5۔ 1 یا اس ذات کی جسے اس نے بنایا۔
[٥] اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مَا کو مَن کے معنی میں لیا جائے اور اس کی مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر مذکور ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ما کو ما کے معنی میں ہی سمجھا جائے اس صورت میں معنی یہ ہوگا۔ اور آسمان کی قسم جیسا کہ اسے شان و عظمت والا بنایا ہے۔
والسمآء وما بنھا :” والسمآء وما بنھا :” بنی یبنی بنائ “ (ض) بنانا۔ واضح رہے کہ عام طور پر ” من “ علم والوں، مثلاً اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور انسانوں کے لئے آتا ہے، جبکہ ” ما “ ان کے علاوہ کے لئے آتا ہے، مگر بعض اوقات کسی خاص مقصد کی وجہ سے اس کا الٹ بھی ہوجاتا ہے اور ” ما “ علم والوں کیلئے بھی آجاتا ہے، جیسا کہ ” ما “ یہاں اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ یعنی اور قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایاچ یہاں ” من “ کے بجائے ” ما “ اس لئے لایا گیا ہے کہ وہ یہاں ” الذی “ کے معنی میں ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں ” ما “ کا لفظ علم والوں کے لئے متعدد مقامات پر آیا ہے، مثلاً :(ولا انتم عبدون ما اعبد) (الکافرون : ٣)” اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ “ اور فرمایا :(فانکحوا ما طب لکم من النسآئ) (النسائ : ٣)” سو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔ “
پانچویں قسم والسما وما بنھا، اس سے میں سابق نظم کے اعتبار سے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ مابنھا میں صرف ما کو مصدر یہ قرار دے کر معنے یہ لئے جاویں کہ قسم ہے آسمان اور اس کے بنانے کی جیسا قرآن کریم میں ہے۔ بما غفرلی ربی،
وَالسَّمَاۗءِ وَمَا بَنٰىہَا ٥ - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے
سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :3 یعنی چھت کی طرح اسے زمین پر اٹھا کھڑا کیا ۔ اس آیت اور اس کے بعد کی دو آیتوں میں ما کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی مَا بَنَاهَا ، اور مَا طَحَاهَا اور مَا سَوَّاهَا اس لفظ ما کو مفسرین کے ایک گروہ نے مصدری معنوں میں لیا ہے اور وہ ان آیتوں کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ آسمان اور اس کے قائم کیے جانے کی قسم ، زمین اور اس کے بچھائے جانے کی قسم ، اور نفس اور اس کے ہموار کیے جانے کی قسم ۔ لیکن یہ معنی اس لیے درست نہیں ہیں کہ ان تین فقروں کے بعد یہ فقرہ کہ پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی اس سلسلہ کلام کے ساتھ ٹھیک نہیں بیٹھتا ۔ دوسرے مفسرین نے یہاں ما کو من یا الذی کے معنی میں لیا ہے ، اور وہ ان فقروں کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جس نے آسمان کو قائم کیا ، جس نے زمین کو بچھایا اور جس نے نفس کو ہموار کیا ۔ یہی دوسرا مطلب ہمارے نزدیک صحیح ہے ، اور اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ ما عربی زبان میں بے جان اشیاء اور بے عقل مخلوقات کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ خود قرآن میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ ما کو من کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ مثلاً وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ( اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ) ۔ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ ( پس عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو ) ۔ وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ ( اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرو ) ۔