Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یہ منافقین اگر اسلامی لشکر کے ساتھ شریک ہوتے تو غلط رائے اور مشورے دے کر مسلمانوں میں انتشار ہی کا باعث بنتے۔ 47۔ 2 مطلب یہ کہ چغل خوری وغیرہ کے ذریعے سے تمہارے اندر فتنہ برپا کرنے میں وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے اور فتنے سے مطلب اتحاد کو پارہ پارہ کردینا اور ان کے مابین باہمی عداوت و نفرت پیدا کردینا ہے۔ 47۔ 3 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کی جاسوسی کرنے والے کچھ لوگ مومنین کے ساتھ بھی لشکر میں موجود تھے جو منافقین کو مسلمانوں کی خبریں پہنچایا کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] میدان کارزار میں منافقوں کے فتنے :۔ یعنی ایسے منافقوں سے لشکر مجاہدین میں شامل ہونے پر بھی خیر اور بھلائی کی توقع کم تھی بلکہ الٹا یہ کئی طرح کی خرابیاں پیدا کرسکتے تھے۔ مثلاً جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے دوسروں کے حوصلے بھی توڑ دیتے۔ یا دشمن کو اسلامی لشکر کے حالات سے مطلع کردیتے یا اس سے ساز باز شروع کردیتے۔ یا اسلامی لشکر میں اختلاف کا سبب بن جاتے اور ان میں باہمی نزاع پیدا کردیتے یا بےبنیاد افواہیں اڑا کر مسلمانوں میں بددلی پھیلانے لگتے۔ لہذا اللہ کی مشیئت میں ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔- [٥١] سادہ لوح مسلمانوں کو ہدایت :۔ یعنی اے مسلمانو تم میں بھی بعض ایسے سادہ لوح افراد موجود ہیں۔ جو ان منافقوں کی باتیں بڑے غور سے سنتے اور ان سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جو منافقوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کے حالات سے انہیں مطلع کرتے رہیں اور ایسے مسلمانوں کی نیت میں چونکہ فتور نہیں ہوتا اس لحاظ سے ان کی یہ اطلاعات مسلمانوں کے حق میں مفید بھی ہوسکتی ہیں۔ یعنی جب وہ مسلمانوں کی اولوالعزمی اور بےجگری سے لڑنے کے واقعات منافقوں سے بیان کریں گے تو خواہ مخواہ ان کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت قائم ہوگی۔ تاہم اس آیت میں مسلمانوں کو یہی تنبیہ کی جا رہی ہے کہ ایسے سادہ لوح مسلمانوں کے بارے میں بھی تمہیں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کی یہی سادہ لوحی تمہارے لیے کسی فتنہ کا موجب نہ بن جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا : اس میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ ان کا نہ نکلنا ہی تمہارے لیے بہتر تھا، کیونکہ یہ لوگ ساتھ جا کر مزید خرابی ہی پیدا کرتے اور تمہارے درمیان فساد ڈالنے کی نیت سے ہر طرح کی دوڑ دھوپ کرتے، کبھی کسی کی چغلی کھاتے، کبھی ایک مسلمان کو دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرتے اور کبھی مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی تدبیریں سوچتے، انھی وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں نکلنے کی توفیق نہیں دی۔- وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ : تبوک کے لیے نکل آنے والوں میں بعض لوگ منافقین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سے دوسرے تمام مجاہدوں کو خبردار کیا ہے کہ تم میں سے بعض سادہ دل ان کی باتیں بڑے غور سے سنتے ہیں، حالانکہ ایسے بددلی پھیلانے والوں کی بات سننی بھی نہیں چاہیے۔ ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے لیے جاسوسی کرتے ہیں، یعنی تمہاری کمزوریاں انھیں پہنچاتے ہیں۔ ” بِالظّٰلِمِيْنَ “ کے الف لام برائے عہد کی وجہ سے ” ان ظالموں کو “ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے جو اس کام کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر بھی ظلم کر رہے ہیں اور دوسروں میں افتراق اور شبہات پیدا کرکے ان پر بھی ظلم کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچویں آیت میں دھوکہ سے اجازت لینے والے منافقین کا یہ حال بھی بتلا دیا گیا کہ ان کا جہاد میں نہ جانا ہی بہتر تھا، اگر یہ جاتے تو سازشوں اور جھوٹی خبروں سے فساد ہی پھیلاتے (آیت) وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ یعنی تم میں کچھ بھولے بھالے مسلمان ایسے بھی ہیں جو ان کی جھوٹی افواہوں سے متاثر ہو سکتے تھے “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَا۟اَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ يَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَۃَ۝ ٠ ۚ وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِـمِيْنَ۝ ٤٧- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - خبل - الخَبَالُ الفساد الذي يلحق الحیوان فيورثه اضطرابا، کالجنون والمرض المؤثّر في العقل والفکر، ويقال : خَبَلٌ وخَبْلٌ وخَبَال، ويقال : خَبَلَهُ وخَبَّلَهُ فهو خَابِل، والجمع الخُبَّل، ورجل مُخَبَّل، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا [ آل عمران 118] ، وقال عزّ وجلّ : ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا [ التوبة 47] ، وفي الحدیث : «من شرب الخمر ثلاثا کان حقّا علی اللہ تعالیٰ أن يسقيه من طينة الخبال» ( خ ب ل ) الخبال والخبل والخبل ۔ اس فساد یا خرابی کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو لاحق ہوکر اس میں اضطراب اور بےچینی پیدا کردے ۔ جیسے جنون یا وہ مرض جو عقل وفکر پر اثر انداز ہو ، کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا [ آل عمران 118] مومنوں ( کسی غیر ( مزہب کے آدمی ) کو اپنا راز دان نہ بنانا ۔ یہ لوگ تمہاری خرابی ( اور فتنہ انگیزی کرنے ) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا [ التوبة 47] تو تمہارے حق میں شرارت کرتے ۔ اور حدیث میں ہے : ۔ جو شخص تین مرتبہ شراب پئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے لازما دو زخیوں کی پیپ پلائے گا ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - خل ( درمیان)- الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] ، قال الشاعر :- أرى خلل الرّماد ومیض جمروَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد .- ( خ ل ل ) الخلل - ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔- وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - سمعون - ۔ سمع سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ سماع کی جمع ۔ خوب کان لگا کر سننے والے، جاسوس، کان لگا کر سننا۔ کبھی تو جاسوسی کے لئے ہوگا۔ اور کبھی قبول کرنے اور ماننے کیلئے آیۃ ہذا میں اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (لو خرجوا فیکم مازادوکم الا خبالاً ولا وضعوا خللکم یبغونکم الفتنۃ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے) آیت میں ان کی اس نیت کا ذکر ہے جسے لے کر وہ مسلمانوں کے ساتھ نکلتے، اگر انہیں نکلنے کا ارادہ ہوتا۔ آیت میں یہ بتادیا گیا کہ ان کانہ نکلنا ہی مسلمانوں کے مفاد میں تھا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیت (لواذنت لھم) میں جس انداز سے خطاب فرمایا تھا وہ اس پر مبنی تھا کہ اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان منافقین کو بیٹھ رہنے کی اجازت نہ بھی دیتے تو بھی یہ نہ نکلتے اور اس طرح ان کا کذب اور منافق مسلمانوں پر واضح ہوجاتا اب اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ اگر یہ نکل بھی پڑتے تو مذکورہ بالا نیت اور ارادے کے ساتھ ان کا نکلنا سراسر معصیت اور کفر ہوتا اور مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا۔ قول باری (مازادوکم الا خبالاً ) میں خیال کے معنی رائے کا اضطراب اور انتشار کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اگر یہ لوگ لشکر اسلام کے ساتھ نکل بھی پڑتے تو پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے، دلوں میں فساد پیدا کرنے اور دشمنوں کے مقابلہ میں انہیں پست ہمت کرنے کی پوری کوشش کرتے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی آراء میں انتشار اور اضطراب پیدا ہوجاتا اور ان کی یکسوئی اور یک جہتی ختم ہوجاتی۔- اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مازادوکم الا خبالا) کیوں فرمایا حالانکہ مسلمانوں میں کوئی فکری انتشار نہیں تھا جس میں یہ منافقین اضافہ کردیتے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس فقرے میں دو معنوں کا احتمال ہے ایک تو یہ کہ استثناء منقطع ہے اور اس صورت میں عبارت کچھ اس طرح ہے ” مازادوکم قوۃ لکن طلبوا لکم الخیال “ (یہ تمہاری قوت میں اضافے کا سبب نہ بنتے البتہ تمہارے اندر فکری انتشار پیدا کرنے کا کوئی وسیلہ ضرور تلاش کرتے) دوسرا احتمال یہ ہے کہ انتشار آراء کی یہ کیفیت مسلمانوں کے کسی گروہ میں موجود ہو جس کی بنیاد طبیعتوں کی تلون مزاجی ہو اور پھر بعد میں ان کی آراء میں ٹھہرائو اور مستقل مزاجی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہو۔ ایسے لوگوں کی تلون مزاجی کو منافقین کی حرکتوں سے تقویت ملتی اور ان کے خیالات درست راستے سے بھٹک کر فکری انتشار کے شکار ہوجاتے۔ - قول باری (ولا دفعوا خلاکم) کی تفسیر میں حسن کا قول ہے کہ یہ لوگ تمہارے آپ کے تعلقات بگاڑنے کے لئے ایک دوسرے کی چغلی کھات اور اس مقصد کے لئے دوڑ دھوپ کرتے۔ قول باری (یبغونکم الفتنۃ) میں فتنہ سے مراد وہ آزمائش اور ابتلاء ہے جو مسلمانوں کو ان کے آپس کے اختلافات اور فکری انتشار کی بنا پر پیش آتی۔ فتنہ سے کفر مراد لینا بھی درست ہے اس لئے کہ کفر کو اسی نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قول باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ۔ اور ان سے لڑو حتیٰ کہ کوئی فتنہ یعنی کفر باقی نہ رہے) اسی طرح ارشاد ہے (والفتنۃ اشد من القتل۔ اور فتنہ یعنی کفر قتل سے بھی زیادہ گھنائونا جرم ہے) ۔- قول باری ہے (وفیکم سماعون لھم۔ اور تمہارے گروہ کا یہ حال ہے کہ ابھی اس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں) حسن اور مجاہد کا قول ہے کہ ان کے جاسوس تمہارے اندر موجود ہیں جو تم سے باتیں سن کر انہیں پہنچا دیتے ہیں۔ قتادہ اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو ان منافقین کی باتیں سن کر انہیں قبول کرلیتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٧) اور اگر یہ آپ کے ساتھ شرک کر بھی لیتے تو اور دگنا شر و فساد برپا کرتے اور تمہارے درمیان اونٹوں پر شر و فساد اور ذلت وعیب جوئی کرنے کی فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے اور اب بھی تمارے ساتھ ان کافروں کے جاسوس موجود ہیں اور ان منافقوں یعنی عبداللہ بن اوبی اور اس کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ خوب سمجھے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ الاَّ خَبَالاً ) - ان کے دلوں میں چونکہ روگ تھا ‘ اس لیے لشکر کے ساتھ جا کر بھی یہ لوگ فتنے ہی اٹھاتے ‘ لڑائی جھگڑا کرانے کی کوشش کرتے اور سازشیں کرتے۔ لہٰذا ان کے بیٹھے رہنے اور سفر میں آپ لوگوں کے ساتھ نہ جا نے میں بھی بہتری پوشیدہ تھی۔ گویا بندۂ مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح خیر ہی خیر ہے ‘ جبکہ منافق کے لیے ہر حالت میں شر ہی شر ہے۔ - (وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج) (وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بالظّٰلِمِیْنَ ) - اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ تمہارے درمیان ان کی باتیں سننے والے بھی ہیں۔ یعنی تمہارے درمیان ایسے نیک دل اور سادہ لوح مسلمان بھی ہیں جو ان منافقین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے ان منافقین کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی ہیں اور وہ ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ چناچہ اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے اور کوئی فتنہ اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ تمہارے وہ ساتھی اپنی سادہ لوحی کے باعث ان کے اٹھائے ہوئے فتنے کا شکار ہوجاتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

40: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ بعض سادہ لوح مسلمان ان لوگوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں، اس لیے ان کی باتیں سن کر انہیں خلوص پر مبنی سمجھتے ہیں اس لیے اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے تو ان سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلا کر فساد کا بیج بونے کی کوشش کرتے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگرچہ یہ منافقین خود تو لشکر میں شامل نہیں ہوئے لیکن ان کے جاسوس تمہاری صفوں میں موجود ہیں جو تمہاری باتیں سنتے ہیں، اور جن باتوں سے منافقین کوئی فائدہ اٹھا سکتے ہوں، ان کی خبریں ان تک پہنچا تے ہیں۔