مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوگئے اور ایک یا دو راتوں تک آپ تہجد کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا اس پر یہ اگلی آیتیں نازل ہوئیں ( بخاری مسلم وغیرہ ) حضرت جندب فرماتے ہیں کہ جبرائیل کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو چھوڑ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے والضحٰی سے ماقلفی تک کی آیتیں اتاریں ، اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پر پتھر مارا گیا تھا جس سے خون نکلا اور جس پر آپ نے فرمایا: ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت یعنی تو صرف ایک انگلی ہے اور راہ اللہ میں تجھے یہ زخم لگاہے ۔ طبعیت کچھ ناساز ہو جانے کی وجہ سے دو تین رات آپ بیدار نہ ہوئے جس پر اس عورت نے وہ ناشائستہ الفاظ نکالے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں کہا گیا ہے کہ یہ عورت ابو لہب کی بیوی ام جمیل تھی اس پر اللہ کی مار ، آپ کی انگلی کا زخمی ہونا ، اور اس موزوں کلام کا بےساختہ زبان مبارک سے ادا ہونا تو بخاری و مسلم میں بھی ثابت ہے لیکن ترک قیام کا سبب اسے بتانا اور اس پر ان آیتوں کا نازل ہونا یہ غریب ہے ، ابن جریر میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ آپ کا رب آپ سے نہیں ناراض نہ ہو گیا ہو؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ اور روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں دیر ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے اس پر حضرت خضرت خدیجہ نے یہ سبب بیان کیا اور اس پر یہ آیتیں اتریں ، یہ دونوں آیتیں مرسل ہیں اور حضرت خدیجہ کا نام تو اس میں محفوظ نہیں معلوم ہوتا ہاں یہ ممکن ہے کہ ام المومنین نے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ فرمایا ، واللہ اعلم ، ابن اسحاق اور بعض سلف نے فرمایا ہے کہ جب حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے تھے اور بہت ہی قریب ہوگئے تھے اس وقت اسی سورت کی وحی نازل فرمائی تھی ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ وحی کے رک جانے کی بنا پر مشرکین کے اس ناپاک قول کی تردید میں یہ آیتیں اتریں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نیدھوپ پڑھنے کے وقت دن کی روشنی ، اور رات کے سکون اور اندھیرے کی قسم کھائی جو قدرت اور خلق خالق کی صاف دلیل ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے ۔ ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻۙ ) 92- الليل:1 ) اور جگہ ہے ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ 96 ) 6- الانعام:96 ) ، مطلب یہ ہے کہ اپنی اس قدرت کا یہاں بھی بیان کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تیرے رب نے نہ تو تجھے چھوڑا نہ تجھ سے دشمنی کی ، تیرے لیے آخرت اس دنیا سے بہت بہتر ہے ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ۔ اور سب سے زیادہ تارک دنیا تھے ، آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بورئیے پر سوئے ، جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑگئے ۔ جب بیدار ہوئے تو میں آپ کی کروٹ پر ہاتھ پھیر نے لگا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس بورئیے پر کچھ بچھا دیا کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میں کہاں دنیا کہاں؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس راہرو سوار کی طرح ہے جو کسی درخت تلے ذرا سی دیر ٹھہر جائے پھر اسے چھوڑ کر چل دے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے پھر فرمایا تیرا رب تجھے آخرت میں تیری امت کے بارے میں اس قدر نعمتیں دے گا کہ خوش ہو جائے ان کی بڑی تکریم ہو گی اور آپ کو خاص کر کے حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا ۔ جس کے کانرے کھوکھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گے جس کی مٹی خالص مشک کی ہو گی ، یہ حدیثیں عنقریب آرہی ہیں ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ایک روایت میں ہے کہ جو خزانے آپ کی امت کو ملنے والے تھے وہ ایک ایک کرکے آپ کو بتا دئیے گئے ۔ آپ بہت خوش ہوئے اس پر یہ آیت اتری ۔ جب ایک ہزار محل آپ کو دئیے گئے ہرہر محل میں پاک بیویاں اور بہترین غلام ہیں ۔ ابن عباس تک اس کی سند صحیح ہے اور بہ ظاہر ایسی بات بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے روایے نہیں ہو سکتی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے ۔ حسن فرماتے ہیں اس سے مراد شفاعت ہے ۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند کر لی ہے ، پھر آپ نے آیت ولسوف کی تلاوت فرمائی ۔ کہ آپ کی یتیمی کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا بچاؤ کیا ۔ اور آپ کی حفاظت کی اور پرورش کی اور مقام و مرتبہ عنایت فرمایا ۔ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا یعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا چھ سال کی عمر میں والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہو گیا ۔ اب آپ دادا کی کفالت میں تھے لیکن جب آٹھ سال کی آپ کی عمر ہوئی تو دادا کا سایہ بھی اٹھ گیا ۔ اب آپ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آئے ، ابو طالب دل و جان سے آپ کی نگرانی اور امداد میں رہے ۔ آپ کی پوری عزت و توقیر کرتے اور قوم کی مخالفت کے چڑھتے طوفان کو روکتے رہتے تھے اور اپنی جان کو بطور ڈھال کے پیش کردیا کرتے تھے ۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت مل چکی تھی اور قریش سخت تر مخالفت بلکہ دشمن جان ہوگئے تھے ابو طالب باوجود بت پرست مشرک ہونے کے آپ کا ساتھ دیتا تھا ۔ اور مخالفین سے لڑتا بھڑتا رہتا تھا ۔ یہ تھی منجانب اللہ حسن تدبیر کہ آپ کی یتیمی کے ایام اسی طرح گذرے اور مخالفین سے آپ کی خدمت اس طرح لی ، یہاں تک کہ ہجرت سے کچھ پہلے ابو طالب بھی فوت ہوگئے ، اب سفہاء و جہلا قریش اٹھ کھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ کو مدینہ تشریف کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت عطا فرمائی اور اوس و خزرج جیسی قوموں کو آپ کا انصاد بنا دیا ۔ ان بزرگون نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جگہ دی ۔ مدد کی ، حفاظت کی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو کر مردانہ وار لڑائیاں کیں ۔ اللہ ان سب سے خوش رہے ۔ یہ سب کا سب اللہ کی حفاظت اور اس کی عنایت احسان اور اکرام سے تھا ۔ پھر فرمایا کہ راہ بھولاپاکر صحیح راستہ دکھا دیا جیسے اور جگہ ہے ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان الخ یعنی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمھاری طرف روح کی وحی کی ۔ تم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے ؟ تمھیں نہ کتاب کی خبر تھی بلکہ ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا ہدایت کردی ۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں مکہ کی گلیوں میں گم ہوگئے تھے اس وقت اللہ نیلوٹا دیا ۔ بعض کہتے ہیں شام کی طرف اپنے چچا کے ساتھ جاتے ہوئے رات کو شیطان نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر راہ سے ہٹا کر جنگل میں ڈال دیا ۔ پس جبرائیل علیہ السلام آئے اور پھونک مار کر شیطان کو تو حبشہ میں ڈال دیا اور سواری کو راہ لگا دیا ۔ بگوی نے یہ دونوں قول نقل کئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ بال بچوں والے ہوتے ہوئے تنگ دست پاکر ہم نے آپ کو غنی کر دیا ، پس فقیر صابر اور غنی شاکر ہونے کے درجات آپ کو مل گئے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ سب حال نبوت سے پہلے کے ہیں بخاوی و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تونگری مال و اسباب کی زیادتی سے نہیں بلکہ حقیقی تونگری وہ ہے جس کا دل بےپرواہ ہو ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے اس نے فلاح پالی جسے اسلام نصیب ہوا اور جو کافی ہوا ، اتنا رزت بھی ملا اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت کی توفیق بھی ملی ، پھر فرمایا ہے کہ یتیم کو حقیر جان کر نہ ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ اس کے ساتھ احسان و سلوک کر اور اپنی یتیمی کو نہ بھول ، قتادہ فرماتے ہیں یتیم کے لیے ایسا ہو جانا چاہیے جیسے سگا باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے ، سائل کو نہ جھڑک جس طرح تم بےراہ تھے اور اللہ نے ہدایت دی تو اب جو تم سے علمی باتیں پوچھے صحیح راستہ دریافت کرے تو تم اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو ، غریب مسکین ضعیف بندوں پر تکبر تجبر نہ کرو ، انہیں ڈانٹو ڈپٹو نہیں برا بھلا نہ کہو سخت سست نہ بولو ، اگر مسکین کو کچھ نہ کرو ، تو بھی بھلا اچھا جواب دے ۔ نرمی اور رحم کا سلوک کر ، پھر فرمایا کہ اپنے رب کی نعمتیں بیان کرتے رہو ۔ یعنی جس طرح تمھاری فقیری کو ہم نے تونگری سے بدل دیا ، تم بھی ہماری ان نعمتوں کو بیان کرتے رہو ، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ بھی تھا واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابیلھا واتمھا علینا یعنی اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی شکر گذاری کرنے والا ان کی وجہ سے تیری ثنا بیان کرنے والا ان کا اقرار کرنے والا کردے اور ان نعمتوں کو ہم پورا کر دے ۔ ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ تنعمتوں کی شکر گذاری میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا بیان ہو ، مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے تھوڑے پر شکر نہ ادا کیا اس نے زیادہ پر بھی شکر نہیں کیا ۔ جس نے لوگوں کی شکر گذاری نہ کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا ۔ نعمتوں کا بیان بھی شکر ہے اور ان کا بیان نہ کرنا بھی ناشکری ہے ، جماعت کے ساتھ رہنا رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث ہے ، اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ بخاری و مسلم میں حضرت انس سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار سارا کا سارا اجر لے گئے فرمایا نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو ، ابو داؤد میں ہے اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا جس نے بندوں کا شکر ادا نہ کیا ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گذار ہے اور جس نے اسے چھپا یا اس نے ناشکری کی ۔ اور روایتمیں ہے کہ جسے کوئی عطیہ دیا جائے اسے چاہیے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثنا بیان کرے جس نے ثنا کی وہ شکر گذا ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی ۔ ( ابو داؤد ) مجاہد فرماتے ہیں یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے ، ایک روایت میں ہے کہ قرآن مراد ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں طلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو ، محمد بن اسحاق کہتے ہیں جو نعمت و کرامت نبوت کی تمھیں ملی ہے اسے بیان کرو اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان ہوتا در پردہ سب سے پہلے پہل دعوت دینی شروع کی اور آپ کر نماز فرض ہوئی جو آپ نے ادا کی ۔ سورۃ الضحیٰ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کے احسان پر اس کا شکر ہے ۔
1۔ 1 چاشت اس وقت کو کہتے ہیں، جب سورج بلند ہوتا ہے۔ یہاں مراد پورا دن ہے۔
(١) والضحی ، والیل اذا سجی …” الضحی ‘ ‘ سورج طلوع ہونے کے بعد جب پوری طرح روشن ہوجاتا ہے۔ ” سجی “ ” سجا یسجو سجوا “ (ن) پر سکون ہونا۔ ” ودع “ ” ودع یدع “ (چھوڑنا) سے باب تفعیل ہے جو چھوڑنے میں مبالغے کا معین رکھتا ہے۔ ” قلی “ “ ” قلی یقلی قلی وقلاء “ (ض ، س)” الرجل ابغضہ “ کسی سے بغض رکھنا۔- (٢) جندب بن سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تو دو یا تین رتایں (تہجد کے لئے) نہ اٹھے۔ ایک عورت ائٓی اور کہنے لگی :” اے محمد مجھے امید ہے کہ تمہارا شیطان تمہیں چھوڑ گیا ہے، دو تین راتوں سے میں نے اسے تمہارے پاس آتے نہیں دیکھا۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(ماودع ربک و ما قلی) ٣٩٥٠) جندب (رض) عنہماہی سے مروی دوسری روایت میں ہے کہ ایک دفعہ جبریل (علیہ السلام) نے آنے میں دیر کردی، یہاں تک کہ مشرکین کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) کو اس کے رب نے چھوڑ دیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ (طبری : ٢٣ ٣٨٨، ح : ٣٨٨٥٨) قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ دوپہر کو سورج خوب روشن ہوتا ہے، اس کے بعد سیاہ رات چھا جاتی ہے تو کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ہے، تو وحی کی روشنی کے بعد کچھ دیر اگر وقفہ ہوگیا تو کیوں سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں چھوڑ دیا ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دن بھر آفتاب کی روشنی و گرمی کے بعد انسانی جسم کو آرام اور سکون کے لئے رات کی ضرورت ہے، اسی طرح وحی کے بار گراں کے بعد طبیعت کو سکون اور مزید وحی کے تحمل کے لئے وقفہ کی ضرورت ہے۔
خلاصہ تفسیر - قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب کہ وہ قرار پکڑے (قرار پکڑنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک حقیقی یعنی اس کی ظلمت کا کامل ہوجانا کیونکہ رات میں اندھیری رفتہ رفتہ بڑھتی ہے، کچھ رات گزرنے پر مکمل ہوجاتی ہے، دوسرے مجازی یعنی جانداروں کا اس میں سو جانا اور چلنے پھرنے اور بولنے چالنے کی آوازوں کا ساکن ہوجانا، آگے جواب قسم ہے) کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ آپ سے بیزار ہوا (کیونکہ اول تو آپ سے کوئی بات ایسی نہیں ہوئی دوسرے حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ و معصوم بنایا ہے۔ پس آپ کفار کے خرافات و لغویات سے محزون حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ و معصوم بنایا ہے۔ پس آپ کفار کے خرافات و لغویات سے محزون نہ ہوجائے جو چند روز وحی کی تاخیر کے سبب یہ کہنے لگے کہ آپ کو آپ کے خدا نے چھوڑ دیا ہے، آپ برابر نعمت وحی کے مشرف رہیں گے اور یہ شرف و کرامت تو آپ کے لئے دنیا میں ہے) اور آخرت آپ کے لئے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے (پس وہاں آپ کو اس سے زیادہ نعمتیں ملیں گی) اور عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (آخرت میں بکثرت نعمتیں) دے گا سو آپ (ان کے عطا ہونے سے) خوش ہو اویں گے ( اور جس کی قسم کھائی ہے اس کو اس بشارت سے مناسبت یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ظار میں اپنی قدرت و حکمت کے مختلف نشان ظاہر کرتا ہے دن کے پیچھے رات کو اور رات کے پیچھے دن کو لاتا ہے یہی کیفیت باطنی حالات کی سمجھو۔ اگر سورج کی دھوپ کے بعد رات کی تاریکی کا آنا اللہ تعالیٰ کی خفگی اور ناراضی کی دلیل نہیں اور نہ اس کا کوئی ثبوت ہے کہ اس کے بعد دن کا اجالا کبھی نہ ہوگا تو چند روز وحی کے رکے رہنے سے یہ کیونکر سمجھ لیا جائے کہ آج کل خد اپنے منتخب کئے ہوئے پیغمبر سے خفا اور ناراض ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے وحی کا دروازہ بند کردیا، ایسا کہنا تو خدا تعالیٰ کے علم محیط اور حکمت بالغہ پر اعتراض کرنا ہے گویا اس کو خبر نہ تھی کہ جس کو میں نبی بنا رہا ہوں وہ آئندہ چل کر اس کا اہل ثابت نہ ہوگا نعوذ باللہ منہ۔ آگے بعض نعمتوں سے مضمون مذکور کی تائید ہے یعنی) کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر (آپ کو) ٹھکانا دیا ( کہ شکم مادر میں ہونے کے وقت ہی آپ کے والد کی وفات ہوگئی اللہ تعالیٰ نے آپ کے دادا سے پرورش کرایا پھر جب آپ آٹھ برس کے ہوئے تو ان کی بھی وفات ہوگئی تو آپ کے چچا سے پرورش کرایا، ٹھکانہ دینے کا مطلب یہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شریعت س) بیخبر پایا سو (آپ کو شریعت کا) رتہ بتلایا (کقولہ تعالیٰ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان الخ اور وحی سے پہلے شریعت کی تفصیل معلوم نہ ہونا کوئی عیب نہیں) اور اللہ تعالیٰ نے آپ نادر پایا سو مالدار بنادیا (اس طرح کہ حضرت خدیجہ (رض) کے مال میں آپ نے بطور مضاربت کے تجارت کی، اس میں نفع ملا، پھر حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کرلیا اور اپنا تمام مال حاضر کردیا۔ مطلب یہ کہ آپ ابتدا سے مورد انعامات رہے ہیں آئندہ بھی رہیں گے ان انعامات پر ادائے شکر کا حکم ہے کہ جب ہم نے آپ کو یہ نعمتیں دی ہیں) تو آپ (اس کے شکریہ میں) یتیم پر سختی نہ کیجئے اور سائل کو مت جھڑکئے (یہ تو شکر فعلی ہے) اور اپنے رب کے انعامات (مذکورہ) کا تذکرہ کرتے رہا کیجئے۔