جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی حقیقت ان کی تنگ دلی ان کی غیر مستقل مزاجی ان کس سراسیمگی اور پریشانی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کا یہ حال ہے کہ تمہارے پاس آ کر تمہارے دل میں گھر کرنے کے لئے اور تمہارے ہاتھوں سے بچنے کے لئے بڑی لمبی چوڑی زبردست قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ہم تمہارے ہیں ہم مسلمان ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے یہ صرف خوف و ڈر ہے جو ان کے پیٹ میں درد پیدا کر رہا ہے ۔ اگر آج انہیں اپنے بچاؤ کے لئے کوئی قلعہ مل جائے اگر آج یہ کوئی محفوظ غار دیکھ لیں یا کسی اچھی سرنگ کا پتہ انہیں چل جائے تو یہ تو سارے کے سارے دم بھر میں اس طرف دوڑ جائیں تیرے پاس ان میں سے ایک بھی نظر نہ آئے کیونکہ انہیں تجھ سے کوئی محبت یا انس تو نہیں ہے یہ تو ضرورت مجبوری اور خوف کی بناء پر تمہاری چاپلوسی کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں اسلام ترقی کر رہا ہے یہ جھکتے چلے جا رہے ہیں مومنوں کو ہر خوشی سے یہ جلتے تڑپتے ہیں ان کی ترقی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ موقعہ مل جائے تو آج بھاگ جائیں ۔
56۔ 1 اس ڈر اور خوف کی وجہ سے جھوٹی قسمیں کھا کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی تم میں سے ہی ہیں۔
[٦٠] منافقوں کی بےچارگی اور مجبوری :۔ یہ منافق مدینہ میں انتہائی بےبسی اور بےچارگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ کفر کو دل سے پسند کرتے تھے مگر مدینہ میں رہ کر اس بات کا نہ اظہار کرسکتے تھے اور نہ اعلان کرسکتے تھے کیونکہ اس وقت اسلامی حکومت ایک برتر قوت کی حیثیت اختیار کرچکی تھی اور کفر کے اظہار سے وہ مسلمانوں کے بلکہ اپنی اولادوں کے ہاتھوں بھی پٹ سکتے تھے اور مدینہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جا بھی نہیں سکتے تھے اس لیے کہ اس طرح انہیں اپنی جائیدادوں سے دستبردار ہونا پڑتا تھا جن میں ان کی جانیں اٹکی ہوئی تھیں اور یہ ان کی عمر بھر کی جائز و ناجائز کمائیوں کا نتیجہ تھیں۔ لہذا انہیں مجبوراً یہ نفاق کی راہ اختیار کرنا پڑی تھی۔ مگر اس حالت میں بھی انہیں کچھ چین میسر نہ تھا۔ انہیں ظاہر داری کے طور پر پانچ وقت کی نمازیں بھی ادا کرنا پڑتی تھیں اور صدقات و خیرات بھی دینا پڑتے تھے اور یہ دونوں باتیں انہیں سخت ناگوار تھیں۔ مزید رسوائی یہ تھی کہ مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے اور ان کی یہ حالت دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا، کے مصداق بن گئی تھی۔ اور وہ ڈرپوک اس لحاظ سے تھے کہ اپنی یہ حالت زار کسی سے بیان بھی نہ کرسکتے تھے۔
وَيَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ : ” فَرِقَ یَفْرَقُ (ع) “ سخت خوف زدہ ہونا اور گھبرانا، یعنی یہ منافق تم سے شدید خوف کی وجہ سے اپنے کفر کا اظہار نہیں کرسکتے، نہ مقابلے میں آنے کی جرأت کرسکتے ہیں، کیونکہ اس صورت میں انھیں اپنے قتل اور بیوی بچوں کے لونڈی غلام بننے کا سخت خطرہ ہے، اس لیے قسمیں کھا کھا کر تم میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نفاق آدمی میں دوسروں کا خوف اور بزدلی پیدا کرتا ہے۔
وَيَحْلِفُوْنَ بِاللہِ اِنَّہُمْ لَمِنْكُمْ ٠ ۭ وَمَا ہُمْ مِّنْكُمْ وَلٰكِنَّہُمْ قَوْمٌ يَّفْرَقُوْنَ ٥٦- حلف - الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير :- تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره .- والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :- إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر .- ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا - فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے
