Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 جیسا کہ کافر سمجھ رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] اس سورت کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ پہلی وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غار حرا میں نازل ہوئی جو سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں۔ اس بار وحی کی کوفت کا تو یہ حال تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر آکرسیدہ خدیجہ (رض) کو یہ واقعہ سنایا تو بتایا کہ انی خشیت علٰی نفسی کہ مجھے تو اپنی جان کے لالے پڑگئے تھے اور لذت و سرور کا یہ حال تھا کہ آپ اس واقعہ کے بعد ہر وقت جبرائیل کی آمد کے منتظر رہتے تھے لیکن وحی کچھ عرصہ کے لیے بند ہوگئی یہ عرصہ کتنا تھا ؟ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اسی وقفہ کو فترۃ الوحی کہتے ہیں۔ اس دوران آپ کو خود بھی بعض دفعہ یہ خیال آنے لگتا کہ کہیں میرا پروردگار مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگیا ؟ اور کافر تو بہرحال ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے جس سے وہ اپنے اندر کا ابال نکال سکیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے :- جندب بن سفیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مزاج ناساز ہوا اور دو تین راتیں (نماز تہجد کے لیے) اٹھ نہ سکے۔ ایک عورت (عوراء بنت حرب، ابو سفیان کی بہن اور ابو لہب کی بیوی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سمجھتی ہوں کہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے میں نے دو تین راتوں سے اسے تیرے پاس نہیں دیکھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى۝ ٣ ۭ- ودع - الدّعة : الخفض . يقال : ودعت کذا أدعه وَدْعاً. نحو : تركته، وادعا وقال بعض العلماء :- لا يستعمل ماضيه واسم فاعله وإنما يقال : يَدَعُ ودَعْ «2» ، وقد قرئ : ( ما وَدَعَكَ ربّك) [ الضحی 3] وقال الشاعر : ليت شعري عن خلیلي ما الذي ... غاله في الحبّ حتی ودعه والتودّع : ترک النّفس عن المجاهدة، وفلان متّدع ومتودّع، وفي دعة : إذا کان في خفض عيش، وأصله من التّرك . أي : بحیث ترک السّعي لطلب معاشه لعناء، والتّودیع أصله من الدّعة، وهو أن تدعو للمسافر بأن يتحمّل اللہ عنه كآبة السّفر، وأن يبلّغه الدّعة، كما أنّ التّسلیم دعاء له بالسّلامة فصار ذلک متعارفا في تشييع المسافر وترکه، وعبّر عن التّرک به في قوله : ما وَدَّعَكَ رَبُّكَ [ الضحی 3] ، کقولک : ودّعت فلانا نحو : خلّيته، ويكنّى بالمودع عن الميّت، ومنه قيل : استودعتک غير مودع، ومنه قول الشاعر : ودّعت نفسي ساعة التّودیع - ( و د ع ) الدعتہ کے معنی آرام اور فراخی عیش کے ہیں اور ودعت کذا ادعتہ ودعا ( ب ) کے معنی ہیں : ترکتہ وادعا یعنی پر سکون طریقہ سے کسی چیز کو چھوڑ دینا بعض کا قول ہے کہ اس کا فعل ماضی اور اسم فاعل استعمال نہیں ہوتا صرف یدع اور ودع یعنی فعل مضارع اور امر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت ما وَدَّعَكَ رَبُّكَ [ الضحی 3] میں ایک قرات تخفیف دال کے ساتھ بھی منقول ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 442 ) لیت شعری عن خلیلی مالذی غالتہ فی الحب حتی ودعتہ کاش مجھے میرے دوست کے متعلق معلوم ہوتا کہ اسے محبت سے کس چیز نے روک دیا کہ وہ چھوڑ بیٹھا ہے ۔ التودع کے معنی تن آسان ہونے کے ہیں اور فلان متدع ومتودع وفی دعتہ کے معنی ہیں کہ فلاں آسودہ حال اور عیش و آرام میں ہے ۔ اصل میں یہ معنی ودع بمعنی ترک سے ماخوذ ہیں ۔ یعنی اس نے مشقت اور تکلیف کے سبب طلب معاش کے لئے جدوجہد کرنا چھوڑدیا ہے ۔ التودیع یہ بھی دعتہ ( سکون ) سے مشتق ہے اور تودیع کے اصل معنی مسافر جو الوادع کہنے کے ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اسے سفر کی تکالیف سے محفوظ رکھے اور اسے آرام کی حالت میں پہنچادے پھر یہ لفظ مسافر کو رخصت کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ لفظ تسلیم اصل میں اس کے معنی سلامتی کی دعا کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ ودعت فلانا ( میں نے اسے چھوڑ دیا ) چناچہ آیت : ۔ ما وَدَّعَكَ رَبُّكَ [ الضحی 3] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے پروردگار نے نہ تو تم کو چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا ۔ میں ودعت فلانا ( میں نے فلاں کو چھوڑ دیا ) کی طرح صرف چھوڑدینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور کنایہ کے طور میت کو مودع کہا جاتا ہے اور اسی سے اس تو دعتک غیر مودع کا محاورہ ہے جس کے معنی درازی عمر کی دعا کے ہیں ۔ اور اسی شاعر کا قول ہے ۔ ( ودعت نفسی ساعتہ التودیع کہ الوداع کے وقت میری جان ہو اہوگئی ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- قلی - القلي : شدّة البغض . يقال : قَلَاهُ يَقْلِيهِ ويَقْلُوهُ. قال تعالی: ما وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَما قَلى[ الضحی 3] ، وقال : إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقالِينَ [ الشعراء 168] فمن جعله من الواو فهو من القلو، أي : الرّمي، من قولهم : قلت الناقة براکبها قلوا، وقلوت بالقلّة فكأنّ المقلوّ هو الذي يقذفه القلب من بغضه فلا يقبله، ومن جعله من الیاء فمن : قَلَيْتُ البسر والسّويق علی المِقْلَاةِ.- ( ق ل ی ) القی کے معنی شدت کے ہیں قلاہ ( ماضی ) اوت یقلبہ یقلوہ مضارع دونوں طرح آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ما وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَما قَلى[ الضحی 3] ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تمہارے پروردگا نے نہ تو تم کو چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا۔ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقالِينَ [ الشعراء 168] میں تمہارے کام کا سخت دشمن ہوں ۔ اگر اسے وادی قلم سے مشتق مانا جائے جس کے معنی رمٰی کے ہیں تو یہ قلت الناقتہ برالبھا قلوا ۔ ( ناقہ نے سوار کو گرادیا ) اقلوت بالقلتہ میں نے گلی کو پھینکا ) وغیرہا محاورات سے مشتق ہوگا ۔ اور جس چیز سے دل بوجہ بغض یا ناپسندیدہ ہونے کے ہیں اس طرح گھن کھائے گویا اسے پھینک رہا ہے تو اسے مقلو کہا جائیگا ۔ اور اگر ناقص یائی سے مشتق مانا جائے تو یہ قلیت البسر والسویق عل المقلاۃ کے محاورہ سے ماخوز ہوگا جس کے معنی مقلاۃ ( فرائی بین ) میں کھجور اور ستوڈال کر تلنے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی ۔ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ کو رخصت نہیں کیا اور نہ ہی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ناراض ہوا ہے۔ “- یعنی وحی کے تسلسل میں یہ وقفہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ناراض ہوگیا ہے ‘ بلکہ یہ وقفہ ہماری حکمت و مشیت کا حصہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کا جزو تھا۔ ظاہر ہے نظام کائنات میں دن کے اجالے کے ساتھ رات کی تاریکی کا وجود بھی ناگزیر ہے۔ چناچہ جس طرح دن کے بعد رات کا آنا ضروری ہے اسی طرح نفس انسانی کے لیے بسط و کشاد کی لذت کے ساتھ ساتھ ” انقباض “ کی کیفیت سے آشنا ہونا بھی ضروری ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :3 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول بند رہا تھا ۔ مختلف روایات میں یہ مدت مختلف بیان کی گئی ہے ۔ ابن جریح نے 12 روز ، کلبی نے 15 روز ، ابن عباس نے 25 روز ، سدی اور مقاتل نے 40 روز اس کی مدت بیان کی ہے ۔ بہرحال یہ زمانہ اتنا طویل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سخت غمگین ہو گئے تھے اور مخالفین بھی آپ کو طعنے دینے لگے تھے ، کیونکہ حضور پر جو نئی سورت نازل ہوتی تھی اسے آپ لوگوں کو سنایا کرتے تھے ، اس لیے جب اچھی خاصی مدت تک آپ نے کوئی نئی وحی لوگوں کو نہیں سنائی تو مخالفین نے سمجھ لیا کہ وہ سرچشمہ بند ہو گیا ہے جہاں سے یہ کلام آتا تھا ۔ جندب بن عبداللہ البجلی کی روایت ہے کہ جب جبریل کے آنے کا سلسلہ رک گیا تو مشرکین نے کہنا شروع کر دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے ۔ ( ابن جریر ، طبرانی ، عبد حمید ، سعید بن منصور ، ابن مردویہ ) ۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے ، جو حضور کی چچی ہوتی تھی اور جس کا گھر حضور کے مکان سے متصل تھا ، آپ سے کہا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے ۔ عونی اور ابن جریر نے ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ کئی روز تک جبریل کی آمد رک جانے سے حضور پریشان ہوگئے اور مشرکین کہنے لگے کہ ان کا رب ان سے ناراض ہو گیا ہے اور اس نے انہیں چھوڑ دیا ہے ۔ قتادہ اور ضحاک کی مرسل روایات سے بھی قریب قریب یہی مضمون بیان ہوا ہے ۔ اس صورت حال میں حضور کے شدید رنج و غم کا حال بھی متعدد روایات میں آیا ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ محبوب کی طرف سے بظاہر عدم التفات ، کفر و ایمان کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے بعد اسی ذریعہ طاقت سے بظاہر محرومی جو اس جاں گسل کشمکش کے منجدھار میں آپ کے لیے واحد سہارا تھا ، اور اس پر مزید دشمنوں کی شماتت ، یہ ساری چیزیں مل جل کر لا محالہ حضور کے لیے سخت پریشانی کی موجب ہو رہی ہوں گی اور آپ کو بار بار یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کہیں مجھ سے کوئی قصور تو نہیں ہو گیا ہے کہ میرا رب مجھ سے ناراض ہو گیا ہو اور اس نے مجھے حق و باطل کی لڑائی میں تنہا چھوڑ دیا ہو ۔ اسی کیفیت میں یہ سورۃ حضور کو تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی ۔ اس میں دن کی روشنی اور رات کے سکون کی قسم کھا کر حضور سے فرمایا گیا ہے کہ تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ تم سے ناراض ہوا ہے ۔ اس بات پر ان دونوں چیزوں کی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح دن کا روشن ہونا اور رات کا تاریکی اور سکون لیے ہوئے چھا جانا کچھ اس بنا پر نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی دن کے وقت لوگوں سے خوش اور رات کے وقت ان سے ناراض ہو جاتا ہے ، بلکہ یہ دونوں حالتیں ایک عظیم حکمت و مصلحت کے تحت طاری ہوئی ہیں ، اسی طرح تم پر کبھی وحی بھیجنا اور کبھی اس کو روک لینا بھی حکمت و مصلحت کی بنا پر ہے اس کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ جب اللہ تعالی تم سے خوش ہو تو وحی بھیجے اور جب وہ وحی نہ بھیجے تو اس کے معنی یہ ہوں کہ وہ تم سے ناخوش ہے اور اس نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اس کے علاوہ دوسری مناسبت اس مضمون سے اس قسم کی یہ ہے کہ جس طرح دن کی روشنی اگر مسلسل آدمی پر طاری رہے تو وہ اسے تھکا دے ، اس لیے ایک وقت خاص تک دن کے روشن رہنے کے بعد رات کا آنا ضروری ہے تاکہ اس میں انسان کو سکون ملے اسی طرح وحی کی روشنی اگر تم پر پے درپے پڑتی رہے تو تمہارے اعصاب اس کو برداشت نہ کر سکیں گے ، اس لیے وقتا فوقتا فترۃ ( نزول وحی کا سلسلہ رک جانے ) کا ایک زمانہ بھی اللہ تعالی نے مصلحت کی بنا پر رکھا ہے تاکہ وحی کے نزول سے جو بار تم پر پڑتا ہے اس کے اثرات زائل ہو جائیں اور تمہیں سکون حاصل ہو جائے ۔ گویا آفتاب وحی کا طلوع بمنزلہ روز روشن ہے اور زمانہ فترۃ بمنزلہ سکون شب ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: نبوّت کے بعد شروع شروع میں کچھ دن ایسے گزرے جس میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کوئی وحی نہیں آئی، اِس پرابولہب کی بیوی نے طعنہ دیا کہ تمہارے پروردگار نے ناراض ہو کر تمہیں چھوڑدیا ہے، اُس پر یہ سورت نازل ہوئی تھی، ’’ضحی‘‘ عربی میں دن چڑھنے کے وقت جو روشنی ہوتی ہے اُس کو کہتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے پہلی آیت میں اِس کی قسم کھائی ہے اِس لئے اس سورت کا نام ’’سورۃ الضحیٰ‘‘ ہے۔ اور چڑھتے دن اور اندھیری رات کی قسم کھانے سے غالباً اس طرف اشارہ ہے کہ رات کو جب اندھیرا ہوجاتا ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب دن کی روشنی نہیں آئے گی، اِسی طرح اگر کسی مصلحت کی وجہ سے وحی کچھ دن نہیں آئی تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ (معاذ اللہ) اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ناراض ہوگیا ہے۔