- معارف وسائل - شان نزول :۔ اس سورت کے سبب نزول کے متعلق بخاری و مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ کی روایت سے آیا ہے اور ترمذی نے حضرت جندب سے یہ روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک انگلی زخمی ہوگئی اس سے خون جاری ہوا تو آپ نے فرمایا، ان انت الا اصب دمیت، وفی سبیل اللہ مالقیت، یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلودہ ہوگئی اور جو کچھ تکلیف تجھے پہنچی وہ اللہ کی راہ میں ہے (اس لئے کیا غم ہے) حضرت جندب نے یہ واقعہ ذکر کر کے رمایا کہ اس واقعہ کے بعد (کچھ روز) جبرئیل امین کوئی وحی لے کر نہیں آئے تو مشرکین مکہ نے یہ طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے خدا نے چھوڑ دیا اور ناراض ہوگیا، اس پر یہ سورت ضحیٰ نازل ہوئی حضرت جندب کی روایت جو بخاری میں ہے اس میں ایک دورات تہجد کے لئے نہ اٹھنے کا ذکر ہے، وحی میں تاخیر کا ذکر نہیں اور تمذی میں تہجد میں ایک دو رات نہ اٹھنے کا ذکر نہیں صرف وحی میں تاخیر کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں، ہوسکتا ہے کہ دونوں باتیں پیش آئی ہوں، راوی نے کبھی ایک کو بیان کیا کبھی دوسرے کو اور یہ عورت جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طعنہ دیا ام جمیل ابو لہب کی بیوی تھی جیسا کہ دوسری روایات میں ہے اور تاخیر وحی کے واقعات متعدد مرتبہ پیش آئے ہیں ایک شروع نزول قرآن میں پیش آیا جس کو زمانہ فترت وحی کہا جاتا ہے یہ سب سے زیادہ طویل تھا۔ ایک واقعہ تاخیر وحی جا اس وقت پیش آیا جبکہ مشرکین یا یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کی حیقیت کے متعلق سوال فرمایا اور آپ نے بعد میں جواب دینے کا وعدہ فرما لیا، مگر انشاء اللہ نہ کہنے کے سبب کچھ روز تک سلسلہ وحی کا بند رہا اس پر مشرکین نے یہ طعنے دینا شروع کئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا نہ کہنے کے سبب کچھ روز تک سلسلہ وحی کا بند رہا اس پر مشرکین نے یہ طعنے دینا شروع کئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا ان سے ناراض ہوگیا اور ان کو چھوڑ دیا، اسی طرح کا یہ واقعہ ہے جو سورة ضحیٰ کے نزول کا سبب ہوا یہ ضروری نہیں کہ یہ سب واقعات ایک ہی زمانے میں پیش آئے ہوں بلکہ آگے پیچھے بھی ہو سکتے ہیں۔
وَالضُّحٰى ١ ۙ- ضحی - الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى- [ طه 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى.- والأُضْحِيَّةُ- جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ»- ( ض ح و ) الضحی ٰ- ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے )- اضحیۃ - کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔
(1 ۔ 5) قسم ہے پورے دن کی اور رات کی جب کہ وہ تاریک اور سیاہ ہوجائے، جس وقت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس وحی بھیجی ہے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے آپ سے دشمنی کی ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے تو اس کے بعد پندرہ روز تک وحی آنا بند رہی۔- تو اس وقت کافر کہنے لگے کہ آپ کے پروردگار نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اور آپ سے دشمنی کرلی ہے اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں اور آخرت کا ثواب آپ کے لیے ثواب دنیا سے بدرجہا بہتر ہے، اور اللہ تعالیٰ آپ کو آخرت میں مقام شفاعت ہی عطا فرمائے گا کہ جس سے آپ خوش ہوجائیں گے۔
سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :1 یہاں لفظ ضحی رات کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد روز روشن ہے ۔ اس کی نظیر سورہ اعراف کی یہ آیات ہیں: أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ( 97 ۔ 98 ) کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آ جائے جبکہ وہ سو رہے ہوں؟ اور کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن دہاڑے آ جائے جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟ ان آیات میں بھی چونکہ ضحی کا لفاظ رات کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد چاشت کا وقت نہیں بلکہ دن ہے ۔