Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی دونوں کے مالک ہم ہی ہیں، ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں اس لئے ان دونوں کے یا ان میں سے کسی ایک کے طالب ہم سے ہی مانگیں کیونکہ ہر طالب کو ہم اپنی مشیت کے مطابق دیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] یعنی آخرت کے مالک بھی ہم ہیں اور دنیا کے بھی۔ اب جو شخص ہم سے دنیا ہی طلب کرتا ہے اسے ہم دنیا ہی دیتے ہیں وہ بھی اتنی جتنی ہم چاہتے ہیں اور جو ہم سے آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اسے آخرت تو ضرور دیتے ہیں اور دنیا بھی اتنی ضرور دے دیتے ہیں جتنی اس کے مقدر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وان لنا للاخرۃ و الاولی : راستہ بتانا صرف ہمارے ذمے کیوں ہے ؟ اس لئے کہ دنیا اور آخرت دونوں کے بنانے والے اور ان کے مالک ہمیں ہیں، تو ان کا راستہ بھی ہم ہی جانتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰى۝ ١٣- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ وَاِنَّ لَـنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی ۔ ” اور ہمارے ہی لیے ہے اختیار آخرت کا بھی اور دنیا کا بھی۔ “- ظاہر ہے آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون انسان کامیاب ہوا ہے اور کون ناکام رہا ہے۔ اور دنیا میں بھی وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی قوم اب اس کی زمین پر بوجھ بننے جا رہی ہے اور اس طرح کے کس بوجھ سے کس وقت اس نے زمین کو آزاد کرنا ہے۔ گزشتہ سورت (سورۃ الشمس) میں قوم ثمود کے بارے میں اللہ کے ایسے ہی ایک فیصلے کا ذکر ہم بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں : فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰٹہَا ۔ ” تو الٹ دیا ان پر عذاب ان کے رب نے ان کے گناہ کی پاداش میں اور سب کو برابر کردیا “۔ یعنی جب اس قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول (علیہ السلام) واضح نشانیوں کے ساتھ آگیا ‘ پھر اللہ کے رسول (علیہ السلام) نے اللہ کا پیغام پہنچا کر اور اپنے کردار و عمل کا نمونہ پیش کر کے اس قوم پر اتمامِ حجت کردیا۔ اس کے بعد بھی جب وہ قوم کفر اور سرکشی پر اڑی رہی تو انہیں ایسے ملیامیٹ کردیا گیا جیسے کسی باغ کی صفائی کے لیے اس کا ساراکوڑا کرکٹ جمع کر کے اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الَّیْل حاشیہ نمبر :8 اس ارشاد کے کئی مفہوم ہیں اور وہ سب صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ دنیا سے آخر تک تم کہیں بھی ہماری گرفت سے باہر نہیں ہو ، کیونکہ دونوں جہانوں کے ہم ہی مالک ہیں ، دوسرے یہ کہ ہماری ملکیت دنیا اور آخرت دونوں پر بہرحال قائم ہے خواہ تم ہماری بتائی ہوئی راہ پر چلو یا نہ چلو ۔ گمراہی اختیار کرو گے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑو گے ، اپنا ہی نقصان کر لو گے ، اور راہ راست اختیار کرو گے تو ہمیں کوئی نفع نہ پہنچاؤ گے ، خود ہی اس کا نفع اٹھاؤ گے ۔ تمہاری نافرمانی سے ہماری ملک میں کوئی کمی نہیں ہو سکی اور تمہاری فرمانبرداری سے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا ۔ تیسرے یہ کہ دونوں جہانوں کے مالک ہم ہی ہیں ۔ دنیا چاہو گے تو وہ بھی ہم ہی سے تمہیں ملے گی اور آخرت کی بھلائی چاہو گے تو اس کا دینا بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے ۔ یہی بات ہے جو سورہ آل عمران آیت 145 میں فرمائی گئی ہے کہ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا جو شخص ثواب دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے اور جو ثواب آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم آخرت میں سے دیں گے ۔ اور اسی کو سورہ شوری آیت 20 میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے ( تشریح کے لیے ملاحظ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 105 ۔ جلد چہارم الشوری ، حاشیہ 27 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: لہٰذا یہ حق ہم کو ہی حاصل ہے کہ دُنیا میں رہنے کے لئے اِنسان کو احکام اور ہدایات عطا فرمائیں، اور آخرت میں اُن اَحکام و ہدایات کی تعمیل یا خلاف ورزی پر ثواب اور عذاب کا فیصلہ کریں۔