Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] وزر کے دو مفہوم :۔ وِزْرَ کا لفظ بھاری بوجھ کے لیے آتا ہے اور اس کی جمع اوزار ہے لیکن اس کا اکثر استعمال معنوی بوجھ کے لیے ہوتا ہے بالخصوص بار گناہ اور کسی طرح کے بھی ذہنی بوجھ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں وزر سے مراد وہ ذہنی بوجھ ہے جو نبوت سے پہلے ہی آپ کو لاحق تھا۔ جب آپ اپنی قوم کو کفر و شرک کی گمراہیوں اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں میں مبتلا دیکھتے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے معاشرے کی اس حالت پر سخت دل گرفتہ رہتے تھے کہ کس طرح اس بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ مگر اس کی کوئی صورت، کوئی طریقہ اور کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی۔ بالآخر آپ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹھیک طرح سے معلوم ہوگیا کہ اس سارے بگاڑ کا علاج توحید، عقیدہ آخرت اور رسالت پر ایمان میں مضمر ہے۔ چناچہ آپ کا سارا ذہنی بار ہلکا ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین حاصل ہوگیا کہ اس طرح نہ صرف اپنی قوم بلکہ ساری دنیا کو ان خرابیوں اور برائیوں سے نکالا جاسکتا ہے جن میں اس وقت عرب کے علاوہ باقی ساری دنیا بھی مبتلا تھی۔ علاوہ ازیں وزر کا دوسرا مفہوم رسالت کی ذمہ داریاں بھی ہوسکتا ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ( اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا ۝) 73 ۔ المزمل :5) یہ بوجھ بھی ابتدائ ً نہایت گرانبار تھا جبکہ آغاز دعوت پر مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہاڑ جیسا حوصلہ عطا کرکے اس کمر توڑ بوجھ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن سے اتار دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذمہ داریاں نباہنے کے لیے دل و جان سے مستعد ہوگئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَكَ۝ ٣ ۙ- نقض - النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] ، - ( ن ق ض ) النقض - یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل 91]- ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :2 مفسرین میں سے بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبوت سے پہلے ایام جاہلیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ قصور ایسے ہو گئے تھے جن کی فکر آپ کو سخت گراں گزر رہی تھی اور یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالی نے آپ کو مطمئن کردیا کہ آپ کے وہ قصور ہم نے معاف کر دیے ۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ معنی لینا سخت غلطی ہے ۔ اول تو لفظ وزر کے معنی لازماً گناہ ہی کے نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ بھاری بوجھ کے لیے بھی بولا جاتا ہے ۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو خواہ مخواہ برے معنی میں لیا جائے ۔ دوسرے حضور کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی اس قدر پاکیزہ تھی کہ قرآن میں مخالفین کے سامنے اس کو ایک چلینج کے طور پر پیش کیا گیا تھا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار کو مخاطب کر کے یہ کہوایا گیا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ میں اس قرآن کو پیش کرنے سے پہلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں ( یونس آیت 16 ) اور حضور اس کردار کے انسان بھی نہ تھے کہ لوگوں سے چھپ کر آپ نے کوئی گناہ کیا ہو ۔ معاذ اللہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی تو اس سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا کہ جو شخص کوئی چھپا ہوا داغ اپنے دامن پر لیے ہوئے ہوتا اس سے خلق خدا کے سامنے برملا وہ بات کہلواتا جو سورہ یونس کی مذکورہ بالا آیت میں اس نے کہلوائی ہے ۔ پس درحقیقت اس آیت میں وزر کے صحیح معنی بھاری بوجھ کے ہیں اور اس سے مراد رنج و غم اور فکر و پریشانی کا وہ بوجھ ہے جو اپنی قوم کی جہالت و جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حساس طبیعت پر پڑ رہا تھا آپ کے سامنے بت پوجے جا رہے تھے ۔ شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم کا بازار گرم تھا ۔ اخلاق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی ۔ معاشرت میں ظلم اور معاملات میں فساد عام تھا ۔ زور داروں کی زیادتیوں سے بے زور پس رہے تھے ۔ لڑکیاں زندہ دفن کی جا رہی تھیں ۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے تھے اور بعض اوقات سو سو برس تک انتقامی لڑائیوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا ۔ کسی کی جان ، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط جتھا نہ ہو ۔ یہ حالت دیکھ کر آپ کڑھتے تھے مگر اس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی صورت آپ کو نظر نہ آتی تھی ۔ یہی فکر آپ کی کمر توڑے ڈال رہی تھی جس کا بارِ گراں اللہ تعالی نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپ کے اوپر سے اتار دیا اور نبوت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ توحید اور آخرت اور رسالت پر ایمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا سکتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالی کی اس رہنمائی نے آپ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ اس ذریعہ سے آپ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو ان خرابیوں سے نکال سکتے ہیں جن میں اس وقت عرب سے باہر کی بھی ساری دنیا مبتلا تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: جب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوّت کی عظیم ذمہ داریاں سونپی گئیں تو شروع میں آپ نے اُن کا زبردست بوجھ محسوس فرمایا، اس بوجھ کی وجہ سے شروع میں آپ بے چین رہتے تھے، لیکن پھر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ حوصلہ عطا فرمایا جس کے نتیجے میں آپ نے مشکل سے مشکل کام انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دیئے، اس سورت میں اﷲ تعالیٰ کے اِسی انعام کا تذکرہ ہے۔