9۔ 1 یا آخرت کی جزاء وسزا اور حساب و کتاب کا انکار کرے گا۔
وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى ٩ ۙ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
آیت ٩ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی ۔ ” اور جھٹلا دیا اچھی بات کو۔ “- یعنی اس کے دل نے گواہی دے دی کہ یہ سچ اور حق بات ہے لیکن اس کے باوجود اس نے تعصب یا تکبر یا ہٹ دھرمی یا مفاد یا کسی خوف کی وجہ سے اسے جھٹلا دیا۔ واضح رہے اس آیت کا تقابل آیت ٦ (وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔ ) کے ساتھ ہے۔
سورة الَّیْل حاشیہ نمبر :4 یہ انسانی مساعی کی دوسری قسم ہے جو اپنے ہر جز میں پہلی قسم کے ہر جز سے مختلف ہے ۔ بخل سے مراد محض وہ بخل نہیں ہے ، جس کے لحاظ سے عام طور پر لوگ اس آدمی کو بخیل کہتے ہیں جو روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے نہ اپنے بال بچوں پر ، بلکہ اس جگہ بخل سے مراد راہ خدا میں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال صرف نہ کرنا ہے اور اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر ، اپنے عیش و آرام پر ، اپنی دلچسپیوں اور تفریحوں پر تو خوب دل کھول کر مال لٹاتا ہے ، مگر کسی نیک کام کے لیے اس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا ، یا اگر نکلتا بھی ہے تو یہ دیکھ کر نکلتا ہے کہ اس کے بدلے میں اسے شہرت ، نام و نمود ، حکام رسی ، یا کسی اور قسم کی منفعت حاصل ہو گی ۔ بے نیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیا کے مادی فائدوں ہی کو اپنی ساری تگ و دو اور محنت و کوشش کا مقصود بنا لے اور خدا سے بالکل مستغنی ہو کر اس بات کی کچھ پروا نہ کرے کہ کس کام سے وہ خوش اور کس کام سے وہ ناراض ہوتا ہے ۔ رہا بھلائی کو جھٹلانا ، تو وہ اپنی تمام تفصیلات میں بھلائی کو سچ ماننے کی ضد ہے ، اس لیے اس کی تشریح کی حاجت نہیں ہے ، کیونکہ بھلائی کی تصدیق کا مطلب ہم واضح کر چکے ہیں ۔