6۔ 1 یا جس نے اسے ہموار کیا۔
[٦] یعنی زمین کو اس طرح پھیلا دیا کہ وہ مخلوق کی بودو باش کے قابل بن جائے۔ انہیں کھانے کو رزق بھی فراہم ہوتا رہے اور رہائش بھی۔ آیت نمبر ٥ کی طرح اس کے بھی دونوں مطلب ہوسکتے ہیں۔
والارض وما طحھا :” طحا یطحو طحوا “ (ن) اور ”’ حا یدحو دحوا “ (ن) کا ایک ہی معنی ہے، بچھانا۔ اور زمین کی قسم اور اس ذات کی جس نے اسے بچھایا
اسی طرح چھٹی قسم والارض وما طحھا میں بمعنے مصدر لے کر ترجمہ یہ ہوا کہ قسم ہے زمین اور اسکے بچھانے پھیلانے کی، کیونکہ طحو مصدر کے معنے بچھانے پھیلانے کے آتے ہیں۔ اس میں آسمان کے ساتھ بنانیکا اور زمین کے ساتھ بچھانے پھیلانے کا ذکر بھی اسی حالت کمال کو بتلانے کے لئے ہے کہ قسم ہے آسمان کی اس حالت میں جبکہ اس کی تخلیق وتکوین مکمل ہوگئی، اور قسم ہے زمین کی جبکہ اس کو پھیلا کر اس کی تخلیق مکمل کردی گئی۔ حضرت قتادہ وغیرہ سے یہی تفسیر منقول ہے۔ کشاف اور یبضاوی و قرطبی نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ صرف ما کو بمعنے من لے کر اس کی مراد حق تعالیٰ کی ذات لی ہے کہ قسم ہے آسمان کی اور اسکے بنانے والے کی، اسی طرح والارض وما طحھا، کا مفہوم یہ بیان کیا گیا کہ قسم ہے زمین اور اس کے پھیلانے والے کی۔ مگر یہاں جتنی قسمیں اب تک مذکور ہوئیں اور جو آگے آرہی ہیں وہ سب مخلوقات کی قسمیں ہیں، درمیان میں ذات حق کی قسم آجانا نسق اور ترتیب سے بعید معلوم ہوتا ہے اور اس صورت میں جو اوپر لکھی گئی ہے یہ اشکال بھی نہیں لازم آتا کہ مخلوقات کی قسم کو ذات خالق پر مقدم کیوں بیان کیا گیا۔ واللہ اعلم
وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىہَا ٦ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - طحا - الطَّحْوُ : کالدّحو، وهو بسط الشیء والذّهاب به . قال تعالی: وَالْأَرْضِ وَما طَحاها - [ الشمس 6] ، قال الشاعر : طَحَا بک قلب في الحسان طروب أي : ذهب .- ( ط ح وی ) طحو اور دحو دونوں ہم معنی ہیں اور ( ان کی معنی کسی چیز کو پھیلانے اور لے جانیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَالْأَرْضِ وَما طَحاها[ الشمس 6] اور قسم زمین اور اس کی جس نے اسے پھیلایا۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل) (290) طحابک قلب فی الحسان طروب تجھے حسن پرست دل کہاں سے کہاں لے گیا ۔
آیت ٦ وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰٹہَا ۔ ” اور قسم ہے زمین کی اور جیسا کہ اسے بچھا دیا۔ “- نوٹ کیجیے یہ تمام قسمیں جوڑوں کی صورت میں آئی ہیں۔ پہلے سورج اور چاند کا ‘ پھر دن اور رات کا اور اب آسمان اور زمین کا ذکر ہوا۔ ان ظاہری تضادات کی مثالوں سے دراصل نفس انسانی کے روشن اور تاریک پہلوئوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ جس طرح کائنات میں ہر جگہ تم لوگوں کو تضادات نظر آتے ہیں ‘ سورج ہے تو اس کے ساتھ چاند ہے ‘ اندھیرا ہے تو اس کے ساتھ اجالا ہے ‘ بلندی ہے تو اس کے ساتھ پستی ہے ‘ اسی طرح انسان کی ذات یا شخصیت کے بھی دو رُخ ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں تو تمام انسان ایک جیسے نظر آتے ہیں ‘ لیکن حقیقت میں یہ ایک جیسے نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی حیوانی اور نفسانی خواہشات کے راستے پر چل رہا ہے تو کسی نے اپنے نفس کا تزکیہ کر کے فلاح کی منزل حاصل کرلی ہے۔