نیکی کے لیے قصد ضروری ہے : مسند احمد میں ہے حضرت علقمہ شام میں آئے اور دمشق کی مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے نیک ساتھی عطا فرما پھر چلے تو حضرت ابو الدرداء سے ملاقات ہوئی پوچھا کہ تم کہاں کیہو تو حضرت علقمہ نے کہا میں کوفے والا ہوں پوچھا ام عبد اس سورت کو کس طرح پڑھتے تھے ؟ میں نے کہاوالذکروالانثٰی پڑھتے تھے ، حضرت ابو الدرداء فرمانے لگے میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یونہی سنا ہے اور یہ لوگ مجھے شک و شبہ میں ڈال رہے ہیں پھر فرمایا کیا تم میں تکئے والے یعنی جن کے پاس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بسترہ رہتا تھا اور راز دان ایسے بھیدوں سے واقف جن کا علم اور کسی کو نہیں وہ جو شیطان سے بہ زبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچالئے گئے تھے وہ نہیں ؟ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ یہ حدیث بخاری میں ہے اس میں یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے شاگرد اور ساتھی حضرت ابو الدردا کے پاس آئے آپ بھی انہیں ڈھونڈتے ہوئے پہنچے پھر پوچھا کہ تم میں حضرت عبداللہ کی قرأت پر قرآن پڑھنے والا کون ہے ؟ کہا کہ ہم سب ہیں ، پھر پوچھا کہ تم سب میں حضرت عبداللہ کی قرأت کو زیادہ یاد رکھنے والاکون ہے ؟ لوگوں نے حضرت علقمہ کی طرف اشارہ کیا تو ان سے سوال کیا کہ واللیل اذا یغشیکو حضرت عبداللہ سے تم نے کس طرح سنا ؟ تو کہا وہ والذکر والانثیپڑھتے تھے کہا میں نے بھی حضور علیہ السلام سے اسی طرح سنا ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں وما خلق الذکر والا انثیپڑھوں اللہ کی قسم میں تو ان کی مانوں گا نہیں ، الغرض حضرت ابن مسعود اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو قرأت یہی ہے اور حضرت ابو الدرداء نے تو اسے مرفوع بھی کہا ہے ۔ باقی جمہور کی قرأت وہی ہے جو موجودہ قرآنوں میں ہے ، پس اللہ تعالیٰ رات کی قسم کھاتا ہے جبکہ اس کا اندھیرا تمام مخلوق پر چھا جائے اور دن کی قسم کھاتا ہے جبکہ وہ تمام چیزوں کو روشنی سے منور کر دے اور اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے جو نر و مادہ کا پیدا کرنے والاہے ، جیسے فرمایا وخلقنا کم ازواجاہم نے تمھیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور فرمایا ۔ وکل شئی خلقنا زوجین ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں ، ان متضاد اور ایک دوسری کے خلاف قسمیں کھاکر اب فرماتا ہے کہ تمھاری کوششیں اور تمھارے اعمال بھی متضاد اور ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔ بھلائی کرنے والے بھی ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہنے والے بھی ہیں پھر فرمایا ہے کہ جس نے دیا یعنی اپنے مال کو اللہ کے حکم کے ماتحت خرچ کیا اور پھونک پھونک کر قدم رکھا ہر ایک امر میں خوف الہ کرتا رہا اور اس کے بدلے کو سچا جانتا رہا اس کے ثواب پر یقین رکھا حسنیٰ کے معنی لا الہ الا اللہ کے بھی کئے گئے ہیں ۔ اللہ کی نعمتوں کے بھی کئے گئے ہیں ، نماز زکوٰۃ صدقہ فطر جنت کے بھی مروی ہیں پھر فرمایا ہے کہ ہم آسانی کی راہ آسان کر دیں گے یعنی بھلائی ، جنت اور نیک بدلے کی اور جس نے اپنے مال کو راہ اللہ میں نہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے بےنیازی برتی اور حسنٰی کی یعنی قیامت کے بدلے کی تکذیب کی تو اس پر ہم برائی کا راستہ آسان کر دیں گے جیسے فرمایا ونقلب افیدتگم وابصارھم الخ ، یعنی ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار قرآن پر ایمان نہ لائے تھے اور ہمانہیں ان کی سرکشی میں ہی بہکنے دیں گے ، اس مطلب کی آیتیں قرآن کریم کی جگہ موجد ہیں کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے خیر کا قصد کرنے والے کو توفیق خیر ملتی ہے اور شر کا قصد رکھنے والوں کو اسی کی توفیق ہوتی ہے ۔ اس معنی کی تائید میں یہ حدیثیں بھی ہیں ، حضرت صدیق اکبر نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ ہمارے اعمال فارغ شدہ تقدیر کے ماتحت ہیں یا نوپید ہماری طرف سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا بلکہ تقدیر کے لکھے ہوئے کے مطابق ، کہنے لگے پھر عمل کی کیا ضرورت؟ فرمایا ہر شخص پر وہ عمل آسان ہوں گے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ( مسند احمد ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بقیع غرقد میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے تو آپ نے فرمایا سنو تم میں سے ہر ایک کی جگہ جنت و دوزخ میں مقرر کردہ ہے ۔ اور لکھی ہوئی ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس پر بھروسہ کرکے بیٹھ کیوں نہ رہیں ؟ تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو ہر شخص سے وہی اعمال صادر ہوں گے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں ( صحیح بخاری شریف ) اسی روایت کے اور طریق میں ہے کہ اس بیان کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا اور سر نیچا کئے ہوئے زمین پر اسے پھیر رہے تھے ۔ الفاظ میں کچھ کمی بیشی بھی ہے ، مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کا بھی ایسا ہی سوال جیسا اوپر کی حدیث میں حضرت صدیق کا گذرا مروی ہے اور آپ کا جواب بھی تقریبا ً ایسا ہی مروی ہے ۔ ابن جریر میں حضرت جابر سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے ، ابن جریر کی ایک حدیث میں دو نوجوانوں کا ایسا ہی سوال اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ہی جواب مروی ہے ، اور پھر ان دونوں حضرات کا یہ قول بھی ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بہ کوشش نیک اعمال کرتے رہیں گے حضرت ابو الدرداء سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہر دن غروب کے وقت سورج کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں اور وہ با آواز بلند دعا کرتے ہیں جسے تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے جنات اور انسان کے کہ اے اللہ سخی کو نیک بدلہ دے اور بخیل کا مال تلف کر یہی معنی ہیں قرآن کی ان چاروں آیتوں کے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا ان میں سے ایک درخت کی شاخیں ایک مسکین شخص کے گھر میں جا کر وہاں کی کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انہیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آکر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا ، اس مسکین نے اسکی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی آپ نے اس سے فرما دیا کہ اچھا تم جاؤ اور آپ اس باغ والے سے ملے اور فرمایا کہ تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکین کے گھر میں ہیں مجھے دے دے ، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا وہ کہنے لگا اچھا حضرت میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے ۔ ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت اگر یہ درخت میرا ہو جائے اور میں آپ کا کردوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ حضرت مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت دینے کو کہہ رہے تھے ۔ میں نے یہ جواب دیا یہ سن کر خاموش ہو رہے پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دے دے ۔ لیکن کون دے سکتا ہے ؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو؟ کہا چالیس درخت خرما کے ۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس؟ پھر اور باتوں میں لگ گئے پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے ہی میں خریدتا ہوں اس نے کہا اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کر لو ، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہو گیا گواہ مقرر ہوگئے پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگا کہ دیکھئے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا ۔ اس نے بھی کہا بہت اچھا میں بھی ایسا احمق نہیں ہوں کہ تیرے ایک درخت کے بدلے جو خم کھایا ہوا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا کہ اچھا اچھا مجھے منظور ہے ۔ لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے بہت عمدہ لوں گا اس نے کہا اچھا منظور ۔ چنانچہ گواہوں کے روبرو یہ سودا فیصل ہوا اور مجلس برخاست ہوئی ۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب وہ درخت میرا ہو گیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے ۔ یہ درخت تمھارا ہے اور تمھارے بال بچوں کا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی ابن جریر میں مروی ہے کہ یہ آیتیں حضرت ابو بکر صدیق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ آپ مکہ شریف میں ابتداء میں اسلام کے زمانے میں بڑھیا عورتوں اور ضعیف لوگوں کو جو مسلمان ہو جاتے تھے آزاد کر دیا کرتے تھے اس پر ایک مرتبہ آپ کے والد حضرت ابو قحافہ نے جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا کہ بیٹا تم جوان کمزور ہستیوں کو آزاد کرتے پھرتے ہو اس سے تو یہ اچھا ہو کہ نوجوان طاقت والوں کو آزاد کراؤ تاکہ وقت پر وہ تمھارے کام آئیں ، تمھاری مدد کریں اور دشمنوں سے لڑیں ۔ تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ ابا جی میرا ارادہ دینوی فائدے کا نہیں میں تو صرف رضائے رب اور مرضی مولا چاہتا ہوں ۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئیں ۔ تروی کے معنی مرنے کے بھی مروی ہیں اور آگ میں گرنے کے بھی ۔
1۔ 1 یعنی افق پر چھا جائے جس سے دن کی روشنی ختم اور اندھیرا ہوجائے۔
(والیل اذا یغشی): یعنی ان چیزوں کی قسم جو اس نے پیدا کیں، نر ہیں یا مادہ ” الذکر والانثی “” ماخلق “ سے بدل ہے۔ ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا تیسرا ترجمہ ہے، نر اور مادہ کو پیدا کرنے کی قسم
خلاصہ تفسیر - قسم ہے رات کی جبکہ وہ آفتاب کو اور دن کو) چھپالے، اور (قسم ہے) دن کی جبکہ وہ روشن ہوجاوے (اور قسم ہے) اس (ذات) کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا (مراد اللہ تعالیٰ ہے آگے جواب قسم ہے) کہ بیشک تمہاری کوششیں (یعنی اعمال) مختلف ہیں (اور اسی طرح ان کے ثمرات بھی مختلف ہیں) سو جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات (یعنی ملت اسلام) کو سچا سمجھا تو ہم اس کو راحت کی چیز کے لئے سامان دیدیں گے (راحت کی چیز سے نیک عمل اور بواسطہ نیک عمل کے جنت مراد ہے کہ یسر کا سبب اور محل ہے اسی لئے یسریٰ کہہ دیا گیا ورنہ یسریٰ کے معنی ہیں آسان چیز) اور جس نے (حقوق واجبہ سے) بخل کیا اور (بجائے خدا سے ڈرنے کے خدا سے) بےپروائی اختیار کی اور اچھی بات (یعنی ملت اسلام کو جھٹلایا تو ہم اس کو تکلیف کی چیز کے لئے سامان دیدیں گے (تکلیف کی چیز سے بدعمل اور بواسطہ بدعمل کے دوزخ مراد ہے کہ عسر کا سبب اور محل ہے اس لئے اس عسر کو عسریٰ کہہ دیا گیا اور سامان دینے سے مراد دونوں جگہ یہ ہے کہ اچھے یا برے کام اس کے لئے آسان ہوجائیں گے اور بےتکلف سرزد ہونے لگیں گے اور ویسے ہی اسباب جمع ہوجاویں گے پھر نیک اعمال کا سامان جنت ہونا اور اعمال بد کا سامان دوزخ ہونا ظاہر ہی ہے۔ حدیث میں ہے امامن کان من اھل السعادة فیسریعمل اھل السعادة وکذا فی الشقاوة) اور آگے صاحب عشریٰ کا حال مذکور ہے کہ اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آوے گا جب وہ برباد ہونے لگے گا (بربادی سے مراد جہنم میں جانا ہے) واقعی ہمارے ذمہ (اپنے وعدہ کے مطابق) راہ کا بتلا دینا ہے (سو وہ ہم نے پوری طور سے بتلا دیا ہے پھر کسی نے ایمان و اطاعت کی راہ اختیار کرلی جس کا ذکر من اعطیٰ الخ میں ہوا ہے اور کسی نے کفر و معصیت کی راہ کو اختیار کرلیا جس کا ذکر من بخل میں ہوا ہے) اور (جیسی راہ کوئی شخص اختیار کرے گا ویسا ہی ثمرہ اس کو دیں گے کیونکہ) ہمارے ہی قبضہ میں ہے آخرت اور دنیا (یعنی دونوں میں ہماری ہی حکومت ہے اس لئے دنیا میں ہم نے احکام مقرر کئے اور آخرت میں مخالفت اور موافقت پر سزا و جزا دیں گے جس کا بیان دو جگہ فسیسرہ میں ہوا ہے۔ آگے بطور تنقیع اور توضیح کے ارشاد ہے کہ میں نے جو تم کو اعمال مختلفہ کی مختلف جزائیں بتلا دی ہیں) تو میں تمکو ایک بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈرا چکا ہوں (جس پر جملہ فسیسرہ للعسریٰ دلالت کرتا ہے تاکہ ایمان و اطاعت جن کا ذکر اعطی الخ میں ہے اختیار کر کے اس آگ سے بچو اور کفر و معصیت جن کا ذکر بخل الخ میں ہے اختیار کر کے دوزخ میں نہ جاؤ، کیونکہ اس میں جانے اور نہ جانے کے یہی اسباب ہیں چناچہ آگے اس کی تصریح ہے کہ) اس میں (ہمیشہ کے لئے) وہی بدبخت داخل ہوگا جس نے (دین حق کو) جھٹلایا اور اس سے) روگردانی کی اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جاوے گا جو بڑا پرہیزگار ہے جو اپنا مال (محض) اس غرض سے دیتا ہے کہ (گناہوں سے) پاک ہوجاوے۔ (یعنی محض رضائے حق اس کا مطلب ہے) اور بجز اپنے عالیشیان پروردگار کی رضا جوئی کے (کہ یہی اس کا مقصود ہے) اس کے ذمہ کسی کا احسان نہ تھا کہ (اس دینے سے) اس کا بدلہ اتارنا (مقصود) ہو (اس میں نہایت ہی مبالغہ ہے اخلاص میں کیونکہ کسی کے احسان کا بدلہ اتارنا بھی فی نفسہ مستحب اور افضل و موجب ثواب ہے مگر فضیلت میں احسان ابتدائی کی برابر نہیں، پس جب اس شخص کا انفاق فی سبیل اللہ اس سے بھی مبرا ہے تو ریا وغیرہ معاصی کی آمیزش سے بدرجہ اولیٰ بری ہوگا اور یہ کمال اخلاص ہے) اور (ایسے شخص کے لئے اوپر صرف جہنم سے بچنا مذکور تھا آگے حصول نعمائے آخرت کو فرماتے ہیں کہ) یہ شخص عنقریب خوش ہوجاوے گا (یعنی آخرت میں ایسی ایسی نعمتیں ملیں گی جن سے اس کو دائمی خوش نصیب ہوگی۔ ) - معارف ومسائل - ان سعیکم لشی، یہ ایسا جملہ ہے جیسے سورة انشقاق میں مذکور ہو انک کا دح الی ربک کدحا جس کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت سے کسی نہ کسی کام کے لئے سعی و عمل اور جدوجہد کرنے کا خوگر ہے مگر بعض لوگ اپنی جدوجہد اور محنت سے دائمی راحت کا سامان کرلیتے ہیں اور بعض دوسرے اپنی اسی محنت سے دائمی عذاب خرید لیتے ہیں جیسے حدیث میں ہے کہ ہر انسان جب صبح کو اٹھتا ہے تو وہ اپنے نفس کو تجارت پر لگا دیتا ہے کوئی تو اس تجارت میں کامیاب ہوتا ہے اور اپنے آپ کو عذاب آخرت سے آزاد کرلیتا ہے اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی محنت اور سعی و عمل ہی اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ مگر عقل کا کام یہ ہی کہ پہلے اپنی سعی و عمل کے انجام کو سوچے، جس عمل کے انجام میں وقتی آرام و لذت ہو مگر دائمی عذاب و رنج کا سبب بنے۔ اس کے پاس نہ جائے۔- سعی و عمل کے اعتبار سے انسانوں کے دو گروہ :۔ آگے قرآن حکیم نے سعی و عمل کے اعتبار سے انسانوں کے دو گروہ بتلائے اور دونوں کے تین تین اوصاف ذکر کئے۔ پہلا گروہ کامیاب لوگوں کا ہے ان کے تین مل یہ ہیں فامامن اعطی و اتقی و صدق بالحسنے یعنی جس نے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا اور اللہ سے ڈر کر زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچتا رہا اور جس نے اچھی بات کی تصدیق کی۔ اچھی بات سے مراد کلمہ ایمان لا الہ الا اللہ ہے۔ (کما قالہ ابن عباس و الضحاک والسدی) اس کلمہ کی تصدیق سے مراد ایمان لے آنا ہے اور اگرچہ ایمان سب اعمال کی روح اور سب سے مقدم ہے اس کو یہاں موخر کرنے کی شاید وجہ ہو کہ اس جگہ ذکر سعی و عمل اور جدو جہد ہے اور وہ اعمال ہی ہیں۔ ایمان تو ایک قلبی چیز ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تصدیق کرے پھر زبان سے بھی اس کا اقرار کلمہ شہادت کے ذریعے کرے۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی جسمانی محنت نہیں نہ کوئی اس کو اعمال کی فہرست میں شمار کرتا ہے کے ذریعے کرے اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی جسمانی محنت نہیں نہ کوئی اس کو اعمال کی فہرست میں شمار کرتا ہے۔- دوسرے گروہ کے بھی تین عمل کا ذکر فرمایا واما من بخل واستغنی وکذب بالحسنی یعنی جس نے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کیا کہ زکوة فرض اور صدقات واجبہ بھی ادا کرنے سے گریز کیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اس کی طرف جھکنے اور اطاعت اختیار کرنے کے بجائے اس سے بےنیازی اور بےرخی کی اور اچھی بات یعنی کلمہ ایمان کی تکذیب کی، ان دونوں گروہوں میں سے پہلے گروہ کے بارے میں فرمایا فسیسرہ للیسریٰ ، یسریٰ کے لفظی معنے میں آسان اور آرام دہ چیز جس میں مشقت نہ و مراد اس سے جنگ ہے۔ اسی طرح اس کے بالمقابل دوسرے گروہ کے متعلق فرمایا مستیسرہ للعسریٰ عسریٰ کے لفظی معنے مشکل اور تکلف دہ چیز کے ہیں، مراد اس سے جہنم ہے۔ اور معنے دونوں جملوں کے یہ ہیں کہ جو لوگ اپنی سعی و محنت پہلے تین کاموں میں لگاتے ہیں یعنی اللہ کی راہ میں خرچ اور اللہ سے ڈرنا اور ایمان کی تصدیق، ان لوگوں کو ہم یسریٰ یعنی اعمال جنت کے لئے آسان کردیتے ہیں اور جو لوگ یہ سعی و عمل دوسرے تین کاموں میں لگاتے ہیں ان کو ہم عسریٰ یعنی اعمال جہنم کے لئے آسان کردیتے ہیں، یہاں بظاہر مقائے مقام یہ کہنے کا تھا کہ ان کے لئے اعمال جنت یا اعمال دوزخ آسان کردیئے جائیں گے کیونکہ آسان یا مشکل ہونا صفت اعمال ہی کی ہو سکتی ہے تو خود ذوات و اشخاص نہ مشکل، مگر قرآن کریم نے اس کی تعبیر اس طرح فرمائی کہ خود ان لوگوں کی ذات اور وجود ان اعمال کے لئے آسان کردیئے جاویں گے اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان کی طبیعتوں اور مزاجوں کو ایسا بنادیا جئایگا کہ پہلے گروہ کے لئے اعمال جنت ان کی طبیعت بن جائیں گے ان کے خلاف کرنے میں وہ تکلف محسوس کرنے لگیں گے، اسی طرح دوسرے گروہ کا مزاج ایسا بنادیا جاوے گا کہ اس کو اعمال جہنم ہی پسند آئیں گے، انہیں میں راحت ملے گی اعمال جنت سے نفرت ہوگی۔ ان دونوں گروہوں کے مزاجوں میں یہ کیفیت پیدا کردینے کو اس سے تعبیر فرمایا کہ یہ خود ان کاموں کے لئے آسان ہوگئے۔ ایک مرفوع حدیث میں اس کی تائید اس طرح آتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اعملوا فکل میسر لما خلق لہ امامن کان من اھل السعادة فیسیر لعمل السعادة وامامن کان من اھل الشفاوة (رواہ البخاری و مسلم عن علی) یعنی تم جو عمل کرتے ہو وہ کرتے رہو کیونکہ ہر ایک آدمی کے لئے وہ ہی کام آسان کردیا گیا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا، اس لئے جو اہل سعادت نیک بخت خوش نصیب ہیں تو اہل سعادت ہی کے اعمال ان کی طبعی رغبت بنجاتے ہیں اور جو اہل شقاوت بدنصیب یعنی اہل جہنم ہیں ان کے لئے اہل شقاوت ہی کے اعمال کرنا مزاج اور طبیعت بنجاتی ہے۔ مگر یہ دونوں چیزیں اپنے خدا داد اختیار کو استعمال کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہیں اس لئے ان پر عذاب وثواب کا ترتب مستبعد نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے بعد بدنصیب گروہ اہل جہنم کو تنبیہ ہے وما یغنی عنہ مالہ اذا تردی، یعنی جس مال کی خاطر یہ کمبخت حقوق واجبہ میں بھی بخل کیا کرتا تھا یہ مال اس پر عذاب آنے کے وقت کچھ کام نہ دے گا۔ تردی کے لفظی معنے گڑھے میں گر جانے اور ہلاک ہونے کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ موت کے بعد قبر میں اور پھر قیامت میں جب وہ جہنم کے گڑھے میں گرتا ہوگا تو یہ مال اس کو کچھ نفع نہیں دے گا۔
وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ١ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔
(1 ۔ 3) قسم ہے رات کی جب وہ دن کی روشنی کو چھپا لے، اور قسم ہے دن کی جب وہ رات کی تاریکی کو روشن کردے اور قسم ہے اس ذات کی جس نے نر و مادہ کو پیدا کیا۔- شان نزول : وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى، وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى الخ۔- ابن ابی حاتم نے حکم بن ابان عن عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا درخت تھا اور کھجور کی شاخیں ایک محتاج بال بچوں والے کے مکان پر تھیں چناچہ جب وہ شخص باغ میں آتا اور کھجور کے درخت پر چڑھتا تاکہ اس کا پھل توڑے تو بعض اوقات کوئی کھجور نیچے گر جاتی تھی جس کو اس محتاج کے بچے اٹھا لیتے تو فوراً درخت سے اتر کر کھجور کو ان کے ہاتھوں میں سے لے لیتا تھا اور اگر کھجور کو بچوں میں سے کسی کے منہ میں پاتا تو انگلی ڈال کر اس کے منہ میں سے نکال لیتا تھا چناچہ اس محتاج آدمی نے اس بات کی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شکایت کی، آپ نے فرمایا اچھا تم جاؤ اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کھجور کے مالک سے ملاقات کی اور اس سے فرمایا کہ مجھے وہ کھجور کا درخت دے دو جس کی شاخیں فلاں آدمی کے مکان میں ہیں اور اس کے بدلے تمہیں جنت میں کھجور کا درخت ملے گا وہ شخص کہنے لگا میں آپ کو ایسا ہی دوسرا درخت دے دیتا ہوں کیونکہ میرے پاس کھجوروں کے بہت سے درخت ہیں اور اس سے زیادہ پسندیدہ مجھے اور کوئی درخت نہیں چناچہ وہ شخص چلا گیا اس کے بعد ایک آدمی سے ملاقات ہوئی جو اس کھجور کے مالک کی اور حضور کی گفتگو سن رہا تھا اور پھر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ جو آپ فلاں آدمی کو انعام دے رہے تھے اگر میں اس سے وہ کھجور کا درخت خرید لوں تو کیا مجھے بھی وہی صلہ ملے گا، آپ نے فرمایا ہاں چناچہ اس شخص نے جا کر کھجور کے مالک سے ملاقات کی اور ان دونوں کے پاس کھجوروں کے درخت تھے تو اس سے اس کھجور کے مالک نے کہا کہ تم نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنی ہے کہ آپ مجھے اس کھجور کے درخت کے بدلے میں جس کی شاخیں فلاں آدمی کے مکان میں جھکی ہوئی ہیں جنت میں ایک کھجور کا درخت دے رہے ہیں ان میں اس سے زیادہ کوئی پسندیدہ نہیں۔ تو اس آنے والے آدمی نے کہا کیا تم اس کو فروخت کرنا چاہتے ہو اس نے کہا نہیں البتہ اس کے بدلے میں وہ مجھے دے دیا جائے جو میں چاہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اتنی قیمت مجھے نہیں ملے گی، تو یہ شخص کہنے لگا تو اس درخت کے بارے میں تمہارا کیا ارادہ ہے تو وہ کہنے لگا چالیس درخت، تو یہ بولے تم نے تو بڑی بھاری بات کا ارادہ کیا پھر تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولے میں اس درخت کے بدلے میں تمہیں چالیس درخت دیتا ہوں اگر تم سچے ہو تو اس پر گواہ قائم کردو چناچہ اس کھجور والے نے اپنی قوم کو بلا کر اس معاملے پر گواہ بنادیے۔ پھر یہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ وہ کھجور کا درخت اب میرا ہوگیا ہے اور میں آپ کو دیتا ہوں چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مکان والے کے پاس گئے اور فرمایا یہ کھجور کا درخت تیرے اور تیرے بال بچوں کے لیے ہے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں۔ یہ حدیث بہت غریب ہے۔ ابن ابی حاتم نے عنوہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ساتھ آدمیوں کو خرید کر آزاد کیا جن کو اسلام لانے پر عذاب دیا جارہا تھا اور ان ہی کے بارے میں وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى سے اخیر تک یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔
آیت ١ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی ۔ ” قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لیتی ہے۔ “- یعنی تمام چیزوں پر تاریکی کا پردہ ڈال دیتی ہے۔