7۔ 2 یعنی ہم بھی اس کو اس سے نیکی اور اطاعت کی توفیق دیتے اور ان کو اس کے لیے آسان کردیتے ہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے چھ غلام آزاد کیے، جنہیں اہل مکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت اذیت دیتے تھے۔ (فتح القدیر)
فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْيُسْرٰى ٧ ۭ- يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] وتَيَسَّرَ كذا واسْتَيْسَرَ أي تسهّل، قال : فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] ، فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ- [ المزمل 20] أي : تسهّل وتهيّأ، ومنه : أَيْسَرَتِ المرأةُ ، وتَيَسَّرَتْ في كذا . أي : سهَّلته وهيّأته، قال تعالی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] ، فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ- [ مریم 97] واليُسْرَى: السّهل، وقوله : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] ، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] فهذا۔ وإن کان قد أعاره لفظ التَّيْسِيرِ- فهو علی حسب ما قال عزّ وجلّ : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] . واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً- [ الأحزاب 14] والمَيْسَرَةُ واليَسَارُ عبارةٌ عن الغنی. قال تعالی: فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ- [ البقرة 280] واليَسَارُ أختُ الیمین، وقیل : اليِسَارُ بالکسر، واليَسَرَاتُ : القوائمُ الخِفافُ ، ومن اليُسْرِ المَيْسِرُ.- ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ تیسر کذا واستیسرکے معنی آسان ہو نیکے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کردو ۔ فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل 20] تو جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو ۔ اسی سے الیسرت المرءۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے سہولت سے بچہ جننے کے ہیں ۔ یسرت کذا کے معنی کسی کام آسان اور سہل کردینے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ۔ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم 97] اے پیغمبر یہ قران تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ہے ۔ الیسری اسم بمعنی یسر قرآن پاک میں ہے : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] اس کو ہم آسان طریقے کی توفیقی دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] اسے سختی میں پہنچا ئنگے ۔ میں عسریٰ کے ساتھ تیسیر کا لفظ بطور تحکم لایا گیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] میں عذاب کے متعلق بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن پاک میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً
آیت ٧ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی ۔ ” تو اس کو ہم رفتہ رفتہ آسان منزل (جنت) تک پہنچادیں گے۔ “- اس حوالے سے سورة الاعلیٰ کی یہ آیت بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے : وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی ۔ ” اور ہم رفتہ رفتہ پہنچائیں گے آپ کو آسان منزل تک “۔ لیکن سورة الاعلیٰ کی نسبت یہاں یہ مضمون زیادہ واضح انداز میں آیا ہے۔ اب اس کے مقابلے میں اگلی آیات میں دوسرے راستے اور اس کے تین سنگ ہائے میل کا ذکر آ رہا ہے :
سورة الَّیْل حاشیہ نمبر :3 یہ ہے مساعی کی اس قسم کا نتیجہ ۔ آسان راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے ، جو اس خالق کی مرضی کے مطابق ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو بنایا ہے ، جس میں انسان کو اپنے ضمیر سے لڑ کر نہیں چلنا پڑتا ، جس میں انسان اپنے جسم و جان اور عقل و ذہن کی قوتوں پر زبردستی کر کے ان سے وہ کام نہیں لیتا جس کو ہر طرف اس جنگ ، مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش نہیں آتا جو گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں پیش آتا ہے ، بلکہ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر اس کو صلح و آتشی اور قدر و منزلت میسر آتی چلی جاتی ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کے لیے استعمال کررہا ہو ، جو ہر ایک سے نیک