Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نادان اور کوڑ مغز کون؟ واقعہ یہ ہوا تھا کہ منافقوں میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ہمارے سردار اور رئیس بڑے ہی عقل مند دانا اور تجربہ کار ہیں اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی باتیں حق ہوتیں تو یہ کیا ایسے بیوقوف تھے کہ انہیں نہ مانتے؟ یہ بات ایک سچے مسلمان صحابی نے سن لی اور اس نے کہا واللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں بالکل سچ ہیں اور نہ ماننے والوں کی بیوقوفی اور کوڑ مغز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ جب یہ صحابی دربار نبوت میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ بیان کیا کہ آپ نے اس شخص کو بلوا بھیجا لیکن وہ سخت قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ میں نے تو یہ بات کہی ہی نہیں یہ تو مجھ پر تہمت باندھتا ہے اس صحابی نے دعا کی کہ پروردگار تو سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دکھا اس پر یہ آیت شریف نازل ہوئی ۔ کیا ان کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ اور رسول کے مخالف ابدی اور جہنمی ہیں ۔ ذلت و رسوائی عذاب دوزخ بھگتنے والے ہیں اس سے بڑھ کر شومی طالع اس سے زیادہ رسوائی اس سے بڑھکر شقاوت اور کیا ہو گی؟

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] منافقوں کی جب بھی کوئی سازش یا دغا بازی پکڑی جاتی تو فوراً اس سے مکر جاتے اور اپنے جھوٹے بیان پر قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو مطمئن اور راضی کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ حالانکہ یہی بات ان کی منافقت کو مزید تقویت پہنچا دیتی تھی۔ اس کے بجائے اب بھی اگر وہ اللہ سے ڈر جاتے اور اپنی غلطیوں اور گناہوں کا اعتراف کر کے اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے کی کوشش کرتے تو یہ فی الواقع ان کے اللہ پر یقین رکھنے کی دلیل بن سکتی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ لَكُمْ لِيُرْضُوْكُمْ : منافقین جب الگ مجلسوں میں بیٹھتے یا کہیں اکیلے ہوتے تو مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھبتیاں کستے۔ مسلمانوں کو یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگر کبھی ان کی اطلاع ہوجاتی تو وہ قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پروا نہ کرتے۔ اس آیت میں منافقین کی اس حرکت کا ذکر کیا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَكُمْ لِيُرْضُوْكُمْ۝ ٠ ۚ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضُوْہُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝ ٦٢- حلف - الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير :- تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره .- والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :- إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر .- ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا - رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

رضا الٰہی رضائے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متضمن ہے - قول باری ہے واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مومنین اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسول اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں ایک قول کے مطابق یرضوہ میں ضمیر واحد مذکور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کو متضمن ہوتی ہے اس لیے کہ ہر وہ کام جس سے اللہ راضی ہوتا ہے اس سے رسول بھی راضی ہوتا ہے۔ اس لیے دلالت حال کی بنا پر رسول کے لیے ضمیر کا ذکر ترک کردیا گیا ۔ ایک قول کے مطابق کنایہ کے اندر اللہ کا اسم کسی اور اسم کے ساتھ یک جا نہیں ہوتا ۔ تنہا ذکر باری میں اس کی عظمت کا پہلو موجود ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتا ہے وہ ہدایت پا لیتا ہے اور جو شخص ان دونوں کی نافرمانی کرتا ہے وہ گمراہ ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر آپ نے اس سے فرمایا چلئے جائو ، تم بہت برے خطیب ہو ۔ آپ نے اس کی یہ بات ناپسند فرمائی کہ اس نے کنایہ میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کے نام کو یکجا کردیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے غیر اللہ کے اسم کو اللہ کے اسم کے ساتھ جمع کرنے سے منع فرمایا ہے آپ کا ارشاد ہے لا تقولو ان شاء اللہ وشاء فلان ولکن قولوا ان شاء اللہ ثم شاء فلان یہ نہ کہو کہ اگر اللہ چاہے اور فلاں چاہے ، بلکہ یوں کہو اگر اللہ چاہے اور پھر فلاں چاہے۔ قول باری ہے یحذر المنافقون ان تنزل علیھم سورة تنبئھم بما فی قلوبھم و منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں ان پر کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوء جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے ۔ حسن اور مجاہد کا قول ہے کہ منافقین ڈرتے رہتے تھے ، ان دونوں حضرت نے فقرے کو اس معنی پر محمول کیا ہے کہ ان کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے کہ وہ ڈر رہے ہیں ۔ ان کے سوا دوسرے حضرات کا قول ہے کہ فقرے کی صورت تو جملہ خبر یہ کی ہے لیکن یہ امر کے معنوں میں ہے۔ اصل عبارت اس طرح ہے لیحذر المنافقوں منافقین کا ڈرنا چاہیے۔ قول باری ہے ان اللہ مخرج ما تحذرون اللہ تعالیٰ اس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی جا رہی ہے کہ دل میں پوشیدہ بدی کو کھول دیا جائے گا اور اسے ظاہر کر کے بدی رکھنے والے شخص کو پوری طرح عیاں کردیا جائے گا جس کے نتیجے میں اس کا پول کھل جائے گا اور اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ خبر منافقین کے بارے میں دی جا رہی ہے اور دوسرے لوگوں کو جو اپنے دلوں میں بدی چھپائے ہوئے ہیں تنبیہ کی جا رہی ہے یہ قول باری اس قول واللہ مخرج ما کنتم تکتمون اور اللہ تعالیٰ اس چیز کو کھو ل دیئے والا ہے جس کو تم چھپاتے ہو کے ہم معنی ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) یہ لوگ جہاد میں نہ شریک ہو کر پھر اپنی صفائی کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ آپ کو مطمئن کریں اگر یہ لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو راضی کریں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (یَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ ج) - اس مہم کی تیاری کے دوران منافقین کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جھوٹے بہانے بنا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت لے لیتے ‘ اور پھر قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو بھی یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ ہم آپ کے مخلص ساتھی ہیں ‘ آپ لوگ ہم پر شک نہ کریں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani