Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز منافقوں کی ایک بدخصلت یہ بھی ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل ۔ یہ عیب جو بدگو لوگ بہت برے ہیں اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا ۔ چنانچہ جب صدقات دینے کی آیت اتری ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہ اپنے اپنے صدقات لئے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ایک صاحب نے دل کھول کر بہت بڑی رقم دی تو اسے ان منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا بیچارے ایک صاحب مسکین آدمی تھی صرف ایک صاع اناج لائے تھے انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے ایک مرتبہ آپ نے بقیع میں فرمایا کہ جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دوں گا اس وقت ایک صحابی نے اپنے عمامے میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جن سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی کہنے لگے یا رسول اللہ یہ اللہ کے نام پر خیرات ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا اس نے کہا لیجئے سنبھالیجئے اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے ۔ آپ نے سن لیا اور فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے افسوس سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس ، تین مرتبہ یہی فرمایا پھر فرمایا مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کرے اور ہاتھ بھر بھر کر آپ نے اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا ۔ یعنی راہ اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے ۔ پھر فرمایا انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف چالیس اوقیہ چاندی لائے اور ایک غریب انصاری ایک صاع اناج لائے منافقوں نے ایک کو ریاکار بتایا دوسرے کے صدقے کو حقیر کہہ دیا ایک مرتبہ آپ کے حکم سے لوگوں نے مال خیرات دینا اور جمع کرنا شروع کیا ۔ ایک صاحب ایک صائع کھجوریں لے آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھجوروں کے دو صاع تھے ایک میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے روک لیا اور ایک لے آیا آپ نے اسے بھی جمع شدہ مال میں ڈال دینے کو فرمایا اس پر منافق بکواس کرنے لگے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے بےنیاز ہے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا میرے پاس ایک سو اوقیہ سونا ہے میں یہ سب صدقہ کرتا ہوں حضرت عمر نے فرمایا ہوش میں بھی ہے؟ آپ نے جواب دیا ہاں ہوش میں ہوں فرمایا پھر کیا کر رہا ہے؟ آپ نے فرمایا سنو میرے پاس آٹھ ہزار ہیں جن میں سے چار ہزار تو میں اللہ کو قرض دے رہا ہوں اور چار ہزار اپنے لئے رکھ لیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے جو تو نے رکھ لیا ہے اور جو تو نے خرچ کر دیا ہے ۔ منافق ان پر باتیں بنانے لگے کہ لوگوں کو اپنے سخاوت دکھانے کے لئے اتنی بڑی رقم دے دی ۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر بڑی رقم اور چھوٹی رقم والوں کی سچائی اور ان منافقوں کا موذی پن ظاہر کردیا ۔ بنو عجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات میں دی تھی جو ایک سو وسق پر مشتمل تھی ۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا ۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابو عقیل تھے ۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لئے کیا تھا ۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن نے دو ہزار رکھے تھے ۔ دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صائع کھجوریں حاصل کر کے ایک صائع رکھ لیں اور ایک صائع دے دیں ۔ یہ حضرت ابو عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے تھے ۔ ان کا نام حباب تھا ۔ اور قول ہے کہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن ثعلبہ تھا ۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ نے ہی ان سے یہی بدلہ لیا ۔ ان منافقوں کے لئے آخرت میں المناک عذاب ہیں ۔ اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 مطّوعین کے معنی ہیں صدقات واجبہ کے علاوہ اپنی خوشی سے مزید اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے،" جہد " کے معنی محنت ومشقت کے ہیں یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی محنت و مشقت سے کمائے ہوئے تھوڑے مال میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ آیت میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں سے چندے کی اپیل فرماتے تو مسلمان آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت اس میں حصہ لیتے کسی کے پاس زیادہ مال ہوتا وہ زیادہ صدقہ دیتا جس کے پاس تھوڑا ہوتا، وہ تھوڑا دیتا، یہ منافقین دونوں قسم کے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے زیادہ دینے والوں کے بارے میں کہتے اس کا مقصد ریاکاری اور نمود و نمائش ہے اور تھوڑا دینے والوں کو کہتے کہ تیرے اس مال سے کیا بنے گا یا اللہ تعالیٰ تیرے اس صدقے سے بےنیاز ہے (صحیح بخاری) یوں وہ منافقین مسلمانوں کا استہزا کرتے اور مذاق اڑاتے۔ 79۔ 2 یعنی مومنین سے استہزا کا بدلہ انہیں اس طرح دیتا ہے کہ انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اس کا تعلق باب مشاکلت سے ہے جو علم بلاغت کا ایک اصول ہے یا یہ بددعا ہے اللہ تعالیٰ ان سے بھی استہزا کا معاملہ کرے جس طرح یہ مسلمانوں کے ساتھ استہزا کرتے ہیں۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٤] غزوہ تبوک کے لئے چندہ دینے والے :۔ غزوہ تبوک کے موقعہ پر قحط سالی بھی تھی۔ ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں۔ سفر بھی دور دراز کا تھا۔ مقابلہ بھی رومیوں سے تھا اور اسلحہ اور سواری کی بھی خاصی قلت تھی۔ لہذا آپ نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجہ میں سیدنا عثمان (رض) اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیا کہ آپ خوش ہوگئے۔ سیدنا عمر اپنے گھر کا آدھا اثاثہ بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سارا ہی اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے اور ہر مسلمان نے اس فنڈ میں حسب توفیق حصہ لیا۔ نادار لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اور اغنیاء نے اپنی حیثیت اور رغبت کے مطابق۔ ایک صحابی ابو عقیل نے رات بھر مزدوری کی جس کی اجرت ایک صاع کھجور تھی۔ ان میں سے آدھا صاع گھر لے گیا اور آدھا صاع لا کر آپ کی خدمت میں حاضر کردیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة توبہ زیر آیت ہذا) آپ کو اس آدھے صاع سے اتنی خوشی ہوئی کہ آپ نے وہ کھجوریں ڈھیر کے اوپر پھیلا دیں۔ یہ دراصل آدھا صاع کھجور کی قدر و قیمت نہ تھی بلکہ اس نیت، شوق اور رغبت کی تھی جس کی بنا پر اس نے اہل و عیال کا پیٹ کاٹ کر آدھا صاع حاضر کردیا تھا۔- خ چندہ دینے والوں کو منافقوں کی طعنہ زنی :۔ اس موقعہ پر منافقوں کو پھبتیاں کسنے کا خوب موقع ملا۔ اگر کسی نے جی کھول کر چندہ دیا ہوتا تو کہتے کہ یہ سب کچھ دکھلاوا اور ریاکاری ہے۔ اور اگر کوئی تھوڑا دیتا تو کہتے کہ اتنے مال سے کونسی جنگی ضرورت پوری ہوسکتی ہے یہ لوگ تو لہو لگا کے شہیدوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کو اس کی کیا پروا تھی۔ غرض ان کی طعن و ملامت سے کوئی بھی نہ بچتا تھا۔ یہی پس منظر اس آیت کا شان نزول ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔- ابو مسعود انصاری کہتے ہیں۔ جب ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا ہم اس وقت مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ابو عقیل (اسی مزدوری سے) آدھا صاع کھجور لے کر آئے تو منافق کہنے لگے : ابو عقیل کی خیرات کی بھلا اللہ کو کیا پروا تھی۔ ایک اور آدمی (عبدالرحمن بن عوف) بہت سا مال لائے تو منافق کہنے لگے کہ اس نے ریا (ناموری) کے لیے اتنا مال خیرات کیا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ ) (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ باب الحمل باجرۃ یتصدق بھا )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ : ” الْمُطَّوِّعِيْنَ “ باب تفعل سے اسم فاعل ہے جو اصل میں ” مُتَطَوِّعِیْنَ “ تھا۔ جو لوگ فرض زکوٰۃ کے علاوہ مزید مال خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔ جہد کا معنی محنت و مشقت ہے، یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں مگر محنت مشقت کرکے کمایا ہوا تھوڑا مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے، لیکن مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے، جب کوئی شخص زیادہ چندہ لاتا تو یہ اسے ریا کار کہتے اور جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لا کر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت ہے ؟ دونوں صورتوں میں مذاق اڑاتے اور ٹھٹھا کرتے۔ یہ وہ موقع تھا جب عمر (رض) اپنا نصف مال لے آئے اس خیال سے کہ اگر بڑھ سکا تو آج ابوبکر (رض) سے بڑھ جاؤں گا، جب ابوبکر (رض) آئے تو گھر کا سارا مال لے آئے تھے۔ [ ترمذی، المناقب، باب رجاؤہ أن یکون أبوبکر۔۔ : ٣٦٧٥، وقال حسن صحیح وحسنہ الألبانی ]- عبد الرحمن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کی تیاری کے وقت عثمان (رض) نے ایک ہزار دینار لا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جھولی میں رکھ دیے۔ عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دیناروں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا : ” آج کے (اس عمل کے) بعد عثمان جو بھی عمل کریں وہ انھیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ “ [ ترمذی، المناقب، باب فی عد عثمان تسمیتہ شہیدا۔۔ : ٣٧٠١ ] ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب صدقے کی آیت اتری تو ہم اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے، یعنی اس طرح اجرت حاصل کرتے تو ایک آدمی آیا اس نے بہت زیادہ چیز کا صدقہ کیا تو (منافق) کہنے لگے، یہ دکھاوا چاہتا ہے اور ایک آدمی آیا اور اس نے ایک صاع (دو کلو غلہ) صدقہ کیا تو انھوں نے کہا، اللہ تعالیٰ اس کے صدقے سے بےنیاز ہے (اسے اس کی کیا ضرورت ہے ؟ ) تو یہ آیت اتری۔ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب : اتقوا النار ولو بشق تمرۃ ۔۔ : ١٤١٥ ] ابومسعود انصاری (رض) کی روایت ہے کہ ابوعقیل (مزدوری کرکے) آدھا صاع (ایک کلو غلہ) لائے اور ایک اور صاحب زیادہ مال لائے، تو منافق کہنے لگے، اس (نصف صاع) کی اللہ کو کیا ضرورت تھی اور اس دوسرے نے تو محض دکھاوے کے لیے دیا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری : (ۚاَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ ) [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( الذین یلمزون المطوعین۔۔ ) : ٤٦٦٩ ]- سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (١٥) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ ( منافقین) ایسے ہیں کہ نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر صدقات کے بارے میں ( تھوڑا ہونے پر) طعن کرتے ہیں اور ( بالخصوص) ان لوگوں پر ( اور زیادہ) جن کو بجز محنت مزدوری ( کی آمدنی) کے اور کچھ میسر نہیں ہوتا ( اور وہ بیچارے اسی مزدوری میں سے ہمت کر کے کچھ صدقہ نکال دیتے ہیں) یعنی ان سے تمسخر کرتے ہیں ( یعنی مطلق طعن تو سب ہی پر کرتے ہیں کہ کیا تھوڑی سی چیز صدقہ میں لائے، اور ان محنت کش غریبوں سے تمسخر بھی کرتے ہیں کہ لو یہ بھی صدقہ دینے کے قابل ہوگئے) اللہ تعالیٰ ان کو تمسخر کا ( تو خاص) بدلہ دے گا اور ( ویسے مطلق طعن کا یہ بدلہ ملے گا کہ) ان کے لئے ( آخرت میں) دردناک سزا ہوگی، آپ خواہ ان منافقین کے لئے استغفار کریں، یا ان کے لئے استغفار نہ کریں ( دونوں حال برابر ہیں کہ ان کو اس سے کوئی نفع نہیں ہوگا، انکی مغفرت نہیں کی جائے گی) اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ ( یعنی بکثرت) بھی استغفار کریں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ بخشے گا، یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ تعالیٰ ایسے سرکش لوگوں کو ( جو کبھی ایمان اور حق کی طلب ہی نہ کریں) ہدایت نہیں کیا کرتا ( اس وجہ سے یہ عمر پھر کفر ہی پر قائم رہے، اسی پر مر گئے ) ۔- معارف و مسائل - پہلی آیت میں نفلی صدقات دینے والے مسلمانوں پر منافقین کے طعن وتشنیع کا ذکر ہے، صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو مسعود نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا، اور ہمارا حال یہ تھا کہ ہم محنت مزدوری کرتے تھے ( کوئی مال ہمارے پاس نہ تھا، اسی مزدوری سے جو کچھ ہمیں ملتا تھا اسی میں سے صدقہ بھی نکالتے تھے) چناچہ ابو عقیل نے آدھا صاع ( تقریباً پونے دو سیر) صدقہ پیش کیا، دوسرا آدمی آیا اس نے اس سے کچھ زیادہ صدقہ کیا، منافقین ان پر طعن وتشنیع کرنے لگے کہ کیا حقیر اور ذرا سی چیز صدقہ میں لائے، اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز کی ضرورت نہیں، اور جس نے کچھ زیادہ صدقہ کیا اس پر یہ الزام لگایا کہ اس نے ریاءً لوگوں کو دکھلانے کے لئے صدقہ کیا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ میں جزاء تمسخر کو تمسخر سے تعبیر کیا گیا ہے۔- دوسری آیت میں جو منافقین کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرمایا گیا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں برابر ہے، اور کتنا ہی استغفار کریں ان کی مغفرت نہیں ہوگی، اس کا پورا بیان آگے آنے والی آیت لَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ کے تحت آئے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَہُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ۝ ٠ ۭ سَخِرَ اللہُ مِنْہُمْ۝ ٠ ۡوَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٧٩- لمز - اللَّمْزُ : الاغتیاب وتتبّع المعاب . يقال : لَمَزَهُ يَلْمِزُهُ ويَلْمُزُهُ. قال تعالی: وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقاتِ [ التوبة 58] ، الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة 79] ، وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ- [ الحجرات 11] أي : لا تلمزوا الناس فيلمزونکم، فتکونوا في حکم من لمز نفسه، ورجل لَمَّازٌ ولُمَزَةٌ: كثير اللّمز، قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] .- ( ل م ز ) لمزہ ( ض ن ) لمزا کے معنی کسی کی غیبت کرنا ۔ اس پر عیب چینی کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ لمزہ یلمزہ ویلمزہ ۔ یعنی یہ باب ضرفب اور نصر دونوں سے آتا ہے قرآن میں ہے : الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة 79] اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ جو رضا کار انہ خیر خیرات کرنے والوں پر طنزو طعن کرتے ہیں ۔ وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات 11] اور اپنے ( مومن بھائیوں ) پر عیب نہ لگاؤ۔ یعنی دوسروں پر عیب نہ لگاؤ ورنہ ودتم پر عیب لگائیں گے ۔ اسی طرح گویا تم اپنے آپ عیب لگاتے ہو ۔ رجل لما ر و لمزۃ ۔ بہت زیادہ عیب جوئی اور طعن وطنز کرنے والا ۔ قرآن میں ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز آشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔- المطوعین - ۔ اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ المطوع واحد۔ تطوع ( تفعل) مصدر۔ اصل میں المتطوعین تھا۔ تاء کو ط میں مدغم کیا۔ تطوع کا صل معنی ہے اطاعت میں بناوٹ کرنا۔ اور عرف شرع میں ایسی طاعت کو کہتے ہیں جو فرض نہ ہو بطور نفل اپنی طرف سے کی جائے لیکن تطوع اپنے اندر استطاعت کا مفہوم رکھتا ہے اس لئے المطوعین کا ترجمہ ہوا۔ خیرات کرنے والے صاحب استطاعت - صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٩) منافقین حضرت عبدالرحمن اور ان کے ساتھیوں پر نفلی صدقات کے بارے میں طعن کیا کرتے تھے اور کہتے کہ یہ لوگ صدقات صرف دکھاوے اور ریا کے لیے دیتے ہیں اور ان لوگوں پر طعن وتشنیع کرتے تھے جن کو ماسوا محنت و مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں ہوتا تھا اور یہ حضرت ابو عقیل عبدالرحمن بن تیمان تھے ان کو کھجور کا صرف ایک ہی صاع میسر آیا تھا اور اس کم صدقہ پر تمسخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صرف دکھاوے کے لیے کر آئے ہیں ورنہ صدقہ تو اس سے زیادہ دیا جاتا ہے۔- اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے تمسخر کا بدلہ دے گا ان کی جلن کے لیے دوزخ میں ایک دروازہ جنت کی طرف کھولے گا اور آخرت میں ان کو بڑی درد ناک سزا ملے گی ،- شان نزول : (آیت ) ” الذین یلمزون “۔ (الخ)- حضرت امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے ابومسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم اپنی پشتوں پر بوجھ لاد کر آتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص زیادہ صدقہ کرتا تو یہ منافق کہتے یہ ریاکار ہے اور کوئی صرف ایک ہی صاع لے کر آتا تو یہ منافق کہتے کہ اللہ تعالیٰ اس کے صدقہ سے غنی ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسی طریقہ پر حضرت ابوہریرہ (رض) ابوعقیل (رض) ابوسعید خدری (رض) ابن عباس (رض) عمیرہ، بنت سہیل بن رافع سے روایات مروی ہیں یہ تمام روایات ابن مردویہ نے روایت کی ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ ) - جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کی مہم کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو مسلمانوں کی طرف سے ایثار اور اخلاص کے عجیب و غریب مظاہر دیکھنے میں آئے۔ ابو عقیل (رض) ایک انصاری صحابی تھے ‘ ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور ساری رات کنویں سے پانی نکال نکال کر اس کے باغ کو سیراب کرتے رہے۔ صبح انہیں مزدوری کے طور پر کچھ کھجوریں ملیں۔ انہوں نے ان میں سے آدھی کھجوریں تو گھر میں بچوں کے لیے چھوڑدیں اور باقی آدھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لا کر پیش کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس صحابی کے خلوص و اخلاص اور حسن عمل سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ کھجوریں سب مال و اسباب پر بھاری ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت کے مطابق انہیں سامان کے پورے ڈھیر کے اوپر پھیلا دیا گیا۔ لیکن وہاں جو منافقین تھے انہوں نے حضرت ابو عقیل (رض) کا مذاق اڑایا اور فقرے کسے کہ جی ہاں ‘ کیا کہنے بہت بڑی قربانی دی ہے ان کھجوروں کے بغیر تو یہ مہم کامیاب ہو ہی نہیں سکتی تھی ‘ وغیرہ وغیرہ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :87 غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ روکے بیٹھے رہے ۔ مگر جب مخلص اہل ایمان بڑھ بڑھ کر چندے دینے لگے تو ان لوگوں نے ان پر باتیں چھانٹنی شروع کیں ۔ کوئی ذی استطاعت مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر کوئی بڑی رقم پیش کرتا تو یہ اس پر ریاکاری کا الزام لگاتے ، اور اگر کوئی غریب مسلمان اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی سے رقم حاضر کرتا ، یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کر دیتا ، تو یہ اس پر آوازے کستے کہ لو ، یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آگئی ہے تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کیے جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

67: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو صدقات نکالنے کی ترغیب دی تو ہر مخلص مسلمان نے اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ لا کر پیش کیا، منافقین خود تو اس کار خیر میں کیا حصہ لیتے، مسلمانوں کو طعنے دیتے رہتے تھے۔ اگر کوئی شخص زیادہ مال لے کر آتا تو کہتے کہ یہ تو دکھاوے کے لیے صدقہ کر رہا ہے اور اگر کوئی غریب مزدور اپنے گھاڑھے پسینے کی کمائی سے کچھ تھوڑا سا صدقہ لے کر آتا تو منافقین اس کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ یہ کیا چیز اٹھا لایا ہے۔ اللہ اس سے بے نیاز ہے۔ صحیح بخاری اور حدیث و تفسیر کی دوسری کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ لیکن اس جگہ غالبا وہ موقع مراد ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے لیے چندہ جمع کرنے کی ترغیب دی تھی۔ در منثور (ج :4 ص 226) میں ایک روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ 68: اللہ تعالیٰ یوں تو مذاق اڑانے سے بے نیاز ہے، لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مذاق اڑانے کی سزا دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف مذاق اڑانے کی نسبت محاورۃ کی گئی ہے جسے عربی قواعد کی رو سے مشاکلت کہا جاتا ہے۔