3۔ 1 یا تاریکی کو دور کرے، ظلمت کا پہلے ذکر تو نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ (فتح القدیر)
[٣] یعنی جب دن کے وقت سورج پوری روشنی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور تمام اشیاء کو نمایاں کردیتا ہے۔
والنھا اذا جلھا :” جلی یجلی تجلیۃ “ (تفعیل) ظاہر کرنا، روشن کرنا اور دن کی قسم جب وہ اس سورج کو ظاہر کرتا ہے یعنی جب اس میں سورج پوری روشنی اور گریم کے ساتھ چمکتا ہے۔
تیسری قسم والنھار اذا جلھا، جلھا کی ضمیر زمین یا دنیا کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے اگرچہ اس سے پہلے زمین اور دنیا کا ذکر نہیں آیا مگر محاورات عرب میں ایسی چند چیزیں جو عموماً انسانوں کے سامنے رہتی ہیں ان کی طرف بغیر ذکر ماسبق کے بھی ضمیر راجع کردینا مشہور و معروف ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کی نظائر موجود ہیں۔ اس اعتبار سے معنے یہ ہوئے کہ قسم ہے دن کی اور دنیا کی یا زمین کی جس کو دن نے روشن کردیا ہے اس میں بھی اشارہ اس طرف ہے کہ دن کی قسم اس حالت کے اعتبار سے ہے جبکہ وہ پوری طرح روشن ہوجائے۔ اور عبارت کے اعتبار سے ظاہر یہ ہے کہ یہ ضمیر آفتاب کی طرف راجع ہو اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ قسم ہے دن کی جبکہ وہ آفتاب کو روشن کردے۔ یہ اسناد مجازی ہوگی اور مطلب یہ ہوگا کہ جب دن نکل آنے کے سبب آفتاب روشن نظر آنے لگے۔
وَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا ٣ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- جلَ- الجَلَالَة : عظم القدر، والجلال بغیر الهاء : التناهي في ذلك، وخصّ بوصف اللہ تعالی، فقیل : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] ، ولم يستعمل في غيره، والجلیل : العظیم القدر . ووصفه تعالیٰ بذلک إمّا لخلقه الأشياء العظیمة المستدلّ بها عليه، أو لأنه يجلّ عن الإحاطة به، أو لأنه يجلّ أن يدرک بالحواس . وموضوعه للجسم العظیم الغلیظ، ولمراعاة معنی الغلظ فيه قوبل بالدقیق، وقوبل العظیم بالصغیر، فقیل : جَلِيل ودقیق، وعظیم وصغیر، وقیل للبعیر : جلیل، وللشاة : دقیق، اعتبارا لأحدهما بالآخر، فقیل : ما له جلیل ولا دقیق وما أجلّني ولا أدقّني . أي : ما أعطاني بعیرا ولا شاة، ثم صار مثلا في كل كبير وصغیر . وخص الجُلَالةَ بالناقة الجسیمة، والجِلَّة بالمسانّ منها، والجَلَل : كل شيء عظیم، وجَلَلْتُ كذا : تناولت، وتَجَلَّلْتُ البقر : تناولت جُلَالَه، والجَلَل : المتناول من البقر، وعبّر به عن الشیء الحقیر، وعلی ذلک قوله : كلّ مصیبة بعده جلل . والجَلَل : ما معظم الشیء، فقیل : جَلَّ الفرس، وجل الثمن، والمِجَلَّة : ما يغطی به الصحف، ثمّ سمیت الصحف مَجَلَّة . وأمّا الجَلْجَلَة فحكاية الصوت، ولیس من ذلک الأصل في شيء، ومنه : سحاب مُجَلْجِل أي : مصوّت . فأمّا سحاب مُجَلِّل فمن الأول، كأنه يُجَلِّل الأرض بالماء والنبات .