Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 اس میں ان کے صدقات کے عدم قبول کی تین دلیلیں بیان کی گئی ہیں، ایک ان کا کفر مفسق۔ دوسرا، کاہلی سے نماز پڑھنا، اس لئے وہ نماز پر نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے ترک کی سزا سے انہیں کوئی خوف ہے، کیونکہ رضا اور خوف، یہ بھی ایمان کی علامت ہے جس سے محروم ہیں۔ اور تیسرا کراہت سے خرچ کرنا اور جس کام میں دل کی رضا نہ ہو وہ قبول کس طرح ہوسکتا ہے ؟ بہرحال یہ تینوں وجوہات ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک وجہ بھی عمل کی نامقبولیت کے لئے کافی ہے۔ مذکورہ یہ کہ تینوں وجوہات جہاں جمع ہوجائیں تو اس عمل کے مردود بارگاہ الٰہی ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] صدقہ قبول نہ ہونے کی وجہ :۔ مشرکوں سے اعلان براءت اور ان سے اس علاقہ کے انخلاء کے دوران اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر وہ ایمان لے آئیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ یعنی اگر یہ تین باتیں پائی جائیں تو انہیں مسلمان سمجھا جائے گا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ ان تینوں باتوں میں بھی یہ منافق اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔ وہ اللہ اور رسول کے وعدوں کا یقین نہیں کرتے تھے۔ لہذا ان کا اللہ اور رسول پر ایمان مشکوک ہوگیا اور یہ انکار کے مترادف ہے۔ نماز کو آتے ہیں تو طبیعت ایسی گرانبار اور سست ہوتی ہے جیسے کوئی بیگار کاٹنے جا رہے ہوں اور اگر صدقہ ادا کرنا پڑے تو ایسے جیسے کوئی تاوان یا جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہو۔ پھر ایسے لوگوں کے صدقات کیوں قبول کیے جائیں۔ نیز ایسے صدقات کا ان کو آخرت میں بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا البتہ نقصان ضرور ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ : اس آیت میں ان کے صدقات قبول نہ ہونے کے تین اسباب بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ ان کے دل اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے خالی ہیں، بلکہ وہ دونوں کے منکر ہیں اور ان کا کفر ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایمان کی بدنی شہادت نماز ہے، وہ بھی یہ لوگ خوشی اور نشاط سے نہیں بلکہ مارے باندھے سستی سے صرف اپنے ایمان کے دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں، ان کا سستی سے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کے سامنے ہوئے تو پڑھ لی اکیلے ہوئے تو چھوڑ دی۔ دیکھیے سورة نساء (١٤٢) تیسرا مالی عبادت بھی خوش دلی سے نہیں بلکہ مجبوراً جرمانہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦٤) اب ان کا خرچ کیا ہوا مال اللہ تعالیٰ کی جناب میں کیسے قبول ہو ؟ پکے مومن تو اپنے مال کی پاکیزگی اور سکون قلب کے حصول کے لیے زکوٰۃ دیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ) [ التوبۃ : ١٠٣ ] ” ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بیشک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - سابقہ آیات میں منافقین کی بداخلاقی اور بد اعمالی کا ذکر تھا، مذکورہ تمام آیات میں بھی یہی مضمون ہے : (آیت) اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا، میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ منافقین کے مال و اولاد ان کے لئے نعمت نہیں عذاب ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کی محنت میں انہماک انسان کیلئے اس دنیا ہی میں ایک عذاب و مصیبت بن جاتا ہے، اول مال دنیا کے حاصل کرنے کی تمناؤں اور پھر تدبیروں میں کیسی کیسی محنت، مشقت اور کوفت جسمانی اور روحانی اٹھانی پڑتی ہے، نہ دن کا چین نہ رات کی نیند، نہ اپنے تن بدن کی خبر، نہ اہل و عیال ہی میں دل بہلانے کی فرصت، پھر اگر ذرا سا نقصان ہوگیا یا کوئی بیماری پیش آگئی تو غمون کا پہاڑ آپڑا، اور اگر ساری چیزیں اتفاق سے طبیعت اور خواہش کے مطابق حاصل بھی ہوجائیں تو اس کے گھٹ جانے کا اندیشہ اور بڑھاتے چلے جانے کی فکر کسی وقت چین نہیں لینے دیتی۔- پھر جب آخرکار یہ چیزیں موت کے وقت یا پہلے ہی اس کے ہاتھ سے جاتی ہیں تو اس پر حسرت و یاس مسلط ہوجاتی ہے یہ سب عذاب ہی عذاب ہے جس کو بیوقوف انسان جس نے سامان راحت کا نام راحت رکھ لیا ہے، اور حقیقی راحت ہی کو راحت سمجھ کر اس پر مگن رہتا ہے، جو حقیقت میں اس کیلئے دنیا کے چین و آرام کا بھی دشمن ہے اور آخرت کے عذاب کا مقدمہ بھی۔- کیا صدقات کا مال کافر کو دیا جاسکتا ہے : - آخری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اموال صدقات میں سے منافقین کو بھی حصہ ملا کرتا تھا، مگر وہ خواہش کے مطابق نہ ملنے پر ناراض ہوجاتے اور طعن وتشنیع کرنے لگتے تھے، یہاں اگر صدقات سے مراد عام معنی لئے جائیں جس میں صدقات واجبہ اور نافلہ سب شامل ہیں، تو کوئی اشکال ہی نہیں کیونکہ نفلی صدقات میں سے غیر مسلموں کو دینا باتفاق امت جائز اور سنت سے ثابت ہے، اور اگر صدقات سے مراد اس جگہ صدقات فرض، زکوٰة عشر وغیرہ ہی ہوں، تو منافقین کو اس میں سے حصہ دینا اس بناء پر تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، اور ظاہری کوئی حجت ان کے کفر پر قائم نہ ہوئی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے بمصلحت حکم یہی دے رکھا تھا کہ منافقین کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تھا ‘ ( بیان القرآن ملخصاً ) - (آیت) لَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى، اس آیت میں منافقین کی دو علامتیں بتلائی گئی میں، ایک یہ کہ نماز کو آویں تو سستی کاہلی اور ہارے جی سے آویں دوسرے اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو ناگواری کے ساتھ خرچ کریں۔- اس میں مسلمانوں کو بھی اس پر تنبیہ ہے کہ نماز میں سستی کاہلی اور زکوٰة صدقات سے دلی ناگواری پیدا ہونا علامت نفاق ہے، مسلمانوں کو کوشش کرکے ان علامات سے بچنا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا مَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَ۝ ٥٤- منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- كسل - الْكَسَلُ : التثاقل عمّا لا ينبغي التثاقل عنه، ولأجل ذلک صار مذموما . يقال : كَسِلَ فهو كَسِلٌ وكَسْلَانُ وجمعه : كُسَالَى وكَسَالَى، قال تعالی: وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] وقیل : فلان لا يَكْسَلُهُ الْمَكَاسِلُ وفحل كَسِلٌ: يَكْسَلُ عن الضّراب، وامرأة مِكْسَالٌ: فاترة عن التّحرّك .- ( ک س ل ) الکسل کے معنی کسی ایسے معاملہ میں گراں باری ظاہر کرنا کے ہیں ۔ جس میں گرا نباری کرنا مناسب نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مذموم خیال کیا جاتا ہے اور یہ باب کسل کا مصدر ہے ۔ اور کسلان کی جمع کسالٰی وکسالٰی آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] اور نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لا یکسلہ المکا سل اس کو اسباب کا ھلی سست نہیں بناتے فحل کسل جو نر کی جفتی میں سست ہوجائے امراۃ مکسال زن سست جو ناز پر در وہ ہو نیکی وجہ سے اپنے کمرہ سے باہر نہ نکلے ( صفت ہو ) - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) اور یہ لوگ نماز کے لیے بھی ہارے ہوئے دل سے آتے ہیں اور اللہ کی راہ میں یہ لوگ کچھ خرچ نہیں کرتے مگر تنگ دلی کے ساتھ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَمَا مَنَعَہُمْْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ الآَّ اَنَّہُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ ) (وَلاَ یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ الاَّ وَہُمْ کُسَالٰی وَلاَ یُنْفِقُوْنَ الاَّ وَہُمْ کٰرِہُوْنَ )- یعنی اب جو چندہ یہ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ تو جان بچانے کے لیے دے رہے ہیں کہ ہم سے سازو سامان لے لیا جائے اور ہمیں اس مہم پر جانے سے معاف رکھا جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani