Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مال ودولت کے حریص منافق بعض منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے کہ آپ مال زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ ۔ اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں ۔ اگر اتفاق سے یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے جاتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ یہ عدل نہیں اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ گر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا ۔ آپ نے فرمایا تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا ؟ پھر آپ نے فرمایا اس سے اور اس جیسوں سے بچو میری امت میں ان جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو ۔ پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو ۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں ۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ ہر قوص نامی ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ نے فرمایا اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی ۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہونگی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے تمہیں جہاں بھی مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں ۔ پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوادیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا ۔ ہماری امیدیں ذات الہٰی سے ہی وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا ۔ پس ان میں اللہ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہئے ۔ توکل ذات واحد پر رکھے ، اسی کو کافی وافی سمجھے ، رغبت اور توجہ ، لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے ۔ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجالانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑ دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 یہ ان کی ایک اور بہت بڑی کوتاہی کا بیان ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اچھی صفات کو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) صدقات و غنائم کی تقسیم میں غیر منصف باور کراتے، جس طرح ابن ذی الخویصرہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ تقسیم فرما رہے تھے کہ اس نے کہا انصاف سے کام لیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، افسوس ہے تجھ پر، اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا ؟ (صحیح بخاری) ۔ 58۔ 2 گویا اس الزام تراشی کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول تھا کہ اس طرح ان سے ڈرتے ہوئے انہیں زیادہ حصہ دیا جائے، یا وہ مستحق ہوں یا نہ ہوں، انہیں حصہ ضرور دیا جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] صدقات کی تقسیم میں منافقوں کا الزام :۔ سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ سیدنا علی نے رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا، جس سے مٹی علیحدہ نہیں کی گئی تھی۔ یمن سے رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا۔ آپ نے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا۔ آپ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : اس مال کے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ حقدار تھے۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں کو مجھ پر اطمینان نہیں حالانکہ میں آسمان والے کا امین ہوں۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔ ایک آدمی جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی، داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اپنا تہمد پنڈلیوں سے اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو کر کہنے لگا اللہ کے رسول اللہ سے ڈریئے۔ آپ نے فرمایا تیرے لیے بربادی ہو۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں ؟ وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں اس کی گردن نہ اڑا دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ خالد کہنے لگے کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کے دلوں میں نقب لگانے اور ان کے پیٹوں کو چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا : اس کی نسل سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزے لے لے کر پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کروں گا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث علی بن ابی طالب۔ بر کتاب استتابتہ المرتدین) مسلم کتاب الزکوٰۃ۔ باب اعطاء المؤلفۃ القلوب وذکر الخوارج)- [٦٣] منافقوں کے نزدیک انصاف کا معیار :۔ منافقوں کا مطمح نظر محض ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک صدقات کی تقسیم میں انصاف کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ انہیں ضرور کچھ ملنا چاہیے۔ اگر انہیں کچھ مل جائے تو باقی سب ٹھیک ہے اور خوش بھی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں کچھ نہ ملے تو ان کے نزدیک انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے لہذا وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔- خ تقسیم صدقات میں آپ کا مطمح نظر :۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ صدقہ رسول اللہ پر اور آپ کے رشتہ داروں پر حرام تھا اس لیے یہ تو گمان بھی نہ ہوسکتا تھا کہ شاید کچھ آپ نے اپنے لیے رکھ لیا ہو یا اپنے رشتہ داروں کو دے دیا ہو۔ منافقوں کو اعتراض صرف یہ ہوتا تھا کہ فلاں کو کیوں دیا اور مجھے کیوں نہ دیا یا فلاں کو زیادہ کیوں دیا اور مجھے کم کیوں دیا۔ اور یہ اعتراض محض ان کی حرص اور تنگ نظری اور آپ کی ذات پر عدم اعتماد کی بنا پر ہوتا تھا۔ اور آپ صدقات کی تقسیم میں جس چیز کو ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔- عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا : میں بعض لوگوں کو (مال وغیرہ) دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا۔ جنہیں میں دیتا ہوں وہ اس لیے نہیں دیتا کہ مجھے زیادہ محبوب ہیں بلکہ اس لیے کہ میں ان میں بےچینی اور بوکھلا پن پاتا ہوں اور جنہیں نہیں دیتا تو ان کی سیر چشمی اور بھلائی پر بھروسہ کرتا ہوں جو اللہ نے انہیں دے رکھی ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔ آپ کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ مل جاتے تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب خطبۃ الجمعۃ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ :” لَمَزَ (ض) “ سامنے عیب نکالنا، طعن کرنا، یہ بھی منافقین کا شیوہ تھا کہ غنائم و صدقات کی تقسیم میں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن کرنے اور عیب لگانے سے باز نہیں آتے تھے۔ یہ نہیں کہ صرف صدقات کی تقسیم میں طعن کرتے ہوں، بلکہ یہ ان کے لگائے ہوئے الزامات میں سے ایک تھا، چناچہ آپ غنائم یا صدقات تقسیم فرماتے تو کہتے دیکھو کیسی خویش پروری اور دوست نوازی ہو رہی ہے، انصاف نہیں ہو رہا۔ مطلب یہ کہ ہمیں کیوں نہیں ملا، ان کے ہاں انصاف کا پیمانہ بس اتنا تھا کہ انھیں مل جائے تو وہ خوش ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زبردست انصاف کرنے والے ہیں، لیکن اگر اسلام کی مصلحت کے پیش نظر یا کسی دوسرے شخص کے زیادہ ضرورت مند ہونے کی وجہ سے انھیں کچھ نہ مل سکے تو وہ سخت ناراض اور ان کے بقول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدل نہ کرنے والے۔ (نعوذ باللہ) ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ ذوالخویصرہ تمیمی آیا، کہنے لگا : ” یا رسول اللہ عدل کیجیے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہیں ویل ہو، جب میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون عدل کرے گا ؟ “ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : ” اجازت دیجیے میں اس کی گردن اتار دوں۔ “ فرمایا : ” رہنے دو ، اس کے کچھ ساتھی ہیں (اور ہوں گے) کہ تم میں سے ایک اپنی نماز ان کی نماز کے مقابلے میں اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ “ ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ آیت اتری : (وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ) [ بخاری، المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام : ٣٦١٠ ] حنین کی غنیمتوں کی تقسیم کے وقت اور دوسرے کئی موقعوں پر بھی ان لوگوں نے اس قسم کی گستاخیاں کیں۔ خالد بن ولید اور عمر بن خطاب (رض) جیسے صحابہ نے ان کے قتل کی اجازت مانگی، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، رہنے دو ۔ بعض موقعوں پر جب انھوں نے مہاجرین و انصار کو بھڑکا کر ایک دوسرے سے لڑا دیا اور آپ نے صلح کروا دی، اس وقت بھی عبداللہ بن ابی نے اور اس کے ساتھیوں نے بہت بڑی گستاخی کی، جس کا ذکر سورة منافقون میں ہے۔ عمر (رض) کے اجازت مانگنے کے باوجود آپ نے ان کے قتل کی اجازت نہیں دی، یہ کہہ کر کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( سواء علیھم أستغفرت لھم ) : ٤٩٠٥ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ يَسْخَطُوْنَ۝ ٥٨- لمز - اللَّمْزُ : الاغتیاب وتتبّع المعاب . يقال : لَمَزَهُ يَلْمِزُهُ ويَلْمُزُهُ. قال تعالی: وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقاتِ [ التوبة 58] ، الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة 79] ، وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ- [ الحجرات 11] أي : لا تلمزوا الناس فيلمزونکم، فتکونوا في حکم من لمز نفسه، ورجل لَمَّازٌ ولُمَزَةٌ: كثير اللّمز، قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] .- ( ل م ز ) لمزہ ( ض ن ) لمزا کے معنی کسی کی غیبت کرنا ۔ اس پر عیب چینی کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ لمزہ یلمزہ ویلمزہ ۔ یعنی یہ باب ضرفب اور نصر دونوں سے آتا ہے قرآن میں ہے : الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة 79] اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ جو رضا کار انہ خیر خیرات کرنے والوں پر طنزو طعن کرتے ہیں ۔ وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات 11] اور اپنے ( مومن بھائیوں ) پر عیب نہ لگاؤ۔ یعنی دوسروں پر عیب نہ لگاؤ ورنہ ودتم پر عیب لگائیں گے ۔ اسی طرح گویا تم اپنے آپ عیب لگاتے ہو ۔ رجل لما ر و لمزۃ ۔ بہت زیادہ عیب جوئی اور طعن وطنز کرنے والا ۔ قرآن میں ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز آشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔- صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- سخط - السَّخَطُ والسُّخْطُ : الغضب الشدید المقتضي للعقوبة، قال : إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ- [ التوبة 58] ، وهو من اللہ تعالی: إنزال العقوبة، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد 28] ، أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة 80] ، كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 162] . ( س خ ط ) السخط والسخط اس سخت غصہ کو کہتے ہیں جو سزا کا مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة 58 تو وہ فورا غصہ سے بھر جاتے ۔ اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد انزال عقوبت ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد 28]( اور ان کی ) یہ نوبت اس لئے ( ہوگی ) کہ جو چیز خدا کو بری لگتی ہے یہ اسی ( کے رستے ) پر چلے ۔ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة 80] ( نتیجہ یہ ہوا ) کہ دنیا میں بھی خدا ان سے ناراض ہوا ۔ كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 162] اس شخص جیسا ( فعل سرزد ) ہوسکتا ہے جو خدا کے غضب میں آگیا ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ومنھم من یلزمک فی الصدقات۔ اے نبی ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں) حسن کے قول کے مطابق ” یعیبک “ (آپ پر عیب لگاتے ہیں) ۔ ایک قول ہے کہ (لمز خفیہ طور پر عیب لگانے کو کہتے ہیں اور ھمز (میم کی زیر کے ساتھ) عیب لگانے کو کہتے ہیں۔ قتادہ کے قول کے مطابق ” یطعن علیک “ (آپ پر اعتراضات کرتے ہیں) ایک قول کے مطابق یہ منافقین کا ایک گروہ تھا جو یہ چاہتا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقات یعنی زکوٰۃ کے مال میں سے انہیں بھی دیں جبکہ انہیں زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں تھا کیونکہ وہ زکوٰۃ کے مستحقین میں شامل نہیں تھے۔ جب یہ لوگ اس طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے صدقات کی تقسیم میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراضات کرنے شروع کردیئے۔ اور یہ بکواس کرنے لگے کہ آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فان اعطوا منھا رضوا وان لم یعطوا منھا اذا ھم یسخطون۔ اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں اور نہ دیا جائے تو بگڑ نے لگتے ہیں ) ساتھ ہی یہ بتادیا کہ صدقات میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ صدقات تو فقراء اور مساکین کا حق ہے نیز ان لوگوں کا جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٨) اور یہ منافقین ابو الاحوص اور اس کے ساتھی ایسے ہیں کہ صدقات تقسیم کرنے میں آپ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان برابری کے ساتھ کیوں نہیں تقسیم کرتے، اگر ان صدقات میں سے ان کو ان کی خواہش کے مطابق بہت زیادہ حصہ مل جاتا ہے تو پھر تقسیم پر راضی ہوجاتے ہیں اور اگر بہت زیادہ ان کو حصہ نہیں ملتا، تو پھر تقسیم پر ناراض ہوتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ومنہم من یلمزک “۔ (الخ)- حضرت امام بخاری (رح) نے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالوں کو تقسیم فرما رہے تھے، اتنے میں ذو یصرہ آیا اور کہنے لگا انصاف کرو، آپ نے فرمایا تیرے لیے ہلاکت ہو، اگر میں انصاف نہ کروں گا تو پھر کون انصاف کرے گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی ان میں بعض وہ لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں آپ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں اور ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت جابر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ج) - زکوٰۃ و صدقات کا مال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تقسیم فرماتے تھے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ مال کی تقسیم کے دوران ایک منافق نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹوک دیا : یَا مُحَمَّدُ اعْدِل اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصاف (کے ساتھ تقسیم) کیجیے اس کی مراد یہ تھی کہ آپ ناانصافی کر رہے ہیں۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ اَکُنْ اَعْدِلُ ۔۔ ) (١) تم برباد ہوجاؤ ‘ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :57 عرب میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے تمام ان باشندوں پر جو ایک مقرر مقدار سے زائد مال رکھتے تھے ، باقاعدہ زکوۃ عائد کی گئی تھی اور وہ ان کی زرعی پیداوار سے ان کے مویشیوں سے ان کے اموال تجارت سے ان کے معدنیات سے اور ان کے سونے چاندی کے ذخائر سے ۲-۱ ۲ فی صدی ، ۵ فی صدی ، ۱۰۰ فی صدی کی مختلف شرحوں کے مطابق وصول کی جاتی تھی ۔ یہ سب اموال زکوۃ ایک منظم طریقہ سے وصول کیے جاتے اور ایک مرکز پر جمع ہو کر منظم طریقہ سے خرچ کیے جاتے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملک کے اطراف سے اتنی دولت سمٹ کر آتی اور آپ کے ہاتھوں خرچ ہوتی تھی جو عرب کے لوگوں نے کبھی اس سے پہلے کسی ایک شخص کے ہاتھوں جمع اور تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھی ۔ دنیا پرست منافقین کے منہ میں اس دولت کو دیکھ کر پانی بھر بھر آتا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہتے ہوئے دریا سے ان کو خوب سیر ہو کر پینے کا موقع ملے ، مگر یہاں پلانے والا خود اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر اس دریا کے ایک ایک قطرے کو حرام کر چکا تھا اور کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے مستحق لوگوں کے سوا کسی اور کے لب تک جام پہنچ سکے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم صدقات کو دیکھ دیکھ کر دلوں میں گھٹتے تھے اور تقسیم کے موقع پر آپ کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کرتے تھے ۔ دراصل شکایت تو انہیں یہ تھی کہ اس مال پر ہمیں دست درازی کا موقع نہیں دیا جاتا ، مگر اس حقیقی شکایت کو چھپا کر وہ الزام یہ رکھتے تھے کہ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں کی جاتی اور اس میں جانب داری سے کام لیا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

47: تفسیر ابن جریر میں کئی روایات اس قسم کی نقل کی گئی ہیں۔ جن میں مذکور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات تقسیم فرمائے تو کچھ منافقین نے آپ پر اعتراض کیا کہ یہ تقسیم (معاذ اللہ) انصاف کے مطابق نہیں ہے۔ وجہ یہ تھی کہ ان منافقوں کو ان کے مطلب کے مطابق نہیں دیا گیا تھا۔