Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اعمال خیر، اسی وقت نافع اور اخروی سعادت کا باعث ہونگے جب ان کا کرنے والا صاحب ایمان ہوگا۔ 17۔ 2 اہل ایمان کی صفت ہے کہ وہ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] اصحاب الیمین کے لئے کونسی صفات ضروری ہیں :۔ اس آیت سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ انسان کتنے ہی اچھے اعمال بجا لائے جب تک ایماندار نہ ہو، اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے۔ دوسری یہ کہ صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں بلکہ باقی ایمانداروں کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے تاکہ اسلام کو غالب کرنے اور غالب رکھنے کے راستہ میں جو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کی اجتماعی طور پر مدافعت کی جائے۔ تیسری یہ کہ اسلام کی نظر میں اجتماعی زندگی ہی پسندیدہ ہے۔ تاکہ اسلامی معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے کے دکھ درد اور رنج و راحت میں شریک ہو سکیں۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط بنائے رکھتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو قینچی کرلیا۔ (بخاری کتاب الادب باب تعاون المومنین بعضھم بعضاً ) - ٢۔ انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آپس میں بغض حسد نہ کرو۔ ترک ملاقات نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔ بخاری کتاب الادب باب ما ینتہی عن التحاسد) - چوتھی یہ کہ مسلمان صرف خود ہی صبر نہیں کرتے بلکہ سب ایک دوسرے کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اور صبر کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ ایک مسلمان کی پوری زندگی صبر ہی صبر ہے۔ اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی صبر ہے اور احکام شریعت پر ثابت قدم اور ان کا پابند رہنا بھی صبر ہے۔- پانچویں یہ کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے پر رحم کرنے کی تاکید بھی کرتے رہتے ہیں چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ١۔ جو شخص دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر (اللہ کی طرف سے) بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبہائم) اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں۔ تم اس مخلوق پر رحم کرو جو زمین میں ہے تم پر وہ ذات رحم کرے گی جو آسمانوں میں ہے۔- ٢۔ مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرنے دوستی رکھنے اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی طرح ہیں جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سب اعضاء بےچین ہوجاتے ہیں نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جاتا ہے۔ (حوالہ ایضاً ) - ٣۔ ایک دفعہ ایک آدمی سفر کر رہا تھا اسے سخت پیاس لگی۔ پھر ایک کنواں ملاتو اس میں اترا اور پانی پیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ کتے کو پیاس کی وجہ سے ایسی ہی تکلیف ہوگی جیسے مجھے ہوتی ہے۔ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر کر اور اسے منہ میں تھام کر اوپر چڑھا پھر کتے کو پانی پلایا۔ اللہ نے اس کے کام کی قدر کی اور اس کو بخش دیا لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہمیں جانوروں پر رحم کرنے میں بھی ثواب ملے گا ؟ فرمایا ہر تازہ کلیجے والے پر ثواب ملے گا۔ (حوالہ ایضاً ) - ٤۔ آپ ایک دفعہ اپنے صحابہ کرام (رض) کو نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک اعرابی (گنوار) نماز میں ہی کہنے لگا : اے اللہ مجھ پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحم کر اور ہمارے علاوہ اور کسی پر نہ کر آپ نے جب نماز سے سلام پھیرا تو اس بدو سے فرمایا ارے تم نے تو کشادہ کے آگے بند لگادیا اور کشادہ سے آپ کی مراد اللہ کی رحمت تھی۔ (حوالہ ایضاً )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ثم کان من الذین امنوا…: جنت کی بلندیوں پر پہنچنے کے لئے یہی کافی نہیں کہ گردنیں آزاد رکے یا یتیم اور مسکین کو کھانا کھلائے، بلکہا ن کے ساتھ ساتھ ایمان بھی ضروری ہے، اگر ایمان نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں۔ (دیکھیے نسائ : ١٤٤ نحل : ٩٧۔ بنی اسرائیل : ١٩) پھر ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کرنے کی وصیت اور تاکید بھی ضروری ہے۔ سورة عصر میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔- ” ثم کان من الذین امنوا “ کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ مشکل گھاٹی کی چڑھئای کے لئے جو امور ضروری ہیں ان میں پہلے گردن چھڑانا اور یتیم یا مسکین کو کھانا کھلانا ہے پھر اس کے بعد ایمان لانا اور حق و مرحمت کی وصیت کرنا ہے ، مگر اہل علم فرماتے ہیں کہ ” ثم “ ہمیشہ ترتیب زمانی کے لئے نہیں ہوتا، بعض اوقات ترتیب ذکری کے لئے بھی ہوتا ہے، یعنی موقع کی مناسبت سے بعد کی ایک چیز پہلے ذکر کردی جاتی ہے۔ یہاں مال داروں کے لئے خرچ کرنا چونکہ بہت مشکل کام ہے اس لئے پہلے اس کا ذکر فرمایا، پھر ایمان اور تواصی بالحق و المرحمہ کا ذکر اس لئے فرمایا کہ ایمان کے بغیر گردن چھڑانا، کھانا کھلانا یا نیکی کا کوئی بھی کام بےسود ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ثم کان من الذین امنو وتواصو بالصبر وتواصوا بالمرحمة۔ اس آیت میں ایمان کے بعد مومن کا یہ فرض بتلایا گیا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرتا رہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے اور رحمت سے مراد دوسروں کے حال پر رحم کھانا، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر ان کی ایذا اور ان پر ظلم سے بچنا، اس میں تقریباً دین کے سارے ہی احکام آگئے۔- تمت سورة البلد بحمد اللہ ٣٢ شعبان ٩١٣١

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ۝ ١٧ ۭ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ثم کان من الذین امنوا۔ پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے) مفہوم یہ ہے وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ۔ اس طرح حرف ثم یہاں حرف وائو کے معنی میں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور پھر بھی ان لوگوں میں سے نہیں جو کہ ایمان لائے اور ایک دوسرے کو فرض ادا کرنے کی رغبت دلائی اور ایک نے دوسرے کو فقراء و مساکین پر رحم کی فہمایش کی۔ ان ہی خوبیوں کے مالک جنتی ہیں جن کو ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ” پھر وہ شامل ہو ان لوگوں میں جو ایمان لائے “- یہاں پر لفظ ثُمَّ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ یعنی پہلے انسان اس مشکل گھاٹی کو عبور کرے ‘ اپنے دل کی زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چلائے ‘ اس کے ذریعے سے دل کی زمین سے حب مال کا جھاڑ جھنکاڑ صاف کرے ‘ اور پھر (ثُمَّ ) اس میں ایمان کا بیج ڈالے۔ اگر وہ اس ترتیب اور اس انداز سے محنت کرے گا تو تبھی ایمان کا پودا اس کے دل کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلائے گا اور برگ و بار لائے گا۔- وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ ۔ ” اور جنہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی اور باہم ایک دوسرے کو ہمدردی کی نصیحت کی۔ “- یہ مضمون سورة العصر میں بایں الفاظ آیا ہے : اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ ” سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے ‘ اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی “۔ الفاظ اور مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں آیات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ البتہ دونوں جگہ مذکور اصطلاحات کی ترتیب مختلف ہے۔ سورة العصر کی اس آیت میں ایمان کے بعد عمل صالح کا بیان ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں عمل صالح (غرباء و مساکین اور یتیموں کے حقوق کی ادائیگی) کے بعد ایمان کا ذکر ہے۔ سورة العصر میں تواصی بالحق کے بعد تواصی بالصبر کا تذکرہ ہے ‘ جبکہ یہاں پر پہلے تواصی بالصبر اور بعد میں تواصی بالمرحمہ کا ذکر آیا ہے۔ اس پہلو سے دونوں آیات کے تقابلی مطالعہ سے بہت سے حقائق و رموز کی نشاندہی ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :13 یعنی ان اوصاف کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن ہو ، کیونکہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل صالح ہے اور نہ اللہ کے ہاتھ وہ مقبول ہو سکتا ہے ۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ نیکی وہی قابل قدر اور ذریعہ نجات ہے جو ایمان کے ساتھ ہو ۔ مثلاً سورہ نساء میں فرمایا جو نیک اعمال کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن ، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ( آیت 124 ) ۔ سورہ نحل میں فرمایا جو نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن ، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے ( آ یت 97 ) ۔ سورہ مومن میں فرمایا اور جو نیک عمل کرے ، خواہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن ، ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، وہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا ( آیت 40 ) ۔ قرآن پاک کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھے گا کہ اس کتاب میں جہاں بھی عمل صالح کے اجر اور اس کی جزائے خیر کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لازماً اس کے ساتھ ایمان کی شرط لگی ہوئی ہے ۔ عمل بلا ایمان کو کہیں بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں قرار دیا گیا ہے اور نہ اس پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے ۔ اس مقام پر یہ اہم نکتہ بھی نگاہ سے مخفی نہ رہنا چاہیے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ پھر وہ ایمان لایا بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ پھر وہ ان لوگوں میں شامل ہوا جو ایمان لائے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ محض ایک فرد کی حیثیت سے اپنی جگہ ایمان لا کر رہ جانا مطلوب نہیں ہے ، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہر ایمان لانے والا ان دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائے جو ایمان لائے ہیں تاکہ اس اہل ایمان کی ایک جماعت بنے ، ایک مومن معاشرہ وجود میں آئے ، اور اجتماعی طور پر ان بھلائیوں کو قائم کیا جا ئے جن کا قائم کرنا ، اور ان برائیوں کو مٹایا جائے جن کا مٹانا ایمان کا تقاضا ہے ۔ سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :14 یہ مومن معاشرے کی دو اہم خصوصیات ہیں جن کو دو مختصر فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں ۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی تلقین کریں ۔ جہاں تک صبر کا تعلق ہے ، ہم اس سے پہلے بارہا اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ قرآن مجید جس وسیع مفہوم میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اس کے لحاظ سے مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے ، اور ایمان کے راستے میں قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔ خدا کی فرض کردہ عبادتوں کے انجام دینے میں صبر درکار ہے ۔ خدا کے احکام کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے ۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اخلاق کی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنا صبر چاہتا ہے ۔ قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات سامنے آتی ہیں جن کا مقابلہ صبر ہی سے ہو سکتا ہے ۔ بے شمار مواقع زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں جن میں خدا کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصانات ، تکالیف ، مصائب ، اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس کے برعکس نافرمانی کی راہ اختیار کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں ۔ صبر کے بغیر ان مواقع سے کوئی مومن بخریت نہیں گزر سکتا ۔ پھر ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال ، اپنے خاندان ، معاشرے ، اپنے ملک و قوم ، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حتی کہ راہ خدا میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ایک مومن اکیلا اکیلا اس شدید امتحان میں پڑ جائے تو ہر وقت شکست کھا جانے کے خطرے سے دوچار ہو گا اور مشکل ہی سے کامیاب ہو سکے گا ۔ بخلاف اس کے اگر ایک مومن معاشرہ ایسا موجود ہو جس کا ہر فرد خود بھی صابر ہو اور جس کے سارے افراد ایک دوسرے کو صبر کے اس ہمہ گیر امتحان میں سہارا بھی دے رہے ہوں تو کامرانیاں اس معاشرے کے قدم چومیں گی ۔ بدی کے مقابلے میں ایک بے پناہ طاقت پیدا ہو جائے گی ۔ انسانی معاشرے کو بھلائی کے راستے پر لانے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار ہو جائے گا ۔ رہا رحم ، تو اہل ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان یہی ہے کہ وہ ایک سنگدل ، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آپس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار معاشرہ ہوتا ہے ۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شان رحیمی کا مظہر ہے ، اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اس رسول کا نمائندہ ہے جس کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ( الانبیاء ۔ 106 ) آنحضور نے سب سے بڑھ کر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے وہ یہی رحم کی صفت ہے ۔ مثال کے طور پر آپ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی ۔ حضرت جریر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یرحم اللہ من لا یرحم الناس ( بخاری ۔ مسلم ) اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: الراحمون یرحمھم الرحمن ۔ ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء ( ابو داؤد ۔ ترمذی ) رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے ۔ زمین والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ حضرت ابو سعید خدری حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لا یرحم لا یرحم ( بخاری فی الادب المفرد ) ۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا ( ترمذی ) وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے ، اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے ۔ ابو داؤد نے حضور کے اس ارشاد کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے: من لم یرحم صغیرنا و یعرف حق کبیرنا فلیس منا ۔ جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو القاسم صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: لا تنزع الرحمۃ الا من شقی ( مسند ا حمد ۔ ترمذی ) بد بخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کر لیا جاتا ہے ۔ حضرت عیاض بن حمار کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا تین قسم کے آدمی جنتی ہیں ۔ ان میں سے ایک: رجل رحیم رقیق القلب لکل ذی قربی و مسلم ۔ ( مسلم ) وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم اور رقیق القلب ہو ۔ حضرت نعمان بن بشیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تری المومنین و تراحمھم و توادھم و تعاطفھم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر الجسد بالسھر و الحمی ۔ ( بخاری و مسلم ) تم مومنوں کو آپس کے رحم اور محبت اور ہمدری کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے کہ اگر ایک عضور میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ حضرت ابو موسی اشعری کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: المسلم اخو المسلم لا یظلمہ و لا یسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ و من فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ و من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد سے باز رہتا ہے ۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہوگا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا ۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا اللہ تعالی اسے روز قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوشی کرے گا ۔ ان ارشادات سے معلوم ہو جاتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآن مجید کی اس آیت میں دی گئی ہے اس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani