Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 بلکہ اس کے ساتھ نرمی واحسان کا معاملہ کر۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] یتیم کی کفالت :۔ یعنی جس طرح ہم نے تمہاری یتیمی کے دوران ہر مرحلہ پر تمہارا خیال رکھا اسی طرح تم بھی یتیموں سے بہترین سلوک کرو۔ نہ انہیں دباؤ نہ ان پر سختی کرو، نہ انہیں بےیارو مددگار چھوڑ دو بلکہ ان کی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھا کرو۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرے مسلمانوں کو بھی یتیموں کی کفالت اور ان سے حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ : میں اور یتیم کا کفیل جنت میں اس طرح (اکٹھے) ہوں گے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی شہادت کی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کیا اور انہیں تھوڑا سا کھول دیا (بخاری، کتاب الادب۔ باب فضل من یعول یتیما)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(فاما الیتیم فلا تقھر : آپ نے یتیمی اور اس کی تلخی اور بےچارگی دیکھی ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح آپ کو جگہ دی اور آپ پر بےپناہ مہربانیاں فرمائیں، اب دونوں چیزوں کا تقاضا ہے کہ یتیم پر سختی نہ کرو بلکہ زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ان تینوں نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد آپ کو تین چیزوں کا حکم دیا گیا، اول فاما البیتیم فلا تقھر، قہر کے معنے غلبہ اور جبری تسلط کے ہیں، مراد یہ ہے کہ آپ کسی یتیم کو ضعیف اور بےوارث سمجھ کر اس کے اموال و حقوق پر اس طرح مسل نہ ہوں کہ اس کا حق ضائع ہوجائے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یتیم کے ساتھ شفقت کے معاملے کی تاکید فرمائی اور اس کے ساتھ دل شکنی کا برتاؤ کرنے سے منع فرمایا، ارشاد ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ احسان و محبت کا سلوک کیا جاتا ہو، اور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو (رواہ البخاری فی الادب المفرد، وابن ماجہ والبغوری، مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْہَرْ۝ ٩ ۭ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمثل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ- [ الرعد 16] ، فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] ، فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ- [ الضحی 9] أي : لا تذلل، وأَقْهَرَهُ : سلّط عليه من يقهره، والْقَهْقَرَى: المشي إلى خلف .- ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔ ۔ فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی 9] تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرو اسے ذلیل نہ کرو ۔ اقھرہ ۔ کسی پر ایسے شخص کو مسلط کرنا جو اسے ذلیل کردے ۔ القھقری پچھلے پاؤں لوٹنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

یتیم پر نرمی کا حکم - قول باری ہے (فاما الیتیم فلا تقھمر۔ لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو) ایک قول کے مطابق ” اس پر ظلم کرکے اور اس کا مال چھین کر اس پر سختی نہ کرو۔ “ یتیم کا خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر کیا کہ اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ اس لئے اس کے معاملے میں شدت اختیار کی گئی تاکہ اس پر ظلم کرنے والے کو سزا بھی سخت دی جائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (اتقوا ظلم من لا ناصرلہ غیر اللہ۔ اس شخص پر ظلم کرنے سے بچو جس کا اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ ۔ ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی یتیم پر سختی نہ کریں۔ “- جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یتیمی میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کفالت وغیرہ کا بندوبست کیا ‘ اسی طرح اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یتیموں کی سرپرستی کریں اور انہیں لوگوں کی زیادتیوں سے بچائیں

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :9 یعنی تم چونکہ خود یتیم رہ چکے ہو ، اور اللہ نے تم پر یہ فضل فرمایا کہ یتیمی کی حالت میں بہترین طریقے سے تمہاری دستگیری کی ، اس لیے اس کا شکرانہ یہ ہے کہ تمہارے ہاتھ سے کبھی کسی یتیم پر ظلم اور زیادتی نہ ہونے پائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani