Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی دنیا کے معاملات اور فضولیات میں خوب پیسہ اڑاتا ہے، پھر فخر کے طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] ایسی ہی ناجائز خواہشات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ محض نمود و نمائش اور تعلی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتا ہے اور جتنا خرچ کرتا ہے اس سے کئی گنا بڑھا چڑھ کر بتاتا ہے کہ میں نے اتنا اور اتنا مال اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ کیا تھا یا فلاں رسم کو پورا کرنے پر خرچ کیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(یقول اھلکت مالاً لبداً : یعنی دین حق کی مخالفت یا جاہالانہ رسم و رواج میں روپیہ لٹانے کو بڑا کمال سمجھتا ہے اور اسے فخر یہ بیان کرتا ہے۔ (اشرف الحواشی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَقُوْلُ اَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا۝ ٦ ۭ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - لبد - قال تعالی: يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً [ الجن 19] أي : مجتمعة، الواحدة : لُبْدَةٌ ، كَاللُّبْدِ الْمُتَلَبِّدِ ، أي : المجتمع، وقیل : معناه : کانوا يسقطون عليه سقوط اللّبد، وقرئ : لبدا أي : متلبّدا ملتصقا بعضها ببعض للتّزاحم عليه، وجمع اللُّبْدِ : أَلْبَادٌ ولُبُودٌ. وقد أَلْبَدْتُ السرجَ : جعلت له لبدا، وأَلْبَدْتُ الفرسَ : ألقیت عليه اللّبد . نحو : أسرجته، وألجمته، وألببته، واللِّبْدَةُ : القطعة منها . وقیل : هو أمنع من لبدة الأسد أي : من صدره، ولَبَّدَ الشّعَرَ ، وأَلْبَدَ بالمکان : لزمه لزوم لبده، ولَبِدَتِ الإبل لَبَداً : أکثرت من الکلإ حتی أتعبها . وقوله : مالًا لُبَداً- البلد 6] أي : كثيرا متلبّدا، وقیل : ما له سبد ولا لبد ولُبَدُ : طائر من شأنه أن يلصق بالأرض، وآخر نسور لقمان کان يقال له لُبَدُ وأَلْبَدَ البعیرُ : صار ذا لبد من الثّلط ، وقد يكنّى بذلک عن حسنه لدلالة ذلک منه علی خصبه وسمنه، وأَلْبَدْتُ القِرْبَةَ : جعلتها في لَبِيدٍ أي : في جو الق صغیر .- ( ل ب د ) لبدۃ ۔ تہ بر تہ جمی ہوئی اون ج لبد قرآن میں ہے : يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً [ الجن 19] کافران کے گرداگرد ہجوم کرلینے کو تھے ۔ یعنی تہ برتہ جمی ہوئی اون کی طرح ان کے گرد جمع ہوگئے ۔ بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ آپ پر مجتمع ہوکر لبدہ کی طرح گرنے لگے ۔ ایک قرات میں لبدا بھی ہے یعنی آپ کے گرد ہجوم کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر چڑھ رہے تھے ۔ اور لبد کی جمع البار ولبود آتی ہے البدت السرج میں نے زین کے لئے نمدہ بنایا اور البدت الفرس کے معنی ہیں میں نے گھوڑے پر نمدہ دالا ۔ جیسے اسرجتہ ( میں نے اس پر زین کسی ۔ والجمتہ میں نے اسے لگام دی ۔ الببتہ ( سینہ بند باندھا ) اللید ۃ یہ لبد کا مفرد ہے نمدہ کے ا یک ٹکڑہ کو لبد کہتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ھو امنع من لبدۃ الاسد ۔ وہ شیر کے لبدہ یعنی سینہ یا ابال سے بھی زیادہ محفوظ ہے ۔ لبد الشعر بالوں کا اوپر تلے جم جانا ۔ لبدت الابل ۔ بل لبدا ۔ زیادہ گھاس کھانے کی وجہ سے اونٹ پریشان اور سینہ گرفتہ ہوگئے اور آیت کریمہ : مالًا لُبَداً [ البلد 6] بہت سامال ۔ میں لبد کے معنی مال کثٰیر کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے مالہ سبد ولا لبد ۔ نہ اس کے پاس اون ہے نہ بال یعنی بالکل مفلس ہے نہ تھوڑا ہے نہ بہت ۔ لبد ایک پرند جو زمین کے ساتھ سینہ لگا کر چپک جاتا ہے ۔ اور نسو ( لقمان ( لقمان کے گدھوں میں سے آخری نرگدھ ) کو لبد کہاجاتا ہے ۔ البد البعیر اونٹ کے سرین پر گوبر کا جم جانا کبھی یہ اس کے خوبصورت اور موٹا ہونے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ البدت القربۃ مشک کو لبد یعنی بالوں سے بنی ہوئی چھوٹی بوری میں ڈال دینا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ یَـقُوْلُ اَہْلَکْتُ مَالًا لُّـبَدًا ۔ ” کہتا ہے میں نے تو ڈھیروں مال خرچ کر ڈالا۔ “- اس فقرے میں سردارانِ قریش کی ذہنیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ لوگ بھلائی اور نیکی کے کام اکثر و بیشتر جذبہ مسابقت کے تحت کرتے تھے اور پھر اپنی نیکیوں کا خوب چرچا کرتے اور شیخیاں بگھارتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے اکثر لوگوں کے ایمان نہ لانے کا سبب بھی یہی جذبہ مسابقت تھا۔ ظاہر ہے وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے خاندان کے مدمقابل خاندان کا ایک فرد سمجھتے تھے اور اس حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سرتسلیم خم کرنا انہیں کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ اس حوالے سے ابوجہل کا اقراری بیان تو تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تمہارے خیال میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھوٹے ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں ‘ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس پر پوچھنے والے نے سوال کیا کہ پھر تم ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کیوں نہیں لے آتے ؟ اس پر اس نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان کا بنوہاشم کے ساتھ پشتوں سے مقابلہ چلا آ رہا ہے ۔ انہوں نے غرباء کو کھانے کھلائے تو ہم نے ان سے بڑھ کر کھانے کھلائے۔ اگر وہ ُ حجاج ّکی خدمت کرنے میں پیش پیش رہے تو اس میدان میں بھی ہم نے انہیں آگے نہیں نکلنے دیا۔ یوں اب تک ہم ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے چلے آ رہے ہیں۔ اب اگر ہم ان کی نبوت کو تسلیم کرلیں تو ہم ہمیشہ کے لیے ان کے غلام بن جائیں گے اور یہ صورت حال کم از کم مجھے کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔- آیت زیر مطالعہ میں سردارانِ قریش کے اسی طرزعمل کی تصویر دکھائی گئی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی شخص کبھی بھلائی کا کوئی کام سرانجام دے لیتا ہے تو جگہ جگہ اس کا تذکرہ کرتا اور شیخیاں بگھارتا پھرتا ہے کہ فلاں کام میں میں نے ڈھیروں مال کھپا ڈالا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :7 أَنْفَقْتُ مَالًا لُّبَدًا میں نے ڈھیر سا مال خرچ کر دیا نہیں کہا بلکہ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا کہا جس کے لفظی معنی ہیں میں نے ڈھیر سا مال ہلاک کر دیا ، یعنی لٹا دیا یا اڑا دیا ۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ کہنے والے کو اپنی مال داری پر کتنا فخر تھا کہ جو ڈھیر سا مال اس نے خرچ کیا وہ اس کی مجموعی دولت کے مقابلے میں اتنا ہیچ تھا کہ اس کے لٹا دینے یا اڑا دینے کی اسے کوئی پروا نہ تھی ۔ اور یہ مال اڑا دینا تھا کس مد میں؟ کسی حقیقی نیکی کے کام میں نہیں ، جیسا کہ آگے کی آیات سے خود بخود مترشح ہوتا ہے ، بلکہ اپنی دولت مندی کی نمائش اور اپنے فخر اور اپنی بڑائی کے اظہار میں ۔ قصیدہ گو شاعروں کو بھاری انعامات دینا ۔ شادی اور غمی کی رسموں میں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی دعوت کر ڈالنا ۔ جوے میں ڈھیروں دولت ہار دینا ۔ جوا جیت جانے پر اونٹ پر اونٹ کاٹنا اور خوب یار دوستوں کو کھلانا ۔ میلوں میں بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ جانا اور دوسرے سرداروں سے بڑھ کر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا ۔ تقریبات میں بے تحاشا کھانے پکوانا اور اذن عام دے دینا کہ جس کا جی چاہے آئے اور کھائے ، یا اپنے ڈیرے پر کھلا لنگر جاری رکھنا کہ دور دور تک یہ شہرت ہو جائے کہ فلاں رئیس کا دسترخواں بڑا وسیع ہے ۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے نمائشی اخراجات تھے جنہیں جاہلیت میں آدمی کی فیاضی اور فراخ دلی کی علامت اور اس کی بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا ۔ انہی پر ان کی تعریفوں کے ڈنکے بجتے تھے ۔ انہی پر ان کی مدح کے قصیدے پڑھے جاتے تھے ۔ اور وہ خود بھی ان پر دوسروں کے مقابلے میں اپنا فخر جتاتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: مکہ مکرَّمہ میں کئی کافر ایسے تھے جنہیں اپنی جسمانی طاقت پر ناز تھا۔ جب اُنہیں اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا جاتا تو کہتے تھے کہ ہمیں کوئی قابو میں نہیں کرسکتا۔ نیز وہ آپس میں دکھاوے کے طور پر کہتے تھے کہ ہم نے ڈھیر ساری دولت خرچ کی ہے۔ اور خرچ کرنے کو اُڑا ڈالنے سے تعبیر اس لئے کرتے کہ گویا ہمیں اس خرچ کی بالکل پروا بھی نہیں ہے۔ خاص طور پر یہ بات وہ اُس دولت کے بارے میں کہتے تھے جو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت اور دُشمنی میں خرچ کی ہے۔