وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ ١٩ ۭ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- مشأمة- : مصدر ميميّ منته بالتاء للمبالغة، من الثلاثي شأم، وزنه مفعلة بفتح المیم والعین
(19 ۔ 20) اور جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو جھٹلایا مثلاً کلدہ وغیرہ وہ لوگ جہنمی ہیں ان کو بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا اور ان پر آگ محیط ہوگی جس کو بند کردیا جائے گا۔
آیت ١٩ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا ” اور جنہوں نے انکار کیا ہماری آیات کا “- ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ ۔ ” وہ ہوں گے بائیں والے۔ “- یعنی ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں پکڑائے جائیں گے۔ لغوی اعتبار سے جس طرح یمن کے معنی خوش بختی کے ہیں اسی طرح الْمَشْئَمَۃ کے مادے میں بدبختی کے معنی پائے جاتے ہیں (شومئی قسمت کی ترکیب اردو میں بھی مستعمل ہے) ۔ لہٰذا اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہوگا کہ ” یہ بدبختی والے لوگ ہوں گے “۔ قرآن مجید میں آخرت کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے دائیں والے (اصحاب المیمنہ یا اصحاب الیمین) اور بائیں والے (اصحاب المشئمہ یا اصحاب الشمال) کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ البتہ سورة الواقعہ کی اس آیت میں نسل انسانی کے تین گروہوں کا تذکرہ بھی ہوا ہے : وَکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً ۔ کہ اس دن تم لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو جائو گے۔ ان میں سے دو گروہ تو یہی (دائیں اور بائیں والے) بتائے گئے ہیں ‘ جبکہ تیسرے گروہ کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ - اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ (الواقعۃ) ” اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔ وہی تو بہت مقرب ہوں گے “۔ گویا یہ تیسرا گروہ اہل جنت میں سے بہت ہی خاص لوگوں یعنی مقربین بارگاہ پر مشتمل ہوگا۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں ان بدقسمت لوگوں کا ذکر ہوا ہے جنہیں بائیں ہاتھ میں اعمال نامے پکڑا کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :15 دائیں بازو اور بائیں بازو کی تشریح ہم سورہ واقعہ کی تفسیر میں کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الواقعہ ، حواشی 5 ۔ 6 ۔
9: یہ ’’اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ‘‘ کا ترجمہ ہے اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ بائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ بد کار ہیں جن کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