9۔ 1 زبان سے وہ بولتا ہے اور مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے ہونٹوں سے وہ بولنے اور کھانے کے لیے مدد حاصل کرتا ہے علاوہ ازیں وہ اس کے چہرے اور منہ کے لیے خوب صورتی کا بھی باعث ہیں۔
[٧] قرآن میں اکثر مقامات پر انسان کو متنبہ کرنے کے لیے اس کی آنکھوں اور اس کے کانوں یا بصارت اور سماعت کا ذکر آیا ہے۔ جبکہ یہاں آنکھوں کے ساتھ کانوں کے بجائے انسان کے اعضائے قوت گویائی کا ذکر کیا گیا ہے جن سے وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو جو آنکھیں، کان، کان یا زبان دی گئی ہے تو یہ گائے بھینسوں کی آنکھ، کان یا زبان جیسی نہیں ہے کہ وہ انہیں صرف اپنے دنیوی مفادات کے لیے استعمال میں لائے۔ بلکہ اسے جانوروں سے زائد قوت تمیز، عقل وشعور بھی دی گئی ہے تاکہ وہ انہیں اعضاء کو کام میں لاکر اپنے مالک حقیقی کو پہچانے۔
وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِ ٩ ۙ- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- شفتین :- مثنّى شفة، اسم ذات للعضو المعروف في الوجه، وفي ( شفة) حذف اللام، والأصل شفهة بدلیل تصغیرها علی شفيهة، وجمعها علی شفاه .. ولا تجمع جمعا سالما فوزن شفة فعة بفتحتین .
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :9 مطلب یہ ہے کہ کیا ہم نے اسے علم اور عقل کے ذرائع نہیں دیے؟ دو آنکھوں سے مراد گائے بھینس کی آنکھیں نہیں بلکہ وہ انسانی آنکھیں ہیں جنہیں کھول کر آدمی دیکھے تو اسے ہر طرف وہ نشانات نظر آئیں جو حقیقت کا پتہ دیتے ہیں اور صحیح و غلط کا فرق سمجھاتے ہیں ۔ زبان اور ہونٹوں سے مراد محض بولنے کے آلات نہیں ہیں بلکہ نفس ناطقہ ہے جو ان آلات کی پشت پر سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے اور پھر ان سے اظہار مافی الضمیر کا کام لیتا ہے ۔