاک نہیں ہوا۔ اجازت نہ ملتی تو واضح طور پر معلوم ہوجاتا کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اس طرح کئی منافقین آئے اور اپنی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت لے گئے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :45 بعض منافقین نے بناوٹی عذرات پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت مانگی تھی ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے طبعی حلم کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ محض بہانے کر رہے ہیں ان کو رخصت عطا فرمادی تھی ۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور آپ کو تنبیہ کی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے ۔ رخصت دے دینے کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا ۔ اگر انہیں رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوٰئے ایمان بے نقاب ہو جاتا ۔
38: در اصل تنبیہ تو یہ کرنی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم نے منافقین کو جہاد سے الگ رہنے کی اجازت کیوں دی؟ لیکن یہ محبت بھرا انداز ملاحظہ فرمائیے کہ تنبیہ کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا۔ کیونکہ اگر پہلے تنبیہ کی جاتی اور معافی کا اعلان بعد میں آتا تو اس درمیانی وقت میں آپ پر نہ جانے کیا کیفیت گذر جاتی۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ ان منافقین کو جہاد میں جانا تو تھا ہی نہیں۔ اور جیسا کہ آگے آیت 47 میں فرمایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ لشکر میں شامل ہو کر فساد مچائیں، لیکن اگر آپ انہیں جہاد سے الگ رہنے کی اجازت نہ دیتے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی کہ یہ نافرمان لوگ ہیں۔ بحالت موجودہ جبکہ یہ لوگ اجازت لے چکے ہیں۔ ایک طرف تو یہ مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم تو باقاعدہ اجازت لے کر مدینہ منورہ میں رہے، اور دوسری طرف اپنے لوگوں سے شیخی بگھاریں گے کہ دیکھوں ہم نے مسلمانوں کو کیسا دھوکا دیا۔