قول باری ہے (ولیحلفون باللہ انھم لمنکم ۔ وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں) عظمت والی ذات کا واللہ، باللہ کے الفاظ یا قسموں والے حروف کے ساتھ ذکر کے ذریعے جملے میں دی گئی خبر کی تاکید کو حلف کہتے ہیں۔ قسم اور یمین بھی اسی طرح منعقد ہوتے ہیں۔ تاہم حلف میں خبر کو عظمت والی ذات کی نسبت سے بیان کیا جاتا ہے۔ قول باری (ولیحلفون باللہ) میں ان کے متعلق یہ خبردی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ کی قسم کھائی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس میں مستقبل کی یہ خبر دی گئی ہے کہ یہ لوگ عنقریب اللہ کی قسم کھائیں گے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے ” احلف باللہ “ تو یہ قسم ہوگی اور اگر حلف کے ذکر کو مخدوف کرکے صرف باللہ کہے تو بھی یہ قسم ہوجائے گی اس لئے کہ اس کی حیثیت اس قول جیسی ہوگی ” انا حالف باللہ ( میں اللہ کے نام کا حلف اٹھاتا ہوں) البتہ اگر حلف لینے والا اس سے وعدہع مراد لے تو اس صورت میں یہ فقرہ قسم پر محمول نہیں ہوگا بلکہ وعدہ کے معنوں پر محمول ہوگا۔ تاہم ظاہری طور پر اس فقرے کا مفہوم یہی ہے کہ کہنے والا اس کے ذریعے حلف واقع کررہا ہے جس طرح کوئی یہ کہے انا اعتقدالاسلام (میں اسلام کا عقیدہ رکھتا ہوں) اس فقرے میں وعدہ کے معنوں کا بھی احتمال ہے۔ لیکن ” باللہ “ کا قول تو اس کے ذریعے قسم ہی واقع ہوگی اگرچہ اس میں لفظ ’ احلف ‘ (میں حلف اٹھاتا ہوں ) یا ٖ ’ حلقت ‘ (میں نے حلف اٹھایا) پوشیدہ ہے۔- ایک قول کے مطابق لفظ ’ حلف ‘ کو اس لئے محذوف کردیا گیا تاکہ یہ حلف کے وقوع پر دلالت کرے اور وعدہ کا احتمال ختم ہوجائے۔ جس طرح فقرہ ” واللہ لا فعلن “ (بخدا میں کروں گا) میں لفظ حلف مغذوف ہے تاکہ یہ دلالت حاصل ہوجائے کہ اس فقرہ کا قائل حلف اٹھارہا ہے وعدہ نہیں کررہا ہے۔ قول باری (انھم لمنکم) کا مفہوم ہے کہ ہم ” ہم ایمان، طاعت ، دین اور ملت کے لحاظ سے تمہی میں سے ہیں “ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تکذیب کردی اور انہیں جھوٹا قرار دیا۔- مسلمانوں کی طرف منافقین کی اضافت اور نسبت اس وقت درست ہوتی جب یہ مسلمانوں کے دین کے پیروکار ہوتے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دلی دوست ہیں) نیز (المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض منافق مرد اور منافق عورتیں بعض کا بعض سے تعلق ہے) دونوں آیتوں میں بعض کی نسبت بعض کی طرف کی گئی ہے اس لئے کہ دین اور ملت کے لحاظ سے ان کا آپس میں اتفاق ہے۔
(٥٦) یعنی عبداللہ بن ابی (منافق) اور اس کے ساتھی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم ظاہر و باطن سے تمہارے ساتھ ہیں، اصل میں یہ لوگ کسی طریقہ پر بھی تمہارے ساتھ نہیں، وہ تمہاری تلواروں سے ڈرتے ہیں۔
آیت ٥٦ (وَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ اِنَّہُمْ لَمِنْکُمْ ط) - ہم بھی مسلمان ہیں ‘ آپ لوگوں کے ساتھی ہیں ‘ ہماری بات کا اعتبار کیجیے۔- (وَمَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلٰکِنَّہُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ )- اصل میں یہ لوگ اسلام کے غلبے کے تصور سے خوفزدہ ہیں اور خوف کے مارے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں۔