8۔ 1 تونگر کا مطلب ہے کہ اپنے سوا تجھ کو ہر ایک سے بےنیاز کردیا، پس تو فقر میں صابر اور غنا میں شاکر رہا ہے۔ جیسے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تونگری کثرت ساز و سامان کا نام نہیں اصل تونگری تو دل کی تونگری ہے۔ (صحیح مسلم)
[٧] آپ کا بچپن :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد ماجد نے میراث میں صرف ایک اونٹنی اور ایک لونڈی چھوڑی تھی۔ آپ کی رضاعت کا مسئلہ سامنے آیا تو سب دائیوں نے آپ کی رضاعت سے اس بنا پر انکار کردیا کہ آپ یتیم ہیں۔ والد موجود نہیں گھرانہ بھی اتنا مالدار نہیں تو یہاں سے کیا ملے گا۔ آخر یہ سعادت حلیمہ سعدیہ کے ہاتھ آئی اور انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضاعت کو اس لیے قبول کرلیا کہ کسی امیر گھرانے کا بچہ انہیں ملا ہی نہیں تھا اور انہوں نے یہ سمجھ کر رضاعت قبول کی کہ کچھ ہونا بہرحال نہ ہونے سے بہتر ہے۔ آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا عبدالمطلب فوت ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں آگئے۔ ابو طالب خود عیالدار اور مفلس تھے۔ اس دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند قیراط کی مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں بھی چرائی تھیں اور جو معاوضہ ملتا وہ ابو طالب کے حوالہ کردیتے۔ ذرا بڑے ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شام کے تجارتی سفروں میں حصہ لینے لگے۔ حسن معاملت کی بنا پر انہی ایام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت، امانت اور دیانت کا چرچا ہوگیا۔ اس پر مکہ کی ایک بیوہ اور مالدار خاتون نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مضاربت کی بنا پر اچھی خاصی رقم دے دی۔ واپس آئے تو سیدہ خدیجہ (رض) کے غلام زید بن حارثہ نے، جو شریک سفر تھے آپ کی امانت، دیانت کی انتہائی تعریف کی۔ جس سے متاثر ہو کر سیدہ خدیجہ (رض) نے خود نکاح کی پیش کش کی۔ یہ خاتون مالدار بھی تھیں، حسین بھی تھیں۔ لہذا معززین مکہ کی طرف سے ان کو کئی بار نکاح کے پیغام آئے لیکن آپ سب کو رد کرتی رہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہوں نے خود نکاح کا پیغام بھیج دیا جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول کرلیا اور ٢٥ سال کی عمر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون سیدہ خدیجہ (رض) کے ساتھ شادی ہوگئی۔ نکاح کے بعد سیدہ خدیجہ (رض) نے اپنا سارا مال و دولت اور غلام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحویل میں دے دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند دنوں تو تجارت کی مگر جلدی ہی یہ سارا مال اللہ کی راہ میں محتاجوں، بیواؤں، بےروزگاروں اور ضرورتمندوں کو دے دیا کیونکہ آپ طبعاً امیری کی بجائے فقر کو پسند کرتے تھے اور یہی غنا کی سب سے بہترین قسم ہے کہ مالدار ہونے کے باوجود انسان فقر کو ترجیح دے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اموال غنائم میں پانچواں حصہ مقرر کردیا اور اموال فے سارے کے سارے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحویل میں دے دیے۔ مگر اتنے مال و دولت اور حکومت کے باوجود آپ سارا مال و دولت تقسیم کردیتے تھے۔ بقدر کفاف اپنی گھریلو ضرورتوں کے لیے رکھ لیتے تھے اور ساری زندگی دولت پر فقر کو ترجیح دی۔ اس آیت میں آپ کی ابتدائی مفلسی اور اس کے بعد آپ کے اسی قسم کے غنا کا ذکر ہے۔
(ووجدک عآئلاً فاغنی):” عال یعیل عیلاً وعیلۃ “ (ض) فقیر ہونا۔ ” عائلاً “ فقیر۔۔ سورة توبہ میں فرمایا :(وان خفتم علیتہ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ) (التوبۃ : ٢٨) ” اور اگر تم کسی قسم کے فقرے سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے۔ انہوںں نے میراث میں ایک لونڈی ام ایمن کے علاوہ کوئی زیادہ ملا نہیں چھوڑا ۔ بچپن میں اپنے فقر کا حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بیان فرمایا، ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، (ما بعث اللہ بنیاً الا رعی الغنم فقال اصحابہ وانت ؟ فقال نعم، کنت ارعاھا علی قراریط لاھل مکۃ) (بخاری، الاجارۃ باب رعبی العنم علی قراریط : ٢٢٦٢)” اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے بھیڑ بکریاں نہ چرائی ہوں۔ “ آپ کے صحابہ نے کہا :” اور آپ نے بھی (چرائی ہیں) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میں انہیں مکہ والوں کیلئے چند قیراطوں پر چرایا کرتا تھا۔ “ ظاہر ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنی یا ابو طالب کی بھیڑ بکریاں ہی ہوتیں تو آپ کو اہل مکہ کی بھیڑ بکریاں اجرت پر چرانے کی کیا ضرورت تھی۔ اتنے افلاس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح غنی کردیا کہ مکہ کی سب سے مال دار خاتون خدیجہ (رض) عنہمانے پہلے آپ کو تجارت میں شریک کای، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نکاح کرلیا اور اپنا تمام مال آپ کے حوالے کردیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ آپ کے پاس بنو نضیر، بنو قریظہ، خیبر، بحرین اور یمن وغیرہ کی غنیمتوں اور خراج کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ ملایغ نا تھا، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا قلبی غنا بھی عطا فرمایا تھا ہ آپ اس طرح بےدریغ خرچ کرتے تھے جیسے آپ کو فقر کا کوئی خوف ہی نہ ہو۔
تیسری نعمت ووجدک عائلاً فاغنی، عائل، عیلہ سے مشتق ہے جس کے معنے فقیر و محتاج ہونے کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہوئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نادار اور بےزر پایا تو آپ کو غنی و مالدار کردیا جس کی ابتداء حضرت خدیجہ کبریٰ کے مال میں بطور شرکت مضاربت کے تجارت کرنے سے ہوئی پھر وہ خود آپ کے عقد نکاح میں آ کر ام المومنین ہوئیں تو ان کا سارا مال ہی آپ کی خدمت کے لئے ہوگیا۔
وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى ٨ ۭ- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- عيل - قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً [ التوبة 28] ، أي : فقرأ . يقال : عَالَ الرّجل : إذا افتقر يَعِيلُ عَيْلَةً فهو عَائِلٌ وأما أَعَالَ : إذا کثر عِيَالُهُ فمن بنات الواو، وقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى- أي : أزال عنک فقر النّفس وجعل لک الغنی الأكبر المعنيّ بقوله عليه السلام :- «الغنی غنی النّفس» . وقیل : «ما عَالَ مقتصد» وقیل : ووجدک فقیرا إلى رحمة اللہ وعفوه، فأغناک بمغفرته لک ما تقدّم من ذنبک وما تأخّر .- ( ع ی ل ) العیلۃ کے معنی فقر وفاقہ کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً [ التوبة 28] اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو ۔ عال الرجل یعیل وہ آدمی محتاج اور ضرورت مند ہوگیا ۔ عائل ۔ محتاج ۔ ضرورت مند مگر اعال ) افعال ) جس کے معنی کثیر العیال ہونے کے ہیں اجواف وادی ( ع و ل ) سے ہے ۔ اور آیت : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنىاور تجھے ضرورت مند پایا تو غنی کردیا ۔ میں عائلا کے معنی ہیں تجھ سے فقر نفس کو دور کر کے تجھے غنائے اکبر عطا کی چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنی عنی النفس ( کہ اصل غنی تو نفس کی بےنیازی ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ ماعال مقتصد اعتدال سے خرچ کرنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا ۔ مگر بعض نے آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی رحمت اور عفو کا محتاج پاکر تمہارے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے اور تجھے اپنی مغفرت سے بہرہ وافر عطا فرما کر غنی کردیا ۔ - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔
(8 ۔ 11) تو اب ان نعمتوں کے شکریہ میں آپ یتیم پر سختی نہ کیجیے اور سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ کیجیے اور نہ اس کو جھڑکیے۔ اور نبوت واسلام کا لوگوں کے درمیان تذکرہ کرتے رہا کیجیے اور ان کو اس سے آگاہ کردیجیے۔- شان نزول : وَالضُّحٰى۔ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى الخ - امام بخاری و مسلم نے حضرت جندب سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ تکلیف ہوگئی جس کی وجہ سے ایک یا دو راتوں کو آپ تہجد نہ پڑھ سکے تو آپ کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے خیال میں (معاذ الل) آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَالضُّحٰى۔ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى الخ - سعید بن منصور اور فریابی نے جندب سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے میں تاخیر کی تو مشرکین کہنے لگے اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ دیا ہے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اور حاکم نے زید بن ارقم سے روایت کیا ہے کہ کچھ دنوں تک جبریل امین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف نہیں لائے تو ابولہب کی بیوی ام جمیل کہنے لگی میں سمجھتی ہوں کہ ان کے صاحب نے ان کو چھوڑ دیا اور ان سے دشمنی کرلی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور طبرانی نے اور ابن شیبہ نے اپنی مسند میں اور واحدی نے سند غیر معروف کے ساتھ حضرت خولہ سے روایت کیا ہے اور یہ حضور کی خادمہ تھیں فرماتی ہیں کہ ایک کتے کا بچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان میں تخت کے نیچے گس گیا اور وہیں مرگیا تو چار روز تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی نہیں آئی، آپ نے فرمایا اے خولہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں کیا بات پیش آئی کہ جبریل امین میرے پاس نہیں آرہے، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں گھر کی صفائی کر دالوں تو میں نے جھاڑ لے کر تخت کے نیچے سے صفائی کرنا شروع کی چناچہ وہاں سے کتے کے بچے کو نکال دیا۔- تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جبہ مبارک میں کانپتے ہوئے تشریف لائے اور آپ پر جب وحی آتی تھی تو آپ پر لرزہ آجاتا تھا۔ اس وقت فَتَرْضٰی تک یہ آیات نازل ہوئیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں جبریل کا کتے کی وجہ سے آنے میں تاخیر کرنا مشہور ہے مگر اس واقعہ کو آیت کا شان نزول قرار دینا شاذ بلکہ غیر قابل قبول ہے۔- ابن جریر نے عبداللہ بن شداد سے روایت کیا ہے کہ حضرت خدیجہ نے حضور سے فرمایا کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے پروردگار نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔- اور نیز عروہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین نے حضور کے پاس آنے میں تاخیر کی، جس سے آپ بہت سخت گھبرائے تو آپ کی یہ گھبراہٹ دیکھ کر حضرت خدیجہ نے فرمایا بظاہر آپ کے پروردگار نے آپ کو چھوڑ دیا ہے یہ آیت نازل ہوئی یہ دونوں روایات مرسل ہیں اور ان کے راوی ثقہ ہیں۔- حافظ ابن حجر تطبیق کے طور پر فرماتے ہیں کہ امِّ جمیل اور حضرت خدیجہ دونوں نے یہ بات کہی، مگر ام جمیل نے طعنہ اور دشمنی کے طور پر اور حضرت خدیجہ نے اظہار افسوس اور حسرت کے طور پر کہی۔- حاکم اور بیہقی نے دلائل میں اور طبرانی وغیرہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان تمام ممالک کو پیش کیا گیا جو آپ کی امت کے ہاتھوں فتح ہوں گے اس سے آپ خوش ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى- طبرانی نے اوسط میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے سامنے وہ علاقے پیش کیے گئے جو میرے بعد میری امت کے لیے فتح ہوں گے سو اس سے مجھے خوشی ہوئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۔ اس روایت کی سند حسن ہے۔
آیت ٨ وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی ۔ ” اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنگ دست پایا تو غنی کردیا “- اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہ (رض) کی ساری دولت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں ڈھیر کردی۔ حضرت خدیجہ (رض) بہت مال دار اور صاحب حیثیت خاتون تھیں۔ مکہ کے بڑے بڑے سرداران (رض) سے نکاح کے خواہش مند تھے ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے ان (رض) کا دل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھیر دیا اور انہوں (رض) نے خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ - گزشتہ آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے تین مراحل کے حوالے سے تین احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی ترتیب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین ہدایات دی جا رہی ہیں :
سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :8 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کے والد ماجد نے میراث میں صرف ایک اونٹنی اور ایک لونڈی چھوڑی تھی ۔ اس طرح آپ کی زندگی کی ابتداء افلاس کی حالت میں ہوئی تھی ۔ پھر ایک وقت آیا کہ قریش کی سب سے زیادہ مالدار خاتون ، حضرت خدیجہ نے پہلے تجارت میں آپ کو اپنے ساتھ شریک کیا ، اس کے بعد انہوں نے آپ سے شادی کر لی اور ان کے تمام تجارتی کاروبار کو آپ نے سنبھال لیا ۔ اس طرح آپ نہ صرف یہ کہ مال دار ہو گئے ، بلکہ آپ کی مالداری اس نوعیت کی نہ تھی کہ محض بیوی کے مال پر آپ کا انحصار ہو ۔ ان کی تجارت کو فروغ دینے میں آپ کی اپنی محنت و قابلیت کا بڑا حصہ تھا ۔
5: حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ آپ نے تجارت میں جو شرکت فرمائی، اُس سے آپ کو اچھا خاصا نفع حاصل ہوا تھا۔