Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 جن سے دیکھتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(الم نجعل لہ عینین…:” نجد “ کا لغوی معنی ” بلند جگہ “ ہے۔ ” النجدین “ وہ بلند جگہوں سے مراد ماں کی چھاتیاں ہیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت کے مطابق ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے، انہیں منہ میں ڈال کر دودھ چوستا ہے جس پر اس کی زندگی کا دار و مدار ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس کی یہ رہنمائی نہ کرے تو کوئی بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ آنکھوں، زبان اور ہونٹوں کے الفاظ کے ساتھ ماں کی چھاتیوں کی مناسبت واضح ہے۔ اکثر مفسرین نے ” النجدین “ سے مراد خیر و شر کے دو واضح راستے لئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ کی بغاوت کرتے ہوئے اور بےتحاشا مال لٹاتے ہوئے یہ گمان کیسے کرلیا کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا اور نہ کوئی اس سے پوچھنے والا ہے ؟ حالانکہ جن آنکھوں سے وہ دیکھ رہا ہے وہ ہم نے بنائی ہیں، زبان اور ہونٹ جن سے ڈینگیں مار رہا ہے وہ بھی ہم نے پیدا کیے ہیں، پھر ہم نے اسے خیر و شر کے راستے کا شعور بھی عطا فرمایا ہے۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسے آنکھیں عطا کرنے والا خود ہی دیکھ نہ رہا ہو، اسے زبان اور ہونٹ دینے والا اسے پوچھ بھی نہ سکتا ہو اور خیر و شر کا شعور عطا فرمانے والا اس سے اس شعور کے استعمال کے متعلق باز پرس ہی نہ کرے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آنکھ اور زبان کی تخلیق میں چند حکمتیں - الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدینہ النجدین، نجدین نثنیہ نجد کا ہے جس کے لفظی معنے اس راستے کے ہیں جو اوپر بلندی کی طرف جاتا ہے مراد اس سے کھلا واضح راستہ ہے اور ان دو راستوں میں ایک خیر و فلاح کا دوسرا شرو ہلاکت کا راستہ ہے۔- سابقہ آیت میں انسان کی اس غفلت و جہالت پر تنبیہ تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں، اور یہ کہ اس کے اعمال و افعال کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس آیت میں چند ان نعمتوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں ایسی عطا فرمائی ہیں کہ خود ان کی صنعت و حکمت ہی پر غور کرے تو حق تعالیٰ کی بےمثال حکمت وقدرت کا نظارہ انہیں چیزوں میں کرے، ان میں پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے نازک شراین (رگیں) انمیں قدرتی روشنی، پھر آنکھ کی وضع ہیت کہ نازک ترین عضو ہے اس کی حفاظت کا کیا سامان خود اس کی خلقت میں کیا گیا کہ اسکے اوپر ایسے پردے ڈال دیئے جو خود کار مشین کی طرح جب کوئی مضر چیز سامنے سے آتی دکھائی دے خود بخود بغیر کسی اختیار کے بند ہوجاتے ہیں ان پردوں کے اوپر پلکوں کے بال کھڑے کردیئے کہ گردوغبار کو روک لیں، اسکے اوپر بھو وں کے بال رکھے کے اوپر سے آنیوالی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہچے، اس کو چہرے کے اندر اس طرح فٹ کیا گیا کہ اوپر سخت ہڈی ہے، نیچے رخسار کی سخت ہڈی ہے آدمی کہیں چہرے کے بل گر جائے یا اس کے چہرے پر کوئی چیز آپڑے تو اوپر نیچے کی ہڈیاں آنکھ کو بچالیں گی۔- دوسری چیز زبان ہے اس کی عجیب و غریب تخلیق اور دل کی باتوں کی ترجمانی جو اس پر اسرار اور خود کار مشین کے ذریعہ ہوتی ہے اسکے حیرت انگیز طریقہ کار کو دیکھو کہ دل میں ایک مضمون آیا دماغ نے اس پر غور کیا اس کیلئے عنوان اور الفاظ تیار کئے وہ الفاظ اس زبان کی مشین سے نکلنے لگے۔ یہ اتنا بڑا کام کیسی سرعت کیساتھ ہو رہا ہے کہ سننے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوسکتا کہ ان الفاظ کے زبان پر آنے میں اسکے پیچھے کتنی مشینری نے کام کیا ہے تب یہ کلمات زبان پر آئے ہیں۔ زبان کے ساتھ شفتین یعنی ہونٹوں کا ذکر اسلئے بھی کہ قدرت نے زبان کو ایسی سریع العمل مشین بنایا ہے کہ آدھے منٹ میں اس سے ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچا دے جیسے کلمہ ایمان یا دنیا میں دشمن کی نظر میں بھی اس کو محبوب بنا دے جیسے پچھلے قصور کی معانی اور اسی زبان سے اتنے ہی وقفہ میں ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم میں پہنچا دے جیسے کلمہ کفر یا دنیا میں اسکے بڑے سے بڑے مہربان دوست کو اس کا دشمن بنا دے جیسے گالی گلوچ وغیرہ، جس طرح زبان کے منافع بیشمار ہیں اس کی ہلاکت آفرینی بھی اسی انداز کی ہے گویا یہ ایک تلوار ہے جو دشمن پر بھی چل سکتی ہے اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتی ہے اسلئے حق تعالیٰ جل شانہ نے اس تلوار کو دو ہونٹوں کے غلاف میں مستور کرکے عطا فرمایا اور اس جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اسطرف اشارہ ہوسکتا کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اس کو روکنے بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں اسلئے اسکے استعمال میں سوچ سمجھ سے کام لے، بےموقع اس کو ہونٹوں کی میان سے نہ نکالے، تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر وشر اور بھلے برے کی پہچان کے لئے ایک استعداد اور مادہ خود اسکے وجود میں رکھد دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا، فالھمھا فجورھا وتقوھا یعنی نفس انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے فجور اور تقویٰ دونوں کے مادے رکھدیئے ہیں تو اس طرح ایک ابتدائی ہدایت انسان کو خود اسکے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جاہل اور غافل انسان قدرت حق کے منکر ذرا اپنے ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں غور کرے تو قدرت و حکمت حق کے کمال کا مشاہدہ ہوجائیگا۔ آنکھوں سے دیکھو پھر زبان سے اقرار کرو پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو۔ - آگے پھر اس کی غفلت شعاری اور بےفکری پر تنبیہ ہے کہ ان روشن دلائل سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اور اسکے ذریعہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حساب دینے کا یقین ہوجانا چاہئے اس یقین کا متقضایہ یہ تھا کہ یہ خلق خدا کو نفع اور راحت پہنچاتا، ان کی ایذاؤں سے بچتا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور خود اپنی اصلاح کرتا اور دوسرے لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتا تاکہ قیامت میں وہ اصحاب یمین یعنی اہل جنت میں شامل ہوجائے مگر اس بدنصیب نے ایسا نہ کیا بلکہ کفر قائم رہا جسکا انجام جن ہم کی آگ ہے۔ آخر سورت تک یہ مضمون بیان ہوا ہے اس میں چند نیک اعمال کے اختیار نہ کرنے کو ایک خاص انداز سے بیان فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَيْنَيْنِ۝ ٨ ۙ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(10-8) کیا ہم نے اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں اور بولنے کے لیے زبان نہیں دی اور پھر ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں راستے بتلا دیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani