Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس سے دنیا کی فتوحات اور آخرت کا اجر وثواب مراد ہے، اس میں وہ حق شفاعت بھی داخل ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے گناہ گاروں کے لئے ملے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] آپ پر اللہ کے انعامات :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے کیا کچھ دیا تھا ؟ اس بات کا احاطہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ہم تو یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسی عزوشرف کی بات تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے عطا نہ کی ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام (رض) کی ایسی جماعت عطا کی جن میں سے ایک ایک فرد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی جان تک فدا کرنے پر فخر محسوس کرتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا غیر مشروط مطاع بنایا۔ ان کا معلم اور مزکی بنایا۔ اپنی کتاب کا مفسر بنایا۔ پورے عرب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوششوں سے کفر و شرک کا مکمل طور پر استیصال ہوگیا۔ پورے جزیرہ عرب میں اسلام کا غلبہ ہوگیا۔ آپ ٢٣ سال کے قلیل عرصہ میں ایک وحشی اجڈ اور ایک دوسرے کے خون کی پیاسی قوم کو دنیا بھر کی تہذیب و تمدن کی علمبردار قوم بنادیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے بعد آپ کی یہ تحریک پوری دنیا پر چھا گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قلیل عرصہ میں ایسا تمدنی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی انقلاب بپا کیا جس کی نظیر پوری دنیا کی تاریخ ڈھونڈھنے سے کہیں نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ کیا تھا ؟ یہ اللہ کی رحمت اور عطا تھی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا کچھ عطا کریں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ولسوف یعطیک ربک فترضی :) یہ مزید تسلی ہے، اس میں اللہ کی فتح و نصرت ، لوگوں کا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا، زمین کے مشارق و مغارب کا آپ کی امت کے قبضے میں آنا، قیامت کو آپ کے ہاتھ میں ” لواء الحمد “ ہونا ، مقام محمود ملنا، شفاعت کبریٰ ، امت کی مغفرت ، غرض وہ سب کچھ شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا اور دے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ولسوف یعطیک ربک فترضی، یعنی آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں، اس میں حق تعالیٰ نے یہ متعین کر کے نہیں بتالای کہ کیا دیں گے اس میں شارہ عمومی کی طرف ہے کہ آپ کی ہر مرغوب چیز آپ کو اتنی دیں گے کہ آپ راضی ہوجائیں۔ آپ کی مرغوب چیزوں میں دین اسلام کی ترقی، دین اسلام کا عام طور پر دنیا میں پھیلنا پھر امت کی ہر ضرورت اور خود آپ کا دشمنوں پر غالب آنا، ان کے ملک میں اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور دین حق پھیلانا سب داخل ہیں۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذا لا ارضی و واحدمن امتی فی النار یعنی جب یہ بات ہے تو میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میری امت میں سے ایک آدمی بھی جہنم میں رہے گا (قرطبی) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کے بارے میں میری شفاعت قبول فرمائیں گے یہاں تک کہ حق تعالیٰ فرما دیں گے ریت یا محمد، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی آپ راضی ہیں، تو میں عرض کروں گا یا رب رضیت یعنی اے میرے پروردگار میں راضی ہوں اور صحیح مسلم میں حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ آیت تلاوت فرمائی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ہے فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم پھر دوسری آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے ان تعذبھم فانھم عبادک پھر آپ نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے اور گریہ وزاری شروع کی اور بار بار فرماتے تھے اللھم امتی امتی، حق تعالیٰ نے جبرئیل امین کو بھیجا کہ آپ سے دریافت کریں کہ آپ کیوں روتے ہیں (اور یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ ہمیں سب معلوم ہے) جبرئیل امین آئے اور سوال کیا، آپ نے فرمایا کہ میں اپنی امت کی مغفرت چاہتا ہوں۔ حق تعالیٰ نے جبرئیل امین سے فرمایا کہ پھر جاؤ اور کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتے ہیں کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہ کریں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى۝ ٥ ۭ- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ۔ ” اور عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہوجائیں گے۔ “- یعنی اب بہت جلد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محنتوں کے ایسے ایسے نتائج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آئیں گے کہ انہیں دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوجائیں گے۔ (١)- یہاں پر پچھلی سورت کی آخری آیت کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ۔ گویا جو خوشخبری یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنائی جارہی ہے وہی بشارت سورة اللیل میں حضرت ابوبکر (رض) کو دی گئی ہے۔ دونوں آیات کا اسلوب اصلاً ایک سا ہے ‘ صرف ضمیر اور صیغے کا فرق ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چونکہ وحی آتی تھی اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صیغہ حاضر (تَرْضٰی) میں براہ راست مخاطب کیا گیا ‘ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے لیے غائب کا صیغہ (یَرْضٰی) آیا ہے۔- ” انقباض “ کی مذکورہ کیفیت کے سیاق وسباق میں اب اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے احسانات جتا رہا ہے۔ یہ بھی دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہی کا ایک انداز ہے۔ جبکہ اس میں ہمارے لیے بھی راہنمائی ہے کہ جب کسی وقت آدمی پر ڈپریشن اور افسردگی کی کیفیت طاری ہو تو اسے چاہیے کہ اس کیفیت میں وہ خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو گن گن کر یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز میں اس کی مدد کرتا رہا ہے اور کیسی کیسی مشکلات سے اسے نجات دلاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ماضی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے سے ایک پریشان حال آدمی کا حوصلہ بڑھتا ہے اور اس کی مثبت سوچ کو تحریک ملتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :5 یعنی اگرچہ دینے میں کچھ دیر تو لگے گی ۔ لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب تم پر تمہارے رب کی عطا و بخشش کی وہ بارش ہو گی کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۔ یہ وعدہ حضور کی زندگی ہی میں اس طرح پورا ہوا کہ سارا ملک عرب جنوب کے سواحل سے لے کر شمال میں سلطنت روم کی شامی اور سلطنت فارس کی عراقی سرحدوں تک ، اور مشرق میں خلیج فارس سے لیکر مغرب میں بحر احمر تک آپ کے زیر نگین ہو گیا ، عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سر زمین ایک قانون اور ضابطہ کی تابع ہو گئی ، جو طاقت بھی اس سے ٹکرائی وہ پاش پاش ہو کر رہ گئی ، کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلَ اللہِ سے وہ پورا ملک گونج اٹھا جس میں مشرکین اور اہل کتاب اپنے جھوٹے کلمے بلند رکھنے کے لیے آخری دم تک ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے ، لوگوں کے سر ہی اطاعت میں نہیں جھک گئے بلکہ ان کے دل بھی مسخر ہو گئے اور عقائد ، اخلاق اور اعمال میں ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا ۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ ایک جاہلیت میں ڈوبی قوم صرف 23 سال کے اندر اتنی بدل گئی ہو ۔ اس کے بعد حضور کی برپا کی ہوئی تحریک اس طاقت کے ساتھ اٹھی کہ ایشیاء ، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر وہ چھا گئی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پھیل گئے ۔ یہ کچھ تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دنیا میں دیا ، اور آخرت میں جو کچھ دے گا اس کی عظمت کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا ۔ ( نیز دیکھو جلد سوم ، طہ حاشیہ 112 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani