53۔ 1 انفقوا امر کا صیغہ۔ لیکن یہاں یہ تو شرط اور جزا کے معنی میں ہے۔ یعنی اگر تم خرچ کرو گے تو قبول نہیں کیا جائے گا یا یہ امر بمعنی خبر کے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں باتیں برابر ہیں، خرچ کرو یا نہ کرو۔ اپنی مرضی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، تب بھی نہ مقبول ہے۔ کیونکہ قبولیت کے لئے ایمان شرط اول ہے اور وہی تمہارے اندر مفقود ہے اور ناخوشی سے خرچ کیا ہوا مال، اللہ کے ہاں ویسے ہی مردود ہے، اس لئے کہ وہاں قصد صحیح موجود نہیں ہے جو قبولیت کے لئے ضروری ہے۔ یہ آیت بھی اسی طرح ہے جس طرح یہ ہے (اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ) 9 ۔ التوبہ :80) آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (یعنی دونوں باتیں برابر ہیں) ۔
[٥٧] منافق کا مال بھی قبول نہیں :۔ جد بن قیس نے رومی عورتوں کے فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا بہانہ کر کے جہاد پر جانے سے تو معذرت کرلی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ البتہ میں مالی اعانت کرنے کو تیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا۔ تم لوگ یہ مالی اعانت خوشی سے کرو یا مجبوراً کرو یہ قابل قبول نہیں۔ یہ بھی تم اپنے پاس ہی رکھو کیونکہ یہ تو واضح بات ہے کہ نافرمان یا منافق لوگ صرف اللہ کی رضا کے لیے کبھی صدقہ نہیں کرتے۔ وہ جب بھی کریں گے یا ریا کے لیے کریں گے یا مجبور ہو کر کریں گے۔ پھر ایسا صدقہ لینے کی بھی کیا ضرورت ہے ؟۔
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا : اوپر کی آیت میں بتایا کہ منافقین کے لیے بہرحال عذاب ہے، اب اس آیت میں فرمایا کہ اس عذاب سے کسی طور وہ نجات نہیں پاسکتے، کیونکہ آخرت میں ان کی کوئی نیکی قبول نہیں ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر بعض منافقین ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہمیں ساتھ جانے سے معافی دی جائے، اس کے عوض ہم مالی اعانت پر تیار ہیں۔ وہ یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ کہیں مسلمانوں میں بالکل ہی بدنام ہو کر نہ رہ جائیں، انھی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی بھری ہو، ان کی مالی امداد کسی طور قبول نہیں، خواہ خوشی سے دیں یا مجبوراً ۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں :” جد بن قیس نے مال خرچ کرنے کی بابت جو کہا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ بےاعتقاد کا مال قبول نہیں۔ “ (موضح)- اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ : عمل کی قبولیت کے لیے تقویٰ شرط ہے جو تم میں ہے ہی نہیں، فرمایا : (اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ) [ المائدۃ : ٢٧ ] ” بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔ “ اور دیکھیے سورة حج (٣٧) اور بقرہ ( ٢٦٥) ۔
خلاصہ تفسیر - آپ ( ان منافقین سے) فرما دیجئے کہ تم ( جہاد وغیرہ میں) خواہ خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے کسی طرح ( خدا کے نزدیک) مقبول نہیں ( کیونکہ) بلاشبہ تم نافرمانی کرنے والے لوگ ہو، ( مراد اس سے کفر ہے جیسا کہ آگے آتا ہے) اور ان کی خیرات قبول ہونے سے اس کے سوا کوئی مانع نہیں کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ( اسی کو اوپر نافرمان کہا تھا اور کافر کا کوئی عمل مقبول نہیں) اور ( اس کفر باطنی کی علامت ظاہر میں یہ ہے کہ) وہ لوگ نماز نہیں پڑھتے مگر ہارے جی سے اور ( نیک کام میں) خرچ نہیں کرتے مگر ناگواری کے ساتھ ( کیونکہ دل میں ایمان تو ہے نہیں جس سے امید ثواب ہو اور اس امید سے رغبت ہو محض بدنامی سے بچنے کے ہی کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں اور جب وہ ایسے مردود ہیں تو ان کے اموال اور اولاد آپ کو ( اس) تعجب میں نہ ڈالیں ( کہ ایسے غیر مقبول مردود لوگوں کو اتنے انعامات کس طرح عطا ہوئے، کیونکہ واقع میں ان کے لئے نعمت نہیں ایک قسم کا عذاب ہی ہے کیونکہ اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے دنیوی زندگی میں ( بھی) ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کی جان کفر ہی کی حالت میں نکل جاوے ( جس سے آخرت میں بھی گرفتار عذاب ہوں تو جس مال و اولاد کا یہ انجام ہو اس کو انعام سمجہنا ہی غلطی ہے) اور یہ ( منافق ہیں) وہ تم میں سے نہیں، لیکن ( بات یہ ہے کہ) وہ ڈرپوک لوگ ہیں ( ڈر کے مارے جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے کفر کو چھپاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دوسرے کفار کا سا معاملہ مسلمانوں کی طرف سے نہ ہونے لگے، اور کسی دوسری جگہ ان کا ٹھکانا نہیں جہان آزادی سے جا رہیں ورنہ) ان لوگوں کو اگر کوئی پناہ کی جگہ مل جاتی یا ( کہیں پہاڑ وغیرہ میں) غار ( مل جاتے) یا کوئی گھس بیٹھنے کی ذرا جگہ ( مل جاتی) تو یہ ضرور منہ اٹھا کر ادھر ہی چل دیتے ( مگر یہ صورت ہی نہیں اس لئے جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں) اور ان میں