2۔ 1 جب ساکن ہوجائے، یعنی جب اندھیرا مکمل چھا جائے، کیونکہ اس وقت ہر چیز ساکن ہوجاتی ہے۔
[١] سَجٰی کا لغوی مفہوم :۔ (سَجٰی) یعنی رات کا سنسان اور خاموش ہونا، نیز اس لفظ میں دوسری چیزوں کو چھپا لینے کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ تصور ظاہری طور پر ہو جیسے سَجَی الْمَیّت بمعنی میت پر چادر ڈال کر اسے چھپا دینا یا معنوی طور پر ہو جیسے سَج معائب اخیک بمعنی اپنے بھائی کے عیبوں کو چھپاؤ۔ گویا اس لفظ میں پرسکون ہونے اور چھپانے کے دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ یعنی رات کا اتنا حصہ گزر چکا ہو کہ سب لوگ سو چکے ہوں اور تاریکی بھی پوری طرح چھا چکی ہو۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے چاشت کے وقت کی قسم کھائی ہے۔ جب سورج بلند ہوچکا ہوتا ہے اور لوگ اپنے اپنے کام کاج میں مشعول ہوجاتے ہیں۔ اور یہ وقت اس کے بالکل برعکس اور متضاد ہے۔ اور ان دونوں متضاد حالتوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ناراض ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چاشت کا وقت تو اللہ کی رحمت کا وقت ہے اور گئی رات کا وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا وقت ہے۔ اس لیے کہ دونوں اوقات کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ اگر ہمیشہ دن ہی رہتا تو یہ بھی لوگوں اور جانداروں کے لیے سخت اذیت کا باعث بن جاتا اور اگر ہمیشہ رات رہتی تو بھی یہی بات تھی۔ اسی طرح وحی کے آنے کے وقت کو اللہ کی رحمت کا وقت اور نہ آنے کے وقت کو اللہ کی ناراضگی کا وقت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ وحی کی حالت میں اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لذت و سرور حاصل ہوتا تھا لیکن یہ وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اتنا اعصاب شکن اور تکلیف دہ ہوتا تھا کہ سردیوں میں بھی آپ کو پسینہ چھوٹ جاتا تھا لہذا ضروری تھا کہ وحی کے بعد آپ کو آرام کا وقفہ دیا جائے اور یہ وقفہ ابتداًء زیادہ تھا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت آہستہ آہستہ اس بار وحی کو برداشت کرنے کے قابل ہوتی گئی تو یہ وقفہ بھی کم ہوتا گیا۔
وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى ٢ ۙ- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- سجی - قال تعالی: وَاللَّيْلِ إِذا سَجى[ الضحی 2] ، أي : سكن، وهذا إشارة إلى ما قيل : هدأت الأرجل، وعین سَاجِيَةٌ: فاترة الطّرف، وسَجَى البحر سَجْواً : سکنت أمواجه، ومنه استعیر : تَسْجِيَةُ الميّت، أي : تغطیته بالثوب .- ( س ج و ) سجا اللیل ۔ رات پر سکون ہوگئی قرآن میں ہے : وَاللَّيْلِ إِذا سَجى[ الضحی 2] اور رات کی ( قسم ) جب ساکن ہوجائے ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ رات کے پر سکون ہونے کے لئے کہا جاتا ہے ۔ هدأت الأرجل : یعنی پاؤں کی چاپ رک گئی ۔ اور عین ساجیۃ کے معنی خاموش آنکھ کے ہیں اور سجی البحر سجوا کے معنی ہیں سمندر پرسکون ہوگیا اسی سے استعارہ کے طور پر میت کو کفن میں چھپانے کیلئے تسجیۃ المیت کہا جاتا ہے ۔
آیت ٢ وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی ۔ ” قسم ہے رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ چھا جائے ۔ “- رات میں اندھیرا اور سکون ہے ‘ جبکہ دن اجالے اور حرکت کا مظہر ہے۔ ان دو آیات میں رات اور دن کی متضاد خصوصیات کو اس فرمان پر بطور شہادت پیش کیا گیا کہ :
سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :2 اصل میں رات کے لیے سجی استعمال ہوا ہے جس میں صرف تاریکی چھانے ہی کا نہیں بلکہ سکوت اور سکون طاری ہو جانے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ رات کی اس صفت کا اس مضمون سے گہرا تعلق ہے جو آگے بیان ہو رہا ہے ۔