Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زکوۃ اور صدقات کا مصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے؟ اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے ۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے ۔ ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ابو داؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آن کر آپ سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کر دی ہے آٹھ مصرف مقرر کر دیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں ۔ امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں ۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر ۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم ۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لئے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے ۔ گو امام ابو حنیفہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو ۔ ابن علیہ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کالفظ ہے اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں ۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا ۔ قتادہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو ۔ ابراہیم کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں سفیان ثوری کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے ۔ عکرمہ کہتے ہیں مسلمانوں فقراء کو مساکین نہ کہو ۔ مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں ۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں ۔ فقراء ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صدقہ مال دار اور تندرست توانا پر حلال نہیں ۔ کچھ شخصوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقے کا مال مانگا آپ نے بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا قوی تندرست دیکھ کر فرمایا گر تم چاہو تو تمہیں دے دوں مگر امیر شخص کا اور قوی طاقت اور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔ مساکین ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکین کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو بےپرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے ۔ صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتے ۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے ۔ جنکے دل بہلائے جاتے ہیں ۔ ان کی کئی قسمیں ہیں بعض کو تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ کی سب سے زیادہ محبت پیدا کر دی حالانکہ پہلے سب سے بڑا دشمن آپ کا میں ہی تھا ۔ بعض کو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک کو دیتا ہوں دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اوندھے منہ جہنم میں گر پڑے ۔ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچا سونا مٹی سمیت آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا ۔ اقرع بن حابس ، عینیہ بن بدر ، عقلمہ بن علاچہ اور زید خیر اور فرمایا میں ان کی دلجوئی کے لئے انہیں دے رہا ہوں ۔ بعض کو اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام وفروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر و اللہ اعلم ۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان اللہ ان کے ماتحت ہیں ۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے ۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا ۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں ۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرط کر لی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہو جائیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں ۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی ۔ اس لئے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی وہ تم نے کیا ہو گا ۔ حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے آپ نے فرمایا نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر ۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے ۔ اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے ۔ قرض دار کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا اپنا ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہو جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کر لے پس انہیں بھی مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں ۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہں دیں گے پھر فرمایا قبیصہ سن تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے ۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہو جائے اسے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہو جائے ۔ تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گذرنے لگے اور اس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہو جائیں کہ ہاں بیشک فلاں شخص پر فاقے گذرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے ۔ اس کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے ( مسلم شریف ) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الہٰی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں ۔ ( مسلم ) آپ فرماتے ہیں کہ ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کر دی؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے وہ جواب دے گا کہ اللہ تجھے خوب علم ہے میں نے نہ اس کی رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آ گئی اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا ( مسند احمد ) ۔ راہ الہٰی میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا ۔ حج بھی راہ الٰہی میں داخل ہے ۔ مسافر جو سفر میں بےسروسامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمد و رفت کے لئے کافی ہو ۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابو داؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے تیسرا قرض دار چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد ، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو یا سفر میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے ۔ زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقدیر اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنا ۔ اللہ تعالیٰ ظاہر باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ وہ اپنے قول فعل شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 اس آیت میں اس طعن کا دروازہ بند کرنے کے لئے صدقات کے مستحق لوگوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ صدقات سے مراد یہاں صدقات واجبہ یعنی زکٰوۃ ہے۔ آیت کا آغاز انما سے کیا گیا ہے جو قصر کے صیغوں میں سے ہے اور الصقات میں لام تعریف جنس کے لیے ہے یعنی صدقات کی یہ جنس (زکوٰۃ) ان آٹھ قمسوں میں مقصور ہے جن کا ذکر آیت میں ہے ان کے علاوہ کسی اور مصرف پر زکوٰۃ کی رقم کا استعمال صحیح نہیں۔ اہل علم کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ان آٹھوں مصارف پر تقسیم کرنا ضروری ہے ؟ امام شافعی کی رائے کی رو سے زکٰوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ یا ان میں سے جس مصرف یا مصارف پر امام یا زکوٰۃ ادا کرنے والا مناسب سمجھے حسب ضرورت خرچ کرسکتا ہے امام شافعی وغیرہ پہلی رائے کے قائل ہیں اور امام مالک اور امام ابوحنیفہ وغیرہما دوسری رائے کے۔ اور یہ دوسری رائے ہی زیادہ صحیح ہے امام شافعی کی رائے کی رو سے زکوٰۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے یعنی اقتضائے ضرورت اور مصالح دیکھے بغیر رقم کے آٹھ حصے کر کے آٹھوں جگہ پر کچھ کھچ رقم خرچ کی جائے۔ جبکہ دوسری رائے کے مطابق ضرورت اور مصالح کا اعتبار ضروری ہے جس مصرف پر رقم خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت یا مصالح کسی ایک مصرف پر خرچ کرنے کے متقتضی ہوں، تو وہاں ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے گی چاہے دوسرے مصارف پر خرچ کرنے کے لیے رقم نہ بچے اس رائے میں جو معقولیت ہے وہ پہلی رائے میں نہیں ہے۔ 60۔ 2 ان مصارف ثمانیہ کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔ ا۔ فقیر اور مسکین چونکہ قریب قریب ہیں اور ایک کا اطلاق دوسر پر بھی ہوتا ہے یعنی فقیر کو مسکین اور مسکین کو فقیر کہہ لیا جاتا ہے۔ اس لئے ان کی الگ الگ تعریف میں خاصا اختلاف ہے۔ تاہم دونوں کے مفہوم میں یہ بات تو قطعی ہے کہ جو حاجت مند ہوں اور اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم اور وسائل سے محروم ہوں ان کو فقیر اور مسکین کہا جاتا ہے مسکین کی تعریف میں ایک حدیث آتی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " مسکین وہ گھو منے پھر نے والا نہیں ہے جو ایک ایک یا دو دو لقمے یا کھجور کے لیے گھر گھر پھرتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بےنیاز کر دے نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے " (صحیح بخاری ومسلم کتاب الزکوٰۃ) حدیث میں گویا اصل مسکین شخص مذکور کو قرار دیا گیا ہے ورنہ حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے مسکین کی تعریف یہ منقول ہے کہ جو گداگر ہو، گھوم پھر کر اور لوگوں کے پیچھے پڑ کر مانگتا ہو اور فقیر وہ ہے جو نادار ہونے کے باوجود سوال سے بچے اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرے (ابن کثیر) 2۔ عاملین سے مراد حکومت کے وہ اہلکار جو زکٰو ۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب کتاب پر معمور ہوں۔ 3۔ مولفۃ القلوب ایک تو وہ کافر ہے جو کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر امید ہو کہ وہ مسلمان ہوجائے گا۔ دوسرے، وہ نو مسلم افراد ہیں جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔ تیسرے وہ افراد بھی ہیں جن کی امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے اور اس طرح وہ قریب کے کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں۔ یہ اور اس قسم کی دیگر صورتیں تالیف قلب کی ہیں جن پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے چاہے مذکورہ افراد مال دار ہی ہوں۔ احناف کے نزدیک یہ مصرف ختم ہوگیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں حالات وظروف کے مطابق ہر دور میں اس مصرف پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ 5۔ گردنیں آزاد کرانے میں۔ بعض علماء نے اس سے صرف مکاتب غلام مراد لئے ہیں اور علماء نے مکاتب وغیر مکاتب ہر قسم کے غلام مراد لئے ہیں۔ امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ 6۔ غارمین سے ایک تو وہ مقروض مراد ہیں جو اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہوگئے اور ان کے پاس نقد رقم بھی نہیں ہے اور ایسا سامان بھی نہیں ہے جسے بیچ کر وہ قرض ادا کریں سکیں۔ دوسرے وہ ذمہ داراصحاب ضمانت ہیں جنہوں نے کسی کی ضمانت دی اور پھر وہ اس کی ادائیگی کے ذمہ دار قرار پاگئے یا کسی فصل تباہ یا کاروبار خسارے کا شکار ہوگیا اور اس بنیاد پر وہ مقروض ہوگیا۔ ان سب افراد کی زکوٰۃ کی مد سے امداد کرنا جائز ہے۔ 7۔ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد (چا ہے وہ مالدار ہی ہو) پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ حج اور عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے اسی طرح بعض علماء کے نزدیک تبلیغ ودعوت بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیونکہ اس سے بھی مقصد جہاد کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ 8۔ ابن السبیل سے مراد مسافر ہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر، سفر میں مستحق امداد ہوگیا ہے چاہے وہ اپنے گھر یا وطن میں صاحب حیثیت ہی ہو، اس کی امداد زکٰوۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] یہاں صدقات سے مراد صرف فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہے جیسا کہ بعد کے الفاظ فریضۃ من اللہ سے واضح ہوتا ہے۔ صدقات کی تقسیم پر بھی منافقوں کو اعتراض ہوا تھا تو اس کی تقسیم کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرما دیں تاکہ ان کی تقسیم میں اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے یا کم سے کم رہ جائے۔ اور یہ کل آٹھ مدات ہیں جو درج ذیل ہیں۔- [٦٦] زکوٰۃ کے حقدار مسکین اور فقیر میں فرق :۔ فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بےنیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ (لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ ٢٧٣؁ۧ) 2 ۔ البقرة :273) مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی )- گویا احتیاج کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو احتیاج کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔- [٦٧] محنت کرنے والے کو معاوضہ لے لینا چاہئے :۔ یعنی زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو ؟ میں نے کہا ہاں انہوں نے پوچھا پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔ سیدنا عمر نے فرمایا ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ مجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔ تو آپ نے فرمایا یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا) (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی من غیر مسئلۃ )- خ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم حکومت کی ذمہ داری :۔ ضمناً اس جملہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم اسلامی حکومت کا فریضہ ہے اور انفرادی طور پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں ادا کرنا چاہیے جب ایسا نظام زکوٰۃ قائم نہ ہو اور اگر کوئی خاندان، برادری، یا قوم اپنے اہتمام میں اجتماعی طور پر فراہمی زکوٰۃ اور اس کی تقسیم کا کام کرلے تو یہ انفرادی ادائیگی سے بہتر ہے۔- [٦٨] تالیف کے حقدار :۔ اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جاسکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ چناچہ سیدنا علی نے یمن سے آپ کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمر نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کردیا تھا کہ اب اسلام غالب آچکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہذا عندالضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔- [٦٩] اجتماعی غلامی کا حال :۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کردیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہوگئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں ؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔- [٧٠] مقروض کے قرضہ کی ادائیگی :۔ یہاں قرض سے مراد خانگی ضروریات کے قرضے ہیں تجارتی اور کاروباری قرضے نہیں اور قرض دار سے مراد ایسا مقروض ہے کہ اگر اس کے مال سے سارا قرض ادا کردیا جائے تو اس کے پاس نقد نصاب سے کم مال رہتا ہو۔ یہ مقروض خواہ برسر روزگار ہو یا بےروزگار ہو اور خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اس مد سے اس کا قرض ادا کیا جاسکتا ہے۔- [٧١] یعنی ہر ایسا کام جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ اور یہ میدان بڑا وسیع ہے۔ اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس مد سے دینی مدارس کا قیام اور اس کے اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر وہ ادارہ بھی اس مصرف میں شامل ہے جو زبانی یا تحریری طور پر دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے یا اسلام کا دفاع کر رہا ہو۔ بعض علماء کے نزدیک اس مد سے مساجد کی تعمیر و مرمت پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔- [٧٢] مسافر خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اگر دوران سفر اسے ایسی ضرورت پیش آجائے تو اس کی بھی مدد کی جاسکتی ہے مثلاً فی الواقع کسی کی جیب کٹ جائے یا مال چوری ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔- [٧٣] محتاج زکوٰۃ کے زیادہ حقدار ہیں :۔ واضح رہے کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم کے لحاظ سے معاشرہ کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک اغنیاء کا طبقہ جن سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی دوسرا فقراء و مساکین یا مقروضوں وغیرہ کا طبقہ۔ جسے زکوٰۃ دی جائے گی اور تیسرا متوسط طبقہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی تاہم وہ زکوٰۃ کا مستحق بھی قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس کے آمدنی کے ذرائع اتنے ہوتے ہیں جس سے اس کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔ غنی کی عام تعریف یہ ہے کہ جس شخص کے پاس محل نصاب اشیاء میں سے کوئی چیز بقدر نصاب یا اس سے زائد موجود ہو وہ غنی ہے اور جس کے پاس کوئی چیز بھی بقدر نصاب موجود نہ ہو وہ فقیر یا مسکین ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ زکوٰۃ جس مقام کے اغنیاء سے وصول کی جائے گی اس کے سب سے زیادہ حقدار اسی مقام کے فقراء وغیرہ ہوتے ہیں۔ اگر کچھ رقم بچ جائے تو وہ مرکزی بیت المال میں جمع ہوگی۔ اس سلسلہ میں اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔- سیدنا ابراہیم بن عطاء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمران ابن الحصین کو زکوٰۃ کی وصولی پر روانہ کیا گیا۔ وہ خالی ہاتھ واپس آگئے تو ان سے پوچھا گیا کہ زکوٰۃ کا مال کہاں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا مجھے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے واسطے روانہ کیا گیا۔ میں نے جن لوگوں سے لینا چاہیے تھا لیا اور جہاں دینا چاہیے تھا دے دیا۔ (ابن ماجہ۔ ابو اب الصدقہ)- آپ سے پوچھا گیا کہ غنی کی حد کیا ہے ؟ فرمایا پچاس درہم یا اس کے برابر مالیت کا سونا (یا نقدی) (نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب حد الغنیٰ ) اور درہم چاندی کا ساڑھے چار ماشہ کا سکہ تھا اور پچاس درھم کا عوض ڈھائی دینار ہے جبکہ دینار ساڑھے تین ماشے سونے کا سکہ تھا۔ یعنی جس کے پاس تقریباً ٩ ماشہ سونا ہو وہ غنی ہے۔ اور ایسا شخص متوسط طبقہ میں شمار ہوگا۔ علاوہ ازیں درج ذیل قسم کے لوگ زکوٰۃ کے حقدار نہیں ہوتے :۔- الف۔ رسول اللہ کی ذات اور آپ کے رشتہ دار جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ حسن بن علی (رض) نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ آپ نے فرمایا چھی چھی تاکہ حسن اس کھجور کو منہ سے نکال پھینکیں۔ پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ للنبی )- لیکن اگر صدقہ کی کوئی چیز کسی مستحق کے واسطہ سے ہدیہ آل نبی کو مل جائے تو وہ جائز ہوگی۔- ٢۔ ام عطیہ کہتی ہیں کہ آپ نے سیدنا عائشہ (رض) کے ہاں جا کر پوچھا کچھ کھانے کو ہے ؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں صرف بکری کا وہ گوشت ہے جو آپ نے نُسَیْبَہ کو خیرات دی تھی اور نُسَیْبَہ نے تحفہ کے طور پر ہمیں بھیجا ہے آپ نے فرمایا لاؤ۔ خیرات تو اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اذا تحولت الصدقۃ)- ٣۔ سیدنا انس کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ گوشت لایا گیا جو بریرہ کو خیرات میں ملا تھا۔ آپ نے فرمایا بریرہ پر یہ صدقہ تھا اور ہمارے لیے یہ تحفہ ہے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )- ب۔ جو شخص تندرست، طاقتور اور کمانے کے قابل ہو وہ زکوٰۃ کا حقدار نہیں ہوتا :۔- ١۔ ایک دفعہ آپ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر صدقہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا صدقات کی تقسیم میں اللہ کسی نبی یا کسی دوسرے کی تقسیم پر راضی نہیں ہوا۔ اس نے خود فیصلہ کیا اور اسے آٹھ اجزاء میں تقسیم کردیا۔ اگر تو بھی ان کے ذیل میں آتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ باب مسئلۃ القوی المکتسب)- ٢۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ دو ہٹے کٹے آدمی آئے اور صدقہ کا سوال کیا۔ آپ نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ پھر نظر نیچے کرلی اور فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ میں غنی اور قوی کا کوئی حصہ نہیں۔ جو کما سکتا ہو۔ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب مسئلۃ القوی المکتسب )- ج۔ جو افراد کسی کے زیر کفالت ہوں۔ وہ انہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ مثلاً بیوی اور اولاد کو۔ اسی طرح اگر باپ بوڑھا ہوچکا ہو اور اس کی کفالت اس کے بیٹے کے ذمہ ہو تو بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔- ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں صاحب مال ہوں اور میرا والد محتاج ہے۔ آپ نے فرمایا تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔ اولاد ہی تمہاری پاکیزہ کمائی ہوتی ہے اور اپنی اولاد کی کمائی سے تم کھا سکتے ہو۔ (ابو داؤد۔ ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب النفقات وحق المملوک)- اس لحاظ سے عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے کیونکہ خاوند بیوی کے زیر کفالت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔- سیدہ زینب (زوجہ عبداللہ بن مسعود (رض) آپ کے ہاں آئیں۔ وہاں ایک اور انصاری عورت کو آپ کے دروازے پر پایا۔ وہ بھی وہی مسئلہ پوچھنے آئی تھی جو میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال (رض) نکلے۔ ہم نے ان سے کہا کہ رسول اللہ سے پوچھو کہ اگر میں اپنے خاوند اور چند یتیموں کو جو میری پرورش میں ہیں خیرات کر دوں تو کیا یہ درست ہوگا ؟ ہم نے بلال (رض) سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ بلال (رض) نے آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں یہ مسئلہ پوچھ رہی ہیں۔ آپ نے پوچھا کونسی عورتیں ؟ بلال (رض) نے کہا زینب نامی ہیں۔ آپ نے پوچھا کونسی زینب ؟ بلال (رض) نے کہا عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی آپ نے فرمایا ہاں یہ صدقہ درست ہے اور اس کے لیے دوہرا اجر ہے ایک قرابت کا دوسرے صدقہ کا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الزکوٰۃ علی الزوج والا یتام فی الحجر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ : منافقین کا طعن دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود صدقات کے حق دار بیان فرما دیے، تاکہ سب لوگ جان لیں کہ صدقات کی تقسیم کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اختیار نہیں، لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن بےسود ہے۔ یہاں صدقات سے مراد فرض صدقات، یعنی زکوٰۃ و عشر ہیں، کیونکہ حکومت کی طرف سے وصولی کے لیے عاملین فرض زکوٰۃ ہی کے لیے بھیجے جاتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی ان کے پاس نفل صدقہ بھی جمع کروا دے۔ صدقہ کو صدقہ اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے مال خرچ کرنے والا عملی طور پر اپنے ایمان کے صدق کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ لفظ عام طور پر نفلی خرچ پر بولا جاتا ہے، مگر کبھی فرض پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ) [ التوبۃ : ١٠٣ ] یہاں فرض صدقات ہی مراد ہیں۔ اس آیت کے آخر میں ”ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ “ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ نفلی صدقات کو فریضہ نہیں کہا جاتا۔ ”ۧاِنَّمَا الصَّدَقٰتُ “ سے معلوم ہوا کہ ان مقامات کے علاوہ زکوٰۃ و عشر خرچ کرنا جائز نہیں۔ - لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ : فقیر اور مسکین دونوں لفظ محتاج کے معنی میں آتے ہیں، بعض اہل علم فقیر کو زیادہ بدحال قرار دیتے ہیں، بعض مسکین کو اور بعض دونوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں۔ دلائل کے لحاظ سے راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ فقیر مسکین سے زیادہ بدحال ہوتا ہے، کیونکہ یہ ” فقر “ سے مشتق ہے، کمر کے مہروں کو ” فَقَرَات الظَّھْرِ “ کہتے ہیں۔ فقیر بمعنی مفقور ہے، یعنی ضرورت کی اشیاء نہ ہونے کی وجہ سے گویا اس کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے۔ مسکین ” سکن “ سے مشتق ہے کہ ضرورت مندی نے اس کی حرکت کو سکون میں بدل دیا ہے۔ گویا فقیر کی حالت اس شخص کی سی ہے جس کے پاس کچھ نہیں اور مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِي الْبَحْرِ ) [ الکہف : ٧٩ ] یعنی وہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کشتی کا مالک جو کام بھی کرتا ہو بالکل خالی ہاتھ نہیں ہوتا۔ ہاں، آمدنی ضرورت سے کم ہونے کی وجہ سے وہ ضرورت مند و محتاج ہوتا ہے۔ زیر تفسیر آیت میں فقراء کو پہلے لانے سے بھی ان کے زیادہ بدحال ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ یہ فرق اس وقت ضروری ہوگا جب فقیر اور مسکین دونوں لفظ اکٹھے آئیں، جیسے ایمان اور اسلام کا فرق ہے، لیکن الگ الگ آئیں تو دونوں ایک ہی ہیں۔ اسی طرح ان میں سے صرف فقیر یا مسکین کا لفظ آئے تو وہ دونوں قسم کے ضرورت مندوں پر بول لیا جاتا ہے، خواہ ان کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو۔ یہ دونوں زکوٰۃ کے مستحق ہیں، خواہ وہ بدحال فقیر ہوں یا سفید پوش ضرورت مند۔ - وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا : زکوٰۃ و عشر کی وصولی کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدمی مقرر فرماتے تھے اور باقاعدہ ان کا محاسبہ فرماتے تھے، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن اللتبیہ (رض) کو اس کام پر مقرر فرمایا تھا اور ان کی آمد پر محاسبہ کرتے ہوئے حکومت کے عمال کو ملنے والے تحائف کو ان کے لیے ناجائز قرار دیا تھا۔ امام بخاری (رض) نے ” کِتَابُ الْاَحْکَامِ “ میں باب قائم فرمایا ہے : - ” بَابُ رِزْقِ الْحُکَّامِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا۔ “- وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ : اس سے مراد وہ نومسلم ہیں جن کی دل جوئی کرکے انھیں اسلام پر ثابت قدم رکھنا مقصود ہو، یا وہ کفار جن کی دل جوئی سے ان کے اسلام لانے کی امید ہے، یا وہ بااثر لوگ جن پر خرچ کرنے سے کئی لوگوں کے مسلمان ہونے کی امید ہے، یا وہ کافر سردار جن پر خرچ کرنے سے ان کے علاقے میں مسلمانوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کی امید ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے غلبے کے بعد یہ مد ختم ہوگئی، جیسا کہ امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا، مگر موجودہ زمانے کے حالات کو سامنے رکھیں تو آج کل شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے بھی زیادہ اس کی ضرورت ہے، کیونکہ کفار اسی طریقے سے مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں۔ - وَفِي الرِّقَابِ : گردنیں چھڑانے سے مراد غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا ہے۔ مکاتب غلاموں کی (جنھوں نے اپنے مالکوں سے اپنی قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی شرط پر آزادی کا معاہدہ کیا ہوا ہے) مدد کرنا ہے۔ آج کل عدالتوں کے کفریہ نظام کی وجہ سے بےگناہ لوگ یا وہ گناہ گار جن کی شرعی سزا قید نہیں ہے، مگر کافرانہ قانون کی وجہ سے قید ہیں، یا کفر کی عدالتوں کا عائد کردہ جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے یا مقدمہ کے اخراجات ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے جیلوں میں سال ہا سال سے سڑ رہے ہیں ان کو چھڑانے پر زکوٰۃ صرف کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ (واللہ اعلم)- وَالْغٰرِمِيْنَ : وہ مقروض جو قرض ادا نہیں کرسکتے، یا وہ کاروباری لوگ یا زمیندار وغیرہ جو کاروبار یا فصل برباد ہوجانے کی وجہ سے زیر بار ہوگئے، اگر وہ اپنی جائداد میں سے قرض ادا کریں تو فقیر ہوجائیں، یا وہ بااثر لوگ جنھوں نے صلح کروانے کے لیے لوگوں کی دیتیں یا رقوم اپنے ذمے لے لیں، یہ سب غارمین میں آتے ہیں۔ - وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اس لفظ کے دو استعمال ہیں، ایک تو ہر نیکی ہی اللہ کے لیے اور اللہ کے راستے میں ہے اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خرچ بھی فی سبیل اللہ ہے، جن کا ذکر اسی آیت میں پہلے ہوچکا ہے۔ دوسرا ان سب سے الگ فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے مراد تمام مفسرین کے اتفاق کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مجاہد غنی بھی ہو تو اس پر جہادی ضروریات کی خاطر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں حج و عمرہ کو بھی اس مد میں شامل کیا گیا ہے۔ آپ تفسیر کی کتابیں دیکھ لیں یا فقہ کی ” وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ کی تشریح ” ھُمُ الْغُزَاۃُ “ ہی پائیں گے کہ اس سے مراد اللہ کی راہ میں لڑنے والے ہیں، بلکہ اہل علم کا فیصلہ ہے کہ اگر ایک طرف فقراء و مساکین ہوں اور ایک طرف غازیان اسلام کو ضرورت ہو تو مجاہدین کی مدد کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ شکست کی صورت میں فقر و مسکنت کے ساتھ کفار کی غلامی کی ذلت اور اسلام کی بےحرمتی کی مصیبت بھی جمع ہوجائے گی۔ - وَابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر خواہ صاحب حیثیت ہو اگر سفر میں اسے ضرورت پڑجائے تو اس پر زکوٰۃ میں سے خرچ کیا جاسکتا ہے۔ - فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ : معلوم ہوا کہ یہ مصارف فرض صدقات و عشر کے بیان ہوئے ہیں۔ چند اہل علم نے کہا کہ ضروری ہے کہ زکوٰۃ اور عشر میں آنے والا مال آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور لازماً ہر مصرف میں خرچ کیا جائے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اکثر اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ان میں سے جس مصرف میں زیادہ ضرورت ہو وہاں زیادہ بلکہ سب کا سب بھی صرف کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، ان مصارف کے علاوہ خرچ کرنا جائز نہیں اور یہی بات درست ہے۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجازت دی ہے۔ یاد رہے کہ فرض صدقہ صرف مسلمانوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ (رض) کو یمن بھیجتے وقت انھیں اہل یمن کو کلمۂ شہادت اور روزانہ پانچ نمازیں تسلیم کرلینے کے بعد زکوٰۃ بتانے کا حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں صدقہ فرض فرمایا ہے : ( تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِ ھِمْ فَتُرَدُّ فِیْ فُقَرَاءِ ھِمْ )” جو ان کے اغنیاء سے لیا جائے گا اور انھی کے فقراء پر واپس کردیا جائے گا۔ “ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب أخذ الزکوٰۃ من الأغنیاء ۔۔ : ١٤٩٦ ] مولفۃ القلوب پر خرچ بھی دراصل مسلمانوں ہی پر خرچ کی ایک صورت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (فرض) صدقات تو صرف حق ہے غریبوں کا اور محتاجوں کا اور جو کارکن ان صدقات ( کی تحصیل وصول کرنے) پر متعین ہیں اور جن کی دلجوئی کرنا ( منظور) ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں ( صرف کیا جائے) اور قرض داروں کے قرضہ ( ادا کرنے) میں اور جہاد والوں کے سامان) میں اور مسافروں کی ( امداد) میں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔- معارف و مسائل - مصارف الصدقات : - اس سے پہلی آیتوں میں صدقات کے بارے میں رسول کریم کا ذکر تھا، جس میں منافقین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگایا تھا آپ ( معاذ اللہ) صدقات کی تقسیم میں انصاف نہیں کرتے، جس کو چاہتے ہیں جو چاہتے ہیں دیدیتے ہیں۔- اس آیت میں حق تعالیٰ نے مصارف صدقات کو متعین فرما کر ان کی اس غلط فہمی کو دور کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات خود متعین فرما دی ہے کہ صدقات کن لوگوں کو دینے چاہئیں، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تقسیم صدقات میں اسی ارشاد ربانی کی تعمیل فرماتے ہیں، اپنی رائے سے کچھ نہیں کرتے۔- اس کی تصدیق اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ابوداؤد اور دار قطنی نے حضرت زیاد بن حارث صدائی کی روایت سے نقل کی ہے، یہ فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، تو معلوم ہوا کہ آپ ان کی قوم کے مقابلہ کے لئے ایک لشکر مسلمانوں کا روانہ فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ لشکر نہ بھیجیں، میں اس کا ذمہ لیتا ہوں کہ وہ سب مطیع و فرمانبردار ہو کر آجائیں گے، پھر میں نے اپنی قوم کو خط لکھا تو سب کے سب مسلمان ہوگئے، اس پر آپ نے فرمایا : یا اخا صداء المطاع فی قومہ، جس میں گویا ان کو یہ خطاب دیا گیا کہ یہ اپنی قوم کے محبوب اور مقتدا ہیں میں نے عرض کیا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، اللہ تعالیٰ کے کرم سے ان کو ہدایت ہوگئی اور وہ مسلمان ہوگئے، یہ فرماتے ہیں کہ میں ابھی اس مجلس میں حاضر تھا کہ ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کچھ سوال کرنے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس کو یہ جواب دیا کہ :- صدقات کی تقسیم کو اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا غیر نبی کے بھی حوالہ نہیں کیا، بلکہ خود ہی اس کے آٹھ مصرف متعین فرما دیئے، اگر تم ان آٹھ میں داخل ہو تو تمہیں دے سکتا ہوں، انتہٰی۔ ( تفسیر قرطبی، ص ١٦٨ ج ٨) - آیت کا شان نزول معلوم کرنے کے بعد آیت کی مکمل تفسیر اور تشریح سننے سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ اللہ جل شانہ نے تمام مخلوقات انسان و حیوان وغیرہ کو رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہے، (آیت) وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا، اور ساتھ ہی اپنی حکمت بالغہ سے ایسا نہیں کیا کہ سب کو رزق میں برابر کردیتے، غنی و فقیر کا فرق نہ رہتا، اس میں انسان کی اخلاقی تربیت اور نظام عالم سے متعلق سینکڑوں حکمتیں ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں غریب فقیر کا حصہ لگا دیا، ارشاد فرمایا (آیت) وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ ، جس میں بتلا دیا کہ مالداروں کے مال میں اللہ تعالیٰ نے ایک معین مقدار کا حصہ فقراء کے لئے رکھ دیا ہے، جو ان فقراء کا حق ہے۔- اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ مال داروں کے مال میں سے جو صدقہ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے یہ کوئی ان کا احسان نہیں، بلکہ فقراء کا ایک حق ہے، جس کی ادائیگی ان کے ذمہ ضروری ہے، دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ حق اللہ تعالیٰ کے نزدیک متعین ہے، یہ نہیں کہ جس کا جی چاہے جب چاہے اس میں کمی بیشی کردے، اللہ تعالیٰ نے اس معین حق کی مقدار بھی بتلانے کا کام رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد فرمایا، اور اسی لئے آپ نے اس کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ صحابہ کرام کو صرف زبانی بتلا دینے پر کفایت نہیں فرمائی، بلکہ اس معاملہ کے متعلق مفصل فرمان لکھوا کر حضرت فاروق اعظم اور عمرو بن حزم کو سپرد فرمائے، جس سے واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ زکوٰة کے نصاب اور ہر نصاب میں سے مقدار زکوٰة ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے واسطہ سے متعین کرکے بتلا دیئے ہیں، اس میں کسی زمانہ اور کسی ملک میں کسی کو کمی بیشی یا تغیر و تبدل کا کوئی حق نہیں۔- صدقہ، زکوٰة کی فرضیت صحیح یہ ہے کہ اوائل اسلام ہی میں مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہوچکی تھی، جیسا کہ امام تفسیر ابن کثیر نے سورة مزمل کی (آیت) فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ، سے استدلال فرمایا ہے کیونکہ یہ سورة بالکل ابتداء وحی کے زمانہ کی سورتوں میں سے ہے، اس میں نماز کے ساتھ زکوٰة کا حکم بھی ہے، البتہ روایات حدیث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام میں زکوٰة کے لئے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی، بلکہ جو کچھ ایک مسلمان کی اپنی ضرورتوں سے بچ رہے وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا، نصابوں کا تعین اور مقدار زکوٰۃ کا بیان بعد ہجرت مدینہ طیبہ میں ہوا ہے، اور پھر زکوٰة و صدقات کی وصول یابی کا نظام محکمانہ انداز کا تو فتح مکہ کے بعد عمل میں آیا ہے۔- اس آیت میں باجماع صحابہ وتابعین اسی صدقہ واجبہ کے مصارف کا بیان ہے جو نماز کی طرح مسلمانوں پر فرض ہے، کیونکہ جو مصارف اس آیت میں متعین کے گئے ہیں وہ صدقات فرض کے مصارف ہیں، نفلی صدقات میں روایات کی تصریحات کی بنا پر بہت وسعت ہے وہ ان آٹھ مصارف میں منحصر نہیں ہیں۔- اگرچہ اوپر کی آیات میں صدقات کا لفظ عام صدقات کے لئے استعمال ہوا ہے، جس میں واجب اور نفلی دونوں داخل ہیں، مگر اس آیت میں باجماع امت صدقات فرض ہی کے مصارف کا بیان مراد ہے، اور تفسیر قرطبی میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں لفظ صدقہ مطلقاً بولا گیا ہے اور کوئی قرینہ نفلی صدقہ کا نہیں ہے تو وہاں صدقہ فرض ہی مراد ہوتا ہے۔- اس آیت کو لفظ انما سے شروع کیا گیا ہے، یہ لفظ حصر و انحصار کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس شروع ہی کے کلمہ نے بتلا دیا کہ صدقات کے جو مصارف آگے بیان ہو رہے ہیں تمام صدقات واجبہ صرف انہیں میں خرچ ہونے چاہئیں ان کے علاوہ کسی دوسرے مصرف خیر میں صدقات واجبہ صرف نہیں ہو سکتے، جیسے جہاد کی تیاری یا بناء مسجد و مدارس یا دوسرے رفاہ عام کے ادارے، یہ سب چیزیں بھی اگرچہ ضروری ہیں، اور ان میں خرچ کرنے کا بہت بڑا ثواب ہے، مگر صدقات فرض جن کی مقداریں متعین کردی گئی ہیں، ان کو ان میں نہیں لگایا جاسکتا۔- آیت کا دوسرا لفظ صدقات، صدقہ کی جمع ہے، صدقہ لغت میں اس مال کے جزء کو کہا جاتا ہے جو اللہ کے لئے خرچ کیا جائے ( قاموس) امام راغب نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ صدقہ کو صدقہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا دینے والا گویا یہ دعوی کرتا ہے کہ میں اپنے قول و فعل میں صادق ہوں، اس کے خرچ کرنے کی کوئی غرض دنیوی نہیں، بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لئے خرچ کررہا ہوں، اسی لئے جس صدقہ میں کوئی نام و نمود یا دنیوی غرض شامل ہوجائے قرآن کریم نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے۔- لفظ صدقہ اپنے اصلی معنی کی رو سے عام ہے، نفلی صدقہ کو بھی کہا جاتا ہے، فرض زکوٰة کو بھی، نفل کے لئے اس کا استعمال عام ہے ہی، فرض کے لئے بھی قرآن کریم میں بہت جگہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے، جیسے (آیت) خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ، اور آیت زیر بحث اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ وغیرہ، بلکہ قرطبی کی تحقیق تو یہ ہے کہ قرآن میں جب مطلق لفظ صدقہ بولا جاتا ہے تو اس سے صدقہ فرض ہی مراد ہوتا ہے، اور روایات حدیث میں لفظ صدقہ ہر نیک کام کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، جیسے حدیث میں ہے کہ کسی مسلمان سے خوش ہو کر ملنا بھی صدقہ ہے، کسی بوجھ اٹھانے والے کا بوجھ اٹھوا دینا بھی صدقہ ہے ‘ کنویں سے پانی کا ڈول اپنے لئے نکالا اس میں سے کسی دوسرے کو دیدینا بھی صدقہ ہے، اس حدیث میں لفظ صدقہ مجازی طور پر عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔- تیسرا لفظ اس کے بعد لِلْفُقَرَاۗءِ سے شروع ہوا ہے، اس کے شروع میں حرف لام ہے جو تخصیص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے معنی جملہ کے یہ ہوں گے کہ تمام صدقات صرف انہی لوگوں کو حق ہے جن کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے۔- اب ان آٹھ مصارف کی تفصیل سنئے جو اس کے بعد مذکور ہیں :- ان میں پہلا مصرف فقراء ہیں، دوسرا مساکین، فقیر اور مسکین کے اصلی معنی میں اگرچہ اختلاف ہے، ایک کے معنے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو، دوسرے کے معنی ہیں جس کے پاس نصاب سے کم ہو، لیکن حکم زکوٰة میں دونوں یکساں ہیں اختلاف نہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اس کی ضروریات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال نہ ہو اس کو زکوٰة دی جاسکتی ہے، اور اس کے لئے زکوٰة لینا بھی جائز ہے، ضروریات میں رہنے کا امکان استعمالی برتن اور کپڑے اور فرنیچر وغیرہ سب داخل ہیں، نصاب یعنی سونا ساڑھے سات تولہ یا چاندی ساڑھے باون تولہ یا اس کی قیمت جس کے پاس ہو اور وہ قرضدار بھی نہ ہو نہ اس کو زکوٰة لینا جائز ہے نہ دینا، اسی طرح وہ شخص جس کے پاس کچھ چاندی یا کچھ پیسے نقد ہیں اور تھوڑا سا سونا ہے تو سب کی قیمت لگا کر اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو وہ بھی صاحب نصاب ہے، اس کو زکوٰة دینا اور لینا جائز نہیں، اور جو شخص صاحب نصاب نہیں مگر تندرست، قوی اور کمانے کے قابل ہے اور ایک دن کا گذارہ اس کے پاس موجود ہے اس کو اگرچہ زکوٰة دینا جائز ہے مگر یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے، اس میں بہت سے لوگ غفلت برتتے ہیں، سوال کرنا ایسے لوگوں کے لئے حرام ہے، ایسا شخص جو کچھ سوال کرکے حاصل کرتا ہے اس کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہنم کا انگارہ فرمایا ہے ( ابوداؤد بروایت علی ‘ قرطبی )- حاصل یہ ہے کہ فقیر اور مسکین میں زکوٰة کے باب میں کوئی فرق نہیں، البتہ وصیت کے حکم میں فرق پڑتا ہے کہ مساکین کے لئے وصیت کی ہے تو کیسے لوگوں کو دیا جائے، اور فقراء کے لئے ہے تو کیسے لوگوں کو دیا جائے، جس کے بیان کی یہاں ضرورت نہیں، فقیر اور مسکین کے دونوں مصرفوں میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ جس کو مال زکوٰة دیا جائے وہ مسلمان ہو اور حاجات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال کا مالک نہ ہو۔- اگرچہ عام صدقات غیر مسلموں کو بھی دیئے جاسکتے ہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : تصدقوا علی اھل الادیان کلھا : یعنی ہر مذہب والے پر صدقہ کرو۔ لیکن صدقہ زکوٰة کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کے وقت یہ ہدایت فرمائی تھی کہ مال زکوٰة صرف مسلمانوں کے اغنیاء سے لیا جائے، اور انہی کے فقراء پر صرف کیا جائے، اس لئے مال زکوٰة کو صرف مسلم فقراء و مساکین ہی پر صرف کیا جاسکتا ہے زکوٰة کے علاوہ دوسرے صدقات یہاں تک کہ صدقة الفطر بھی غیر مسلم فقیر کو دینا جائز ہے ( ہدایہ) - اور دوسری شرط مالک نصاب نہ ہونے کی خود فقیر و مسکین کے معنی سے واضح ہوجاتی ہے، کیونکہ یا تو اس کے پاس کچھ نہ ہوگا، یا کم ازکم مال نصاب کی مقدار سے کم ہوگا، اس لئے ان دونوں مصرفوں کے بعد اور چھ مصارف کا بیان آیا ہے، ان میں پہلا مصرف عاملین صدقہ ہیں۔- تیسرا مصرف الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا، یہاں عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات زکوٰة و عشر وغیرہ لوگوں سے وصول کرکے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں، یہ لوگ چونکہ اپنے تمام اوقات اس خدمت میں خرچ کرتے ہیں، اس لئے ان کی ضروریات کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہے، قرآن کریم کی اس آیت نے مصارف زکوٰة میں ان کا حصہ رکھ کر یہ متعین کردیا کہ انکا حق الخدمت اسی مد زکوٰة سے دیا جائے گا۔- اس میں اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں سے زکوٰة و صدقات وصول کرنے کا فریضہ براہ راست رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد فرمایا ہے، جس کا ذکر اسی سورت میں آگے آنے والی اس آیت میں ہے (آیت) خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ، یعنی وصول کریں آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صد قہ، اس آیت کا مفصل بیان تو آئندہ آئے گا، یہاں یہ بتلانا منظور ہے کہ اس آیت کی رو سے مسلمانوں کے امیر پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ زکوٰة صدقات وصول کرے، اور یہ ظاہر ہے کہ امیر خود اس کام کو پورے ملک میں بغیر اعوان اور مددگاروں کے نہیں کرسکتا، انہی اعوان اور مددگاروں کا ذکر مذکور الصدر آیت میں والْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا کے الفاظ سے کیا گیا ہے۔- انہی آیات کی تعمیل میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے صحابہ کرام کو صدقات وصول کرنے کے لئے عامل بنا کر مختلف خطوں میں بھیجا ہے، اور آیت مذکورہ کی ہدایت کے موافق زکوٰة ہی کی حاصل شدہ رقم میں سے ان کو حق الخدمت دیا ہے، ان میں وہ حضرات صحابہ بھی شامل ہیں جو اغنیاء تھے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صدقہ کسی غنی یعنی مال دار کے لئے حلال نہیں، بجر پانچ شخصوں کے، ایک وہ شخص جو جہاد کے لئے نکلا ہے اور وہاں اس کے پاس بقدر ضرورت مال نہیں، اگرچہ وہ شخص کہ اگرچہ اس کے پاس مال ہے مگر وہ موجودہ مال سے زیادہ کا مقروض ہے، چوتھے وہ شخص جو صدقہ کا مال کسی غریب مسکین سے پیسے دے کر خرید لے، پانچویں وہ شخص جسکو کسی غریب فقیر نے صدقہ کا حاصل شدہ مال بطور ہدیہ تحفہ پیش کردیا ہو۔- رہا یہ مسئلہ کہ عاملین صدقہ کو اس میں سے کتنی رقم دی جائے سو اس کا حکم یہ ہے کہ ان کی محنت و عمل کی حیثیت کے مطابق دی جائے گی ( احکام القرآن جصاص، قرطبی) - البتہ یہ ضروری ہوگا کہ عاملین کی تنخواہیں نصف زکوٰة سے بڑہنے نہ پائیں، اگر زکوٰة کی اصول یابی اتنی کم ہو کہ عاملین کی تنخواہیں دے کر نصف بھی باقی نہیں رہتی تو پھر تنخواہوں میں کمی کی جائے گی، نصف سے زائد صرف نہیں کیا جائے گا ( تفسیر مظہری ظہیریہ) - بیان مذکور سے معلوم ہوا کہ عاملین صدقہ کو جو رقم مد زکوٰة سے دی جاتی ہے وہ بحثیت صدقہ نہیں بلکہ ان کی خدمت کا معاوضہ ہے، اسی لئے باوجود غنی اور مال دار ہونے کے بھی وہ اس رقم کے مستحق ہیں، اور زکوٰة سے ان کو دینا جائز ہے، اور مصارف زکوٰة کی آٹھ مدات میں سے صرف ایک یہی مد ایسی ہے جس میں رقم زکوٰة بطور معاوضہ خدمت دی جاتی ہے، اور نہ زکوٰة نام ہی اس عطیہ کا ہے جو غریبوں کو بغیر کسی معاوضہ خدمت کے دیا جائے، اور اگر کسی غریب فقیر کو کوئی خدمت لے کر مال زکوٰة دیا گیا تو زکوٰة ادا نہیں ہوئی۔- اسی لئے یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اول یہ کہ مال زکوٰة کو معاوضہ خدمت میں کیسے دیا گیا، دوسرے یہ کہ مال دار کے لئے اصلی حیثیت کو سمجھ لیا جائے، وہ یہ ہے کہ یہ حضرات فقراء کے وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہ سب جانتے ہیں کہ وکیل کا قبضہ اصل موکل کے قبضہ کے حکم میں ہوتا ہے، اگر کوئی شخص اپنا قرض وصول کرنے کے لئے کسی کو وکیل مختار بنا دے، اور قرضدار یہ قرض وکیل کو سپرد کردے تو وکیل کا قبضہ ہوتے ہی قرضدار بری ہوجاتا ہے، تو جب رقم زکوٰة عاملین صدقہ نے فقراء وکیل ہونے کی حیثیت سے وصول کرلی تو ان کی زکوٰة ادا ہوگئی، اب یہ پوری رقم ان فقراء کی ملک ہے جن کی طرف سے بطور وکیل انہوں نے وصول کی ہے اب جو رقم بطور حق الخدمت کے ان کو دی جاتی ہے وہ مال داروں کی طرف سے نہیں بلکہ فقراء کی طرف سے ہوئی، اور فقراء کو اس میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اختیار ہے، ان کو یہ بھی حق ہے کہ جب اپنا کام ان لوگوں سے لیتے ہیں تو اپنی رقم میں سے ان کو معاوضہ خدمت دیدیں۔- اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ فقراء نے تو ان کو وکیل مختار بنایا نہیں، یہ ان کے وکیل کیسے بن گئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا سربراہ جس کو امیر کہا جاتا ہے وہ قدرتی طور پر منجانب اللہ پورے ملک کے فقراء غرباء کا وکیل ہوتا ہے، کیونکہ ان سب کی ضروریات کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے، امیر مملکت جس جس کو صدقات وصول یابی پر عامل بنا دے وہ سب ان کے نائب کی حیثیت سے فقراء کے وکیل ہوجاتے ہیں۔- اس سے معلوم ہوگیا کہ عاملین صدقہ کو جو کچھ دیا گیا وہ در حقیقت زکوٰة نہیں دی گئی، بلکہ زکوٰة جن فقراء کا حق ہے ان کی طرف سے معاوضہ خدمت دیا گیا، جیسے کوئی غریب فقیر کسی کو اپنے مقدمہ کا وکیل بناوے اور اس کا حق الخدمت زکوٰة کے حاصل شدہ مال سے ادا کردے تو یہاں نہ تو دینے والا بطور زکوٰة کے دے رہا ہے اور نہ لینے والا زکوٰة کی حیثیت سے لے رہا ہے۔- فائدہ :- تفصیل مذکور سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو اسلامی مدارس اور انجمنوں کے مہتمم یا ان کی طرف سے بھیجے ہوئے سفیر صدقات زکوٰة وغیرہ مدارس اور انجمنوں کے لئے وصول کرتے ہیں، ان کا وہ حکم نہیں جو عاملین صدقہ کا اس آیت میں مذکور ہے کہ زکوٰة کی رقم میں سے ان کی تنخواہ دی جاسکے، بلکہ ان کو مدارس اور انجمن کی طرف سے جداگانہ تنخواہ دینا ضروری ہے زکوٰة کی رقم سے ان کی تنخواہ نہیں دی جاسکتی، وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ فقراء کے وکیل نہیں بلکہ اصحاب زکوٰة مال داروں کے وکیل ہیں، ان کی طرف سے مال زکوٰة کو مصرف پر لگانے کا ان کو اختیار دیا گیا ہے، اسی لئے ان کے قبضہ ہوجانے کے بعد بھی زکوٰة اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک یہ حضرات اس کو مصرف پر خرچ نہ کردیں۔- فقراء کا وکیل نہ ہونا اس لئے ظاہر ہے کہ حقیقی طور پر کسی فقیر نے ان کو اپنا وکیل بنایا نہیں، اور امیر المومنین کی ولایت عامہ کی بناء پر جو خود بخود وکالت فقراء حاصل ہوتی ہے وہ بھی ان کو حاصل نہیں، اس لئے بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ ان کو اصحاب زکوٰة کا وکیل قرار دیا جائے اور جب تک یہ اس مال کو مصرف پر خرچ نہ کردیں انکا قبضہ ایسا ہی ہے جیسا کہ زکوٰة کی رقم خود مال والے کے پاس رکھی ہو۔- اس معاملہ میں عام طور پر غفلت برتی جاتی ہے، بہت سے ادارے زکوٰة کا فنڈ وصول کر کے اس کو سالہا سال رکھے رہتے ہیں، اور اصحاب زکوٰة سمجھتے ہیں کہ ہماری زکوٰة ادا ہوگئی، حالانکہ ان کی زکوٰة اس وقت ادا ہوگی جب ان کی رقم مصارف زکوٰة میں صرف ہوجائے۔- اسی طرح بہت سے لوگ ناواقفیت سے ان لوگوں کو عاملین صدقہ کے حکم میں داخل سمجھ کر زکوٰة ہی کی رقم سے ان کی تنخواہ دیتے ہیں، یہ نہ دینے والوں کے لئے جائز ہے نہ لینے والوں کے لئے۔- ایک اور سوال عبادت پر اجرت : - یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے اشارات اور احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت سی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ کسی عبادت پر اجرت و معاوضہ لینا حرام ہے، مسند احمد کی حدیث میں بروایت عبدالرحمن بن شبل منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اقراوا القران ولا تاکلوا بہ ” یعنی قرآن پڑھو، مگر اس کو کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ۔ اور بعض روایات میں اس معاوضہ کو قطعہ جہنم فرمایا ہے جو قرآن پر لیا جائے، اس کی بناء پر فقہاء امت کا اتفاق ہے کہ طاعات و عبادات پر اجرت لینا جائز نہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ صدقات وصول کرنے کا کام ایک دینی خدمت اور عبادت ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایک قسم کا جہاد فرمایا ہے، اس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ اس پر بھی کوئی اجرت و معاوضہ لینا حرام ہوتا، حالانکہ قرآن کریم کی اس آیت نے صراحةً اس کو جائز قرار دیا، اور زکوٰة کے آٹھ مصارف میں اس کو داخل فرمایا۔- امام قرطبی اپنی تفسیر میں اس کے متعلق فرمایا کہ جو عبادات فرض یا واجب عین ہیں ان پر اجرت لینا مطلقاً حرام ہے، لیکن جو فرض کفایہ میں ان پر کوئی معاوضہ لینا اسی آیت کی رو سے جائز ہے، فرض کفایہ کے معنی یہ ہیں کہ ایک کام پوری امت یا پورے شہر کے ذمہ فرض کیا گیا ہے، مگر یہ لازم نہیں کہ سب ہی اس کو کریں، اگر بعض لوگ ادا کرلیں تو سب سبکدوش ہوجاتے ہیں، البتہ اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔- امام قرطبی نے فرمایا کہ اسی آیت سے ثابت ہوا کہ امامت و خطابت کا معاوضہ لینا بھی جائز ہے، کیونکہ وہ بھی واجب علی العین نہیں بلکہ واجب علی الکفایہ ہیں، انہتی۔ اسی طرح تعلیم قرآن و حدیث اور دوسرے دینی علوم کا بھی یہی حال ہے، کہ یہ سب کام پوری امت کے ذمہ فرض کفا یہ ہیں، اگر بعض لوگ کرلیں تو سب سبکدوش ہوجاتے ہیں، اس لئے اگر اس پر کوئی معاوضہ اور تنخواہ لی جائے تو وہ بھی جائز ہے۔- چوتھا مصرف مصارف زکوٰة میں سے مولّفة القلوب ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لئے ان کو صدقات دیئے جاتے تھے، عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں تین چار قسم کے لوگ شامل تھے، کچھ مسلمان کچھ غیر مسلم، پھر مسلمانوں میں بعض تو وہ لوگ تھے جو غریب حاجت مند بھی تھے، اور نو مسلم بھی، ان کی دل جوئی اس لئے کی جاتی تھی کہ اسلام پر پختہ ہوجائیں، اور بعض وہ تھے جو مال دار بھی تھے اور مسلمان ہوگئے تھے، مگر ابھی تک ایمان کا رنگ ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا، اور بعض وہ لوگ تھے جو خود تو پکے مسلمان تھے مگر ان کی قوم کو ان کے ذریعہ شر سے بچنے کے لئے ان کی دل جوئی کی جاتی تھی، اور بعض وہ تھے جن کے بارے میں یہ تجربہ تھا کہ نہ تبلیغ وتعلیم سے اثر پذیر ہوتے ہیں، نہ جنگ و تشدد سے بلکہ احسان و حسن سلوک سے متاثر ہوتے ہیں، رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو یہ چاہتے تھے کہ خلق خدا کو کفر کی ظلمت سے نکال کر نور ایمان میں لے آئیں، اس کے لئے ہر وہ جائز تدبیر کرتے تھے جس سے یہ لوگ متاثر ہوسکیں، یہ سب قسمیں عام طور پر مولفة القلوب میں داخل سمجہی جاتی ہیں، جن کو صدقات کا چوتھا مصرف اس آیت میں قرار دیا ہے۔- چوتھا مصرف مولفة القلوب میں، ان کے متعلق گذشتہ صفحات میں یہ بتلایا جا چکا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لئے ان کو صدقات سے حصہ دیا جاتا تھا، عام خیال کے مطابق ان میں مسلم وغیر مسلم دونوں طرح کے لوگ تھے، غیر مسلموں کی دل جوئی اسلام کی ترغیب کے لئے اور نو مسلموں کی دل جوئی اسلام پر پختہ کرنے کے لئے کی جاتی تھی، عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ان کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک خاص علت اور مصلحت کے لئے جس کا ذکر ابھی آچکا ہے صدقات دیئے جاتے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جبکہ اسلام کو مادی قوت بھی حاصل ہوگئی اور کفار کے شر سے بچنے یا نو مسلموں کو اسلام پر پختہ کرنے کے لئے اس طرح کی تدبیروں کی ضرورت نہ رہی تو وہ علت اور مصلحت ختم ہوگئی، اس لئے ان کا حصہ بھی ختم ہوگیا جس کو بعض فقہاء نے منسوخ ہوجانے سے تعبیر فرمایا، فاروق اعظم حسن بصری، ابو حنیفہ، مالک بن انس (رض) اجمعین کی طرف یہی قول منسوب ہے۔- اور بہت سے حضرات نے فرمایا کہ مولفة القلوب کا حصہ منسوخ نہیں، بلکہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم کے زمانہ میں اس کو ساقط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت نہ رہنے کی وجہ سے ان کا حصہ ساقط کردیا گیا، آئندہ کسی زمانہ میں پھر ایسی ضرورت پیش آجائے تو پھر دیا جاسکتا ہے، امام زہری، قاضی عبدالوہاب ابن عربی، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے، لیکن تحقیق اور صحیح بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کو صدقات وغیرہ سے کسی وقت کسی زمانہ میں حصہ نہیں دیا گیا، اور نہ وہ مولفة القلوب میں داخل ہیں، جن کا ذکر مصارف صدقات میں آیا ہے۔- امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں ان سب لوگوں کے نام تفصیل کے ساتھ شمار کئے ہیں جن کی دل جوئی کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مد صدقات سے حصہ دیا ہے، اور یہ سب شمار کرنے کے بعد فرمایا : وبالجملۃ فکلھم مومن ولم یکن فیھم کافر، یعنی خلاصہ یہ ہے کہ مولفة القلوب سب کے سب مسلمان ہی تھے، ان میں کوئی کافر شامل نہیں تھا۔- اسی طرح تفسیر مظہری میں ہے : لم یثیت ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعطی احدا من الکفار للایلاف شیئا من الزکوٰة، یعنی یہ بات کسی روایت سے ثابت نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کافر کو مال زکوٰة میں سے اس کی دلجوئی کیلئے حصہ دیا ہو، اس کی تائید تفسیر کشاف کی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مصارف صدقات کا بیان یہاں ان کفار منافقین کے جواب میں آیا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تقسیم صدقات کے بارے میں اعتراض کیا کرتے تھے کہ ہم کو صدقات نہیں دیتے، اس آیت میں مصارف صدقات کی تفصیل بیان فرمانے سے مقصد ہے کہ ان کو بتلا دیا جائے کہ کافر کا کوئی حق مال صدقات میں نہیں ہے، اگر مولفة القلوب میں کافر بھی داخل ہوں تو اس جواب کی ضرورت نہ تھی۔- تفسیر مظہری میں اس مغالطہ کو بھی اچھی طرح واضح کردیا ہے جو بعض روایات حدیث کے سبب لوگوں کو پیش آیا ہے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض غیر مسلموں کو کچھ عطیات دیئے ہیں، چناچہ صحیح مسلم اور ترمذی کی روایت میں جو یہ مذکور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفوان بن امیہ کو کافر ہونے کے زمانے میں کچھ عطیات دیئے، اس کے متعلق امام نووی کے حوالہ سے تحریر فرمایا کہ یہ عطیات زکوٰة کے مال سے نہ تھے، بلکہ غزوہ حنین کے مال غنیمت کا جو خمس بیت المال میں داخل ہوا اس میں سے دیئے گئے، اور یہ ظاہر ہے کہ بیت المال کی اس مد سے مسلم وغیرہ دونوں پر خرچ کرنا باتفاق فقہاء جائز ہے، پھر فرمایا کہ امام بیہقی، ابن سید الناس، امام ابن کثیر وغیرہم سب نے یہی قرار دیا ہے کہ یہ عطاء مال زکوٰة سے نہیں بلکہ خمس غنیمت سے تھی۔- ایک عظیم فائدہ :- اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں اموال صدقات اگرچہ بیت المال میں جمع کئے جاتے تھے مگر ان کا حساب بالکل جدا تھا، اور بیت المال کی دوسری مدات جیسے خمس غنیمت یا خمس معادن وغیرہ ان کا حساب جدا، اور ہر ایک کے مصارف جدا تھے، جیسا کہ حضرات فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ اسلامی حکومت کے بیت المال میں چار مد علیحدہ رہنی چاہئیں، اور اصل حکم یہ ہے کہ صرف حساب علیحدہ رکھنا نہیں بلکہ ہر ایک مد کا بیت المال الگ ہونا چاہئے تاکہ ہر ایک کو اس کے مصرف میں خرچ کرنے کی پوری احتیاط قائم رہے، البتہ اگر کسی وقت کسی خاص مد میں کمی ہو تو دوسری مد سے بطور قرض لے کر اس پر خرچ کیا جاسکتا ہے یہ مدات بیت المال یہ ہیں : - اول خمس غنائم : یعنی جو مال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہو اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرکے باقی پانچواں حصہ : بیت المال کا حق ہے، خمس معادن یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں سے پانچواں حصہ بیت المال کا حق ہے، خمس رکاذ : یعنی جو قدیم خزانہ کسی زمین سے برآمد ہو اس کا بھی پانچواں حصہ بیت المال کا حق ہے، یہ تینوں قسم کے خمس بیت المال کی ایک ہی مد میں داخل ہیں۔- دوسری مد صدقات ہیں، جس میں مسلمانوں کی زکوٰة، صدقہ الفطر، اور ان کی زمینوں کا عشر داخل ہے۔- تیسری مد خراج اور مال فئی ہے، جس میں غیر مسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ تمام اموال داخل ہیں جو غیر مسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔- چوتھی مد ضوائع کی ہے، جس میں لاوارث مال، لا وارث شخص کی میراث وغیرہ داخل ہیں، ان چار مدات کے مصارف اگرچہ الگ الگ ہیں، لیکن فقراء و مساکین کا حق ان چاروں مدات میں رکھا گیا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی حکومت میں قوم کے اس ضعیف عنصر کو قوی کرنے کا کس قدر اہتمام کیا گیا ہے، جو در حقیقت اسلامی حکومت کا طغرٰی امتیاز ہے ورنہ دنیا کے عام نظاموں میں ایک مخصوص طبقہ ہی بڑہتا رہتا ہے، غریب کو بھرنے کا موقع نہیں ملتا، جس کے ردعمل نے اشتراکیت اور کمیونزم کو جنم دیا، مگر وہ باکل ایک غیر فطری اصول اور بارش سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑے ہوجانے کے مرادف اور انسانی اخلاق کے لئے سم قاتل ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں چار بیت المال چار مدات کے لئے الگ الگ مقرر ہیں اور فقراء و مساکین کا حق چاروں میں رکھا گیا ہے، ان میں سے پہلی تین مدوں کے مصارف خود قرآن کریم نے تفصیل کے ساتھ متعین فرما کر واضح طور پر بیان کردیئے ہیں، پہلی مد یعنی خمس غنائم کے مصارف کا بیان سورة انفال دسویں پارہ کے شروع میں مذکور ہے، اور دوسری مد یعنی صدقات کے مصارف کا بیان سورة توبہ کی مذکور الصدر ساٹھویں آیات میں آیا ہے، جس کی تفصیل اس وقت زیر بحث ہے، اور تیسری مد جس کو اصطلاح میں مال فئی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کا بیان سورة حشر میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے، اسلامی حکومت کی اکثر مدات فوجی اخراجات اور عمال حکومت کی تنخواہیں وغیرہ اسی مد سے خرچ کی جاتی ہیں، چوتھی مد یعنی لاوارث مال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات اور خلفائے راشدین کے تعامل سے اپاہج محتاجوں اور لاوارث بچوں کے لئے مخصوص ہے۔ ( شامی، کتاب الزکوٰة)- خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرات فقہاء نے بیت المال کی چاروں مدات بالکل الگ الگ رکھنے اور اپنے اپنے معینہ مصارف میں خرچ کرنے کی جو ہدایات دی ہیں، یہ سب قرآنی ارشادات اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر خلفائے راشدین کے تعامل سے واضح طور پر ثابت ہیں۔- محققین، محد ثین و فقہاء کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مولفة القلوب کا حصہ کسی کافر کو کسی وقت بھی نہیں دیا گیا، نہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں اور نہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں، اور جن غیر مسلموں کو دینا ثابت ہے وہ مد صدقات و زکوٰة سے نہیں بلکہ خمس غنیمت میں سے دیا گیا ہے، جس میں سے ہر حاجت مند مسلم و غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے، تو مولفة القلوب صرف مسلم رہ گئے، اور ان میں جو فقراء ہیں ان کا حصہ بدستور باقی ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس صورت میں رہ گیا کہ یہ لوگ غنی صاحب نصاب ہوں تو امام شافعی امام احمد کے نزدیک چونکہ تمام مصارف زکوٰة میں فقر و حاجت مندی شرط نہیں، اس لئے وہ مولفة القلوب میں ایسے لوگوں کو بھی داخل کرتے ہیں جو غنی اور صاحب نصاب ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ اور مام مالک کے نزدیک عاملین صدقہ کے علاوہ باقی تمام مصارف میں فقر و حاجت مندی شرط ہے، اس لئے مولفة القلوب کا حصہ بھی ان کو اسی شرط کے ساتھ دیا جائے گا کہ وہ فقیر و حاجتمند ہوں جیسے غارمین اور رقاب، ابن سبیل وغیرہ سب میں اسی شرط کے ساتھ ان کو زکوٰة دی جاتی ہے کہ وہ اس جگہ حاجتمند ہوں، گو وہ اپنے مقام میں مال دار ہوں۔- اس تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولفة القلوب کا حصہ ائمہ اربعہ کے نزدیک منسوخ نہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض حضرات نے فقراء و مساکین کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں فقر و حاجت مندی کے ساتھ مشروط نہیں کیا، اور بعض نے یہ شرط کی ہے، جن حضرات نے یہ شرط رکھی ہے وہ مولفة القلوب میں بھی صرف انہی لوگوں کو دیتے ہیں جو حاجتمند اور غریب ہوں، بہرحال یہ حصہ قائم اور باقی ہے ( تفسیر مظہری) - یہاں تک صدقات کے آٹھ مصارف میں سے چار کا بیان آیا ہے، ان چاروں کا حق حرف لام کے تحت بیان ہوا، لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ ، آگے جن چار مصارف کا ذکر ہے ان میں عنوان بدل کر لام کی جگہ حرف فی استعمال فرمایا : وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ ، زمخشری نے کشاف میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ یہ آخری چار مصرف بہ نسبت پہلے چار کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ حرف فِی ظرفیت کے لئے بولا جاتا ہے، جس کی وجہ سے معنی یہ پیدا ہوتے ہیں کہ صدقات کو ان لوگوں کے اندر رکھ دینا چاہئے، اور ان کے زیادہ مستحق ہونے کی وجہ ان کا زیادہ ضرورت مند ہونا ہے، کیونکہ جو شخص کسی کا مملوک غلام ہے وہ بہ نسبت عام فقراء کے زیادہ تکلیف میں ہے، اسی طرح جو کسی کا قرضدار ہے اور قرضخواہوں کا اس پر تقاضا ہے وہ عام غرباء فقراء سے زیادہ تنگی میں ہے کہ اپنے اخراجات کے فکر سے بھی زیادہ قرضداروں کے قرض کی فکر اس کے ذمہ ہے۔- ان باقی ماندہ چار مصارف میں سب سے پہلے وَفِي الرِّقَابِ کا ذکر فرمایا ہے، رقاب رقبہ کی جمع ہے، اصل میں گردن کو رقبہ کہتے ہیں، عرف میں اس شخص کو رقبہ کہہ دیا جاتا ہے جس کی گردن کسی دوسرے کی غلامی میں مقید ہو۔- اس میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ رقاب سے مراد اس آیت میں کیا ہے ؟ جمہور فقہاء و محدثین اس پر ہیں کہ اس سے مراد وہ غلام ہیں جن کے آقاؤں نے کوئی مقدار مال کی متعین کرکے کہہ دیا ہے کہ اتنا مال کما کر ہمیں دے دو تو تم آزاد ہو جس کو قرآن و سنت کی اصطلاح میں مکاتب کہا جاتا ہے ایسے شخص کو آقا اس کی اجازت دیدیتا ہے کہ وہ تجارت یا مزدوری کے ذریعہ مال کمائے، اور آقا کو لا کر دے، آیت مذکورہ میں رقاب سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کو رقم زکوٰة میں سے حصہ دے کر اس کی گلو خلاصی میں امداد کی جائے۔- یہ قسم غلاموں کی باتفاق مفسرین و فقہاء لفظ وَفِي الرِّقَابِ کی مراد ہے کہ رقم زکوٰة ان کو دے کر ان کی گلو خلاصی میں امداد کی جائے، ان کے علاوہ دوسرے غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا یا ان کے آقاؤں کو رقم زکوٰة دے کر یہ معاہدہ کرلینا کہ وہ ان کو آزاد کردیں گے، اس میں ائمہ فقہاء کا اختلاف ہے، جمہور ائمہ ابوحنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ اس کو جائز نہیں سمجہتے، اور حضرت امام مالک بھی ایک روایت میں جمہور کے ساتھ متفق ہیں کہ وَفِي الرِّقَابِ کو صرف مکاتب غلاموں کے ساتھ مخصوص فرماتے ہیں، اور ایک روایت میں امام مالک سے یہ بھی منقول ہے وَفِي الرِّقَاب میں عام غلاموں کو داخل کرکے اس کی بھی اجازت دیتے ہیں کہ رقم زکوٰة سے غلام خرید کر آزاد کئے جائیں ( احکام القرآن ابن عربی مالکی) - اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ معارف القرآن جلد سے پڑہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝ ٠ ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ٦٠- صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- فقر - الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه :- الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] .- والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] .- الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی.- الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال :- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه .- ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔- الفقیر - دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- عامل - وقوله تعالی: وَالْعامِلِينَ عَلَيْها[ التوبة 60] : هم المتولّون علی الصّدقة- والمؤلفۃ قلوبھم - جن کی تالیف قلوب مقصود ہو۔ الف یالف ( ضرب ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا۔ محاورہ ہے الفت بینھم۔ میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی۔ اسی سے الفت ( محبت) ہے۔ اسی سے مؤلف ہے جو مختلف اجزاء کو یک جا جمع کردے۔- یہاں المؤلفۃ قلوبھم سے مراد ایسے اشخاص ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت و محبت ورغبت پیدا کرنا مقصود ہو۔ اس کی تین صورتیں تھیں :۔- (1) کفار کے رئیسوں کو اس غرض سے دینا کہ وہ خود بھی غریب مسلمانوں کو اذیت نہ دیں اور دوسروں کو بھی اذیت دینے سے روکیں۔- (2) کفار کو اسلام کی رغبت دلانے کے لئے دینا۔- (3) نومسلموں کی ان کی خاطر داری کے لئے اعانت کرنا۔- المؤلفۃ اسم مفعل واحد مؤنث تالیف ( تفعیل) مصدر۔ ملائے گئے۔ جوڑے گئے۔ المؤلفۃ قلوبھم۔ وہ جن کے دل جوڑے گئے۔ - ( المؤلّفة)- ، اسم مفعول من الرباعيّ ألّف، وزنه مفعّلة بضم المیم وفتح العین .- ( الغارمین)- ، جمع الغارم، اسم فاعل من الثلاثيّ غرم، ومنه فاعل .- رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔- غرم - الغُرْمُ : ما ينوب الإنسان في ماله من ضرر لغیر جناية منه، أو خيانة، يقال : غَرِمَ كذا غُرْماً ومَغْرَماً ، وأُغْرِمَ فلان غَرَامَةً. قال تعالی: إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة 66] ، فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ- [ القلم 46] ، يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة 98] . والغَرِيمُ يقال لمن له الدّين، ولمن عليه الدّين . قال تعالی: وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 60] ، والغَرَامُ : ما ينوب الإنسان من شدّة ومصیبة، قال : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان 65] ، من قولهم : هو مُغْرَمٌ بالنّساء، أي : يلازمهنّ ملازمة الْغَرِيمِ. قال الحسن : كلّ غَرِيمٍ مفارق غَرِيمَهُ إلا النّار «1» ، وقیل : معناه : مشغوفا بإهلاكه .- ( غ ر م ) الغرم ( مفت کا تاوان یا جرمانہ ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت ( جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے غرم کذا غرما ومبغرما فلاں نے نقصان اٹھایا اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة 66]( کہ ہائے ) ہم مفت تاوان میں پھنس گئے ۔ فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم 46] کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة 98] . کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں ۔ اور غریم کا لفظ مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 60] اور قرضداروں ( کے قرض ادا کرنے ) کے لئے اور خدا کی راہ میں ۔ اور جو تکلیف یا مصیبت انسان کی پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان 65] کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے ۔ یہ ھو مغرم باالنساء ( وہ عورتوں کا دلدا وہ ہے ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ شخص جو غریم ( قرض خواہ ) کی طرح عورتوں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو ۔ حسن فرماتے ہیں کل غریم مفارق غریمۃ الاالنار یعنی ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن آگ اپنے غرماء کو نہیں چھوڑے گی ۔ بعض نے عذاب جہنم کو غرام کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ عذاب ان کا اسی طرح پیچھا کرے گا ۔ گویا وہ انہیں ہلاک کرنے پر شیفتہ ہے ۔- فرض - الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] ، أي : معلوما، فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38]- ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے ۔ اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

فقیر اور مسکین کسے کہتے ہیں ؟- قول باری ہے (انما الصدقات للفقراء والمساکین۔ یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں) تا آخر آیت۔ زہری کا قول ہے کہ فقیر وہ ہوتا ہے جو سوال کرے اور مسکین وہ ہوتا ہے جو سوال نہ کرے۔ ابن سماعہ نے امام ابو یوسف سے اور انہوں نے امام ابو حنیف سے فقیر اور مسکین کی شرعی تعریف میں اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مسکین کی حالت زیادہ کمزور ہوتی ہے اور فقیر کی بہ نسبت اس پر فقرو تنگدستی کا زیادہ دبائو ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، جابر بن زید، زہری اور مجاہد سے مروی ہے کہ فقیر اسے کہتے ہیں جو خود داری کی بنا پر دست سوال دراز کرنے سے پرہیز کرتا ہو اور مسکین وہ ہے دو دست سوال دراز کرتا ہو۔- اس طرح امام ابوحنیفہ کا قول ان حضرات سلف کے قول کے مطابق ہوگیا۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف، تعرفھم بسیماھم لایسئلون الناس الحافاً ۔ خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنے ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوشحال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں) اللہ تعالیٰ نے انہیں فقراء کے نام سے موسوم کیا اور ان کی یہ صفت بیان کی کہ ان میں خود داری ہوتی ہے جس کی بنا پر دست سوال دراز نہیں کرتے۔ قتادہ سے مروی ہے کہ فقیر وہ شخص ہے جو ہاتھ پائوں سے معذور ہو نیز حاجتمند ہو۔ اور مسکین وہ ہے جو ہاتھ پائوں کے لحاظ سے تندرست ہو۔ ایک قول کے مطابق فقیر اور مسکین دونوں کا مدلول ایک ہی ہے۔ لیکن اس مدلول کو دو صفات کے ساتھ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ صدقہ کے استحقاق میں اس کا معاملہ اور موکد ہوجائے۔ ہمارے شیخ ابو الحسن کرخی رحمہ الہل کہا کرتے تھے کہ مسکین وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہو اور فقیر وہ ہے جس کے پاس گزر اوقات کا کم سے کم وسیلہ موجود ہو۔ یہی بات ابو العباس (رض) سے بھی نقل کی جاتی ہے۔ ابو العباس نے کہا ہے کہ ایک شخص سے منقول ہے کہ اس نے ایک بدوی سے پوچھا۔ ” تم فقیر ہو “ ؟ جواب میں اس نے کہا۔ ” نہیں، میں مسکین ہوں۔ “ پھر اس نے ابن الاعرابی کا یہ شعر سنایا :- اما الفقیر الذی کانت حلویتہ وفق العیال فلم یترک لہ سبد - فقیر تو وہ شخص ہے جس کی دودھ دینے والی اونٹنی اتنا دودھ دے دے جو اس کے اہل و عیال کے لئے کافی ہو اور اس میں سے کچھ نہ بچے۔- شاعر نے اسے دودھ والی اونٹنی کا مالک ہونے کے باوجود فقیر کے نام سے موسوم کیا۔ محمد بن سلام الجمی نے یونس نحوی سے نقل کیا ہے کہ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس گزارے کا تھوڑا بہت سامان ہوتا ہے اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف) اس پر دلالت کرتا ہے کہ فقیر گزارے کے تھوڑے بہت سامان کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ناواقف آدمی صرف اسی صورت میں اسے غلطی سے غنی سمجھے گا جب وہ ظاہری طور پر ٹھیک ٹھاک ہوگا اور لباس وغیرہ بھی درست ہوگا یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ گزارے کے تھوڑے بہت سامان کی ملکیت اس سے فقر کی صفت کو سلب نہیں کرتی ہے۔ ابو الحسن کرخی مسکین کی تعریف کے سلسلے میں اپنے قول کے لئے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے استدلال کرتے تھے۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے (ان المسکین لیس بالطواف الذی تردہ التمرۃ والتمرتان والاکلۃ والاکلتان ولکن المسکین الذی لایجد مایفتیہ۔ مسکین وہ نہیں ہوتا جو بہت زیادہ پھیرے لگاتا ہو، جو ایک یا دو کھجور اور ایک یا دو لقمے لے کر واپس ہوجائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس گزر اوقات کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ ابو الحسن کہتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے جو ایک یا دو کھجور لے کر واپس ہوجائے۔ فقر و مسکنت کی انتہا کی نفی فرمادی اور اس فقر و مسکنت کی انتہا کو اس شخص کے لئے ثابت کردیا جس کے پاس کچھ نہ ہو اور پھر اسے مسکین کے نام سے موسوم کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ فقیر کی بہ نسبت مسکین کی حالت زیادہ ابتر ہوتی ہے۔ ابو الحسن کے قول کے مطابق اس مفہوم پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (اومسکینا ذا متربۃ یا خاک آلود مسکین) اس کی تفسیر میں ایک روایت ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو بھوک کے مارے زمین سے چپکا پڑا ہو، نیز اس کے تن من پر اتنا کپڑا بھی نہ ہو جو اس کے جسم کو خاک آلود ہونے سے بچا سکتا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ مسکین کے اندر انتہائی درجے کی تنگدستی اور حاجتمندی پائی جاتی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے (اما السفینۃ فکانت لما کین یعملون فی البحر رہ گئی کشتی تو وہ چند مساکین کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کشتی کی ملکیت ثابت کردی اور اس کے ساتھ انہیں مسکین کے نام سے بھی موسوم کردیا اس کے جواب میں کہا جائے گا ہ ایک روایت کے مطابق یہ لوگ مزدور تھے کشتی کے مالک نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کی ان لوگوں کی طرف اس لئے نسبت کردی کہ وہ اس میں تصرف کرتے اور کشتی ہی میں رہائش پذیر تھے جس طرح قول باری ہے (لاتدخلوا بیوت النبی۔ نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو) ایک اور جگہ ارشاد ہوا (وقرن فی بیوتکن اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گھروں کی اضافت کبھی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کردی اور کبھی ازواج مطہرات کی طرف، اب یہ بات تو واضح ہے کہ یہ گھر یا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت تھے یا ازواج مطہرات کے، کیونکہ ایک ہی حالت میں ان گھروں کی ملکیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ازواج مطہرات کے لئے ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک کی ان گھروں پر الگ الگ ملکیت کا ثبوت محال ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تصرف اور رہائش کی بنا پر یہ اضافت درست ہوگئی۔ جس طرح کہا جاتا ہے۔ ” ھذا منزل فلان “ (یہ فلاں کا گھر ہے) یہ فقرہ درست ہے خواہ وہ شخص اس کا مالک نہ بھی ہو لیکن اس میں رہائش رکھتا ہو۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ ” ھذا مسجد فلان “ (یہ فلاں کی مسجد ہے) حالانکہ مسجد پر اس کی ملکیت نہیں ہوتی۔ قول باری (اما السفینۃ فکانت لمساکین) بھی ان ہی معنوں پر محمول ہے۔- ایک قول کے مطابق فقیر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ضرورت مندی اور حاجت کی وجہ سے اس کی حالت اس شخص جیسی ہوتی ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو۔ کہا جاتا ہے (فقر الرجل فقراً “۔ (آدمی فقیر ہوگیا) ” افقرہ اللہ الفقالا “ (اللہ تعالیٰ نے اسے فقیر بنادیا) تفاقر تفاقراً (اس نے فقیری ظاہر کی) مسکین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حاجتمندی اسے ساکن کردیتی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ دوڑ دھوپ کرکے اپنی روزی کے لئے وسیلہ تلاش کرسکے۔ فقیر اور مسکین کے درمیان فرق کے سلسلے میں ابراہیم نخعی اور ضحاک سے منقول ہے کہ حضرات مہاجرین فقراء تھے اور غیر مہاجرین مساکین تھے۔ گویا ان دونوں حضرات نے قول باری (لفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم ان فقراء کے لئے جو مہاجر ہیں اور جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے) سے استنباط کیا ہے۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے۔ کہ فقیر وہ شخص ہے جو جسمانی طور پر کسی معذوری کا شکار ہو اور اسے محتاجی بھی لاحق ہو جبکہ مسکین وہ شخص ہے جسے محتاجی تو لاحق ہو لیکن جسمانی طور پر اسے کوئی معذوری نہ ہو۔- معمر نے ایوب سے، انہوں نے ابن سیرین سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ مسکین وہ شخص نہیں ہوتا جس کے پاس کوئی مال نہیں بلکہ مسکین وہ ہے جسے معاش کا کوئی وسیلہ میسر نہ ہو۔ اوپر جو روایات ہم نے نقل کی ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فقیر کی حالت مسکین کی بہ نسبت بہتر ہوتی ہے اور مسکین کی حالت فقیر کی بہ نسبت بدتر ہوتی ہے۔ امام ابو یوسف نے امام ابوحنیفہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میرا تہائی مال فقرا اور مساکین اور فلاں شخص کے لئے ہے “۔ تو اس کا تہائی مال اس شخص کو مل جائے گا اور دو تہائی مال فقراء اور مساکین کو دے دیا جائے گا۔ فقیر اور مسکین کے درمیان فرق کی نیز یہ کہ دونوں دو الگ صنف ہیں، کی جو روایت امام ابوحنیفہ (رح) سے منقول ہے۔ یہ روایت اس سے مطابقت رکھتی ہے اس مسئلے میں امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ فلاں شخص کو تہائی کا نصف مل جائے گا اور باقی نصف فقراء و مساکین کو دے دیا جائے گا۔ یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام ابو یوسف نے فقراء و مساکین کو ایک ہی صنف قرار دیا۔- عاملین کا مفہوم - قول باری ہے (والعاملین علیھا۔ اور ان کے لئے جو صدقات کی وصولی پر مامور ہوں) یہ وہ لوگ ہیں جو صدقات جمع کرنے میں مصروف ہوتے اور ان کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہیں ان کی دوڑ دھوپ اور کارکردگی کے بقدر دیا جائے گا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے بھی یہی روایت ہے ۔ ہمیں فقہاء کے مابین اس بارے میں کسی اختلاف رائے کا علم نہیں ہے کہ انہیں آٹھواں حصہ نہیں دیا جائے گا بلکہ انہیں ان کے عمل اور کارکردگی کے حساب سے دیا جائے گا۔ یہ امر ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ صدقات کے آٹھ حصے کئے جائیں گے یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ صدقات کی وصولی کا کام امام المسلمین کے ذمہ ہے نیز یہ کہ اگر مویشیوں کا مالک جانوروں کی زکوٰۃ فقراء کو دے دے گا تو اس کا یہ عمل زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ امام المسلمین اس سے دوبارہ زکوٰۃ وصول کرے گا۔ اور مالک نے جو کچھ ادا کردیا ہے اسے حساب میں شمار نہیں کرے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اموال کے مالکان کے لئے زکوٰۃ کی ادائیگی جائز ہوتی تو پھر زکوٰۃ کی وصولی کے لئے کسی شخص کے تقرر کی ضرورت نہ ہوتی جس کی بنا پر فقراء مساکین کو نقصان اٹھانا پڑتا۔ اس لئے یہ مراد اس پر دال ہے کہ صدقات کی وصولی کا کام امام المسلمین کرے گا اور مالک کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ وہ از خود زکوٰۃ کی رقم فقراء و مساکین میں تقسیم کردے۔- تالیف قلوب کن لوگوں کے لئے ہے ؟- قول باری ہے (والمولفۃ قلوبھم۔ اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب الطلوب ہو) یہ وہ لوگ تھے جنہیں مال دے کر اسلام کی طرف راغب کیا جاتا تھا اور ان کی تالیف قلب کی جاتی تھی۔ تالیف قلب کی تین صورتیں تھیں کافروں کی تالیف قلب اس طرح کی جاتی کہ انہیں مال دے کر مسلمانوں کو ان کی جارحیت اور ایذا رسانی سے محفوظ کرلیا جاتا نیز دوسرے مشرکین کے مقابلہ کے لئے ان سے کام لیا جاتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ کافروں اور مشرکوں کو مال دے کر انہیں اسلام کی طرف راغب کیا جاتا اور ان کے دلوں کو اس طرح مائل کیا جاتا۔ نیز یہ مقصد بھی ہوتا کہ ان کے قبیلوں میں جو لوگ مسلمان ہوچکے ہوں انہیں یہ تنگ نہ کریں اور اسلام پر برقرار رہنے دیں۔ وغیر ذلک تیسری صورت یہ تھی کہ جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوتے انہیں مال دے کر اسلام پر ثابت قدم رکھنے کی تدبیر کی جاتی تاکہ یہ لوگ دوبارہ کفر کی طرف نہ پلٹ جائیں۔- سفیان ثوری نے اپنے والد سے، انہوں نے ابو نعیم سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سونے کی ایک ڈلی روانہ کی جو سلم (کیکر کی طرح کا ایک درخت) کی پتیوں سے کمائے ہوئے چمڑے میں ملفوف تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ڈلی زید الخیر، اقرع بن حابس، عینیہ بن حصن انفراری اور علقمہ بن علاشہ کے درمیان تقسیم کردی۔ اس پر قریش اور انصار مدینہ کو طیش آگیا، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اہل نجد کے ان سرداروں کو دینے دلانے کی کیا ضرورت تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : میں نے ان کی تالیف قلب کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے۔ “- ابن ابی الذئب نے زہری سے، انہوں نے عامر بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں ایک شخص کو مال دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے، میں یہ قدم صرف اس لئے اٹھاتا ہوں کہ مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ سے اوندھے منہ جہنم میں نہ گرادے۔ “- عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے زہری سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت انصار میں سے کچھ لوگوں نے حسنین کے معرکہ کے اختتام پر یہ دیکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے بعض لوگوں کو فی کس سو اونٹ کے حساب سے دے رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں گفتگو کی۔ آپ نے جواب میں فرمایا : ” میں ان لوگوں کو دے رہا ہوں جو ابھی ابھی کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں دراصل میں ان کی تالیف قلب کررہا ہوں اور میں نے ان کی مدارات کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے۔ کیا تمہیں اس بات کی خوشی نہیں ہے کہ لوگ تو مال و دولت لے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے رسول (ﷺ) کو لے کر اپنے آدمیوں کی طرف لوٹ جائو۔ “ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں میں سے ایک گروہ کو تالیف قلب کی خاطر مال دیا تھا ناکہ یہ لوگ دوبارہ کفر کی طرف نہ لوٹ جائیں۔- زہری نے سعید بن المسیب سے، انہوں نے صفوان بن امیہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ” مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال عطا کیا حالانکہ آپ کی ذات کے خلاف میرے دل میں انتہائی بغض تھا، آپ مجھے اسی طرح مال دیتے رہے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میرے لئے محبوب ترین ذات بن گئی۔ محمود بن لبید نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معرکہ حنین میں بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے نومسلموں اور عرب کے دوسرے سرداروں کو اس میں سے جتنا دینا چاہا دے دیا تو انصار مدینہ نے اس بات کو برا منایا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر ہوا، آپ ؐ نے حضرات انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ” اے گروہ انصار کیا تم نے اپنے دل میں اس بات سے برا منایا ہے کہ میں نے کچھ لوگوں کو اسلام لانے کی ترغیب دینے کی خاطر دنیا کا کچھ تھوڑا سا مال دے دیا ہے جب کہ میں نے تمہارے حوالے اسلام کی وہ دولت کردی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارا مقرم بنادیا ہے۔ “ اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس مقصد کے تحت تالیف قلب یک تھی کہ وہ داخل اسلام ہوجائیں جبکہ پہلی روایت کے مطابق نو مسلموں کی تالیف قلب کی گئی تھی۔ تاکہ وہ دوبارہ کفر کی طرف واپس نہ ہوجائیں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کافروں اور مسلمانوں دونوں کی تالیف قلب کرتے تھے۔- مولفۃ القلوب کے بارے میں ائمہ کی آراء - مؤلفۃ القلوب کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کی ضرورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اسلام کے ابتدائی دور میں تھی جب مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت اور غلبہ عطا کردیا ہے۔ اب انہیں کافروں کی تالیف قلب کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اگر انہیں اس کی ضرورت پیش آئے گی تو صرف اس بنا پر آئے گی کہ وہ فریضہ جہاد کو ترک کرچکے ہوں گے لیکن جس وقت مسلمان آپس میں اتحاد قائم کرلیں گے اور ایک دوسرے کا سہارا بن جائیں گے تو پھر انہیں مسلمانوں کا مال کافروں کو دے کر ان کی تالیف قلب کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔- سلف کی ایک جماعت سے ہمارے اصحاب کے قول کی طرح قول منقول ہے۔ عبدالرحمن بن محمد المحاربی نے حجاج بن دینار سے، انہوں نے ابن سیرین سے اور انہوں نے عبیدہ سے کہ عینیہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آکر کہنے لگے : ” اے خلیفہ رسول ہمارے قریب ایک کلر زمین ہے نہ اس میں کوئی گھاس اگتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے اگر آپ ہمیں وہ زمین دے دیتے تو بہتر ہوتا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے وہ زمین انہیں دے دی اور ایک دستاویز بھی لکھ دی اور گواہیاں بھی درج ہوگئیں لیکن حضرت عمر (رض) کی گواہی نہیں تھی اس لئے یہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچے تاکہ وہ بھی اپنی گواہی درج کردیں۔ جب حضرت عمر (رض) کو پتہ چلا تو آپ نے وہ دستاویز ان دونوں کے ہاتھوں سے لے کر لعاب کے ذریعے اس کی تحریر مٹادی۔ یہ دیکھ کر ان دونوں کو بڑا غصہ آیا اور غصے میں انہوں نے کچھ سخڈت کلمات بھی کہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم دونوں کی تالیف قلب کرتے تھے۔ اس وقت اسلام کمزور تھا اور اہل اسلام کی تعداد بھی تھوڑی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مستغنی کردیا ہے اس لئے تم دونوں جائو اور دوسروں کی طرح کسب معاش کی مقدور بھر کوشش کرو۔ اگر تم نے چوراہوں کا کام کیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں عزت کے مقام سے نہیں گرائے گا۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) کے اس اقدام پر انہیں نہیں ٹوکا کہ خلیفہ کی طرف سے حکم جاری ہونے کے بعد انہوں نے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے جب حضرت ابوبکر (رض) کو اس بات کی طرف توجہ دلائی تو وہ اس بارے میں حضرت عمر (رض) کے مسلک سے آگاہ ہوگئے اور ان کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ مولفۃ القلوب کا ح صہ صرف اس وقت تک نکالا جاتا تھا جب تک اسلام کمزور تھا اور اہل اسلام کی تعداد کم اور کافروں کی تعداد زیادہ تھی، نیز یہ کہ حضرت ابوبکر (رض) کو اس معاملہ میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نظر نہیں آئی۔ اس لئے کہ اگر یہاں اجتہاد کی گنجائش ہوتی تو آپ اس حکم کے فسخ کی ہرگز اجازت نہ دیتے جسے آپ نے جاری کردیا تھا۔ لیکن جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت عمر (رض) کی طرف سے توجہ دلانے کی بنا پر آپ اس حقیقت سے آگاہ ہوگئے کہ اس جیسے معاملے میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔- اسرائیل نے جابر سے اور انہوں نے ابو جعفر سے روایت کی کہ اب ایسے لوگ باقی نہیں رہے جن کی تالیف قلب کی ضرورت پیش آئے۔ اسرائیل نے جابر بن عامر سے بھی مولفۃ القلوب کے متعلق روایت نقل کی ہے۔ جابر کا کہنا ہے کہ مولفۃ القلوب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھے جب حضرت ابوبکر (رض) خلیفہ بن گئے تو اس سلسلے میں مال خرچ کرنا ختم کردیا گیا۔ ابن ابی زائدہ نے مبارک سے انہوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ اب مولفۃ القلوب کا وجود نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ان کا وجود تھا۔- معقل بن عبید اللہ کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے مولفۃ القلوب کے متعق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ یہود یا نصاریٰ میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں وہ مولفۃ القلوب ہیں، میں نے پھر پوچھا۔ ” خواہ وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں ؟ “ حسن نے جواب کہا : ” خواہ وہ مالدار کیوں نہ ہو ؟ “- گردنیں آزاد کرنا - قول باری ہے (وفی الرقاب۔ نیز گردنوں کے چھڑانے میں) اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر اور محمد بن سیرین کا قول ہے کہ کسی غلام کا زکوٰۃ کے پیسوں سے آزاد ہونا جائز نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے : ” اپنی زکوٰۃ میں سے غلام آزاد کردو “ سعید بن جبیر زکوٰۃ میں سے غلام آزاد نہیں کرتے تھے۔ انہیں خوف تھا کہ کہیں آزاد ہونے والا ان کی ولاء کو کھینچ کر کسی اور تک نہ پہنچا دے۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ زکوٰۃ کے مال سے غلام خریدے جاسکتے ہیں اور انہیں آزاد کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ان کی ولاء آزاد کرنے والوں کے لئے نہیں ہوگی بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہوگی۔ امام مالک اور اوزاعی کا قول ہے کہ مکاتب کو زکوٰۃ کے پیسوں میں سے کچھ نہیں دیا جائے گاا۔ اسی طرح پیسے کسی غلام کو نہیں دیے جائیں گے خواہ اس کا آقا تنگدست ہو یا خوش حال۔ اس طرح کفارات کے اندر بھی ان پیسوں سے آزاد کرنے کے لئے غلام نہیں خریدے جائیں گے ۔ امام مالک (رح) نے مزید فرمایا ہے کہ زکوٰۃ کے مال میں سے صرف مومن غلام آزاد کیا جاسکتا ہے۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں سلف کے مابین مکاتب کو زکوٰۃ کے مال میں سے دینے کے جواز میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں مکاتب کو دینا مراد ہے اور جو شخص اپنے صدقہ یعنی زکوٰۃ کی رقم اسے دے دے گا اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (انما الصدقات للفقراء) تا قول باری (وفی الرقاب) غلام آزاد کنا صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح غلام کی قیمت میں دی ہوئی رقم بھی صدقہ نہیں ہے اس لئے کہ غلام کے فروخت کنندہ نے اس رقم کو اپنے غلام کی قیمت کے طور پر لیا تھا۔ اس لئے غلام آزاد کرنے میں صدقہ کا مفہوم نہیں پایا گیا اس لئے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے تو صدقات کو رقاب یعنی غلاموں میں رکھا ہے۔ اس لئے جو چیز صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں ہوگی اس کے ذریعے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ نیز زکوٰۃ تملیک کی مقتضی ہے اور غلام آزادی کی وجہ سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوا البتہ ایک چیز یعنی آقا کی ملکیت اس کی گردن سے ساقط ہوگئی۔ اس سے غلام کو اپنی ملکیت حاصل نہیں ہوئی۔ اگر اسے اپنی ملکیت حاصل ہوجاتی تو پھر ضروری ہوتا کہ وہ اپنی گردن یعنی ذات کے اندر تصرف کرنے میں آقا کے قائم مقام ہوجاتا اور جس طرح آقا اس کی گردن میں تصرف کرتا ہے اسی طرح وہ بھی تصرف کرسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آزادی کی بنا پر غلام کو جو چیز حاصل ہوئی وہ آقا کی ملکیت کا سقوط ہے اس کی وجہ سے وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوا۔ اس لئے یہ جائز نہیں کہ غلام کی آزادی زکوٰۃ کی ادائیگی کی کفایت کر جائے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہوجائے اس لئے کہ زکوٰۃ اور صدقہ کی شرط یہ ہے کہ جس پر صدقہ کیا گیا ہے اس کی ملکیت اس صدقہ پر واقع ہوجائے۔ نیز غلام کی آزادی آقا کی ملکیت میں واقع ہوئی ہے اور یہ کسی غیر کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی اسی بنا پر ولاء کا ثبوت بھی اس کے لئے ہوگا اس لئے صدقہ کے مال میں سے آزادی اک واقع ہونا جائز نہیں ہوگا۔- چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت ثابت ہوچکی ہے کہ (الولاء لمن اعتق۔ ولاء اس کے لئے ہے جس نے آزادی دی ہے) اس لئے یہ ضروری ہے کہ آزادی دینے کے والے کے سوا ولاء کسی اور کے لئے ثابت نہ ہو۔ جب یہ بات منتفی ہوگئی کہ ولاء آزادی دینے والے کے سوا کسی اور کے لئے ثابت ہوجائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگیء کہ رقاب سے مکاتب مراد ہیں۔ نیز عبدالرحمن بن سہل بن حنیف نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من اعان مکاتبا فی رقبتہ اوغاز یافی عسرتہ اومجاھداً فی سبیل اللہ اظلہ اللہ فی ظلہ یوم لاظل الاظلہ جس شخص نے کسی مکاتب کی گردن چھڑانے میں یا کسی غازی کی تنگدستی دور کرنے میں یا کسی مجاہد فی سبیل اللہ کی اعانت کی۔ اللہ تعالیٰ اس دن اسے اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مکاتب غلاموں کو اس مقصد کے تحت مال زکوٰۃ دینا کہ آزادی حاصل کرنے میں ان کی اعانت ہوجائے۔ قول باری (وفی الرقاب) کے مفہوم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔- طلحۃ الیمانی نے عبدالرحمن بن عوسجہ سے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ ایک بدوی ن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے ایسی کوئی بات سکھا دیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اگرچہ اپنا بیان مدعا بہت مختصر رکھا ہے تاہم اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں کامیاب رہے ہو۔ سنو، جان کو آزاد کرو اور گردن چھڑائو۔ “ سائل نے استفسار کیا : ” آیا یہ دونوں باتیں یکساں نہیں ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : نہیں، جان کی آزادی یہ ہے کہ تم کسی کی غلامی سے آزدی دلادو۔ اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ تم اس کی گردن یعنی غلام کی قیمت کی ادائیگی میں مدد کردو۔ منحہ یہ ہے کہ کسی کو سواری کے لئے اپنا جانور دے دو ، اپنے ظالم رشتہ دار کو بھی فی میں شریک کرو۔ اگر تم ان امور کی طاقت نہیں رکھتے ہو تو بھوکے کو کھانا کھلادو، پیاسے کو پانی پلادو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ اگر تمہیں اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو پھر اپنی زبان بند رکھو اور صرف خیر یعنی اچھی بات کے لئے اسے کھولو۔ “ اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جان کی آزادی کو گردن چھڑانے سے الگ چیز قرار دیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمادیا۔- (وفی الرقاب) تو بہتر مفہوم یہ ہے کہ گردن کی مدد میں زکوٰۃ خرچ کی جائے یعنی مکاتب کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے آقا کو رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرلے۔ آیت کا یہ مفہوم لینا درست نہیں کہ اس سے مراد غلام خرید کرکے اسے آزاد کردیا جائے۔ اس لئے کہ اس صورت میں فروخت کنندہ جو رقم لے گا وہ غلام کی قیمت کے طور پر لے گا اس میں تقرب الٰہی اور عبادت کا کوئی پہلو نہیں ہوگا۔ بلکہ عبادت اور تقرب الٰہی کی صورت یہ ہوگی کہ خود غلام کو زکوٰۃ کی رقم دے دی جائے تاکہ وہ اس رقم کی مدد سے اپنی گردن آزاد کرالے۔ یہ صورت صرف مکاتب غلام کے اندر ممکن ہے۔- اس لئے کہ کتابت سے پہلے اگر غلام کو زکوٰۃ کی رقم دی جائے گی وہ رقم آقا کی ملکیت میں چلی جائے گی۔ لیکن جب غلام مکاتب ہوگا تو اس صورت میں مکاتب کی حاصل کردہ رقم آقا کی ملکیت میں نہیں جائے گی بلکہ مکاتب کی ملکیت میں رہے گی اس لئے زکوٰۃ کے مال میں سے اسے دے دینا جائز ہوجائے گا اور اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوجائے گی۔ نیز گردن آزاد کردینا تملیک کے بغیر اس کی گردن سے آقا کے حق کو ساقط کردیتا ہے اور پھر تملیک کے لئے اسے آقا کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جس نے کسی شخص کا قرض اس کے حکم کے بغیر ادا کردیا ہو۔ اس لئے قرض میں دی ہوئی رقم اگر زکوٰۃ کی رقم ہوگی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ اگر وہ شخص مقروض کو زکوٰۃ کی رقم حوالے کردے اور پھر خود مقروض اس رقم سے اپنا قرض اتاردے تو اس صورت میں اس شخص کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی زکوٰۃ کی رقم مکاتب کے حوالے کرکے اسے اس کا مالک بنادے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر اس نے غلام آزاد کردیا ہو تو اس صورت میں اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی اس لئے کہ غلام نہ تو اس آزادی کا ملک ہوا، نہ اس نے اسے قبول کیا اور نہ ہی اس نے اس کی اجازت دی، ان باتوں کے بغیر ہی اسے آزادی مل گئی۔- قرض داروں کی مدد زکوٰۃ سے کرنا - قول باری ہے (والغارمین اور قرضداروں کی مدد کرنے میں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ان سے مقروض مراد ہیں اور اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ ایک شخص جب اپنے قرض کی رقم سے زائد دو سو درہم کا مالک نہیں ہوگا وہ فقیر ہوگا اور زکوٰۃ اس کے لئے حلال ہوجائے گی۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (امرت ان اٰخذھا من اغنیائکم واردھا علی فقرائکم مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مالداروں سے زکوٰۃ لے کر تمہارے فقراء کو دے دوں) ہمیں آیت اور حدیث دونوں کے مجموعی مفہوم سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مقروض فقیر ہوتا ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (واردھا علی قراء کم) کے بموجب زکوٰۃ صرف فقراء کو دی جاتی ہے۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جب ایک شخص پر اس قدر قرض ہو کہ اس کا سارا مال اس کے لپیٹ میں آگیا ہو تو خواہ اس کے پاس بہت زیادہ مال کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ ایسا شخص شرعی لحاظ سے فقیر ہوگا اور زکوٰۃ لینا اسے جائز ہوگا۔- آیت چند قسم کے قرضداروں کے ساتھ خاص ہے اور چند قسمیں اس سے خارج ہیں وہ اس طرح کہ اگر ایک شخص کے پاس ہزار درہم ہوں اور اس پر سو درہم کا قرضہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے لئے زکوٰۃ لینا حلال نہیں ہوگا اور اگر کوئی شخص اسے اپنی زکوٰۃ دے دے تو اس کی ادائیگی نہیں ہوگی اگرچہ سو درہم کے قرہ کی بنا پر وہ عزیم یعنی قرضدار کہلاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عزیم سے مراد ایسا قرضدار ہے جس کے پاس قرض ادا کرنے کے بعد دو سو درہم یا اس کے مساوی مقدار کا مال باقی نہ بچے۔ اس شخص کے پاس جو رقم ہے اسے ایسا مال قرار دیا جائے گا جس پر قرضخواہ کا استحقاق ہوگیا ہے اور اس سے زائد جو رقم ہوگی اس کے لحاظ سے اسے غیر مقروض قرار دیا جائے گا۔- اللہ تعالیٰ نے قرضداروں کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال کردیا ہے اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ قرضدار اگر تندرست و توانا اور کمائو ہو پھر بھی زکوٰۃ اس کے لئے حلال ہوگی۔ اس لئے کہ آیت میں کمائو قرضدار اور کمائی کرنے سے عاجز قرضدار کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جس شخص نے دس ہزار درہم کی ضمانت کا بوجھ اپنے ذمہ لے لیا ہو اور اس کے پاس سو ہزار یعنی ایک لاکھ درہم ہو تو ایسے شخص کے لئے زکوٰۃ لینا حلال ہوگا۔ اور اگر اس پر قرض ہو لیکن ضمانت نہ ہو تو اس صورت میں اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہوگی۔- امام شافعی نے اس سلسلے میں حضرت قبیصہ بن المخارق (رض) کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے ایک ضمانت کا بوجھ اپنے ذمہ لے لیا تھا اور اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دست سوال دراز کیا تھا اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا تھا : ” صرف تین قسم کے انسانوں کے لئے سوال کرنا حلال ہوتا ہے ایک وہ شخص جس نے کسی ضمانت کا بوجھ اپنے ذمہ لے لیا ہو وہ اس کی ادائیگی کے لئے دست سوال دراز کرسکتا ہے دوسراوہ شخص جس کے مال کو کسی آسمانی مصیبت نے تباہ کردیا ہو وہ اپنے گزارے کے لئے دست سوال دراز کرسکتا ہے اور تیسرا وہ شخص جسے تنگدستی اور فاقہ نے آگھیرا ہو یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی بھی اس کی اس تنگدستی اور فاقہ مستی کی گواہی دیں۔ ایس شخص کے لئے دست سوال دراز کرنا حلال ہوتا ہے تاکہ گزارے کی صورت نکل آئے اور اس کے بعد پھر وہ سوال کرنے سے رک جائے گا۔ ان تین افراد کے ماسوا جو بھی دست سوال دراز کرے گا وہ حرام مال حاصل کرے گا۔ “ اب یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ حمالہ یعنی ضمانت کی ذمہ داری اور قرض کی تمام صورتیں یکساں ہیں اس لئے کہ حمالہ یعنی ضمانت اور کفالت دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ جمیل یعنی ضامن اور کفیل دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمیل کو کفالت کے دین کی بنا پر سوال کرنے کی اجازت دے دی جبکہ آپ کو کفالت کے دین اور دوسرے تمام ولیون کی یکسانیت کا علم تھا تو اب ان کے مابین کوئی فرق نہیں رہا۔ اس لئے حمالہ کی بنا پر سوال کرنے کی اباحت کو اس پر محمول کیا جائے ا کہ حمیل اس کی ادائیگی کی قدرت نہیں رکھتا تھا اور اس پر عائد ہونے والی رقم اس مال کے بالمقابل ہوگی۔ جو اس کی ملکیت میں ہے جیسا کہ قرض کی دیگر تمام صورتوں میں ہمارا مسلک ہے۔- اسرائیل نے جابر بن ابی جعفر سے قول باری (والغارمین) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس سے مراد وہ مقروض ہے جس کے اوپر قرض کا بوجھ آپڑا ہو جبکہ اس نے کوئی فضول خرچی بھی نہ کی ہو، امام المسلمین کی ذمہ داری ہے کہ اس کا قرض ادا کردے۔ سعید نے قول باری (والغارمین) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے ایسے لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنی طرف سے نہ کوئی فضول خرچی کی ہو اور نہ ہی اپنا مال ضائع کیا ہو لیکن اس کے باوجود ان پر قرض کا بوجھ آپڑا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے زکوٰۃ کے مال میں ایک حصہ رکھ دیا ہے۔ ان حضرات نے قرض کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ فضول خرچی کرنے نیز مال اڑانے اور ضائع کرنے کے بغیر ہی قرض کا بوجھ آپڑا ہو تو زکوٰۃ کے مال میں سے ایسے شخص کا قرض ادا کردیا جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا مقروض اگر فضول خرچ اور مال اڑانے والا ہوگا تو قرض ادا ہونے کے بعد اس کی طرف سے یہ کھٹکا باقی رہے گا کہ کہیں دوبارہ قرض لے کر پیسے اڑانے میں نہ لگ جائے۔- ایسے شخص کے قرض کی زکوٰۃ کے مال سے ادائیگی کو ان حضرات نے مکروہ سمجھا ہے تاکہ وہ اس ادائیگی کو اسراف اور ضیاع کا ذریعہ نہ بنالے۔ تاہم ایسے شخص کے قرض کی زکوٰۃ کے مال سے ادائیگی کے جواز میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اسی طرح اسے زکوٰۃ دینے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ۔ ان حضرات نے ایسے شخص کے قرض کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ کا مال دینے کے سلسلے میں فضول خرچی نہ کرنے اور مال نہ اڑانے کا جو ذکر کیا ہے وہ کراہت پر مبنی ہے ایجاب پر مبنی نہیں ہے۔- عبید اللہ بن موسیٰ نے عثمان بن الاسود سے اور انہوں نے مجاہد سے قول باری (والغارمین) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ غارم وہ شخص ہے جس کے مال مویشی کو سیلاب بہاکر لے گیا ہو یا آگ لگنے کی بنا پر اس کا مال ضائع ہوگیا ہو یا کوئی عیال دار شخص ہو جس کے پاس اپنے عیال کا خرچ چلانے کے لئے کچھ نہ ہو اور پھر وہ مجبور ہوکر قرض لے لے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس شخص کا مال ضائع ہوگیا ہو لیکن اس پر قرض کی کوئی رقم نہ ہو تو ایسا شخص عزیم نہیں کہلائے گا اس لئے عزم، لزوم اور مطالبہ کو کہتے ہیں اس بنا پر جس شخص کو کوئی قرم لازم ہوگیا ہو وہ عزیم کہلائے گا اسی طرح جس شخص کا کسی کے ذمہ قرض ہو وہ بھی عزیم کہلائے گا اس لئے کہ اسے اپنے مقروض کا پیچھا کرنے اور اس سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا حق ہے لیکن جس شخص کا مال ضائع ہوگیا ہو وہ عزیم نہیں ہوگا ایسے شخص کو فقیر یا مسکین کہا جائے گا۔- روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہ اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” انسان جب قرض کے چکر میں پھنس جاتا ہے تو بات کرنے میں جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتا ہے۔ “ آپ کی اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی انسان پر قرض کی رقم لازم ہوجاتی ہے تو وہ یہ حرکتیں کرتا ہے درج بالا سطور میں مجاہد کے جس قول کا حوالہ دیا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ مجاہدنے اس سے ایسا شخص مراد لیا ہو جس کا مال ضائع ہوگیا ہو اور اس پر قرض بھی ہو۔ اس لئے کہ جب اس شخص کے پاس مال ہو اور اس پر اس کے مال کی مقدار سے دو سو درہم کم قرض ہو تو ایسا شخص آیت میں مراد غارم نہیں ہوگا۔- امام ابو یوسف نے عبداللہ بن ابی سعیط سے، انہوں نے ابوبکر الحنفی سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (ان المسئلۃ لاتحل ولاتصلح الا لاحد ثلاثۃ لذی فقر مدقع اولذی غرم مقظع اولذی دم موجع۔ سوال کرنا صرف تین قسم کے انسانوں کے لئے حلال اور درست ہوتا ہے۔ ایسے تنگدست اور فقیر کے لئے جس کے فقر و فاقہ نے اسے زمین پر گرا رکھا ہو یا ایسے مقروض کے لئے جو اپنے قرض کے ہاتھوں ذلیل ہوچکا ہو یا ایسے شخص کے لئے جس پر خون کی دیت کا تکلیف دہ بوجھ آپڑا ہو) یہ بات واضح ہے کہ آپ نے عزم سے دین یعنی قرض مراد لیا ہے۔- زکوٰۃ، راہ خدا میں - قول باری ہے (وفی سبیل اللہ، اور راہ خدا میں) ابن ابی لیلیٰ نے عطیہ العوفی سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لاتحل الصدقۃ لغنی الافی سبیل اللہ اوابن السبیل اور جل لہ جار مسکین تصدق علیہ فاھدی لہ، کسی مالدار کے لئے تین صورتوں کے سوا زکوٰۃ حلال نہیں ہے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی راہ میں نکلا ہو، دوم یہ کہ وہ مسافر ہو اور سوم یہ کہ اس کا کئی مسکین پڑوسی ہو جسے بطور زکوٰۃ کوئی چیز دی گئی ہو اور وہ تحفہ کے طور پر یہ چیز اپنے امیر پڑوسی کو بھیج دے) اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے اس سے مراد اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہیں خواہ وہ مالدار ہوں یا فقیر۔ امام شافعی کا یہی قول ہے تاہم انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ مجاہدین میں جو لوگ فقراء ہوں گے انہیں زکوٰۃ کا مال دیا جائے گا۔ مالداروں کو نہیں دیا جائے گا تاہم اگر انہیں زکوٰۃ کا مال دے دیا گیا تو وہ اس کے مالک ہوجائیں گے اور زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی اگرچہ اس نے اسے اللہ کی راہ میں صرف نہیں کیا۔ اس لئے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط تملیک ہے جو اس صورت میں وقوع پذیر ہوجاتی ہے اس لئے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔- ایک روایت کے مطابق حضرت عمر (رض) نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا صدقہ کیا تھا اس کے بعد انہوں نے اسے فروخت ہوتا ہوا دیکھا اور اسے خرید لینے کا ارادہ کرلیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا (لا تعدفی صدقتک۔ اپنا صدقہ واپس نہ لو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو اس گھوڑے کی فروخت سے منع نہیں کیا جسے یہ گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لئے دیا گیا تھا اگر کوئی شخص زکوٰۃ کا گھوڑا حج پر جانے والے کسی شخص کو سواری کے لئے دے دے جس کی سواری کا جانور ہلاک ہوگیا ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اللہ کی راہ میں اپنے مال کی وصیت کی۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ حج بھی فی سبیل اللہ کی ایک صورت ہے۔ یہ وصیت حج میں لگا دو ۔ محمد بن الحسن نے سیر کبیر میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے تہائی مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وصیت کرجائے تو حج پر جانے والے شخص کو جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہو یہ مال دے دینا جائز ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری (فی سبیل اللہ) سے مراد محمد کے نزدیک وہ حاجی مراد ہے جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (الحج والعمرۃ من سبیل اللہ حج اور عمرہ بھی اللہ کی راہ کے کام ہیں) امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ جو شخص تہائی مال کی اللہ کی راہ میں وصیت کرجائے تو اس کا یہ تہائی مال جہاد میں حصہ لینے والے فقراء کو دیا جائے گا۔- اگر یہ کہاجائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالدار مجاہدین کو زکوٰۃ لینے کی اجازت دے دی ہے چناچہ آپ کا ارشاد ہے (لاتحل لغنی الافی سبیل اللہ۔ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں ہوتی الا یہ کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کررہا ہو) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کبھی انسان اپنے اہل و عیال کے اندر اور اپنے شہر میں اس طرح غنی ہوتا ہے کہ اس کے پاس رہنے کے لئے مکان ہوتا ہے گھر کا اثاثہ ہوتا ہے۔ خدمت کے لئے نوکر اور سواری کے لئے گھوڑا ہوتا ہے۔ نیز اس کے پاس ضروریات سے زائد دو سو درہم کی رقم یا اس کی مساوی قیمت کا مال ہوتا ہے اس صورت میں اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہوتی۔ جب وہ اللہ کے راستے میں نکلنے کا عزم کرتا ہے تو اسے کفر کے لئے ضروری سامان نیز جنگ کے لئے ہتھیاروں اور دیگر چیزوں کی ضرورت پیش آجاتی ہے جن کی اقامت کی حالت میں ضرورت نہیں ہوتی۔ اس صورت میں اس شخص کے لئے زکوٰۃ جائز ہوجاتی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے شخص کے پاس اس کی ضروریات سے زائد جو مال ہو وہ کسی سواری یا ہتھیار یا ذرائع سفر کی کسی چیز کی صورت میں ہو جس کی شہر میں رہتے ہوئے اسے ضرورت نہ ہو اور پھر یہی چیز اس کے لئے زکوٰۃ کی حلت کو مانع بن گئی ہو جب کہ اس کی قیمت دو سو درہم یا اس سے زائد ہو۔ پھر جب یہ شخص جہاد پر نکلا ہو تو اسے اس چیز کی ضرورت پیش آگئی ہو جس کی بنا پر اسے زکوٰۃ کی رقم دے دینا جائز ہوگیا ہو حالانکہ وہ اس پہلو سے غنی اور مالدار شمار ہوتا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” زکوٰۃ مال دار غازی کے لئے حلال ہوتی ہے “ کا یہی مفہوم ہے۔ - ابن سبیل - قول باری ہے (وابن السبیل اور مسافر نوازی میں) یہ وہ مسافر ہے جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہو وہ زکوٰۃ کے مال میں سے لے سکتا ہے اگرچہ اس کے شہر میں اس کا اپنا مال موجود ہو۔ مجاہد، قتادہ اور ابو جعفر سے یہی روایت ہے۔ بعض متاخرین کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو سفر پر جانے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن اس کے پاس سواری اور زاد راہ نہ ہو۔ یہ قول درست نہیں ہے اس لئے کہ سبیل طریق یعنی راستے کو کہتے ہیں اس لئے جو شخص راستے میں نہیں ہوگا وہ ابن السبیل نہیں کہلائے گا۔ صرف عزم و ارادے کی بنا پر وہ ابن السبیل نہیں بن جائے گا جس طرح صرف ارادے کی بنا پر وہ مسافر نہیں بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا۔ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جائو جب تک کہ غسل نہ کرلو الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ مسافر ہے جسے پانی نہ ملے تو تیمم کرلے۔ اسی طرح ابن السبیل بھی مسافر ہوگا۔- جن اصناف کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ فقر کی بنا پر زکوٰۃ کی رقم وصول کرتے ہیں۔ مولفۃ القلوب اور صدقات کے کام پر مامور افراد یہ رقم زکوٰۃ کے طور پر وصول ہی کرتے بلکہ زکوٰۃ کی یہ رقم امام السلمین کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے تاکہ وہ اسے فقراء کے درمیان تقسیم کردے پھر امام مولفۃ القلوب کو اس میں سے اس غرض سے دیتا ہے کہ فقراء اور دیگر تمام اہل اسلام ان کی ایذا رسانی اور جارحیت سے محفوظ رہیں۔ امام المسلمین صدقات کے کام پر مامور افراد کو زکوٰۃ کی رقم ان کی خدمات کے معاوضہ کے طور پر دیتا ہے، انہیں زکوٰۃ کے طور پر نہیں دیتا۔ ہم نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (امرت ان اخذا لصدقۃ من اغنیاء کم داردھا فی فقراء کم۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کروں اور تمہارے فقراء میں اسے لوٹادوں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان کردیا کہ زکوٰۃ کا مصرف فقراء ہیں اور زکوٰۃ کی رقم ان پر خرچ ہوگی۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی شخص اس رقم کو زکوٰۃ کے طور پر صرف فقر کی بنا پر لے سکتا ہے اور جن اصناف کا آیت میں ذکر ہوا وہ صرف فقر کے اسباب کے بیان کے طور پر ہوا ہے۔- اس فقیر کا بیان جسے زکوٰۃ کی رقم جائز ہے - ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اہل علم کا مال کی اس مقدار کے بارے میں اختلاف رائے ہے جس کی ملکیت کی بنا پر ایک شخص دولت مندی کی حد میں داخل ہوجاتا اور فقر کی حد سے نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ حرام ہوجاتی ہے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ جب ایک شخص کے اہل خانہ کے پاس صبح و شام دو وقت گزارے کا سامان اور خوراک موجود ہو تو پھر اسے زکوٰۃ کی رقم لینا حرام ہوجاتا ہے اور جس شخص کے پاس اس سے کم مقدار کا سامان ہو وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے عبدالرحمن نے یزید بن جابر سے روایت کی ہے انہیں ربیعہ بن یزید نے ابو کبثہ سلولی سے ، انہیں سہل بن حنظلہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے (من سئال الناس عن ظھر غنی فانما یستکثر من جمرجھنم، جو شخص مال داری کی پشت پناہی کے ہوتے ہوئے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے وہ صرف جہنم کے زیادہ سے زیادہ انگارے اپنے لئے جمع کرتا ہے) حضرت سہل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” مالداری کی پشت پناہی کے کیا معنی ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا (ان یعلم ان عنداھلہ ما یغدیھم ویعشیھم۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مانگنے والے کو اس کا علم ہو کہ اس کے اہل خانہ کے پاس اتنا سامان اور خوراک موجود ہے جس سے وہ ان کے دو وقت طعام کا انتظام کرسکتا ہے۔- کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جب ایک شخص چالیس درہم کا مالک ہوجاتا ہے تو دولت مندی کی حد میں داخل ہوجاتا ہے یا اس کے پاس اتنی مقدار کا سونا ہو تو بھی وہ دولت مند شمار ہوگا۔ ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے امام مالک نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے۔ انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے بنی اسد کے ایک شخص سے، جو یہ کہتے ہیں کہ ” میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا، میں نے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص سے فرما رہے تھے (من سئال منکم وعبدہ اوقیۃ اوعدلھا فقد سئال الحاقاً ۔ تم میں سے جس شخص کے پاس ایک اوقیہ چاندی یا اس کے برابر سونا ہو اور پھر وہ سوال کرے تو گویا وہ پیچھے پڑ کر سوال کرنے والا کہلائے گا) اس زمانے میں ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا تھا۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ جب ایک شخص پچاس درہم یا اس کے برابر سونے کا مالک ہوجائے گا تو وہ غنی کہلائے گا۔ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے سفیان ثوری نے حکیم بن جبیر سے روایت کی ہے انہوں نے محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یسئل عبد مسئلۃ ولہ مایغنیہ الاجاء ت شینا اوکدوحاً اوخدوشاً فی وجھہ یوم القیامۃ۔ جب کوئی بندہ گزارے کے اسباب کا مالک ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرے گا تو اس کا یہی سوال قیامت کے دن یا اس کے چہرے کی بدنمائی کا سبب بن جائے گا یا خراشوں یا زخموں کی صورت اختیار کرلے گا) آپ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کے غنی یعنی گزارے کی کیا مقدار ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : پچاس درہم یا اس کے برابر سونا۔ “ حجاج نے حسن بن سعد سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم ہوں یا اس کے برابر سونا ہو اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہے۔ شعبی سے مروی ہے کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم ہوں وہ زکوٰۃ نہیں لے گا۔ اور ہم اسے زکوٰۃ میں سے پچاس درہم بھی نہیں دیں گے۔- دوسرے حضرات کے خیال میں ایک شخص غنی اس وقت شمار ہوگا جب اس کے پاس دو سو درہم یا اس کے برابر سامان وغیرہ ہوگا بشرطیکہ یہ سامان اس کی ضروریات مثلاً مکان ، نوکر چاکر، گھریلو استعمال کی اشیاء اور سواری کے گھوڑے وغیرہ سے زائد ہو۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی روایت ابو بر الحنفی نے کی ہے۔ انہیں عبداللہ بن جعفر نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں قبیلہ مزلینہ کے ایک شخص نے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (من سئال ولہ عدل مس اواق سئال الحاق جس شخص کے پاس پانچ اوقیہ چاندی کے مساوی مال موجود ہو اور پھر وہ دست سوال دراز کرے تو ایسا شخص پیچھے پڑ کر مانگنے والا شمار ہوگا) اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے لیث بن سعد نے روایت کی ہے انہیں سعید بن ابی المقبری نے شریک بن عبداللہ بن نمر سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ آیا اللہ نے آپ کو اس صدقہ کی وصولی کا حکم دیا ہے جسے آپ ہمارے دولت مندوں سے لے کر ہمارے فقراء پر تقسیم کردیں ؟ “ آپ نے جواب میں فرمایا : ” ہاں بیشک “۔ یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ابو معبد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو جب یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا : وہاں کے لوگوں کو یہ بتادینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کردی ہے جو ان کے مال داروں سے لے کر ان کے فقراء میں تقسیم کردی جائے گی۔ “- اشعث نے ابن ابی جحیفہ اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات جمع کرنے کے لئے ایک آدمی کو ساعی بناکر بھیجا۔ آپ نے اس شخص کو یہ حکم دیا کہ ہمارے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے ہمارے فقراء پر تقسیم کردے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے دو گروہ بادیئے، ایک فقراء کا گروہ اور دوسرا اعتیاء کا گروہ اور پھر اغنیاء کے گروہ سے زکوٰۃ کی وصولی اور فقراء میں اس کی تقسیم واجب کردی۔ تو اب ان دونوں گروہوں کے درمیان کوئی تیسرا گروہ واسطہ کے طور پر باقی نہیں رہا۔ جب اس شخص کو غنی شمار کیا گیا جو دو سو درہم کا مالک ہو اور اس سے کم مقدار کے مالک کو غنی شمار نہیں کیا گیا تو ضروری ہوگیا کہ دو سو درہم سے کم مقدار کا مالک فقراء کے گروہ میں شامل کیا جائے اور پھر اس کے لئے زکوٰۃ جائز ہوجائے۔ پھر جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص کے پاس دو وقت یعنی صبح و شام کی خوراک سے بھی کم مال ہو اس کے لئے زکوٰۃ حلال ہوجاتی ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کی اباحت اس ضرورت پر موقوف نہیں ہوتی جس کے پیش آنے پر مردار بھی جائز ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس مقدار کا اعتبار واجب ہوگیا جس کی بنا پر ایک شخص دولت مندی کی حد میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہ حد یہ ہے کہ انسان اپنی ضروریات زندگی سے زائد دو سو درہم یا اتنی ہی قیمت کے سازوسامان کا مالک ہو۔- رہ گئیں پچاس یا چالیس درہموں کی ملکیت کے متعلق روایات جن کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے تو درحقیقت ان روایات کا ورود دست سوال دراز کرنے کی کراہت کے سلسلے میں ہوا ہے۔ اس کی تحریم کے سلسلے میں نہیں ہوا ہے۔ دست سوال دراز کرتا تو اس شخص کے لئے بھی مکروہ سمجھا گیا ہے جس کے پاس ایک وقت کے گزارے کا سامان موجود ہو، خاص طور پر اس زمانے میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی تازہ بتازہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے۔ اس وقت مسلمانوں میں فقراء کی کثرت تھی اور مال و دولت کی بہت قلت تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کے لئے دست سوال دراز نہ کرنا پسند فرمایا تھا جس کے پاس گزارے کے لئے تھوڑا بہت سامان موجود تھا اس سے مقصد یہ تھا کہ اس شخص کی جگہ ایسا شخص سوال کرے جو اس سے بھی زیادہ بدحال ہو نیز جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ اس حکم کی مثال آپ کا یہ ارشاد ہے (من استغنی اغناہ اللہ ومن استعف اعفہ اللہ ومن لا یسئلنا احب الینا ممن یسئلنا۔ جو شخص استغناء اختیار کرے گا اللہ اسے مستغنی کردے گا۔ جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ اسے سوال سے بچالے گا جو شخص ہم سے سوال نہیں کرتا وہ ہمیں اس شخص کی بہ نسبت زیادہ پسند ہے جو ہم سے سوال کرتا ہے) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (لان یا خذاحدکم خبلاً فیحتطب خیرلہ من ان یسئال الناس اعطوہ اومنعوہ۔ تم میں سے کوئی شخص رسی لے کر جنگل میں چلا جائے اور وہاں سے ایندھن کی لکڑی باندھ کرلے آئے یہ اس کے لئے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بہتر ہے، اس صورت میں لوگوں کی مرضی ہوگی چاہے تو اسے کچھ دے دیں اور چاہے کچھ نہ دیں۔ فاطمہ بنت الحسین نے حضرت حسین (رض) بن علی سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللسائل حق مان جاء علی فرس سائل کا حق ہوتا ہے خواہ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر کیوں نہ آیا ہو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کو دینے کا حکم دیا خواہ اس کی ملکیت میں ایک گھوڑا کیوں نہ ہو، گھوڑا اکثر احوال میں چالیس یا پچاس درہم سے زیادہ مالیت کا ہوتا ہے۔- یحییٰ بن آدم نے روایت بیان کی ہے، انہیں علی بن ہاشم نے ابراہیم بن یزید المکی سے، انہوں نے الولید بن عبید اللہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کہ میرے پاس چالیس درہم ہیں۔ آیا میں مسکین ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں یعقوب بن یوسف نے ، انہیں ابو موسیٰ الہروی ن، انہیں المعافی نے، انہیں ابراہیم بن یزید الجزری نے، انہیں الولید بن عبداللہ بن ابی مغیث نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول میرے پاس چالیس درہم ہیں۔ آیا میں مسکین ہوں ؟ “ آپ نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مسکین کے نام سے موسوم کرکے گویا اس کے لئے زکوٰۃ کی اباحت کردی حالانکہ وہ چالیس درہموں کا مالک تھا۔ زکوٰۃ کی اباحت اس لئے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ مساکین کے لئے مخصوص کردی ہے۔- امام ابو یوسف نے غالب بن عبید اللہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حسن سے وہ کہتے ہیں کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں ایسے لوگ بھی تھے جو زکوٰۃ لے لیا کرتے تھے حالانکہ خود اتنی اراضی، گھوڑوں اور سازو سامان نیز ہتھیاروں کے مالک ہوتے جن کی مجموعی قیمت دس ہزار درہم تک پہنچ جاتی تھی۔ “ اعمش نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام ایسے لوگوں کو زکوٰۃ لینے سے نہیں روکتے تھے جن کے پاس اپنا مکان ہوتا نیز نوکر چاکر ہوتے۔ شعبہ نے قتادہ سے اور انہوں نے حسن سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا : ” جس شخص کے پاس مسکن یعنی گھر ہو نیز خدمت گار بھی ہو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ “ جعفر بن ابی المغیرہ نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جس کے پاس مکان، نوکر، گھوڑا اور ہتھیار ہو۔ ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جس کے پاس اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو اسے ان کی ضرورت پڑجائے۔ اس مسئلے میں ایک اور پہلو سے بھی اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ جو شخص تندرست و توانا اور کسب معاش کے قابل ہوگا اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہوگی خواہ اس کی ملکیت میں کوئی بھی شے نہ ہو۔- ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے ابوبکر بن عیاش نے ابو حصین سے روایت کی ہے انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لاتعل الصدقۃ لغنی ولا لذی مرۃ سوی۔ صدقہ کسی مالدار کے لئے حلال نہیں ہے اور نہ ہی ایسے شخص کے لئے جو تندرست و توانا ہو) ابوبکر بن عیاش نے ابو جعفر سے، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہی روایت کی ہے۔ سعد بن ابراہیم نے ریحان بن یزید سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لاتحل الصدقۃ لغنی ولا تقوی مکتسب۔ صدقہ مال دار کے لئے حلال نہیں ہے اور نہ ہی ایسے شخص کے لئے جو قویٰ اور کمانے کے قابل ہو) یہ تمام روایتیں ہمارے نزدیک کراہت پر محمول ہیں۔ تحریم پر محمول نہیں ہیں جس طرح ہم سوال کرنے کے مسئلہ میں بیان کر آئے ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (لاتحل الصدقۃ لغنی) غنی پر صدقہ کی تحریم اور اسے زکوٰۃ کا مال دینے کے امتناع پر محمول ہے اسی طرح آپ کا ارشاد (ولا لقوی مکتسب) بھی تحریم پر محمول ہوگا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے غنی سے ایسا شخص مراد لیا ہو جس کے پاس گزارے کا اتنا سامان ہو جس کی وجہ سے اسے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پڑتی ہو اور اس کی مقدار دو سو درہم سے کم مالیت کی رقم اور سازو سامان ہے۔ اس سے وہ غنی مراد نہ ہو جس کے پاس اتنا سامان ہو جس کی بنا پر اس جیسے شخص پر زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہو۔ اس لئے کہ اول الذکر شخص کو بھی اس بنا پر غنی کہنا جائز ہے کہ اسے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے وہ غنی مراد نہیں ہے جس کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس کے ساتھ مالداری کے وجوب یعنی زکوٰۃ کا تعلق ہوتا ہے اس بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (لاتحل الصدقۃ لغنی ولالذی مرۃ سوی) کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ جس شخص کی معاشی حالت درج بالا کیفیت کی حامل ہو اس کے لئے دست سوال دراز کرنا مکروہ ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس روایت کے بارے میں اس لحاظ سے بھی اختلاف ہے کہ آیا مرفوع ہے یا موقوف ؟ ابوبکر بن عیاش نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں اور امام ابو یوسف نے حصین سے، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے اپنے قول کے طور پر اس کی روایت کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس کی روایت کا سلسلہ نہیں پہنچا ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت کو شعبہ اور حسن بن صالح نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے ریحان بن یزید سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے ان کے اپنے قول کے طور پر مرقوفاً روایت کی ہے۔ سفیان نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے ریحان بن یزید سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ (لاتحل الصدقۃ لغنی ولا لقوی مکتسب) اس طرح اس روایت کے مرفوع ہونے یا نہ ہونے میں راویوں کا اختلاف واقع ہوگیا ہے۔- دوسری طرف ظاہر قول باری (انما الصدقات للفقراء والمساکین) تمام فقراء اور مساکین کے لئے عام ہے خواہ وہ کسب معاش کی قدرت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ اسی طرح قول باری (وفی اموالھم حق للسائل والمحروم اور سائل نیز محروم کا بھی ان کے اموال میں حق ہوتا ہے) ایسے سائل کے حق کے وجوب کا مقتضی ہے جو تندرست و توانا اور کمانے کے قابل ہو کیونکہ آیت میں اس کے اور اس کے غیر یعنی کمانے کی قدرت نہ رکھنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اس پر قول باری (للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لایستطیعون ضرباً فی الارض یعسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف۔ خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذات کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کرنا واقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں تندرست و توانا اور کسب معاش کی قدرت رکھنے والے اور قدرت نہ رکھنے والے کمزور کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ درج بالا تمام آیات اس قول کے بطلان کے حق میں فیصلہ دیتی ہیں جس کی رو سے فقیر اگر تندرست و توانا اور کسب معاش کے قابل ہو تو اسے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔- حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت کی بنا پر ان آیات کی تخصیص بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے۔ ان دونوں روایتوں کے متن میں الفاظ کا اختلاف ہے۔ بعض راویوں نے اسے (لقوی مکتسب) اور بعض نے (لذی مرۃ سوی) کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے پھر ان کے مرفوع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ دوسری طرف ایسی روایات موجود ہیں جو سند کے لحاظ سے ان دونوں روایتوں سے زیادہ صحیح اور استقاضہ یعنی کثرت روایت میں بھی بڑھ کر ہیں اور ان دونوں کی معارض ہیں۔- حضرت انس (رض) اور حضرت قبیصہ بن المخارق نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (ان الصدقۃ لاتحل الا فی احدیٰ ثلاث۔ صدقہ صرف تین قسم کے انسانوں کے لئے حلال ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں اس فقیر کا ذکر کیا جس کی تنگدستی نے اسے زمین پر گرا رکھا ہو۔ نیز فرمایا (اور جل اصابتہ فاقۃ اور جل اصابتہ جائحۃ۔ یا ایسا شخص جو فاقہ میں مبتلا ہو یا ایسا شخص جس پر کوئی آفت آگئی ہو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کی حلت کے لئے قوت و طاقت کی عدم موجودگی اور کسب معاش سے عاجزی کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ اسی طرح حضرت سلمان (رض) کی روایت ہے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صدقہ کی کوئی خوردنی شے لے کر آئے۔ آپ نے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ اسے کھائو اور خود نہیں کھایا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ آپ کے صحابہ سب کے سب تندرست و توانا اور کسب معاش کی قدرت رکھتے تھے۔ آپ نے کھانے کے لئے صرف ان لوگوں کو خاص نہیں کیا جو ان میں سے اپاہج تھے یا کسب معاش کی قدرت نہیں رکھتے تھے۔- اسی طرح عروہ بن الزبیر کی روایت ہے جسے انہوں نے عبید اللہ بن عدی بن الخیاء سے نقل کی ہے، انہوں نے عرب کے دو شخصوں سے کہ یہ دونوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تھے اور آپ سے زکوٰۃ مانگی تھی۔ آپ نے انہیں سر سے پائوں تک دیکھا تھا اور ان پر نظر ڈال کر یہ معلوم کرلیا تھا کہ یہ دونوں مضبوط جسم کے مالک ہیں پھر فرمایا تھا : اگر تم چاہو تو میں تمہیں زکوٰۃ کا مال دے دوں گا لیکن سنو زکوٰۃ کے مال میں مال دار انسان اور تندرست و توانا اور کسب معاش کے قابل انسان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ “ آپ نے ان دونوں کو یہ فرمایا تھا کہ ” اگر تم چاہو تو میں تمہیں زکوٰۃ کا مال دے دوں گا۔ “ اگر ان کے لئے زکوٰۃ کا مال حرام ہوتا تو آپ ہرگز انہیں نہ دیتے جبکہ ان دونوں کی طاقت و قوت اور کسب معاش کی صلاحیت بھی آپ کے سامنے ظاہر ہوچکی تھی، پھر آپ نے اس کے ساتھ ان پر یہ بھی واضح کردیا کہ زکوٰۃ کے مال میں مالدار انسان نیز تندرست و توانا اور کسب معاش کی صلاحیت رکھنے والے انسان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس سے یہ روایت حاصل ہوئی کہ آپ نے ایسے شخص کے لئے دست سوال دراز کرنے کو مکروہ سمھا اور سوال نہ کرنے کو پسند فرمایا جس کے پاس گزارے کا سامان موجود ہو یا وہ کسب معاش کی قدرت رکھتا ہو اور اس کے ذریعے وہ مانگنے اور سوال کرنے سے بچ سکتا ہو۔- اس میں ایک اور پہلو بھی موجود ہے وہ یہ کہ اس جیسے فقرے کا اطلاق تغلیط و تشدید کے طور پر بھی کیا جاتا ہے، اس میں اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لیس بمومن من یبیت شبعانا وجارہ جائع۔ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو شکم سیر رات گزارے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے) نیز ارشاد ہوا (لادین لمن لا امانۃ لہ۔ جس کے اندر امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں) اسی طرح آپ نے فرمایا (لیس المسکین بالطواف الذی تردہ القمۃ وللقمتان۔ مسکین وہ نہیں ہے جو بہت چکر کاٹنے والا ہو، جو ایک یا دو لقمے لے کر واپس ہوجائے) آپ نے اپنے اس ارشاد میں ایسے شخص سے بالکلیہ مسکنت کی نفی مراد نہیں لی ہے کہ پھر اس کے لئے صدقہ حرام ہوجائے بلکہ آپ کی مراد یہ ہے کہ ایسے شخص کا سکم اس شخص کے حکم کی طرح نہیں ہے جو دست سوال دراز نہیں کرتا۔ اسی طرح آپ کے ارشاد (ولا حق فیھا الغنی ولالقوی مکتسب) کے معنی یہ ہیں کہ صدقہ میں مذکورہ اشخاص کا حق اس طرح نہیں ہے جس طرح ایک معذور اور کسب معاش سے عاجز انسان کا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (امرت اخذا لصدقۃ من اغنیاء کم وردھافی فقراء کم) آپ نے حکم میں عموم رکھا جس میں تمام فقراء خواہ وہ معذور ہوں یا تندرست سب کے سب داخل ہیں۔- نیز صدقات و زکوٰۃ کے اموال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ارسال کئے جاتے تھے آپ ان میں سے فقراء مہاجرین و انصار اور اصحاب صفہ کو دیتے تھے حالانکہ یہ تمام حضرات تندرست و توانا اور کسب معاش کرنے والے تھے۔ آپ نے ان اموال کو صرف معذور لوگوں کے لئے خاص نہیں کیا اور تندرست لوگوں کو ان سے محروم نہیں رکھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے لے کر آج تک یہی طریق کار چلا آرہا ہے کہ لوگ اپنے صدقات اور زکوٰۃ فقراء کو دیتے ہیں ان میں تندرست و توانا اور معذور سب شامل ہوتے ہیں لوگ انہیں زکوٰۃ دینے میں ان کے معذور اور اپاہج ہونے کا یا تندرست و توانا ہونے کا اعتبار نہیں کرتے۔ اگر تندرست و توانا اور کسب معاش کی قدرت رکھنے والے افراد کے لئے فرض و نفل یعنی زکوٰۃ و صدقات حرام اور ناجائز ہوتے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمام لوگوں کو اس بارے میں ضرور ہدایت کردی جاتی اس لئے کہ لوگوں کو عمومی طور پر اس کی ضرورت پیش آتی تھی۔- جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں ہے جس کو زکوٰۃ و صدقات کے حاجتمند ایسے فقراء کے لئے ممانعت ہو جو تندرست و توانا ہوں نیز کمانے کی قدرت رکھتے ہوں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کا مال تندرست و توانا اور کسب معاش کی صلاحیت رکھنے والے ضرورت مندوں کو دینا اسی طرح جائز ہے جس طرح اپاہجوں اور کسب معاش سے عاجز اور درماندہ لوگوں کو دینا۔ اگر اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ممانعت کی کوئی ہدایت ہوتی تو بہ کثرت روایت کے ذریعے نقل ہوکر ہم تک پہنچتی۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوی القربیٰ ، جن کے لئے صدقہ حرام ہے - ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں میں سے آل عباس، آل علی، آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی تمام اولاد کے لئے صدقہ حرام ہے۔ طحاوی نے ہمارے اصحاب سے اس زمرہ میں عبدالمطلب کی اولاد کا بھی ذکر کیا ہے لیکن مجھے ایسی کوئی روایت نہیں ملی۔ مذکورہ بالا قرابت داروں پر فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ حرام ہے لیکن انہیں نفلی صدقہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے طحاوی نے یہ ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے اگرچہ یہ مشہور روایت نہیں ہے کہ بنو ہاشم کے فقراء صدقات کی آیت میں داخل ہیں۔ طحاوی نے احکام القرآن میں اس کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک یہ اس آیت میں داخل نہیں ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب سے مشہور روایت کی بنا پر ان لوگوں پر صدقہ حرام ہے جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے یعنی آل عباس، آل علی، آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد، نیز صدقہ کی حرمت کا تعلق صدقہ مفروضہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ کے ساتھ ہے نفلی صدقے کے ساتھ نہیں ہے۔ ابن السماعہ نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ بنو ہاشم کے افراد کی طرف سے نکالی ہوئی زکوٰۃ بنو ہاشم کے افراد کے لئے حلال ہے لیکن دوسرے لوگوں کی نکالی ہوئی رقم بنو ہاشم کے لئے حلال نہیں ہے۔ انہوں نے صدقہ مفروضہ اور صدقہ نظوع میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔- امام مالک (رح) کا قول ہے کہ آل محمد (ﷺ) کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہے، نفلی صدقات حلال ہیں، سفیان ثوری (رح) کا قول ہے کہ بنی ہاشم کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے انہوں نے فرض اور نفل میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب پر صدقہ فرض حرام ہے۔ نفلی صدقہ سوائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ہر شخص کے لئے جائز ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفلی صدقہ بھی قبول نہیں فرماتے تھے۔ صدقہ مفروضہ بنی ہاشم پر حرام ہے اس کی دلیل حضرت ابن عباس (رض) کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف تین باتوں کے سوا ہمیں کسی اور چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ تمام باتوں میں ہم مسلمانوں کے ساتھ شریک رہے۔ پہلی بات یہ تھی کہ وضو کرتے وقت اعضائے وضو کو پوری طرح دھوئیں اور ہر حصے میں پانی پہنچائیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ ہم صدقہ کا مال نہ کھائیں اور تیسری بات یہ تھی کہ گھوڑی اور گدھے کی جفتی نہ کرائیں۔- ایک روایت کے مطابق حضرت علی (رض) کے بیٹے حسن (رض) نے صدقہ کی ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے منہ سے وہ کھجور نکال دی اور فرمایا (انا آل محمد لاتحل لنا لاصدقۃ۔ ہم یعنی آل محمد (ﷺ) کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی۔ انہیں ابو دائود نے، انہیں نصر بن علی نے، انہیں ان کے والد نے خالد بن قیس سے، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے حضرت انس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کھجور کہیں سے مل گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے خوف نہ ہوتا تو کہ کہیں یہ صدقے کی کھجور نہ ہو تو میں ضرور اسے کھالیتا۔ “ بہترین حکیم نے اپنے والد سے، انہوں نے بہز کے دادا سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چرنے والے اونٹوں کے اندر ہر چالیس میں ایک بنت لبون ہے۔ جو شخص اجر حاصل کرنے کی نیت سے اسے زکوٰۃ میں دے گا اسے اس کا اجر مل جائے گا اور جو دینے سے انکار کرے گا تو میں خود اس سے یہ وصول کروں گا اس کے مال کا ایک حصہ بھی وصول کروں گا۔ اس میں سے آل محمد (ﷺ) کے لئے کوئی چیز حلال نہیں ہے۔ کئی طر ق سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث منقول ہے کہ صدقہ آل محمد (ﷺ کے لئے حلال نہیں ہے۔ صدقات تو لوگوں کے میل کچیل ہیں۔ ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان پر صدقات مفروضہ حرام ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ شریک نے سماک بن حرب سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ایک تجارتی قافلہ مدینے آیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ خریداری کی اور خریدے ہوئے سامان کو چند اوقیہ چاندی منافع لے کر فروخت کردیا۔ پھر آپ نے بنی عبدالمطلب کی بیوگان میں یہ چاندی صدقہ کردی اور فرمایا : آئندہ میں پھر کوئی ایسی چیز نہیں خریدوں گا جس کی قیمت میرے پاس نہ ہو۔ “ آپ نے ان بیوگان پر اس کا صدقہ کردیا حالانکہ ان سب کا تعلق بنی ہاشم سے تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا روایت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ وہ بیوگان بنی ہاشم سے تعلق رکھتی تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا تعلق بنی ہاشم سے نہ ہو بلکہ کسی اور قبیلے سے ہو، یہ صرف بنی عبدالمطلب کے مردوں کی بیویاں ہوں۔ بلکہ عرب کے دوسرے علاقوں کی عورتیں ہوں اور بنی عبدالمطلب کے مردوں نے ان سے نکاح کیا ہو اور پھر یہ بیوہ ہوگئی ہوں، نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں جو کچھ دیا تھا وہ نفلی صدقہ تھا اور ہاشمی عورتوں پر نفلی صدقہ جائز ہوتا ہے۔- نیز عکرمہ کی روایت جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت سے مقدم ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس لئے کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں بنو ہاشم کے لئے صدقہ کی ممانعت کی جو خبر دی گئی ہے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد دی گئی ہے۔ اس میں ممانعت ہے اور عکرمہ کی روایت اباحت کا پہلو ہے اور ممانعت اباحت سے متاخر ہے اس لئے ممانعت اولیٰ ہوگی۔ بنو المطلب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی قرابت اسی درجے کی ہے جس درجے کی آپ سے بنی امیہ کی قرابت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بنی امیہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں اس لئے بنو المطلب کا بھی یہی حکم ہوگا۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس میں سے ذوی القربیٰ کا حصہ بنو المطلب کو دیا اور بنی ہاشم کو بھی دیا لیکن بنی امیہ کو نہیں دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ تحریم صدقہ میں وہ بھی بنو ہاشم کی طرح ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف قرابت داری کی بنیاد پر اس خمس میں سے دیا تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) اور جبیر بن مطعم (رض) نے آپ سے عرض کیا تھا کہ ” ہم بنو ہاشم کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے اس لئے کہ انہیں یہ فضیلت آپ کے ساتھ رشتہ داری کے قرب کی بنا پر ملی ہے۔ لیکن بنو المطلب اور ہم نسب کے لحاظ سے یکساں درجے پر ہیں۔ آپ نے انہیں تو دیا لیکن ہمیں محروم رکھا۔ اس کی کی وجہ ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا : ” بنو المطلب کو میں نے اس لئے دیا کہ انہوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا نہ جاہلیت میں اور نہ ہی اسلام میں۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ انہیں صرف قرابت کی بنا پر حصہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ قرابت اور نصرت دونوں کی بنا پر انہیں حصہ دیا گیا تھا اگر صدقہ کی تحریم کی بنیاد زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے صرف ان کی نصرت ہوتی تو پھر ضروری ہوتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت سے آل ابی لہب اور آل حارث بن عبدالمطلب کے بعض افرا نکل جاتے، اس لئے کہ انہوں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا تھا نیز یہ مناسب ہوتا کہ بنی امیہ میں سے جو لوگ زمانہ اسلام میں پیدا ہوئے تھے انہیں محروم نہ رکھا جاتا۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اور ظاہر ہے یہ بات ساقط اور غلط ہے۔ نیز خمس کے اندر ذوی القربیٰ کا حصہ ان میں سے صرف مخصوص لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق امام المسلمین کے اجتہاد اور رائے سے ہوتا ہے۔ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کے بعض افراد میں صدقہ کی تحریم کی تخصیص نہیں ثابت ہوئی نیز خمس کے اندر ذوی القربیٰ کے حصے پر ان کا استحقاق تحریم صدقہ کی بنیاد نہیں ہے اس لئے کہ یتامیٰ اور مساکین نیز ابن السبیل یعنی مسافر خمس کے ایک حصے کے حقدار ہوتے ہیں لیکن ان پر صدقہ حرام نہیں ہوتا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ خمس کے اندر اس کے کسی حصے کا استحقاق تحریم صدقہ کی بنیاد نہیں ہے۔- بنی ہاشم کے موالی پر صدقہ کی تحریم کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ آیا آیت میں وہ بھی مراد ہیں یا نہیں ؟ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ صدقات مفروضہ کی تحریم میں ان کی حیثیت بھی بنو ہاشم جیسی ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ بنو ہاشم کے موالی کو صدقات مفروضہ میں سے دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پہلے قول پر حضرت ابن عباس (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ارقم بن ارقم زہری کو صدقات کی وصولی پر لگایا، انہوں نے ابو رافع (رض) کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان الصدقۃ حرام اعلیٰ محمد واٰل محمد وان مولی القوم من انفسھم۔ صدقہ محمد (ﷺ) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حرام ہے اور کسی قوم کا آزاد کردہ غلام اس قوم میں سے ہوتا ہے) ابو رافع (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام تھے۔ عطاء بن السائب سے روایت ہے انہوں نے ام کلثوم بنت علی (رض) سے روایت کی ہے اور انہوں نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سے جس کا نام ہرمز یا کیسان تھا روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تھا۔ اے ابو فلاں ہم ایسے اہل بیت میں جو صدقہ نہیں کھاتے، اور ایک قوم کا آزاد کردہ غلام اس قوم میں سے ہوتا ہے اس لئے تم صدقہ نہ کھائو “ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب فرمادیا (الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب) نیز صدقہ ان لوگوں کے لئے حرام قرار دیا گیا جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرب نسبت تھا یعنی بنو ہاشم اس سے یہ واجب ہوگیا کہ ان کے موالی کو بھی ان جیسا قرار دیا جائے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولاء کو بھی نسب کی طرح قرابت قرار دیا ہے۔- اگر بنی ہاشم کا کوئی فرد صدقات جمع کرنے کا کام کرے تو اس کے لئے صدقات کے مال میں سے معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے متفقہ طورپر اما ابوحنیفہ سے ذکر کیا ہے کہ بنی ہاشم کے کسی فرد کا صدقات جمع کرنے کا کام پر لگنا جائز نہیں ہے۔ نیز اس کے لئے صدقات کے مال میں سے اپنا معاوضہ وصول کرنا بھی جائز نہیں۔ امام محمد کا کہنا ہے کہ حضرت علی (رض) یمن کے اندر اپنی کارکردگی کا جو معاوضہ وصول کرتے تھے اسے اس پر محمول کیا جائے گا۔ کہ یہ صدقہ کی مد سے نہیں ہوتا تھا بلکہ کسی اور مد سے اس کا تعلق ہوتا تھا۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا قول سے مراد یہ ہے کہ بنی ہاشم کے کسی فرد کا صدقات جمع کرنے کے کام پر بایں معنی لگنا جائز نہیں ہے کہ وہ اس کام کا معاوضہ بھی وصول کرے، اگر وہ رضاکارانہ طور پر یہ کام کرے اور معاوضہ نہ لینے کی شرط لگا دے تو اس کے جواز میں اہل علم کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ بنی ہاشم کے لئے صدقہ کے مال سے اپنا معاوضہ وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل وہ روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی۔ انہیں علی بن محمد نے، انہیں مسدد نے، انہیں معمر نے، انہیں ان کے والد نے جیش سے، انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ نوفل بن الحارث نے اپنے دو بیٹوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے چچا کے پائو جائو شاید وہ تمہیں صدقات کی وصولی کے کام لگا دیں۔ یہ دونوں آپ کے پاس آگئے اور اپنی ضرورت بیان کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : ” اے اہل بیت تمہارے لئے صدقات میں سے کوئی چیز جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ ہاتھوں کا دھو ون ہے تمہارے لئے خمس کے حصے میں اس قدر مال ہے جو تمہاری ضروری پوی کردے گا۔ “ یا یہ فرمایا : ” جو تمہارے لیے کافی ہوگا۔ “ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عباس (رض) سے کہا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ کر صدقا ت کی وصولی کے کام پر لگ جائیں۔ جب حضرت عباس (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ گزارش کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں تو آپ کو لوگوں کے گناہوں کے دھو ون جمع کرنے کے کام پر نہیں لگا سکتا۔ “ فضل بن الع اس اور عبدالملطلب بن ربیعہ بن الحارث نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گزارش کی تھی کہ انہیں صدقات کی وصولی پر لگادیا جائے تاکہ انہیں بھی اس میں سے کچھ مال بطور معاوضہ ہاتھ آجائے۔ آپ نے ان سے فرمایا : ” آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے صدقات حلال نہیں ہیں۔ “ آپ نے ان دونوں کو معاوضہ پر صدقات جمع کرنے کے کام سے روک دیا۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آزاد کردہ غلام ابو رافع کو بھی اس کام سے روک دیا تھا اور اس موقع پر فرمایا تھا کہ :” کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان ہی میں س شمار ہوتا ہے۔- جو حضرات بنی ہاشم کے لئے صدقات جمع کرنے کے معاوضہ میں صدقہ کا مال لینے کی اباحت کے قائل ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو صدقات کی وصولی کے کام پر یمن روانہ کیا تھا۔ حضرت جابر (رض) اور ابو سعید (رض) دونوں نے اس کی روایت کی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حضرت علی (رض) کا تقرر صدقات کی وصولی اور دیگر امور کی نگرانی کے لئے ہوا تھا۔ ان حضرات کے لئے اس میں کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ حضرت علی (رض) نے اپنا معاوضہ صدقات کے مال میں سے وصول کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے (خذ من اموالھم صدقۃ۔ ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کرو) اور یہ بات واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقات کے مال میں سے معاوضہ وصول نہیں کرتے تھے۔ حضرت علی (رض) جب یمن بھیجے گئے تھے تو قضاء کے محکمہ نیز یمن میں کافروں کے خلاف جنگی اقدامات کے نگران بنائے گئے تھے اس بنا پر یہ عین ممکن ہے کہ انہیں مال فی سے وظیہ دیا جاتا ہو۔ صدقہ کے مال سے وظیفہ نہ دیا جاتا ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ مالدار انسان کے لئے صدقات کے مال میں سے اپنا معاوضہ وصول کرنا جائز ہے حالانکہ اس کے لئے صدقہ حلال نہیں ہوتا، اس لئے بنو ہاشم کا معاملہ بھی یہی ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مالدار شخص صدقہ کا مال لینے کا اہل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر وہ فقیر ہوجائے تو اس کے لئے صدقہ حلال ہوجائے گا اس کے بوعکس بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والا شخص کسی حالت میں بھی صدقہ لینے کا اہل نہیں ہوتا۔- اگر یہ کہا جائے کہ صدقات جمع کرنے والا اپنا معاوضہ صدقہ کے طور پر وصول نہیں کرتا بلکہ اپنی کارکردگی کی اجرت وصول کرتا ہے جس طرح بریدہ (رض) سے مروی ہے کہ ان کے پاس اگر صدقہ کی کوئی چیز آتی تو وہ اس میں سے کچھ حصہ ہدیہ کے طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیج دیتیں۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماکر اسے قبول کرلیتے کہ (ھی لھا صدقۃ ولنا ھدیۃ۔ یہ چیز بریرہ (رض) کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ) اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ دونوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ صدقہ پہلے بریرہ (رض) کی ملکیت میں پہنچ جاتا تھا اور وہ پھر وہ اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیج دیتی تھیں۔ اس طرح صدقہ کرنے والے کی ملکیت اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت کے درمیان ایک اور ملکیت کا واسطہ آجاتا تھا۔ جبکہ زیر بحث صورت میں صدقات کی وصولی کا کام کرنے والے کی ملکیت اور جس شخص سے یہ صدقہ وصول کیا گیا ہے اس کی ملکیت کے درمیان کوئی اور واسطہ نہیں ہے اس لئے کہ یہ صدقہ پہلے فقراء کی ملکیت میں نہیں پہنچتا اور پھر وہاں سے کام کرنے والے کی ملکیت میں نہیں آتا۔- ان فقراء کا بیان جنہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے - قول باری ہے (انما الصدقت للفقرآء والمساکین) ظاہر آیت ان تمام افراد کو زکوٰۃ دینے کے جواز کا مقتضی ہے جنہیں فقیر اور مسکین کا اسم شامل ہوتا ہے۔ خواہ وہ قریب یعنی رشتہ دار ہو یا بعید رشتہ دار نہ ہو۔ لیکن بعض رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے کی ممانعت پر دلالت قائم ہوچکی ہے۔ اس مسئلے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنے والد کو زکوٰۃ نہیں دے گا اس میں دادا، پردادا اور اس سے اوپر کے دادے شامل ہیں۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے والد کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دے گا خواہ وہ نیچے تک کیوں نہ چلا جائے۔ اسی طرح اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے گا۔ امام مالک، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ کوئی شخص ایسے کسی فرد کو زکوٰۃ نہیں دے گا جس کا نان و نفقہ اس کے ذمے ہو۔ ابن شبرمہ کا قول ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم اپنے ان رشتہ داروں کو نہیں دے گا جو اس کے وارث بنتے ہوں البتہ ایسے رشتہ دار جو اس کے وارث نہ بنتے ہوں اور نہ یہ اس کے عیال میں شامل ہوں، انہیں اپنی زکوٰۃ دے سکتا ہے اوزاعی کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنی زکوٰۃ کی رقم اپنے فقیر رشتہ داروں سے باہر نہیں دے گا بشرطیکہ وہ اس کے عیال میں داخل نہ ہوں۔ زکوٰۃ کے سوا اپنے دوسرے مال سے اپنے موالی پر صدقہ کرے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ ایک شخص اپنا واجب صدقہ اس شخص کو نہیں دے گا جس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کے ذمہ ہے۔ المزنی نے امام شافعی سے اپنی کتاب ” المختصر “ میں بیان کیا ہے کہ انسان اپنی زکوٰۃ اس رشتہ دار کو دے سکتا ہے جس کا نفقہ اس پر لازم نہ ہو لیکن وہ رشتہ دار والد، ولد اور زوجہ کے ماسوا ہو۔ اگر ایسے رشتہ دار ضرورت مند ہوں تو وہ دوسروں کی بہ نسبت زکوٰۃ کے زیادہ حق دار ہوں گے خواہ زکوٰۃ دینے والا ان پر رضاکارانہ طور پر اپنا مال کیوں نہ خرچ کرتا ہو۔- (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٠) اللہ تعالیٰ زکوٰۃ کے مستحقین کے متعلق میں فرماتے ہیں کہ وہ اصحاب صفہ اور ان محتاجوں کا حق ہے جو کہ سوال کرتے ہیں اور جو کارکن ان صدقات کی وصولی پر متعین ہیں اور عطیہ سے جن کی دل جوئی کرنا ضروری ہے، جیسا کہ حضرت ابوسفیان اور ان کے ساتھی جو کہ تقریبا پندرہ حضرات ہیں اور مکاتب غلاموں کی گردن چھڑانا اور اطاعت خداوندی میں قرض داروں کے جو قرضے ہیں ان کے چھڑانے میں اور جہاد فی سبیل اللہ کرنے والوں میں اور مسافروں کی امداد میں جو کہ راہ گزر ہوں یا کسی کے پاس مہمان ہو کر اترگئے ہوں خرچ کیا جائے گا ان لوگوں کے لیے یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہے اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو جاننے والے اور ان کے لیے جو فیصلہ فرمایا ہے اس میں بڑی حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا) - صدقات سے مراد یہاں زکوٰۃ ہے۔ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَامیں محکمہ زکوٰۃ کے چھوٹے بڑے تمام ملازمین شامل ہیں جو زکوٰۃ اکٹھی کرنے ‘ اس کا حساب رکھنے اور اسے مستحقین میں تقسیم کرنے یا اس محکمہ میں کسی بھی حیثیت میں مامور ہیں ‘ ان سب ملازمین کی تنخواہیں اسی زکوٰۃ میں سے دی جائیں گی۔- (وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ ) - جب دین کی تحریک اور دعوت چل رہی ہو تو معاشرے کے بعض صاحب حیثیت افراد کی تالیف قلوب کے لیے زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے تاکہ ایسے لوگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی مخالفت کا زور کم کیا جاسکے۔ فقہاء کے نزدیک دین کے غالب ہوجانے کے بعد یہ مد ختم ہوگئی ہے ‘ لیکن اگر پھر کبھی اس قسم کی صورتحال درپیش ہو تو یہ مد پھر سے بحال ہوجائے گی۔- (وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ ) - ایسا مقروض جو قرض کے بوجھ سے نکلنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو یا ایسا شخص جس پر کوئی تاوان پڑگیا ہو ‘ ایسے لوگوں کی گلو خلاصی کے لیے زکوٰۃ کی رقم سے مدد کی جاسکتی ہے۔- (وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) - یعنی اللہ کی راہ میں جہاد میں اور دعوت و اقامت دین کی جدوجہد میں بھی یہ رقم خرچ ہوسکتی ہے۔ لیکن زکوٰۃ اور صدقات کے سلسلے میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ پہلی ترجیح کے طور پر اولین مستحقین وہ غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین اور بیوائیں ہیں جو واقعی محتاج ہوں۔ البتہ اگر زکوٰۃ کی کچھ رقم ایسے لوگوں کی مدد کے بعد بچ جائے تو وہ دین کے دوسرے کاموں میں صرف کی جاسکتی ہے۔- (وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ) - (فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط) کے الفاظ احکام وراثت کے سلسلے میں سورة النساء کی آیت ١١ میں بھی آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :61 فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو ۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاج اعانت ہو گئے ہوں ، یا کسی عارضی سبب سے سردست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں ، مثلا یتیم بچے ، بیوہ عورتیں ، بے روزگار لوگ اور وہ لوگ جو قتی حوادث کے شکار ہو گئے ہوں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :62 مَسکَنَت کے لفظ میں عاجزی ، درماندگی ، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں ۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھیرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خود داری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ چنانچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصد ق علیہ ولا یقوم فیسئال الناس ۔ ” مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا ، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے ، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے ۔ “ گویا وہ ایک ایسا شریف آدمی ہے جو غریب ہو ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :63 یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں ۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں ، ان کی تنخواہیں بہر حال صدقات ہی کی مدد سے دی جائیں گی ۔ یہ الفاظ اور اسی سورۃ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکوت کے فرائض میں سے ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان ( یعنی بنی ہاشم ) پر زکوۃ کا مال حرام قرار دیا تھا ، چنانچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلامعاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے ، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے ۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحب نصاب ہوں تو زکوۃ دینا ان پر فرض ہے ، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوۃ لینا ان کے لیے حرام ہے ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں ۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں ۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :64 تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا ۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو ، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں ، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استعانت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے ، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار ، یا مطیع و فرماں بردار ، یا کم از کم بے ضرر دشمن بنالیا جائے ۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوۃ کی مد سے بھی ۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوۃ سے کی جا سکتی ہے ، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوۃ دیے جانے کے مستحق ہیں ۔ یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیف قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے ۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں ۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃالقلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو ۔ حنفیہ کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابِس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی ۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا ۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیان صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں ۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں ۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا ۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے ۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت لے کر آئے اور اپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ ؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے سے اختلاف کیا ۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھرے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداء مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا ۔ اس لیے باجماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہوگیا ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے ۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوۃ سے ۔ ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃالقلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بلاشبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا ۔ اگر اسلامی حکوت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے ۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کا اجماع حس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہ کے اجماع نے اس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی ۔ رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مدات آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے ۔ لیکن جب زکوۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے ۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا ۔ ورنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :65 گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کردوں تو تم مجھے آزاد کر دو ، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے ۔ دوسرے یہ کہ خود زکوۃ کی مد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں ۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہاء متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ ، سعید بن جبیر ، لیث ، ثوری ، ابراہیم نخعی ، شعبی ، محمد بن سیرین ، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس ، حسن بصری ، مالک ، احمد اور ابو ثور جائز قرار دیتے ہیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :66 یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو ۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی ، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوۃ کی مد سے کی جاسکتی ہے ۔ مگر متعدد فقہاء کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضداری میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :67 راہ خدا کا لفظ عام ہے ۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوۃ کا مال ہر نیک کام میں صرف کیا جاسکتا ہے لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرنا ہو ۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے ، سواری کے لیے آلات واسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوۃ سے مدد دی جاسکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو ۔ اسی طرح جو لوگ رضا کارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دیدیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جاسکتی ہیں ۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمہ کفر کو پست اور کلمہ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں خواہ وہ دعوت وتبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :68 مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو ، لیکن حالت سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہوجائے تو اس کی مدد زکوۃ کی مد سے کی جائیگی یہاں بعض فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس شخص کا سفر معصیت کے لیے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے ۔ مگر قرآن وحدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے ، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہ ہونی چاہیے ۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسن سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

48: فقیر اور مسکین ملتے جلتے لفظ ہیں۔ لغت کے اعتبار سے بعض لوگوں نے دونوں میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اور فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ ہو، مگر ضرورت سے کم ہو۔ اور بعض حضرات نے فرق اس کے برعکس بیان کیا ہے۔ لیکن زکوٰۃ کے حکم میں دونوں برابر ہیں۔ اور حکم یہ ہے کہ جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا بنیادی ضرورت سے زیادہ سامان موجود نہ ہو، اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے۔ تفصیل کے لئے فقہ کی کتابیں دیکھی جائیں۔ 49: اسلامی حکومت کا ایک اہم کام یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے اموال ظاہرہ کی زکوٰۃ جمع کر کے مستحقین میں تقسیم کرے۔ اس غرض کے لئے جو اہل کار مقرر کئے جائیں، ان کی تنخواہ یا وظیفہ بھی زکوٰۃسے دیا جا سکتا ہے۔ 50: اس سے مراد وہ نو مسلم ہیں جو ضرورت مند ہوں، اور اس بات کی ضرورت محسوس کی جائے کہ ان کو اسلام پر جمے رکھنے کے لئے ان کی دلداری کی جانی چاہئے، اصطلاح میں ایسے لوگوں کو ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کہا جاتا ہے۔ 51: جس زمانے میں غلامی کا رواج تھا، اس دور میں بعض غلاموں کے آقا ان سے یہ کہہ دیتے تھے کہ اگر تم اتنی رقم لا کر ہمیں دے دو تو تم آزاد ہو۔ ایسے غلاموں کو بھی آزادی حاصل کرنے کے لئے زکوٰۃ کا مال دیا جا سکتا تھا۔ 52: اس سے مراد وہ مقروض لوگ ہیں جن پر اتنا قرضہ ہو کہ ان کے اثاثے قرضے کی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہوں، یا اگر وہ اپنے سارے اثاثے قرض میں دے دیں تو ان کے پاس نصاب، یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال باقی نہ رہے۔ 53: ’’اللہ کے راستے‘‘ کا لفظ قرآنِ کریم میں اکثر جہاد کے لئے استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا اس سے مراد وہ شخص ہے جو جہاد پر جانا چاہتا ہو، لیکن اس کے پاس سواری وغیرہ نہ ہو۔ بعض دوسرے حاجت مند لوگوں کو بھی فقہاء نے اس حکم میں شامل کیا ہے، مثلا جس شخص پر حج فرض ہوچکا ہو، لیکن اب اس کے پاس اتنے پیسے نہ رہے ہوں کہ وہ حج کرسکے۔ 54: ’’مسافر‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس چاہے اپنے وطن میں نصاب کے برابر مال موجود ہو، لیکن سفر میں اس کے پاس اتنے پیسے نہ رہے ہوں جن سے وہ اپنی سفر کی ضروریات پوری کر کے واپس وطن جا سکے۔ واضح رہے کہ زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف جو یہاں قرآنِ کریم نے ذکر کئے ہیں، ان کی بہت مختصر تشریح اوپر کی گئی ہے۔ عمل کے وقت کسی عالم سے سمجھ کر زکوٰۃ خرچ کرنی چاہئے، کیونکہ ان تمام مصارف میں شرعی احکام کی بہت سی تفصیلات ہیں جن کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے۔