10۔ 1 تنگی سے مراد کفر و معصیت اور طریق شر ہے، یعنی ہم اس کے لیے نافرمانی کا راستہ آسان کردیں گے، جس سے اس کے لیے خیر وسعادت کے راستے مشکل ہوجائیں گے، قرآن مجید میں یہ مضمون کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ جو خیر و رشد کا راستہ اپناتا ہے اس کے صلے میں اللہ اسے خیر و توفیق سے نوازتا ہے اور جو شر و معصیت کو اختیار کرتا ہے اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑتا ہے یہ اس کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ نے اپنے علم سے لکھ رکھی ہے۔ (ابن کثیر)
[٣] ایک نیک بخت اور ایک بدبخت کے اعمال اور نتائج کا تقابل :۔ دوسرے فریق کی صفات اور عادات پہلے فریق سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں یعنی وہ اللہ کی راہ میں ہرگز مال خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر خرچ کرتا ہے تو اپنی ہی ذات پر خرچ کرتا ہے یا ایسے کاموں میں خرچ کرتا ہے جن سے اس کی شہرت یا اس کی فیاضی کا چرچا ہو۔ اپنی زندگی ایسے بسر کرتا ہے جیسے اس کا خالق ومالک اس کے سر پر ہے ہی نہیں اور اگر زبانی اقرار کرتا بھی ہے تو اپنی عملی زندگی میں اس کے احکام سے بالکل بےنیاز رہتا ہے اور ہر بھلائی کی بات کو جھٹلا دیتا ہے (بھلائی کی وضاحت سابقہ حاشیہ میں کی جاچکی ہے) ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ جہنم کا راستہ آسان اور نیکی اور بھلائی کی راہیں بہت مشکل بنا دیتا ہے۔ ان کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔ وہ کسب حرام اور رزق حرام سے ایسے مانوس ہوتے ہیں کہ رزق حلال کی انہیں کوئی راہ نہ پسند آتی ہے اور نہ ان کے لیے آسان ہوتی ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ( وَكَذَّبَ بالْحُسْنٰى ۙ ) 92 ۔ اللیل :9) کا معنی یہ ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کرے گا، اللہ اسے اس کا بدلہ دے گا۔- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہتا ہے : اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کے عوض اور مال دے اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ بخل کرنے والے کے مال کو تلف کردے (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب ( فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى ۙ ) 92 ۔ اللیل :5) - ٣۔ سیدنا علی (رض) سے روایت ہے کہ ہم بقیع میں ایک جنازے میں شریک تھے۔ اتنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو ہم سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر جھکا کر چھڑی سے زمین کرید رہے تھے۔ (جیسے کسی گہری سوچ میں ہیں) پھر فرمایا : تم میں سے جو شخص بھی پیدا ہوا ہے اس کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے جنت میں یا دوزخ میں اور یہ بھی لکھا جاچکا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یا بدبخت اس پر ایک شخص بولا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہم اپنی قسمت کے لکھے پر بھروسا کرتے ہوئے عمل کرنا چھوڑ نہ دیں ؟ کیونکہ جو نیک بختوں میں لکھا گیا ہے وہ بالآخر نیک بختوں میں شامل ہوگا اور جو بدبخت لکھا گیا ہے وہ بالاخر بدبختوں میں شامل ہوگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (نہیں، بلکہ عمل کیے جاؤ) کیونکہ نیک بخت لکھے گئے ہیں انہیں نیک اعمال کی توفیق دی جاتی ہے اور جو بدبخت لکھے گئے ہیں انہیں ویسی ہی توفیق دی جاتی ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات پڑھیں (بخاری۔ کتاب التفسیر) - رہا کسی شخص کے انجام سے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو یہ بات پہلے بھی واضح کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کام کرے جو اللہ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے سورة اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ دیکھیے۔
فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰى ١٠ ۭ- يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] وتَيَسَّرَ كذا واسْتَيْسَرَ أي تسهّل، قال : فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] ، فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ- [ المزمل 20] أي : تسهّل وتهيّأ، ومنه : أَيْسَرَتِ المرأةُ ، وتَيَسَّرَتْ في كذا . أي : سهَّلته وهيّأته، قال تعالی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] ، فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ- [ مریم 97] واليُسْرَى: السّهل، وقوله : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] ، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] فهذا۔ وإن کان قد أعاره لفظ التَّيْسِيرِ- فهو علی حسب ما قال عزّ وجلّ : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] . واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً- [ الأحزاب 14] والمَيْسَرَةُ واليَسَارُ عبارةٌ عن الغنی. قال تعالی: فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ- [ البقرة 280] واليَسَارُ أختُ الیمین، وقیل : اليِسَارُ بالکسر، واليَسَرَاتُ : القوائمُ الخِفافُ ، ومن اليُسْرِ المَيْسِرُ.- ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ تیسر کذا واستیسرکے معنی آسان ہو نیکے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کردو ۔ فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل 20] تو جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو ۔ اسی سے الیسرت المرءۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے سہولت سے بچہ جننے کے ہیں ۔ یسرت کذا کے معنی کسی کام آسان اور سہل کردینے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ۔ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم 97] اے پیغمبر یہ قران تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ہے ۔ الیسری اسم بمعنی یسر قرآن پاک میں ہے : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] اس کو ہم آسان طریقے کی توفیقی دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] اسے سختی میں پہنچا ئنگے ۔ میں عسریٰ کے ساتھ تیسیر کا لفظ بطور تحکم لایا گیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] میں عذاب کے متعلق بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن پاک میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً- عسر - العُسْرُ : نقیض الیسر . قال تعالی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] ، والعُسْرَةُ : تَعَسُّرُ وجودِ المالِ. قال : فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] ، وقال : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] ، وأَعْسَرَ فلانٌ ، نحو : أضاق، وتَعَاسَرَ القومُ : طلبوا تَعْسِيرَ الأمرِ. وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] ، ويَوْمٌ عَسِيرٌ: يتصعّب فيه الأمر، قال : وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] ، يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] ، وعَسَّرَنِي الرّجلُ : طالبني بشیء حين العُسْرَةِ.- ( ع س ر ) العسر - کے معنی تنگی اور سختی کے ہیں یہ یسر ( آسانی فارغ البالی ) کی ضد ہے قرآن میں ہے : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ العسرۃ تنگ دستی تنگ حسالی قرآن میں ہے : ۔ فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] مشکل کی گھڑی میں ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر قرض لینے والا تندست ہو ۔ اور اضاق فلان کی طرح اعسر فلان کے معنی ہیں وہ مفلس اور تنگ حال ہوگیا تعاسر القوم لوگوں نے معاملہ کو الجھا نے کی کوشش کی قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] اور اگر باہم ضد ( اور نااتفاقی ) کرو گے تو ( بچے کو اس کے ) باپ کے ) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ یوم عسیر سخت دن ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] اور وہ دن کافروں پر ( سخت ) مشکل ہوگا ۔ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] مشکل کا دن ( یعنی ) کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔ عسر الرجل تنگدستی کے وقت کسی چیز کا مطالبہ کرنا ۔
آیت ١٠ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی ۔ ” تو اس کو ہم رفتہ رفتہ مشکل منزل (جہنم) تک پہنچا دیں گے۔ “- یہ ہیں انسانی کوشش اور مشقت کے دو رخ۔ گویا پہلی تین شرائط کو اپنانے کا راستہ صدیقین اور شہداء کا راستہ ہے۔ اگر کسی نے کوشش کی لیکن وہ مذکورہ تینوں شرائط کو کماحقہ پورا نہ کرسکا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوشش اور اخلاص کے مطابق ہوگا۔ لیکن جس بدقسمت شخص کی کوشش اور محنت میں ان تینوں اوصاف کا فقدان ہوا اور وہ ان کے مقابلے میں عمر بھر دوسرے راستے (بخل ‘ استغناء اور تکذیب) پر گامزن رہا ‘ ظاہر ہے اس کا شمار ان بدترین لوگوں کے گروہ میں ہوگا جس کے سرغنہ ابولہب اور ابوجہل ہیں۔ - یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ ابوجہل کے مقابلے میں ابولہب کا کردار کہیں زیادہ گھٹیا اور مذموم تھا ‘ بلکہ قرآن مجید نے جس انداز میں اس کی مذمت کی ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کا بدترین فرد تھا۔ بزدلی ‘ بخیلی اور حد سے بڑھی ہوئی خود غرضی اس کے کردار کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ اس کے بخل اور مال کو سینت سینت کر رکھنے کا ذکر سورة اللہب میں بھی آیا ہے۔ اس کی بزدلی اور خودغرضی کا پول اس وقت کھلا جب اس کے سامنے اپنے ” دین “ کے لیے جنگ کرنے کا مرحلہ آیا ‘ اس وقت اس نے اپنی جگہ کرائے کے دو سپاہیوں کو لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے مقابلے میں ابوجہل صاف گو ‘ بہادر اور اپنے نظریے پر مرمٹنے والا شخص تھا۔ چناچہ اس نے اپنے باطل دین کی خاطر بڑے فخر سے گردن کٹوائی۔ انگریزی کی مثل ہے : " " یعنی شیطان کے کردار میں بھی اگر کوئی مثبت خصوصیت ہو تو اس کے اعتراف میں کوئی حرج نہیں۔ ظاہر ہے اس کی شخصیت میں آخر کوئی تو خوبی تھی جس کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی خصوصی دعا میں اسے اور حضرت عمر (رض) کو ایک ہی پلڑے میں رکھا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ان دونوں شخصیات کے لیے برابر کی دعا کی تھی کہ اے اللہ عمر بن الخطاب اور عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو میری جھولی میں ڈال دے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعا کی روشنی میں تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ابوجہل ایمان لے آتا تو وہ حضرت عمر (رض) کے پائے کا مسلمان ہوتا ‘ نہ کہ عبداللہ بن ابی کے کردار والا مسلمان۔ - بہرحال ان آیات میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کے معیار اور اوصاف کی واضح طور پر نشاندہی کردی گئی ہے۔ جو انسان اپنی سیرت و شخصیت کی بنیاد پہلے تین اوصاف (بحوالہ آیت ٥ اور ٦) پر رکھے گا وہ ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور جو آخری تین اوصاف (بحوالہ آیت ٨ اور ٩) کا انتخاب کرے گا وہ بدترین خلائق قرارپائے گا۔
سورة الَّیْل حاشیہ نمبر :5 اس راستے کو سخت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس پر چلنے والا اگرچہ مادی فائدوں اور دنیوی لذتوں اور ظاہری کامیابیوں کے لالچ میں اس کی طرف جاتا ہے ، لیکن اس میں ہر وقت اپنی فطرت سے ، اپنے ضمیر سے ، خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین سے ، اور اپنے گرد و پیش کے معاشرے سے اس کی جنگ برپا رہتی ہے ۔ صداقت ، امانت ، شرافت اور عفت و عصمت کی اخلاقی حدوں کو توڑ کر جب وہ ہر طریقے سے اپنی اغراض اور خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، جب اس کی ذات سے خلق خدا کو بھلائی کے بجائے برائی ہی پہنچتی ہے ، اور جب وہ دوسروں کے حقوق اور ان کی عزتوں پر دست درازیاں کرتا ہے ، تو اپنی نگاہ میں وہ خود ذلیل و خوار ہوتا ہے اور جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی قدم قدم پر لڑ کر اسے آگے بڑھنا پڑتا ہے ۔ اگر وہ کمزور ہو تو اس روش کی بدولت اسے طرح طرح کی سزائیں بھگتنی ہوتی ہیں ، اور اگر وہ مال دار طاقتور اور با اثر ہو تو چاہے دنیا اس کے زور کے آگے دب جائے لیکن کسی کے دل میں اس کے لیے خیر خواہی ، عزت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا ، حتی کہ اس کے شریک کار بھی اس کو ایک خبیث آدمی ہی سمجھتے ہیں ۔ اور یہ معاملہ صرف افراد ہی تک محدود نہیں ہے ۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور قومیں بھی جب اخلاق کے حدود پھاند کر اپنی طاقت اور دولت کے زعم میں بد کرداری کا رویہ اختیار کرتی ہیں ، تو ایک طرف باہر کی دنیا ان کی دشمن ہو جاتی ہے اور دوسری طرف خود ان کا اپنا معاشرہ جرائم ، خود کشی ، نشہ بازی ، امراض خبیثہ ، خاندانی زندگی کی تباہی ، نوجوان نسلوں کی بد راہی ، طبقاتی کشمکش ، اور ظلم و جور کی روز افزوں وبا سے دو چار ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ بام عروج سے گرتی ہے تو دنیا کی تاریخ میں اپنے لیے لعنت اور پھٹکار کے سوا کوئی مقام چھوڑ کر نہیں جاتی ۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ہم سخت راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق سلب کر لی جائے گی ، برائی کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جائیں گے ، اسی کے اسباب اور وسائل اس کے لیے فراہم کر دیے جائیں گے ، بدی کرنا اس کے لیے آسان ہو گا اور نیکی کرنے کے خیال سے اس کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے اس کی جان پر بن رہی ہے ۔ یہی کیفیت ہے جسے دوسری جگہ قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ ( اسلام کا تصور کرتے ہی اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے ) جیسے اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے ۔ ( الانعام ، آیت 125 ) ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر فرماں بردار بندوں کے لیے نہیں ( البقرہ ، 46 ) ۔ اور منافقین کے متعلق فرمایا وہ نماز کی طرف آتے بھی ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں ( التوبہ ، آیت 54 ) ۔ اور یہ کہ ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں ( التوبہ ، آیت 98 ) ۔
4: تکلیف کی منزل سے مراد دوزخ ہے، کیونکہ حقیقی تکلیف وہیں کی ہے، اور تیاری کرانے سے مراد یہ ہے کہ وہ جس جس گناہ میں مبتلا ہونا چاہے گا، اُسے مبتلا ہونے دیا جائے گا، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُسے نیکی کی توفیق نہیں ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس ہولناک وعید سے محفوظ رکھیں۔ آمین۔