Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایک کے ہاتھ نیکیوں کے کھیت دوسرے کے ہاتھ برائیوں کی وبا منافقوں کی حصلتیں مومنوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہیں ۔ مومن بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں منافق برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلائیوں سے منع کرتے ہیں ۔ مومن سخی ہوتے ہیں منافق بخیل ہوتے ہیں ۔ مومن ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں ۔ منافق یاد الٰہی بھلائے رہتے ہیں ۔ اسی کے بدلے اللہ بھی ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جیسے کسی کو کوئی بھول گیا ہو قیامت کے دن یہی ان سے کہا جائے گا کہ تم ہم تمہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے ۔ منافق راہ حق سے دور ہوگئے ہیں گمراہی کے چکر دار بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں ۔ ان منافقوں اور کافروں کی ان بداعمالیوں کی سزا ان کے لئے اللہ تعالیٰ جہنم کو مقرر فرما چکا ہے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے ۔ وہاں کا عذاب انہیں بس ہوگا ۔ انہیں رب رحیم اپنی رحمت سے دور کر چکا ہے اور ان کے لئے اس نے دائمی اور مستقل عذاب رکھے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 منافقین، جو حلف اٹھا کر مسلمان باور کراتے تھے کہ ہم تم ہی میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی، کہ ایمان والوں سے ان کا کیا تعلق ؟ البتہ یہ سب منافق، چاہے مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی ہیں، یعنی کف و نفاق میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ آگے ان کی صفات بیان کی جا رہی ہیں جو مومنین کی صفات کے بالکل الٹ اور برعکس ہیں۔ 67۔ 2 اس سے مراد بخل ہے۔ یعنی مومن کی صفت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور منافق کی اس کے برعکس بخل، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ 67۔ 3 یعنی اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا معاملہ کرے گا کہ گویا اس نے انہیں بھلا دیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا آج ہم تمہیں اس طرح بھلا دیں گے جس طرح تم ہماری ملاقات کے اس دن کو بھولے ہوئے تھے مطلب یہ کہ جس طرح انہوں نے دنیا میں اللہ کے احکامات کو چھوڑے رکھا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے محروم رکھے گا گویا نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف علم بلاغت کے اصول مشاکلت کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کی ذات نسیان سے پاک ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] منافق امر تو منکرات کا کرتے ہیں اور نہی اوامر کی :۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتاب و سنت میں اتنی زیادہ تاکید آئی ہے جس سے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض کفایہ کے بجائے فرض عین سمجھ لیا ہے اور یہ منافق لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں سب اس اہم فریضہ کے برعکس کام کرتے ہیں۔ کوئی برائی کی بات ہو، کفر و شرک کا معاملہ ہو یا اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا، ان کے دل فوراً ادھر مائل ہوجاتے ہیں اور اس میں ہر طرح سے امداد و تعاون پر تیار ہوجاتے ہیں اور ایسے کاموں میں ان کے دلوں کو اطمینان اور راحت ملتی ہے اور جب کوئی اچھا کام ہو رہا ہو یا دین کی سربلندی کا معاملہ درپیش ہو تو ایسی خبر سنتے ہی ان کے دل بجھ جاتے ہیں۔ پھر وہ ایسی تدبیروں میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ یا تو وہ کام شروع ہی نہ ہو اور اگر ہوچکا ہے تو تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔- [٨١] یعنی وہ رسم ورواج، دکھلاوے اور حرام کاموں میں تو اپنے دل کی خوشی سے اور فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جب جہاد کے لیے یا کسی بھی بھلے کام کے لیے چندہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کے دلوں میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے اور کوئی چیز ہاتھوں سے نکالنے کو جی نہیں چاہتا۔- [٨٢] بھلانے کی نسبت اللہ کی طرف :۔ اللہ کا بھلانا یہ ہے کہ اس نے ان منافقوں کو اپنے فضل اور رحمت سے محروم کردیا اور اس کے بجائے سب مسلمانوں کی نظروں میں اللہ نے ذلیل و رسوا بنادیا۔ نیز عرب میں محاورہ یہ ہے کہ کسی چیز کے بدلے پر بھی اس کا نام بول دیتے ہیں۔ اور اسے مشا کلہ کہتے ہیں جیسے ( يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۝ۭ ) 2 ۔ البقرة :9) (وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں اور اللہ انہیں ان کے دھوکے کا بدلہ دیتا ہے) اب اللہ نے اپنے بھلانے کی جو جو سزا بھی مقرر کر رکھی ہے۔ ان سب سزاؤں پر اس لفظ کا اطلاق ہوگا۔ جیسا کہ ان سزاؤں کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اس سے اگلی آیت میں کردی ہے یعنی اللہ کے بھلانے سے مراد ان پر اللہ کی پھٹکار اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ : یعنی منافق مرد ہوں یا عورتیں سب ایک جیسے ہیں اور سب کی ایک جیسی عادات اور بدخصلتیں ہیں، وہ برے کام کا حکم دیں گے، اچھے کام سے روکیں گے اور بخل کی وجہ سے اپنے ہاتھ بند رکھیں گے، یعنی خرچ نہیں کریں گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے انھیں بھلا دینے کا ذکر ان کے اللہ تعالیٰ کو بھول جانے کے مقابلے میں فرمایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہی سلوک کیا کہ ان کی پروا ہی نہیں فرمائی، بلکہ انھیں اپنے فضل و کرم سے محروم کردیا۔ اس تاویل کی ضرورت اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی نقل فرمایا : (لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى) [ طٰہٰ : ٥٢ ] ” میرا رب بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ “ معلوم ہوا کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی بھولنے کی طرف نسبت صرف لفظ کے ہم شکل ہونے تک ہے، ورنہ وہ ذات پاک بھولنے سے ہر طرح پاک ہے ۔- هُمُ الْفٰسِقُوْنَ : یعنی فسق (نافرمانی) میں حد کمال تک پہنچ چکے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” بےاعتقاد کی صلاحیت کیا معتبر ہے، اسے فاسق ہی کہنا چاہیے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک طرح کے ہیں کہ بری بات کی ( یعنی کفر و مخالفت اسلام کی) تعلیم دیتے ہیں اور اچھی بات سے ( یعنی ایمان اور اتباع نبوی سے) منع کرتے ہیں اور ( خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے) اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں انھوں نے خدا کا خیال نہ کیا، ( یعنی اطاعت نہ کی) پس خدا نے ان کا خیال نہ کیا ( یعنی ان پر رحمت خاصہ نہ کی) بلا شبہ یہ منافق بڑے ہی سرکش ہیں، اللہ تعالیٰ نے منافق مردوں عورتوں اور ( علانیہ) کفر کرنے والوں سے دوزخ کی آگ کا عہد کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہ ان کے لئے ( سزائے) کافی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور ان کو ( حسب وعدہ مذکور) عذاب دائمی ہوگا ( اے منا فقو ) تمہاری حالت ( کفر اور استحقاق جزائے کفر میں) ان لوگوں کی سی ہے جو تم سے پہلے ( زمانہ میں) ہوچکے ہیں جو شدت قوت میں اور کثرت اولاد و اموال میں تم سے بھی زیادہ تھے تو انہوں نے اپنے ( دنیوی) حصے سے خوب فائدہ حاصل کیا سو تم نے بھی اپنی ( دنیوی) حصہ سے خوب فائدہ حاصل کیا جیسا تم سے پہلے لوگوں نے اپنے ( دنیوی) حصہ سے فائدہ حاصل کیا تھا، اور تم بھی ( بری باتوں میں ایسے ہی گھسے جیسے وہ لوگ ( بری باتوں میں) گھسے تھے، ان لوگوں کے اعمال ( حسنہ) دنیا اور آخرت ( سب) میں ضائع ہوگئے ( کہ دنیا میں ان اعمال پر بشارت ثواب نہیں، اور آخرت میں ثواب نہیں) اور ( اسی حبط فی الدنیا والاخرة کی وجہ سے) وہ لوگ بڑے نقصان میں ہیں ( کہ دارین میں مسرت اور راحت سے محروم ہیں، پس اسی طرح تم بھی ان کی طرح کفر کرتے ہو تو انہی کی طرح خائب و خاسر ہوگے، اور جیسا ان کے اموال و اولاد ان کے کام نہ آئے تم تو ان چیزوں میں ان سے کمہو، تمہارے بدرجہ اولی کام نہ آویں گے، یہ تو ضرر آخرت کی وعید ہوئی، آگے احتمال ضرر دنیا کے ذکر سے متنبہ فرماتے ہیں کہ) کیا ان لوگوں کو ان ( کے عذاب و ہلاک) کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے ہوئے ہیں، جیسے قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور الٹی ہوئی بستیاں ( یعنی قرٰی قوم لوط) کہ ان کے پاس ان کے پیغمبر صاف نشانیاں ( حق کی) لے کر آئے ( لیکن نہ ماننے سے برباد ہوئے) سو ( اس بربادی میں) اللہ تعالیٰ نے تو ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ( اسی طرح ان منافقین کو بھی ڈرنا چاہئے ) ۔- معارف و مسائل - مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں منافقین کا ایک حال یہ بتلایا کہ وہ اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں، (آیت) يَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَهُمْ ، تفسیر قرطبی میں ہے کہ ہاتھ بند رکھنے سے مراد ترک جہاد اور حقوق واجبہ کا ادا نہ کرنا ہے، (آیت) نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ، اس کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو بھلا دیا، اللہ تعالیٰ تو نسیان اور بھول سے پاک ہیں، مراد اس جگہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے احکام کو اس طرح چھوڑ دیا جیسے بھول گئے ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے بھی ثواب آخرت کے معاملہ میں ان کو ایسا ہی کر چھوڑا کہ نیکی اور ثواب میں کہیں ان کا نام نہ رہا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝ ٠ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۝ ٠ ۭ نَسُوا اللہَ فَنَسِيَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ٦٧- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] - اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - قبض - القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً- [ طه 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ- [ التوبة 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، - ( ق ب ض ) القبض - ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے المنافقوں المنافقات بعضھم من بعض منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کی نسبت بعض کی طرف اس بنا پر کی ہے کہ نفاق پر ان سب کا اجتما ع اور ایکا ہے۔ اس لیے نفاق کا رویہ اختیار کرنے ، بھلائی سے روکنے اور برائی کا حکم دینے میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرنے کی بنا پر یہ سب ہم رنگ اور ہم شکل ہیں ۔ جس طرح منجملہ مشابہت کی بناء پر ایک چیز کے بعض حصے کو ایک چیز کی طرف مضاف کردیا جاتا ہے۔- قول باری ہے ویقبضون ایدیھم اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں ۔ حسن اور مجاہد سے مروی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں ۔ قتادہ کا قول ہے کہ یہ خیر اور نیکی سے رکھتے ہیں ۔ یہ مراد لینا درست ہے کہ انہوں نے ان تمام مذکورہ بالا نیکیوں سے اپنے ہاتھ روک لیے تھے آیت کے لفظ میں ان تمام معانی کا احتمال ہے۔ قول باری ہے نسو اللہ فنسیھم یہ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں بھلا دیا ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے اوامرکو اور ان پر عمل کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ ان کے نزدیک اللہ کے اوامربھولی بسری باتیں بن گئیں ، اس لیے کہ انہوں نے کے کسی حصے پر عمل نہیں کیا جس طرح بھلائی ہوئی چیز پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ قول باری فنسیھم کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے محروم کردیا ۔ اللہ نے انہیں گناہ کے نام سے موسوم کیا اس لیے کہ اپنی رحمت سے اپنی محروم کردینا ان کے گناہ کے بالمقابل تھا اس لیے کہ یہ ان کے گناہ کی سزا اور اس کا بدلہ تھا، یہ مجازی تعبیر ہے جس طرح عربوں کا مقولہ ہے الجزاء بالجزاء اولے کا بدلہ یا جس طرح یہ قول باری ہے وجزاء سیئتۃ سیئۃ مثلھا برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے یا اسی طرح کی اور مثالیں ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) سب منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے طریقے پر ہیں کفر اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی تعلیم دیتے ہیں ایمان اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھوں کو روکتے ہیں، انہوں نے پوشیدگی کے ساتھ اطاعت خداوندی کو چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو دنیا میں ذلیل کیا اور آخرت میں آگ میں ڈال دیا، یقیناً یہ منافق پکے کافر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍ ٧ ) - ان سب منافقین کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے ‘ اندر سے یہ سب ایک ہیں۔- (یَاْمُرُوْنَ بالْمُنْکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ ) - یعنی اللہ کے احکام کے خلاف یہ لوگ امر با لمنکر اور نہی عن المعروف کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ دوسروں سے ہمدردی جتا کر انہیں نیکی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو اپنے خون پسینے کی کمائی کواِدھر ادھر مت ضائع کرو ‘ بلکہ اسے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سنبھال کر رکھو۔- (وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ ط) - یعنی اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :75 یہ تمام منافقین کی مشترک خصوصیت ہے ۔ ان سب کو برائی سے دلچسپی اور بھلائی سے عداوت ہوتی ہے ۔ کوئی شخص برا کام کرنا چاہے تو ان کی ہمدردیاں ، ان کے مشورے ، ان کی ہمت افزائیاں ، ان کی اعانتیں ، ان کی سفارشیں ، ان کی تعریفیں اور مدح سرائیاں سب اس کے لیے وقف ہوں گی ۔ دل و جان سے خود اس برے کام میں شریک ہوں گے ، دوسروں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دیں گے ، کرنے والے کی ہمت بڑھائیں گے ، اور ان کی ہر ادا سے یہ ظاہر ہوگا کہ اس برائی کے پروان چڑھنے ہی سے کچھ ان کے دل کو راحت اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے ۔ بخلاف اس کے کوئی بھلا کام ہو رہا ہو تو اس کی خبر سے ان کو صدمہ ہوتا ہے ، اس کے تصور سے ان کا دل دکھتا ہے ، اس کی تجویز تک انہیں گوارا نہیں ہوتی ، اس کی طرف کسی کو بڑھتے دیکھتے ہیں تو ان کی روح بے چین ہونے لگتی ہے ۔ ہر ممکن طریقہ سے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور ہر تدبیر سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ اس نیکی سے باز آجائے اور باز نہیں آتا تو اس کام میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ پھر یہ بھی ان سب کا مشترک خاصہ کہ نیکی کے کام میں خرچ کرنے کےلیے ان کا ہاتھ کبھی نہیں کھلتا ۔ خواہ وہ کنجوس ہوں یا بڑے خرچ کرنے والے ، بہرحال ان کی دولت یا تو تجوریوں کے لیے ہوتی ہے یا پھر حرام راستوں سے آتی ہے اور حرام ہی راستوں میں یہ جاتی ہے ۔ بدی کے لیے چاہے وہ اپنے وقت کے قارون ہوں مگر نیکی کے لیے ان سے زیادہ مفلس کوئی نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

59: ہاتھوں کو بند رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کنجوس ہیں۔ جہاں خرچ کرنا چاہئے وہاں خرچ نہیں کرتے۔