- ( ج ل ل ) الجلالتہ کے معنی ہیں عظیم القدر یعنی قدرو منزلہ میں بڑا یعنی بلند مرتبہ ہونا کے ہیں اور ( ۃ ) کے بغیر الجلال کہا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں عظمت کی آخری حد جس کے بعد اور مرتبہ نہ ہو ۔ اسی لئے یہ اللہ تعالیٰ کی وصف کے ساتھ مختص ہے ۔ اور دوسروں کے حق میں استعمال نہیں ہوتا چناچہ قرآن میں ہے ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] صاحب جلال و عظمت ۔ الجلیل اور یہ باری تعالیٰ کے ساتھ مختص نہیں ہے اللہ تعالیٰ کو الجلیل یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے بڑ ی بڑی عظیم الشان چیزوں کو پیدا کیا ہے جن سے اس کی ذات با برکت پر استدلال ہوسکتا ہے اور یا اللہ تعالیٰ کی ذلت الجلیل اس لئ ہے کہ وہ احاطہ سے بلند ہے اور یا اس لئے کہ جو اس کے ذریعہ اس کا ادراک نہیں ہوسکتا ۔ اصل وضع کے اعتبار سے جلیل کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو جسامت کے اعتبار سے بڑی بھی ہو اور غلیظ یعنی موٹی اور سخت بھی پھر معنی غلظت کے اعتبار سے یہ دقین کے مقابلہ میں استعمال ہونے لگا ہے اور عظیم کا لفظ صغیر کے مقابلہ میں چناچہ کہا جاتا ہے جلیل ودقیق وعظیم وصغیر اور باہم مقابلہ کے اعتبار سے اونٹ کو جلیل اور بھڑ بکری کو حقیر کہا جاتا چناچہ محارورہ ہے مالہ جلیل ولادقیق جی اس کے پاس نہ اونٹ ہے اور نہ بھڑ بکری مااجلنی ولاادقنی اس نے مجھے نہ اونٹ دیئے اور نہ بھیڑ بکری ) یہ اس کے اصل معنی ہیں پھر یہ لفظ ہر بڑی اور چھوٹی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ اجلۃ کلاں سال کو ۔ الجلل ہر بڑی چیز کار بزرگ جللت کذا میں نے اس کا بڑا حصہ لے لیا ۔ تجلت البیعر میں نے کلاں جسم اونٹ یا ان کی بڑی مقدار لی ۔ الجلل ( ایضا) جو مینگنی اٹھائی جائے ۔ اسی سے کنایہ ہر حقیر چیز کو جلل ( ایضا ) جو مینگنی اٹھائی جائے ۔ اسی سے کنایہ ہر حقیر کو جلل کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ۔ کہ ہر مصیبت اس کے بعد حقیر ہے ۔ الجل کے معنی مصحف کے غلاف کے ہیں پھر اس سے مصحف کے غلاف کے ہیں پھر اس سے مصحف کو مجلۃ کہا جانے لگا ہے ۔ الجلجلۃ جس کے معنی حکایت صوت کے ہیں وہ اس مادہ سے نہیں ہے اور اسی سے سحاب مجلجل کا محاورہ ہے جس کے معنی گرجنے والے یا دل گے ہیں ۔ سحاب مجلل کا محاورہ اس مادہ سے ہے ۔ جس کے معنی عام بارش برسانے والے بادل کے ہیں ۔ گویا وہ اپنی اور نباتات سے زمین کو چھپا دیتا ہے
آیت ٣ وَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰٹہَا ۔ ” اور قسم ہے دن کی جب وہ اس (سورج) کو روشن کردیتا ہے۔ “- اگرچہ بظاہر صورت حال تو یہ ہوتی ہے کہ سورج سے دن روشن ہوتا ہے ‘ لیکن یہاں اسی بات کے اندر یہ لطیف نکتہ پیدا کیا گیا ہے کہ دن ہوتا ہے تو سورج نظر آتا ہے۔ گویا دن سورج کو روشن کرتا ہے۔ آیت کے اس اسلوب کا تعلق دراصل اگلی آیت کے اسلوب سے ہے۔ اگلی آیت میں رات کا ذکر بالکل اسی انداز میں ہوا ہے :