بعض لوگ وہ ہیں جو صدقات ( تقسیم کرنے) کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں ( اس تقسیم میں نعوذ بااللہ انصاف نہیں کیا گیا) تو اگر صدقات میں سے ان کو ( اپنی خواہش کے مطابق) نہیں ملتا تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں (جس سے معلوم ہوا کہ ان کے اعتراض کا منشاء دراصل کوئی اصول نہیں، بلکہ حرص دنیا اور خود غرضی ہے) اور ان کے لئے بہتر ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی رہتے جو کچھ اللہ نے ان کو ( دلوایا تھا) اور اس کے رسول نے دیا تھا اور ( اس کے متعلق) یوں کہتے کہ ہم کو اللہ ( کا دیا) کافی ہے ( ہم کو اتنا ہی قاعدہ سے مل سکتا تھا اسی میں خیر و برکت ہوگی، اور پھر اگر حاجت پیش آئے گی اور مصلحت ہوگی تو) آئندہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم کو اور دے گا، اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں گے ہم ( دل سے) اللہ ہی کی طرف راغب ہیں ( اسی سے سب امیدیں رکھتے ہیں ) ۔
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ ٠ ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ٥٣- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - قبل ( تقبل)- قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی:- إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل :- فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي - اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عبادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار - نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
قول باری ہے (قل انفقوا طوعاً اوکرھاً لن یتقبل منکم۔ ان سے کہہ دو ” تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کردیا بکراہت، بہرحال وہ قبول نہیں کیے جائیں گے) “ آیت کے الفاظ کو امر۔ کے صیغے کی صورت میں لایا گیا ہے لیکن مراد اطاعت اور معصیت پر تمکین یعنی قدرت و اختیار کا بیان ہے جس طرح یہ قول باری ہے (فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر۔ جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرلے) ایک قول کے مطابق امر کا یہ صیغہ یعنی جملہ انشائیہ اس جملہ خبریہ کے معنوں میں ہے جس میں ” ان “ شرطیہ داخل ہوتا ہے اور اس کی جزا ہوتی ہے جس طروح کثیر کا شعر ہے۔- اسیئی بنا او احسنی لا ملومۃ لدینا ولا مقلیۃ ان تقلت - اے محبوبہ خواہ تو ہمارے ساتھ برائی سے پیش آ، یا بھلائی سے، بہرصورت تو ہماری نظروں میں قابل ملامت نہیں ٹھہرے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر تم سے نفرت کا اظہار کرے گی تو بھی تو ہمارے نزدیک قابل نفرت نہیں ہوگی۔- شعر میں امر کے دو صیغوں کا مفہوم ہے۔ ” اگر تو نیکی کرے یا بدی، تم پر کوئی ملامت نہیں۔ “
(٥٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقوں سے فرما دیجیے کہ تم اپنے مالوں کو خواہ خوشی خوشی خرچ کرو یا قتل کے ڈر سے خرچ کرویہ چیز ہرگز قبول نہیں تم لوگ منافق ہو۔- شان نزول : (آیت) ” قل انفقوا “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جدی بن قیس کہنے لگا کہ میں عورتوں کو دیکھ کر صبر نہیں کرسکوں گا اور فتنہ میں پڑجاؤں گا لیکن میں اپنے مال سے آپ کی مدد ضرور کروں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی آپ فرما دیجیے خواہ تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشنی سیتم سے کسی طرح مال قبول نہیں کیا جائے گا، یہ اس کے قول کا جواب ہے۔
آیت ٥٣ (قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ ط اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ) - یہاں منافقین کے ایک دوسرے حربے کا ذکر ہے کہ کچھ مال اسباب چندے کے طور پر لے آئے اور بہانہ بنایا کہ مجھے فلاں فلاں مجبوری ہے ‘ میں خود تو جانے سے معذور ہوں ‘ مجھے رخصت دے دیں اور یہ سازو سامان قبول کرلیں۔ ایسی صورت حال کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اب جبکہ جہاد کے لیے بنفس نفیس نکلنا فرض عین ہے ‘ اس صورت حال میں روپیہ پیسہ اور سازو سامان اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :53 بعض منافق ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تو تیار نہ تھے ، مگر یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ اس جہاد اور اس کی سعی سے بالکل کنارہ کش رہ کر مسلمانوں کی نگاہ میں اپنی ساری وقعت کھو دیں اور اپنے نفاق کو علانیہ ظاہر کردیں ۔ اس لیے وہ کہتے تھے کہ ہم جنگی خدمت کو انجام دینے سے تو اس وقت معذرت چاہتے ہیں ، لیکن مال سے مدد کرنے کے لیے حاضر ہیں ۔
44: جد بن قیس جس کا ذکر اوپر آیا ہے، اسی کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ اس نے جنگ میں جانے سے تو مذکورہ بالا بے ہودہ عذر پیش کیا تھا۔ لیکن یہ کہا تھا کہ اس کے بدلے میں اپنا مال چندے میں دوں گا (ابن جریر ج :10 ص :152)۔ اس کے جواب میں یہ آیت منافقین کے چندے کے ناقابل قبول ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