11۔ 1 یعنی اللہ نے تجھ پر جو احسانات کیے ہیں، مثلا ہدایت اور رسالت و نبوت سے نوازا، یتیمی کے باوجود تیری کفالت و سرپرستی کا انتظام کیا، تجھے قناعت و تونگری عطا کی وغیرہ۔
[١٠] تحدیثنعمت کا مطلب :۔ کچھ نعمتوں کا ذکر تو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کردیا۔ ان کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کے بیشمار احسانات تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے ذکر اور اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تہ دل سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ اور قطعاً یہ نہ سمجھا جائے کہ مجھ میں کوئی خاص اہلیت اور قابلیت تھی جس کی وجہ سے مجھ پر اللہ نے یہ احسان کیے۔ بلکہ انہیں محض اللہ کے فضل و کرم پر محمول کیا جائے اور ان نعمتوں کا اسی جذبہ کے تحت دوسرے لوگوں کے سامنے بھی اقرار و اعتراف کیا جائے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس اقرار و اعتراف میں فخر و مباہات کا شائبہ تک نہ ہو۔
(واما بنعمۃ ربک فحدث : اور شکر ادا کرنے کے لئے اپنے رب کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہو۔
تیسرا حکم واما بنعمة ربک فحدث حدث، تحدیب سے مشتق ہے جس کے معنے بات کرنے کے ہیں مراد یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا لوگوں کے سامنے ذکر کیا کریں کہ یہ بھی ایک طریقہ شکر گزاری کا ہے یہاں تک کہ آدمی جو کسی آدمی پر احسان کرے اس کا بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے جو شخص لوگوں کے احسان پر ان کا شکر نہیں کرتے وہ اللہ کا بھی شکر نہیں کریگا ( رواہ احمد درداتہ ثفات، مظہری) - ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص تم پر کوئی احسان کرے تو چاہئے کہ آپ بھی اس کے احسان کا بدلہ دو ، اور اگر مالی بدلہ دینے کی استطاعت نہیں تو یہی کرو کہ لوگوں کے سامنے اس کی تعریف کرو کیونکہ جس نے لوگوں کے جمع میں اس کی ثناء و تعریف کی تو اس نے شکر گزاری کا حق ادا کردیا (رواہ البغوی عن جابر بن عبداللہ، مظہری) - مسئلہ :۔ ہر نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے مالی نعمت کا شکریہ ہے کہ اس مال میں سے کچھ اللہ کے لئے اخلاص نیت کے ساتھ خرچ کرے اور نعمت بدن کا شکریہ ہے کہ جسمانی طاقت کو اللہ تعالیٰ کے واجبات ادا رنے میں صرف کرے اور علم و معرفت کی نعمت کا شکریہ ہے کہ دوسروں کو اس کی تعلیم دے (مظہری) - مسئلہ :۔ سورة والضحیٰ سے آخر قرآن تک ہر سوت کیساتھ تکبیر کہنا سنت ہے اور اس تکبیر کے الفاظ شیخ صالح مصری نے لا الہ الا اللہ واللہ اکبر بتلائے ہیں۔ (مظہری) - ابن کثیر نے ہر سورت کے ختم پر اور بغوی نے ہر سورت کے شروع میں ایک مرتبہ تکبیر کہنے کو سنت کہا ہے (مظہری دونوں میں سے جو صورت بھی اختیار کرے سنت ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم - فائدہ :۔ سورة ضحیٰ سے آخر قرآن کریم تک بیشتر سورتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق تعالیٰ کے خاص انعامات اور آپ کے مخصوص فضائل کا ذکر ہے اور چند سورتوں میں قیامت اور اس کے احوال کا۔ قرآن حکیم کا شروع خود قرآن کی عظمت اور ناقبال شک و شبہ ہونے سے کیا گیا اور ختم قرآن اس ذات کی عظمت و شان پر کیا گیا جس پر قرآن نازل ہوا۔
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ١١ ۧ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔
آیت ١ ١ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ۔ ” اور اپنے رب کی نعمت کا بیان کریں۔ “- یہ ہدایت جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہوئی ہے ‘ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر کا تقاضا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی اس نعمت کا چرچا کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلائیں۔ اس حکم میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ ہدایت کی نعمت کو اگر انسان اپنی ذات تک محدود کر کے بیٹھ رہے تو اس کا یہ طرزعمل بخل کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا جس کسی کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی دولت سے نوازے اسے چاہیے کہ اس خیر کو عام کرے اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :11 نعمت کا لفظ عام ہے جس سے مراد وہ نعمتیں بھی ہیں جو اس سورہ کے نزول کے وقت تک اللہ تعالی نے اپنے رسول پاک کو عطا فرمائی تھیں ، اور وہ نعمتیں بھی جو بعد میں اس نے اپنے ان وعدوں کے مطابق آپ کو عطا کیں جو اس سورہ میں اس نے کیے تھے اور جن کو اس نے بدرجہ اتم پورا کیا ۔ پھر حکم یہ ہے کہ اے نبی ہر نعمت جو اللہ نے تم کو دی ہے اس کا ذکر اور اس کا اظہار کرو ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ نعمتوں کے ذکر و اظہار کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں اور ہر نعمت اپنی نوعیت کے لحاظ سے اظہار کی ایک خاص صورت چاہتی ہے ۔ مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے اور اس بات کا اقرار و اعتراف کیا جائے کہ جو نعمتیں بھی مجھے حاصل ہیں یہ سب اللہ کا فضل و احسان ہیں ورنہ کوئی چیز بھی میرے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں ہے ۔ نعمت نبوت کا اظہار اس طریقہ سے ہو سکتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا حق ادا کیا جائے ۔ نعمت قرآن کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ اس کی اشاعت کی جائے اور اس کی تعلیمات لوگوں کے ذہن نشین کی جائیں ۔ نعمت ہدایت کا اظہار اسی طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کی بھٹکی ہوئی مخلوق کو سیدھا راستہ بتایا جا ئے ۔ اور اس کام کی ساری تلخیوں اور ترشیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے ۔ یتیمی میں دستگیری کا جو احسان اللہ تعالی نے کیا اس کا اظہار یہی صورت چاہتا ہے کہ اللہ کے محتاج بندوں کی مدد کی جائے ۔ غرض یہ ایک بڑی جامع ہدایت تھی جو اللہ تعالی نے اپنے انعامات و احسانات بیان کرنے کے بعد اس مختصر فقرے میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ۔