سلوک کر رہا ہو ، جس کی زندگی جرائم ، فسق و فجور اور بد کرداری سے پاک ہو ، جو اپنے معاملات میں کھرا اور راستباز ہو ، جو ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اور کسی کو اس کی سیرت و کردار پر انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے ، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو ، بہرحال اس کی قدر ہو کر رہتی ہے ، اس کی طرف دل کھنچتے ہیں ، نگاہوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے ، اس کا اپنا قلب و ضمیر بھی مطمئن ہو تا ہے اور معاشرے میں بھی اس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بد کردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا ۔ یہی بات ہے جو سورہ نحل میں فرمائی گئی ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً جو شخص نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن ، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے ۔ ( آیت 97 ) اور اسی بات کو سورہ مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے رحمان ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا ( آیت 96 ) ۔ پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کے لیے سرور ہی سرور اور راحت ہی راحت ہے ۔ اس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں ۔ اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم اسے اس راستے پر چلنے کے لیے سہولت دیں گے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ بھلائی کی تصدیق کر کے یہ فیصلہ کر لے گا کہ یہی راستہ میرے لائق ہے اور برائی کا راستہ میرے لائق نہیں ہے ، اور جب وہ عملاً مالی ایثار اور تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے یہ ثابت کر دے گا کہ اس کی یہ تصدیق سچی ہے ، تو اللہ تعالی اس راستے پر چلنا اس کے لیے سہل کر دے گا ۔ اس کے لیے پھر گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے گا ۔ مال حرام اس کے سامنے آئے گا تو وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ نفع کا سودا ہے بلکہ اسے یوں محسوس ہو گا کہ یہ آگ کا انگارہ ہے جسے وہ ہاتھ میں نہیں لے سکتا ۔ بدکاری کے مواقع اس کے سامنے آئیں گے تو وہ انہیں لطف اور لذت حاصل کرنے کے مواقع سمجھ کر ان کی طرف نہیں لپکے گا بلکہ جہنم کے دروازے سمجھ کر ان سے دور بھاگے گا ۔ نماز اس پر گراں نہ ہو گی بلکہ اسے چین نہیں پڑے گا جب تک وہ وقت آنے پر وہ اس کو ادا نہ کر لے ۔ زکوۃ دیتے ہوئے اس کا دل نہیں دکھے گا بلکہ اپنا مال اسے ناپاک محسوس ہو گا جب تک وہ اس میں سے زکوۃ نکال نہ دے ۔ غرض ہر قدم پر اللہ تعالی کی طرف سے اس کو اس راستے پر چلنے کی توفیق و تائید ملے گی ، حالات کو اس کے لیے ساز گار بنایا جائے گا ، اور اس کی مدد کی جائے گی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سورہ بلد میں اسی راستے کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا ہے اور یہاں اس کو آسان راستہ قرار دیا گیا ہے ۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے پہلے یہ آدمی کو دشوار گزار گھاٹی ہی محسوس ہوتی ہے جس پر چڑھنے کے لیے اسے اپنے نفس کی خواہشوں سے ، اپنے دنیا پرست اہل و عیال سے ، اپنے رشتہ داروں سے اپنے دوستوں اور معاملہ داروں سے اور سب سے بڑھ کر شیطان سے لڑنا پڑتا ہے ، کیونکہ ہر ایک اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور اس کو خوفناک بنا کر دکھاتا ہے ، لیکن جب انسان بھلائی کی تصدیق کر کے اس پر چلنے کا عزم کر لیتا ہے اور اپنا مال راہ خدا میں دے کر اور تقوی کا طریقہ اختیار کر کے عملاً اس عزم کو پختہ کر لیتا ہے تو اس گھاٹی پر چڑھنا اس کے لیے آسان اور اخلاقی پستیوں کے کھڈ میں لڑھکنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے ۔
3: آرام کی منزل سے مراد جنت ہے، کیونکہ حقیقی آرام کی جگہ وہی ہے، دُنیا میں تو ہر آرام کے ساتھ کوئی نہ کوئی تکلیف لگی رہتی ہے۔ اور تیار کرانے سے مراد یہ ہے کہ ان اعمال کی توفیق دیں گے جو جنت تک پہنچانے والے ہوں۔ واضح رہے کہ قرآنِ کریم میں جو لفظ ’’نُیَسِّرُہ‘‘ آیا ہے۔ اس کا ترجمہ جو ’’تیاری کرا دینے‘‘ سے کیا گیا ہے، وہ اس لفظ کی تشریح میں علامہ آلوسیؒ کی پیروی میں کیا گیا ہے۔ (دیکھئے روح المعانی ۳۰:۵۱۲)