Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یہ ان منافقین کا بیان ہے جنہوں نے جھو ٹے حیلے تراش کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرلی تھی۔ ان کی بابت کہا گیا ہے کہ یہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی عدم ایمان نے انہیں جہاد سے گریز پر مجبور کیا۔ اگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوتا تو نہ جہاد سے یہ بھاگتے نہ شکوک و شبہات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ : پس مومنین اور منافقین کے درمیان فرق یہ ہے کہ جہاد کا اعلان ہونے پر مومن تو بلا تامل نکل کھڑے ہوتے ہیں، مگر جو منافق ہیں وہ بہانے تراشتے ہیں اور ہر ایسے موقع پر مذبذب بھی ہوجاتے ہیں، کبھی دل کہتا ہے چلو شاید پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچ ہی کہتے ہوں اور کبھی دل میں آتا ہے نہیں، یہ سب ڈھکوسلے اور ڈرانے کی باتیں ہیں، بس دنیا میں چند روز جینا ہے، آرام سے دن کاٹ لیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ فَہُمْ فِيْ رَيْبِہِمْ يَتَرَدَّدُوْنَ۝ ٤٥- ارْتِيابُ- والارْتِيابُ يجري مجری الْإِرَابَةِ ، قال : أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] ، وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] ، ونفی من المؤمنین الِارْتِيَابَ فقال : وَلا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] ، - اور ارتیاب ( افتعال ) ارابہ کے ہم معنی ہے جس کے معنی شک و شبہ میں پڑنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] یا شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس بات سے ڈرتے ہیں ۔ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] اور اس بات کے منتظر رہے ( کہ مسلمانوں پر کوئی آفت نازل ہو ) اور ( اسلام کی طرف سے ) شک میں پڑے رہے ۔ اور مؤمنین سے ارتیاب کی نفی کرتے ہوئے فرمایا ولا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] اور اہل کتاب اور مسلمان ( ان باتوں میں کسی طرح کا ) شک و شبہ نہ لائیں - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - يترددون - ( تفعل) مصدر۔ ڈانواں ڈول ہیں۔ تردد میں پڑے ہوئے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٥) البتہ وہ لوگ جہاد میں نہ جانے کی رخصت مانگتے ہیں جو مومن نہیں اور ان کے دل میں کجی ہے سو وہ اپنے شکوک میں حیران ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ (اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ ) - یہاں سورة الحجرات کی مذکورہ آیت کے الفاظ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیجئے کہ مؤمن تو وہی ہیں جو ایمان لانے کے بعد شک میں نہ پڑیں ‘ اور یہاں وارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ کے الفاظ سے واضح فرما دیا کہ ان منافقین کے دلوں کے اندر تو شکوک و شبہات مستقل طور پر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔- (فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ ) - اپنے ایمان کے اندر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں اور جہاد کے لیے نکلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی ان کو مسلمانوں کے ساتھ چلنے میں مصلحت نظر آتی کہ نہ جانے سے ایمان کا ظاہری بھرم بھی جاتا رہے گا ‘ مگر پھر فوراً ہی مسافت کی مشقت کے تصور سے دل بیٹھ جاتا ‘ دنیوی مفادات کا تصور پاؤں کی بیڑی بن جاتا اور پھر سے جھوٹے بہانے بننے شروع ہوجاتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :46 اس سے معلوم ہوا کہ کفر اسلام کی کشمکش ایک کسوٹی ہے جو کھرے مومن اور کھوٹے مدعی ایمان کے فرق کو صاف کھول کر رکھ دیتی ہے ۔ جو شخص اس کشمکش میں دل و جان سے اسلام کی حمایت کرے اور اپنی ساری طاقت اور تمام ذرائع اس کو سربلند کرنے کی سعی میں کھپا دے اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرے وہی سچا مومن ہے ۔ بخلاف اس کے جو اس کشمکش میں اسلام کا ساتھ دینے سے جی چرائے اور کفر کی سر بلندی کا خطرہ سامنے دیکھتے ہوئے بھی اسلام کی سربلندی کے لیے جان و مال کی بازی کھیلنے سے پہلو تہی کرے اس کی یہ روش خود اس حقیقت کو واضح کر دیتی ہے کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani