Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی جو فقر و غربت کی وجہ سے مٹی پر پڑا ہو، اس کا گھر بار بھی نہ ہو، مطلب یہ ہے کہ کسی گردن کو آزاد کرنا، کسی بھوکے رشتے دار کو کھانا کھلا دینا، یہ دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہونا ہے جس کے ذریعے سے انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جا پہنچے گا یتیم کی کفالت ویسے ہی بڑے اجر کا کام ہے، لیکن اگر وہ رشتے دار بھی ہو تو اس کی کفالت کا اجر بھی دگنا ہے ایک صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا، اسی طرح غلام آزاد کرنے کی بھی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے، آج کل اس کی ایک صورت کسی مقروض کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا ہوسکتی ہے، یہ بھی ایک گونہ فک رقبہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنے کے اوصاف :۔ اس گھاٹی پر چڑھنے کے چار کام یہاں بیان کیے گئے ہیں اور ان چاروں کا تعلق اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے ہے۔ جو انسان کو طبعاً ناگوار ہے۔ اوپر ایسے شخص کا ذکر آیا ہے جو اپنے نام و نمود اور شہرت اور شیخی بگھارنے کے لیے مال خرچ کرتا پھر لوگوں میں بڑ ہانکتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اتنا اور اتنا مال فلاں فلاں کاموں میں خرچ کردیا ہے۔ اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اگر مال خرچ کرنا ہے تو اس کے بہترین مصرف یہ ہیں کہ مال خرچ کرکے کسی غلام کو آزادی دلادی جائے۔ اس کی مکاتبت میں اس کی مدد کی جائے۔ قحط کے دنوں میں لوگوں کو غلہ مہیا کیا جائے یا انہیں کھانا کھلایا جائے۔ یتیموں کی پرورش کی جائے۔ اور اگر وہ یتیم قرابتدار بھی ہو تو وہ اور بھی زیادہ پرورش اور امداد کا مستحق ہے۔ یتیموں کے علاوہ دوسرے ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے جن کو رہنے کو کٹیا اور سونے کو بستر، پہننے کو لباس اور کھانے کو غذا بھی میسر نہیں۔ یہی وہ کام ہیں جو ایک انسان کو بلند مرتبہ تک پہنچانے والے ہیں۔ اور یہ سب کام ایسے ہیں جن کی کتاب و سنت میں جا بجا ترغیب دی گئی ہے اور ان کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ۝ ١٦ ۭ- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] . وتَرِبَ : افتقر، كأنه لصق بالتراب، قال تعالی: أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] ، أي : ذا لصوق بالتراب لفقره . وأَتْرَبَ : استغنی، كأنه صار له المال بقدر التراب، والتَّرْبَاء : الأرض نفسها، والتَّيْرَب واحد التَّيَارب، والتَّوْرَب والتَّوْرَاب : التراب، وریح تَرِبَة : تأتي بالتراب، ومنه قوله عليه السلام :- «عليك بذات الدّين تَرِبَتْ يداك» تنبيها علی أنه لا يفوتنّك ذات الدین، فلا يحصل لک ما ترومه فتفتقر من حيث لا تشعر . وبارح تَرِبٌ: ريح فيها تراب، والترائب : ضلوع الصدر، الواحدة : تَرِيبَة . قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] ، وقوله : أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] ، وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ 33] ، وَعِنْدَهُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ أَتْرابٌ [ ص 52] ، أي : لدات، تنشأن معا تشبيها في التساوي والتماثل بالترائب التي هي ضلوع الصدر، أو لوقوعهنّ معا علی الأرض، وقیل :- لأنهنّ في حال الصبا يلعبن بالتراب معا .- ( ت ر ب ) التراب کے معنی منی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں منی سے پیدا کیا ۔ الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب ( افعال ) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب ( ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں ۔ ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کے لئے دیندار عورت تلاش کرو ۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاو گے ۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو ۔ ترائب سینہ کی پسلیاں ( مفرد ت ربیۃ ) قرآن میں ہے ۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور ہم نوجوان عورتیں ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی ( اور ) ہم عمر ( عورتیں ) ہوں گی ۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (اومسکینا ذا متریۃ یا خاک نشین مسکین کو (کھانا کھلایا) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ متربہ مٹی کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یعنی وہ شخص مٹی میں پڑا ہوا ہو اور کوئی چیز زمین کی مٹی سے اسے محفوظ نہ کررہی ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی منقول ہے کہ متربہ حاجتمندی کی شدت کو بھی کہتے ہیں۔ جب کوئی شخص حاجت مند ہوجاتا ہے تو کہا جاتا ہے۔ ” ترب الرجل “۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ ۔ ” یا اس محتاج کو جو مٹی میں رُل رہا ہے۔ “- یہ وہ فلسفہ ہے جس پر سورة الحدید کے مطالعہ کے دوران تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ یہ مشکل گھاٹی دراصل ُ حب ِمال کی وہ چٹان ہے جو متعلقہ انسان کے لیے بھلائی کے راستے کو مسدود کیے کھڑی ہے۔ سورة الحدید کی آیت ١٨ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے اسے گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دی تھی۔ چناچہ مذکورہ گھاٹی کو عبور کرنے یا گاڑی کی بریک کو کھولنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے مال کو اللہ کی رضا کے لیے محتاجوں اور ناداروں کی مدد کرنے اور بھلائی کے دوسروں کاموں پر دل کھول کر خرچ کرے۔ یعنی مال کی محبت کی آلودگی کو دل سے صاف کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے پیارے مال کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر قربان کردیا جائے۔ یاد رکھیں حب مال کی گندگی کو دل سے نکالے بغیر انسان کو ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوسکتی۔ (اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة الحدید آیات ١٧ تا ٢٠ کی تشریح۔ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :12 اوپر چونکہ اس کی فضول خرچیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ اپنی بڑائی کی نمائش اور لوگوں پر اپنا فخر جتانے کے لیے کرتا ہے ، اس لیے اب اس کے مقابلے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کونسا خرچ اور مال کا کونسا مصرف ہے جو اخلاق کی پستیوں میں گرانے کے بجائے آدمی کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے ، مگر اس میں نفس کی کوئی لذت نہیں ہے بلکہ آدمی کو اس کے لیے اپنے نفس پر جبر کر کے ایثار اور قربانی سے کام لینا پڑتا ہے ۔ وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی کسی غلام کو خود آزاد کرے ، یا اس کی مالی مدد کرے تاکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کر لے ، یا کسی غریب کی گردن قرض کے جال سے نکالے ، یا کوئی بے وسیلہ آدمی اگر کسی تاوان کے بوجھ سے لد گیا ہو تو اس کی جان اس سے چھڑائے ۔ اسی طرح وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی بھوک کی حالت میں کسی قریبی یتیم ( یعنی رشتہ دار یا پڑوسی یتیم ) اور کسی ایسے بےکس محتاج کو کھانا کھلائے جسے غربت و افلاس کی شدت نے خاک میں ملا دیا ہو اور جس کس کی دستگیری کرنے والا کوئی نہ ہو ۔ ایسے لوگوں کی مدد سے آدمی کی شہرت کے ڈنکے تو نہیں بجتے اور نہ ان کو کھلا کر آدمی دولت مندی اور دریا دلی کے وہ چرچے ہوتے ہیں جو ہزاروں کھاتے پیتے لوگوں کی شاندار دعوتیں کرنے سے ہوا کرتے ہیں ، مگر اخلاق کی بلندیوں کی طرف جانے کا راستہ اسی دشوار گزار گھاٹی سے ہو کر گزرتا ہے ۔ ان آیات میں نیکی کے جن کاموں کا ذکر کیا گیا ہے ، ان کے بڑے فضائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمائے ہیں ۔ مثلاً فَكُّ رَقَبَةٍ ( گردن چھڑانے ) کے بارے میں حضور کی بکثرت احادیث روایات میں نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک حضرت ابو ہریرہ کی یہ روایت ہے کہ حضور نے فرمایا جس شخص نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا اللہ تعالی اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے شخص کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے بچا لے گا ، ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ ، پاؤں کے بدلے میں پاؤں ، شرمگاہ کے بدلے میں شرمگاہ ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ) ۔ حضرت علی بن حسین ( امام زین العابدین ) نے اس حدیث کے راوی سعد بن مرجانہ سے پوچھا کیا تم نے ابوہریرہ سے یہ حدیث خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ اس پر امام زین العابدین نے اپنے سب سے زیادہ قیمتی غلام کو بلایا اور اسی وقت اسے آزاد کر دیا ۔ مسلم میں بیان کیا گیا ہے کہ اس غلام کے لیے ان کو دس ہزار درہم قیمت مل رہی تھی ۔ امام ابو حنیفہ اور امام شعبی نے اسی آیت کی بنا پر کہا ہے کہ غلام آزاد کرنا صدقے سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر صدقے پر مقدم رکھا ہے ۔ مساکین کی مدد کے فضائل بھی حضور نے بکثرت احادیث میں ارشاد فرمائے ہیں ۔ ان میں سے ایک حضرت ابوہریرہ کی یہ حدیث ہے کہ حضور نے فرمایا الساعی علی الارملۃ و المسکین کالساعی فی سبیل اللہ و احسبہ قال کالقائم لا یفترو کالصائم لا یفطر بیوہ اور مسکین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا ۔ ( اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ) مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہے اور آرام نہ لے اور وہ جو پے درپے روزے رکھے اور کبھی روزہ نہ چھوڑے ( بخاری و مسلم ) یتامی کے بارے میں حضور کے بے شمار ارشادات ہیں ۔ حضرت سہل بن سعد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور وہ شخص جو کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار یتیم کی کفالت کرے ، جنت میں اس طرح ہوں گے یہ فرما کر آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو اٹھا کر دکھایا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا ( بخاری ) ۔ حضرت ابو ہریرہ حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے نیک سلوک ہو رہا ہو اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے برا سلوک ہو رہا ہو ( ابن ماجہ ۔ بخاری فی الادب المفرد ) ۔ حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور محض اللہ کی خاطر پھیرا اس بچے کے ہر بال کے بدلے جس پر اس شخص کا ہاتھ گزرا اس کے لیے نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور جس نے کسی یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نیک برتاؤ کیا وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ اور یہ فرما کر حضور نے اپنی دو انگلیاں ملا کر بتائیں ( مسند احمد ، ترمذی ) ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ سرکار رسالت ماب نے ارشاد فرمایا جس نے کسی یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں شامل کیا اللہ نے اس کے لیے جنت واجب کر دی الا یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کر بیٹھا ہو جو معاف نہیں کیا جا سکتا ( شرح السنہ ) ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میرا دل سخت ہے ۔ حضور نے فرمایا یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مسکین کو کھانا کھلا ( مسند احمد ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani