2۔ 1 یہ بوجھ نبوت سے قبل چالیس سالہ دور زندگی سے متعلق ہے۔ اس دور میں اگرچہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہوں سے محفوظ رکھا، کسی بت کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ ریز نہیں ہوئے، کبھی شراب نوشی نہیں کی اور بھی دیگر برائیوں سے دامن کش رہے، تاہم معروف معنوں میں اللہ کی عبادت و اطاعت کا نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم تھا نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کی، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احساس و شعور نے اسے بوجھ بنا رکھا تھا اللہ نے اسے اتار دینے کا اعلان فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان فرمایا۔
ووضعنا عنک وزرک…: بوجھ اتار دینے سے مراد وحی الٰہی برداشت کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(انا سنلقی علیک قولاً ثقیلاً ) (المزمل : ٥)” یقیناً ہم تجھ پر ایک بھاری بات نازل کریں گے۔ “ حدیث میں ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی اترتی تو اس کے بوجھ سے وہ اونٹنی جس پر آپ سوار ہوتے بیٹھ جاتی (مسند احمد : ٦ ١٨ ، ح : ٢٣٨٦٨، سندہ صحیح) اس کے علاوہ نبوت کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی مراد ہے، جسے آپ بہت شدت سے محسوس کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا :(لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین) (الشعرائ : ٣)” شاید آپ اپنے آپ کو اس لئے ہلاک کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر یہ بوجھ بھی اتار دیا، (لیس علیک ھدھم ولکن اللہ یھدی من یشآئ) (البقرۃ : ٢٨٢) ” تیرے ذمے انہیں ہدایت دینا نہیں اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “
ووضعنا عنک وزرک الذی انقص ظہرک وزر کے لفظی معنے بوجھ کے ہیں اور نقض ظہر کے لفظیم عنے کم رتوڑ دینے یعنی کمر کو جھکا دینے کے ہیں جیسا کوئی بڑا بوجھ انسان پر لاد دیا جائے تو اس کی کمر جھک جاتی ہے، اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ وہ بوجھ جس نے آپ کی کمر جھکا دی تھی ہم نے اس کو آپ سے ہٹا دیا۔ وہ بوجھ کیا تھا اس کی ایک تفسیر تو وہ ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آچکی ہے کہ اس سے وہ جائز اور مباح کام ہیں جن کو بعض اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرین حکمت و مصلحت سمجھ کر اختیار کرلیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مصلحت کیخلاف یا خلاف اولیٰ تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی علوشان اور تقریب الٰہی میں خاص مقام حاصل ہونے کی بناء پر ایسی چیزوں پر بھی سخت رنج و ملال اور صدمہ ہوتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس آیت میں بشارت سنا کر وہ بوجھ آپ سے ہٹا دیا کہ ایسی چیزوں پر آپ سے مواخذہ نہ ہوگا۔- اور بعض حضرات مفسرین نے وزر یعنی بوجھ کی مراد اس جگہ یہ لکھی ہے کہ ابتداء نبوت میں وحی کا اثر بھی آپ پر شدید ہوتا تھا اور اس میں آپ پر جو ذمہ داری ساری دنیا میں کلمہ حق پھیلانے اور کفر و شرک کو مٹا کر خلق خدا کو توحید پر جمع کرنے کی ڈالی گئی تھی اور اس سب کام میں حکم یہ تھا کہ فاستقم کما امرت یعنی آپ امر الٰہی کے مطابق استقامت پر رہیں جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو، اس کا بار عظیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محسوس فرماتے تھے اور بعض روایات حدیث میں آی ہے کہ آپ کی لحیہ مبارک میں کچھ سفید بال آگئے تو آپ نے فرمایا کہ اس آیت فاستقم کما امرت نے بوڑھا کردیا۔- یہ وہ بوجھ تھا جس کو آپ کے قلب سے ہٹا دینے کی بشارت اس آیت میں دی گئی ہے اور اس کے ہٹا دینے کی صورت اگلی آیات میں یہ آئی ہے کہ آپ کی ہر مشکل کے بعد آسانی ہونیوالی ہے حق تعالیٰ نے شرح صدر کے ذریعہ آپ کا حوصلہ اتنا بنلد فرما دیا کہ یہ سب مشکلات آسان نظر آنے لگیں اور وہ بوجھ بوجھ نہ رہا، واللہ اعلم
وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ ٢ ۙ- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - وزر - الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل .- قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی:- لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ- [ النحل 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . وقوله تعالی: وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام 164] أي : لا يحمل وِزْرَهُ من حيث يتعرّى المحمول عنه، وقوله : وَوَضَعْنا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح 2- 3] ، أي : ما کنت فيه من أمر الجاهليّة، فأعفیت بما خصصت به عن تعاطي ما کان عليه قومک، والوَزِيرُ : المتحمِّلُ ثقل أميره وشغله، والوِزَارَةُ علی بناء الصّناعة . وأَوْزَارُ الحربِ واحدها وِزْرٌ: آلتُها من السّلاح، والمُوَازَرَةُ : المعاونةُ. يقال : وَازَرْتُ فلاناً مُوَازَرَةً : أعنته علی أمره . قال تعالی: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] ، وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] .- ( و ز ر ) الوزر - ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے۔ اور آیت کریمہ : ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : ۔ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام 164] اور کوئی شخص کسی ( کے گناہ ) کا بوجھ نہیں اٹھائیگا ۔ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ محمول عنہ یعنی وہ دوسرا اس گناہ سے بری ہوجائے لہذا ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے اور آیت : ۔ وَوَضَعْنا عَنْكَوِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح 2- 3] اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا ۔ میں وزر سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو جاہلی معاشرہ کے رواج کے مطابق قبل از نبوت آنحضرت سے سر زد ہوئی تھیں ۔ الوزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو ۔ اور اس کے اس عہدہ کو وزارۃ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] اور میرے گھر والوں میں سے ( ایک کو ) میرا وزیر ( یعنی مدد گار امقر ر فرمایا ۔ ارزار الحرب اس کا مفرد ورر ہے اور اس سے مراد اسلحہ جنگ ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ میں زیورات کے بوجھ مراد ہیں ۔ الموزراۃ ( مفاعلۃ ) کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ہیں اور وازرت فلانا موازرۃ کے معنی ہیں میں نے اس کی مدد کی ۔
(2 ۔ 5) نیز ہم نے آپ سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا جس نے آپ کی کمر ٹیڑھی کر رکھی تھی، یا یہ کہ بار نبوت، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےشک۔ اور نیز ہم نے اذان، دعا، تشہد میں آپ کا ذکر بلند کردیا کہ جب میرا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ کا بھی ذکر ہوتا ہے اب فقر وفاقہ پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی فرماتے ہیں بیشک تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بیشک تنگی کے ساتھ فراخی ہونے والی تو دو فراخیوں کے درمیان ایک تنگی کا ذکر کیا۔