Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی اس سے سختی اور تکبر نہ کر، نہ درشت اور تلخ لہجہ اختیار کر، بلکہ جواب بھی دینا ہو تو پیار اور محبت سے دو ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] سائل سے نرم برتاؤ :۔ سائل کا معنی کوئی چیز مانگنے والا بھی ہے اور کوئی بات پوچھنے والا بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے یہ مطلب ہے کہ اگر تم سے کوئی چیز مانگنے والا آئے تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور دے دو اور دینے کو کچھ نہ ہو تو نرمی سے معذرت کردو۔ یعنی سائل کو جھڑک دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- ١۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب کوئی سائل آتا یا کوئی شخص اپنی حاجت بیان کرتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ سے فرماتے کہ تم بھی سفارش کرو۔ تمہیں اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی زبان سے جو چاہے گا حکم دے گا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب التحریض علی الصدقۃ والشفاعۃ فیھا) - ٢۔ عبدالرحمن بن بجید اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ بعض دفعہ کوئی سائل میرے دروازے پر آن کھڑا ہوتا ہے جسے میرے پاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا تو میں کیا کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم فقیر کو دینے کے لیے بکری کے ایک جلے ہوئے کھر کے سوا کچھ نہ پاؤ تو وہی اس کے ہاتھ میں رکھ دو (ترمذی۔ ابو اب الزکوٰۃ، باب ماجاء فی حق السائل) - ٣۔ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسے آدمی کی خبر نہ دوں جو سب سے بدتر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : ہاں بتائیے فرمایا : وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ کچھ نہ دے (نسائی۔ کتاب الزکٰوۃ، عمن یسئل باللٰہ عزوجل ولایعطی بہ) - خ عادی سائل کو جھڑکنے میں مضائقہ نہیں :۔ البتہ اگر مانگنے والا عادی سائل ہو اور چمٹ کر سوال کرنے والا ہو تو اسے جھڑکنے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے سائلوں کو بھی اس آیت کی رو سے کچھ نہ کچھ دے ہی دیتے تھے۔ مگر یہ دینا آپ کو سخت ناگوار ہوتا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ سیدنا معاویہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھ سے چمٹ کر سوال نہ کیا کرو۔ جو شخص بھی تم میں سے مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو میں اسے کچھ نہ کچھ دے دیتا ہوں۔ حالانکہ میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ اس طرح اس چیز میں برکت نہیں رہتی جو میں اسے دیتا ہوں۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب النہی عن المسئلۃ) - ٢۔ سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کا کچھ مال تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کی۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم اس کے مستحق تو اور لوگ تھے۔ اس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان لوگوں نے دو باتوں میں سے مجھے کسی ایک بات پر مجبور کردیا یا تو بےحیائی اور ڈھٹائی سے مجھ سے مانگیں یا میں ان کے آگے بخیل ٹھہروں اور میں بخل کرنے والا نہیں ہوں (مسلم، کتاب الزکوۃ۔ باب اعطاء المؤلفۃ۔۔ ) - ایسی ہی احادیث سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ غیر مستحق عادی قسم کے اور چمٹ کر سوال کرنے والوں کو جھڑکنے میں کچھ حرج نہیں۔- اور اگر سائل کے معنی کوئی بات یا مسئلہ پوچھنے والا لیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ سوال کرنے والا غیر مہذب، اجڈ قسم کا انسان ہو۔ ایسے شخص کو جھڑکنا نہیں چاہیے بلکہ لاعلمی کو جہالت پر محمول کرتے ہوئے مسئلہ بتادینا اور پوری طرح سمجھا دینا چاہیے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ علم رکھنے والا خود اپنے علم کا زعم اور غرور رکھتا ہو اور اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہو اور اپنی اسی بدمزاجی پر عام لوگوں کو کوئی سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے پر جواب دینا پسند ہی نہ کرے اور انہیں جھڑک دے۔ یہ بڑے گناہ کی بات ہے اور اس آیت میں اسی چیز سے منع کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(واما السآئل فلا تنھر : اسی طرح آپ نے تنگ دستی دیکھی ہے اور اللہ تعالیٰ کا غنی کرنا بھی، ان دونوں کا تقاضا ہے کہ سائل کی ضرورت پوری کرو۔ اگر نہیں کرسکتے تو لطف و کرم سے پیش آؤ، جھڑکی نہ دو اور آپ نے کتاب اور ایمان سے نا واقفی کا زمانہ دیکھا ہے، پھر اللہ نے آپ کو یہ نعمتیں دیں، اب اگر کوئی علم کے متعلق سوال کرے یا کسی چیز کا سوال کرے تو اسے ڈانٹنا ہرگز نہیں بلکہ کوئی علم کا طالب ہو یا ملا کا، اس سے حسن خلق کے ساتھ پیش ائٓیں، اس کی حاجت پوری کریں یا اچھے طریقے سے عذر پیش کردیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسرا حکم اما السائل فلاتنھر، تنہر، نہر سے مشتق ہے جس کے معنے زجر اور جھڑکنے کے ہیں اور سائل کے معنے سوال کرنے والا، اس میں وہ بھی داخل ہے جو کسی مال کا سوال کرے اور وہ بھی جو علمی تحقیق کا سوال کرے، دونوں کو جھڑکنے ڈانٹنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع فرمایا گیا، بتر یہ ہے کہ سائل کو کچھ دے کر رخصت کرے اور نہیں دے سکتا تو نرمی سے عذر کر دے اسی طرح کسی علمی مسئلہ کا سوال کرنے والے کے جواب میں بھی سختی اور بدخوئی ممنوع ہے نرمی اور شفقت سے جواب دینا چاہئے بجز اس کے کہ سائل کسی طرح مانے ہی نہیں تو بضرورت زجر بھی جائز ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْہَرْ۝ ١٠ ۭ- سَّائِلَ- ويعبّر عن الفقیر إذا کان مستدعیا لشیء بالسّائل، نحو : وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی 10] ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] . فقیر کو بھی جب وہ کسی چیز کی استدعا کرے تو اسے سائل کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی 10] اور مانگنے کو جھڑی کی نہ دینا ۔ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے والے ۔- نَّهْرُ ) جھڑکنا)- والانتهارُ : الزّجر بمغالظة، يقال : نَهَرَهُ وانتهره، قال : فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما[ الإسراء 23] ، وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی 10] .- النھروالانتھار ۔ سختی سے جھڑکنا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما[ الإسراء 23] تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا ۔ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی 10] اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سائل کو نہ جھڑکو - قول باری ہے (واما السائل فلا تنھر۔ اور سائل کو نہ جھڑکو) اس میں سائل کو سخت بات کہنے کی ممانعت ہے کیونکہ انتھار کے معنی جھڑکنے اور سخت بات کہنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے آیت میں سائل کو اچھی بات کہنے کا حکم دیا ہے۔- چنانچہ ارشاد ہے (واما تعرصن عنھم ابتغاء رحمۃ من ربک ترجوھا فقل لھم قولا میسورا۔ اور اگر ان سے (یعنی حاجتمند رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کررہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو ) اگرچہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے لیکن اس سے تمام مکلفین مراد ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْہَرْ ۔ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سائل کو نہ جھڑکیں۔ “- ایک وقت تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت عطا فرمائی تھی۔ اب اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی سائل اپنی حاجت لے کر آئے تو اس کی حاجت روائی کریں اور اسے جھڑکیں نہیں۔ ظاہر ہے سائل بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی مالی معاونت کے لیے سوال کرتا ہے تو کوئی علم کی تلاش میں لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :10 اس کے دو معنی ہیں اگر سائل کو مدد مانگنے والے حاجت کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مدد کر سکتے ہو تو کر دو ، نہ کر سکتے ہو تو نرمی کے ساتھ معذرت کر دو ، مگر بہرحال اسے جھڑکو نہیں ۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ ہدایت اللہ تعالی کے اس احسان کے جواب میں ہے کہ تم نادار تھے پھر اس نے تمہیں مالدار کر دیا ۔ اور اگر سائل کو پوچھنے والے ، یعنی دین کا کوئی مسئلہ یا حکم دریافت کرنے والے کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص خواہ کیسا ہی جاہل اور ا جڈ ہو ، اور بظاہر خواہ کتنے ہی نامعقول طریقے سے سوال کرے یا اپنے ذہن کی الجھن پیش کرے ، بہرحال شفقت کے ساتھ اسے جواب دو اور علم کا زعم رکھنے والے بد مزاج لوگوں کی طرح اسے جھڑک کر دور نہ بھگا دو ۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ ارشاد اللہ تعالی کے اس احسان کے جواب میں ہے کہ تم ناواقف راہ تھے پھر اس نے تمہیں ہدایت بخشی ۔ حضرت ابو الدردا ، حسن بصری ، سفیان ثوری اور بعض دوسرے بزرگوں نے اسی دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ ترتیب کلام کے لحاظ سے یہ ارشاد وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ کے جواب میں آتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: سوال کرنے والے سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جو مالی مدد چاہتا ہو، اور وہ بھی جو حق طلبی کے ساتھ دین کے بارے میں کوئی سوال کرنا چاہتا ہو۔ دونوں کو جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر کوئی عذر ہو تو نرمی سے معذرت کرلینی چاہئے۔