Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ ۔ ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لئے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو ۔ قتادہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم موخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے پہلا قول حضرت حسن بصری کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی ۔ یوں ہی بتدریج پکڑ لئے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا یہی حشمت و جاہت مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 اس لئے یہ بطور آزمائش ہے، جس طرح فرمایا اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں کہ ہم دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس سے) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں ؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں 55۔ 2 امام ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری نے اس سے زکٰوۃ اور نفاق فی سبیل اللہ مراد لیا ہے۔ یعنی ان منافقین سے زکٰوۃ و صدقات تو (جو وہ مسلمان ظاہر کرنے کے لئے دیتے ہیں) دنیا میں قبول کر لئے جائیں تاکہ اسی طریقے سے ان کو مالی مار بھی دنیا میں دی جائے۔ 55۔ 3 تاہم ان کی موت کفر ہی کی حالت میں آئے گی۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کو صدق دل سے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنے کفر و نفاق پر ہی بدستور قائم و مصر ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] منافقوں کو مال اور اولاد سے سزا کیسے ملی ؟ مدینہ میں جتنے منا فق تھے سب سن رسیدہ اور مالدار لوگ تھے اور منافقوں کا مطمح نظر محض دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے لہذا عام مادہ پرستوں اور دنیا پرستوں کی طرح ان کے نزدیک بھی عز و جاہ کا معیار اولاد اور مال و دولت کی فراوانی تھی۔ اب انہیں مشکل یہ پیش آئی کہ ان کی اولادیں مسلمان ہوگئیں۔ جن کے نزدیک عز و جاہ کا معیار ان کے معیار سے بالکل برعکس تھا۔ جن کی نظروں میں مال اور جائیداد کی قدر و قیمت اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں ہیچ تھی اور ان کے نزدیک عز و جاہ کا معیار یہ تھا کہ جتنا بھی کوئی اللہ کے رسول کا شیدائی اور فرمانبردار ہوگا اتنا ہی وہ اسلامی معاشرہ میں معزز و مکرم سمجھا جائے گا۔ اس نظریاتی اختلاف نے انہیں اپنی اولاد ہی کی نظروں میں ذلیل کردیا۔ اس طرح اللہ نے ان کی اولاد ہی کے ذریعہ انہیں دنیا میں سزا دے دی۔ اور چونکہ وہ اپنی خود پرستی والی طبیعت کو بھی بدل نہیں سکتے تھے۔ لہذا وہ آخر دم تک اسی ننانوے کے چکر میں ہی پڑے رہے تاآنکہ انہیں موت آگئی اور وہ اسی نفاق اور ذلت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ : یعنی آپ ان لوگوں کے مال و دولت، اولاد اور دنیوی چمک دمک سے دھوکے میں نہ پڑیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوتا تو یہ اس قدر مال دار اور صاحب اولاد کیوں ہوتے ؟ بلکہ آپ ان کی ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٣١) اور مومنون (٥٥، ٥٦) ۔- اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : یعنی دنیا میں ان چیزوں کو سعادت مندی خیال مت کریں، اللہ تعالیٰ نے انھیں صرف اس لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ دن رات مال جمع کرنے اور اولاد کی حفاظت کی فکر میں لگے رہیں، نہ انھیں دن کا چین نصیب ہو نہ رات کا آرام۔ سکون قلب جو فقط اللہ کی یاد سے حاصل ہوتا ہے، یعنی (اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ) [ الرعد : ٢٨ ] اس سے یہ سراسر محروم رہیں۔- وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ : یعنی آخر دم تک انھیں توبہ کرنے اور سچے دل سے ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو، بلکہ جب یہ مریں تو اپنے مال اور اولاد ہی کی طرف ان کا دھیان ہو، نہ آخرت کی فکر نہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غرض۔ اگرچہ مومن کو بھی اپنے مال اور اولاد کی فکر ہوتی ہے، مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے نزدیک ہر چیز سے مقدم ہوتی ہے اس لیے یہ چیزیں اس کے لیے نعمت ہی ہوتی ہیں وبال جان نہیں ہوتیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَ۝ ٥٥- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - زهق - زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] .- ( ز ھ ق )- زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوٰۃ الدنیا۔ ان کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھائو۔ اللہ تعالیٰ تو ان چیزوں کے ذریعے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں مبتلائے عذاب کرنے والا ہے) اس آیت کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ ” دنیا میں ان کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھائو۔ اللہ تعالیٰ تو ان چیزوں کے ذریعے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں مبتلائے عذاب کرنے والا ہے) اس آیت کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ ” دنیا میں ان کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھائو، اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی وجہ سے مبتلائے عذاب کرنے والا ہے۔ اس طرح ان دونوں حضرات کے نزدیک کلام میں تقدیم و تاخیر ہے ۔ حسن کا قول ہے۔ ” اللہ تعالیٰ انہیں زکوٰۃ کے سلسلے میں راہ خدا کے اندر انفاق کے ذریعے مبتلائے عذاب کرنے والا ہے۔ “ گویا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ان پر ایک بوجھ ہے اور اسے وہ اپنے لئے ایک سزا اور عذاب سمجھتے ہیں۔- دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ انہیں مصائب کے ذریعے مبتلائے عذاب کرنے والا ہے۔ “ ایک قول کے مطابق دنیا میں بعض دفعہ کافر عذاب الٰہی کے اندر اس طرح مبتلا کیے جاتے ہیں کہ وہ گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کے اموال مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن جاتے ہیں۔ قول باری (لیعذبھم) میں وارد حرف لام، لام عاقبت ہے جس طرح اس قول باری میں ہے (لیکون لھم عدواً وحزنا تاکہ وہ ان کا دشمن اور غم بن جائے) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مالوں اور اولاد کی زیادیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعجب میں نہ ڈالے، اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ ان کو آخرت میں عذاب دے اور حالت کفر میں ان کو موت آئے ہو جو اس نے کہا تھا کہ اپنے مال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کروں گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْ ط) - ان کو دیکھ کر آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مال و دولت اور اولاد کی کثرت ان کے لیے اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ‘ بلکہ ایسے لوگوں کو تو اللہ ایسی نعمتیں اس لیے دیتا ہے کہ ان کا حساب اسی دنیا میں بےباق ہوجائے اور آخرت میں ان کے لیے کچھ نہ بچے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات دنیا کی انہی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ انسان کے لیے باعث عذاب بنا دیتا ہے۔- (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) - اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ یہی اولاد جس کو انسان بڑے لاڈ پیار اور ارمانوں سے پال پوس کر بڑا کرتا ہے اس کے لیے سوہان روح بن جائے اور یہی مال و دولت جسے وہ جان جوکھوں میں ڈال کر جمع کرتا ہے اس کی جان کا وبال ثابت ہو۔ - (وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ )- اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اپنی دولت ہی سے لپٹے رہیں اور اپنی اولاد کی محبت میں اس قدر مگن رہیں کہ جیتے جی انہیں آنکھ کھول کر حق کو دیکھنے اور پہچاننے کی فرصت ہی نصیب نہ ہو ‘ اور اسی حالت میں یہ لوگ آخری عذاب کے مستحق بن جائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :54 یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے ، اس کی وجہ سے مسلم سوسائٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شان ریاست اور عزت و ناموری اور مشخیت و چودھراہٹ ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے ، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی ۔ ادنی ادنی غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے ، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے ، اس نئے نظام میں باعزّت ہوں گے ، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بے عزت ہو کر رہ جائیں گے ۔ اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پیش آیا ۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ ، جن میں سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام جیسے لوگ بھی تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور ان شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو ۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائین مجلس میں پہنچ گئے ۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا ؟ سہیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں ، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے ۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا ، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحد روم کی طرف اشارہ کردیا ۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدان جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہو جائے جسے کھو چکے ہو ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :55 یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہوگی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدق ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہو گی اور اپنی دنیا خراب کر لینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

45: یہ آیت دنیوی مال و دولت کے بارے میں ایک بڑی عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مال و دولت بذات خود کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے انسان اپنی زندگی کا مقصد بنائے۔ انسان کا اصل مقصد زندگی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور آخرت کی بہتری کا سامان کرنا ہونا چاہیے۔ البتہ چونکہ دنیا میں زندہ رہنے کے لیے مال کی ضرورت ہے، اس لیے جائز ذرائع سے اس کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ دنیا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی مال اپنی ذات میں کوئی فائدہ براہ راست نہیں پہنچاتا۔ بلکہ وہ راحت و آرام کے وسائل حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن جب انسان مال کو بذات خود مقصود زندگی بنا لیتا ہے، اور ہر وقت اس فکر میں پڑا رہتا ہے کہ مال کی گنتی میں کس طرح اضافہ ہو تو وہ بے چارہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے اس فکر میں اپنی راحت و آرام تک کو قربان کر ڈالا ہے۔ بینک بیلنس میں بیشک اضافہ ہو رہا ہے، لیکن نہ دن کا چین میسر ہے، نہ رات کا آرام نہ بیوی بچوں سے بات کرنے کی فرصت ہے، نہ آرام کے وسائل سے مزہ لینے کا وقت۔ پھر اگر کبھی اس مال میں نقصان ہوجائے تو رنج و غم کے پہاڑ سر پر ٹوٹ پڑتے ہیں، کیونکہ یہ تصور تو ہے ہی نہیں کہ اس نقصان کا بدلہ آخرت میں مل سکے گا۔ اس طرح اگر غور سے دیکھو تو یہ مال و دولت نعمت بننے کے بجائے انسان کے لیے دنیا ہی میں عذاب بن جاتا ہے۔ یہی حال اولاد کا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہ ہو تو وہ بکثرت انسان کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