8۔ 1 یعنی اللہ کے راہ میں خرچ نہیں کرے گا اور اللہ کے حکم سے بےپرواہی کرے گا۔
واما من بخل واستغنی …: یعنی جس میں شر کے یہ تین جامع اوصاف ہیں کہ وہ بخل کرتا ہے، اخروی انجام اور حلال و حرام کی پروا ہی نہیں کرتا اور سب سے اچھی بات یعنی اللہ کے ایک ہونے اور اس کی نازل کردہ باتوں کو جھٹلاتا ہے، تو ہم بھی اسے اس کی خواہش کے مطابق اس راستے پر چلنے دیتے ہیں جو مشکلات و مصائب کا راستہ ہے اور جہنم کی طرف لے جانے والا ہے، یعنی اس کے لئے نیکی کرنا مشکل اور گناہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى ٨ ۙ- بخل - البُخْلُ : إمساک المقتنیات عمّا لا يحق حبسها عنه، ويقابله الجود، يقال : بَخِلَ فهو بَاخِلٌ ، وأمّا البَخِيل فالذي يكثر منه البخل، کالرحیم من الراحم .- والبُخْلُ ضربان : بخل بقنیات نفسه، وبخل بقنیات غيره، وهو أكثرها ذمّا، دلیلنا علی ذلک قوله تعالی: الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ [ النساء 37] .- ( ب خ ل ) البخل ( دس ) اپنے جمع کردہ ذخائر کو ان جگہوں سے روک لینا جہاں پر خرچ کرنے سے اسے روکنا نہیں چاہیئے ۔ اس کے بالمقابل الجواد ہے بخل اس نے بخیل کیا باخل ۔ بخل کرنے والا ۔ البخیل ( صیغہ مبالغہ ) جو بہت زیادہ بخل سے کام لیتا ہو جیسا کہ الراحم ( مہربان ) سے الرحیم مبالغہ کے لئے آتا جاتا ہے ۔ البخیل ۔ دو قسم پر ہے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی چیزوں کو خرچ کرنے سے روک لے اور دوم یہ کہ دوسروں کو بھی خرچ کرنے سے منع کرے یہ پہلی قسم سے بدتر ہے جیسے فرمایا : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ( سورة النساء 37) یعنی جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیں ۔- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی
(8 ۔ 11) اور جس نے اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دینے سے بخل کیا یعنی ولید بن مغیرہ اور حضرت ابو سفیان یہ اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اور اللہ سے بےپروائی اختیار کی اور وعدہ خداوندی، یا یہ کہ جنت، یا یہ کہ کلمہ اسلام کو جھٹلایا سو ہم اس کو بارہا نافرمانیوں اور امساک عن الصدقة فی سبیل اللہ میں مبتلا کریں گے اور جو مال اس نے دنیا میں جمع کیا ہے جب وہ مرنے لگے گا یا یہ کہ دوزخ میں گرے گا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
آیت ٨ وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ ” اور جس نے بخل کیا “- پہلی تین خصوصیات کی ترتیب ذہن میں رکھیے اور نوٹ کیجیے کہ ” اِعطاء “ کے مقابلے میں یہاں بخل آگیا ہے۔- وَاسْتَغْنٰی ۔ ” اور بےپروائی اختیار کی۔ “- بھلائی اور خیر کے راستے کی تین خصوصیات میں اعطاء کے بعد تقویٰ یعنی پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور ذمہ داری کے احساس کا بیان تھا۔ اس کے مقابلے یہاں لاابالی پن ‘ لاپرواہی اور بےنیازی (استغناء) کا تذکرہ ہے۔ گویا ایک شخص حلال و حرام کی تمیز سے ناآشنا اور نیکی و بدی کے تصور سے بیگانہ اپنی دھن میں مست چلا جا رہا ہے۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی بلا سے ‘ کسی کی عزت پر حرف آتا ہے تو آتا رہے ‘ کسی کے جان و مال کی حرمت پامال ہوتی ہے تو بھی پروا نہیں غرض اپنی سوچ ہے ‘ اپنی مرضی ہے اور اپنے کام سے کام ہے : ؎- دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام - کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے