4۔ 1 یا آخرت دنیا سے بہتر ہے، دونوں مفہوم معانی کے اعتبار سے صحیح ہیں۔
[٣] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک عظیم الشان خوشخبری دی اور اس وقت دی جبکہ اس کے پورا ہونے کے آثار دور دور تک کہیں نظر نہ آتے تھے۔ نیز اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کی ایذا دہی اور ظلم و جور سے نہ گھبرائیں۔ کیونکہ آپ کی زندگی کا ہر آنے والا دور اپنے پہلے دور سے بہتر ہوگا۔ بالفاظ دیگر رفتہ رفتہ آپ کے عز و شرف میں لگاتار ترقی ہوتی رہے گی۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آخرت میں آپ کو جو بلند مقام عطا ہوگا وہ کائنات میں کسی دوسرے کو عطا نہیں ہوگا۔
(ولاخرۃ خیرلک من اولی :) اس میں آپ کو تسلی دلائی کہ ہر آنے والا لمحہ آپ کے لئے پہلے لمحہ سے بہتر آیا ہے۔ اسی طرح آئندہ بھی بعد کی ہر حالت آپ کے لئے پہلی سے بہتر ہوگی۔ نبوت کے بعد کی زندگی آپ کے لئے پہلے سے بہتر اور آخرت کی زندگی دنیا سے بہتر ہوگی۔
ولاخرة خیرلک من الاولی، یہاں آخرت کو اپنے معروف معنی میں اور اس کے بالمقابل اولیٰ کو دنیا کے معنے میں لیا جائے تو تفسیر وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر آ چکی ہے کہ یہ کفار و مشرکین جو طعنے آپ کو دے رہے ہیں یہ دنیا میں تو دیکھ ہی لیں گے کہ وہ سراسر لغو اور غلط تھے ہم اس سے آگے آخرت کے انعامات کا بھی آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو دنیا سے بہت زیادہ انعامات سے نوازا جائے گا اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اس جگہ آخرت کو اس کے لفظی منے میں لیا جاوے یعنی پچھلی حالت جیسا کہ لفظ اولیٰ کے لفظی معنے پہلی حالت کے ہیں تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات برابر زیادہ ہی ہوتے چلے جائیں گے کہ ہر پہلی حالت سے پچھلی حالت بہتر اور افضل ہوتی چلی جائے گی، اس میں علوم و معارف اور قرب الٰہی کے درجات میں ترقی بھی داخل ہے اور دنیا کے معاشی مسائل اور عزت و حکومت بھی۔
وَلَلْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى ٤ ۭ- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔
آیت ٤ وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی ۔ ” اور یقینا بعد کا وقت آپ کے لیے بہتر ہوگا پہلے سے۔ “- یعنی اس وقفے اور ’ انقباض ‘ کی کیفیت کے بعد آنے والی اب ہر گھڑی اور ہر ساعت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ’ انبساط ‘ اور انشراح کا نیا پیغام لے کر آئے گی۔ ان آیات میں انقباض و انبساط کے حوالے سے جو اصول بیان ہوا ہے اس کی حیران کن حد تک درست ترجمانی غالب ؔنے اپنے اس مصرع میں کی ہے : ع ” رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور “ یعنی اشعار کی آمد کے حوالے سے کبھی کبھی مجھ پر انقباض کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے لیکن جب اس وقفے کے بعد دوبارہ آمد شروع ہوتی ہے تو پھر میری طبیعت کی روانی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ گویا انقباض کے بعد جب انبساط کا مرحلہ آتا ہے تو انسان اپنی پہلی کیفیت کے مقابلے میں ایک درجہ آگے جا چکا ہوتا ہے۔- ] اس آیت مبارکہ سے یہ مفہوم بھی متبادر ہوتا ہے کہ ” یقینا ہر آنے والی گھڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پہلی سے (بدرجہا) بہتر ہے “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے لطف و کرم اور انعام و احسان کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ ہر آنے والا وقت گزشتہ حالات سے بہتر سے بہتر ہوگا۔ اس ایک جملہ میں کفار کے طعن وتشنیع اور الزام تراشیوں کا بھی سدباب کردیا گیا اور اسلام کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بھی نوید جانفزا سنا دی گئی۔ [
سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :4 یہ خوشخبری اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی حالت میں دی تھی جبکہ چند مٹھی بھر آدمی آپ کے ساتھ تھے ساری قوم آپ کی مخالف تھی بظاہر کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے ۔ اسلام کی شمع مکہ میں ٹمٹما رہی تھی اور اسے بجھا دینے کے لیے ہر طرف طوفان اٹھ رہے تھے ۔ اس وقت اللہ تعالی نے ا پنے نبی سے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے آپ ذرا پریشان نہ ہوں ۔ ہر بعد کا دور پہلے دور سے آپ کے لیے بہتر ثابت ہو گا ۔ آپ کی قوت ، آپ کی عزت و شوکت اور آپ کی قدر و منزلت برابر بڑھتی چلی جائے گی اور آپ کا نفوذ و اثر پھیلتا چلا جائے گا ۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے ، اس میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ آخرت میں جو مرتبہ آپ کو ملے گا وہ اس مرتبے سے بھی بدرجہا بڑھ کر ہو گا جو دنیا میں آپ کو حاصل ہو گا ۔ طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا میرے سامنے وہ تمام فتوحات پیش کی گئیں جو میرے بعد میری امت کو حاصل ہونے والی ہیں ۔ اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔ تب اللہ تعالی نے یہ ارشاد نازل فرمایا کہ آخرت تمہارے لیے دنیا سے بھی بہتر ہو گی ۔
2: آگے آنے والے حالات سے مراد آخرت کی نعمتیں بھی ہوسکتی ہیں، اور پہلے حالات سے دُنیا، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں ہر آن آپ کے درجات میں ترقی ہوتی رہے گی، اور دُشمنوں کی طرف سے آپ کو جو تکلیفیں پہنچ رہی ہیں، آخر کار وہ دور ہو کر آپ ہی کا بول بالا ہوگا۔