Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہیں آپ کا نام بھی آتا ہے، مثلا اذان، نماز، دیگر بہت سے مقامات پر، گزشتہ کتابوں میں آپ کا تذکرہ اور صفات کی تفصیل ہے۔ فرشتوں میں آپ کا ذکر خیر ہے آپ کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور اپنی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت کا بھی حکم دیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] آپ کا ذکر بلند ہونے کے مختلف ذرائع پہلا ذریعہ خود کفار مکہ تھے :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر خیر کی بلندی کا آغاز ابتدائے نبوت ہی سے شروع ہوگیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ ہی سے لیا۔ مثل مشہور ہے۔ عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد (یعنی بعض دفعہ دشمن بھی ایس شرارتیں کرنے لگتا ہے جس میں ہماری بھلائی ہوتی ہے) کفار مکہ نے اسلام کو زک پہنچانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے سدباب کے طور پر جو ذریعے اختیار کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ حج کے موقعہ پر تمام عرب قبائل حج کی غرض سے مکہ آتے تھے تو کفار نے آپس میں یہ طے کیا کہ ان وفود کو مل کر انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے متنفر کیا جائے اور کہا جائے کہ کہیں فلاں شخص کے دام فریب میں نہ آجانا۔ اس کے پاس ایسا جادو ہے جو بھائی کو بھائی سے، باپ کو بیٹے سے اور بیوی کو شوہر سے جدا کردیتا ہے۔ چناچہ اس سلسلہ میں کافروں کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مہم چلاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدنام کرتے تھے لیکن باہر سے آنے والے لوگ بھی آخر اتنے بدھو تو نہیں ہوتے تھے جو فوراً کافروں کی بات کا یقین کرلیتے۔ لہذا ان کی اس مخالفانہ مہم کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو فائدے پہنچے۔ ایک یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر عرب کے کونے کونے میں ہونے لگا۔ دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ جس شخص کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کی اصل حقیقت تو معلوم کرنی چاہیے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پیشتر عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہیں رہا تھا جس میں کوئی نہ کوئی مسلمان موجود نہ ہو اور وہاں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جاتا ہو۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جس طرح لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار ضروری تھا۔ اسی طرح مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار بھی ضروری تھا۔ علاوہ ازیں مکہ میں تو آپ کے دشمن صرف قریش مکہ تھے مگر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف گروہ ایک کے بجائے چار بن گئے۔ ایک قریش مکہ، دوسرے یہود مدینہ، تیسرے مدینہ اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور چوتھے منافقین جو مدینہ کے علاوہ دوسری بستیوں میں بھی موجود تھے۔ اور ان کی ہمدردیاں ہر دشمن اسلام گروہ سے وابستہ ہوتی تھیں۔ انہوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے قریش مکہ کی روش اور اس سے ملتے جلتے طریقے اختیار کیے اور یہ سب لوگ آپ کو بدنام کرنے میں سرگرم تھے۔ لیکن ان کے نتائج بھی ان کی توقعات کے برعکس برآمد ہوئے اور دس سال کے قلیل عرصہ میں سارا عرب مسلمان ہو کر دن میں کئی کئی بار لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللّٰہ کی صدائیں بلند کرنے لگا۔ اذان میں، اقامت (تکبیر تحریمہ) میں، درود میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر لازمی تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اسلامی تحریک عرب سے باہر نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر یہ حالت ہوگئی کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اوقات اذان و نماز کی وجہ سے غالباً دن میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کا آوازہ بلند نہ کیا جارہا ہو اور یہ سلسلہ تاقیامت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ پیشینگوئی اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی تھی جب مکہ کے لوگوں کے علاوہ آپ کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔ اور وہ بھی آپ کے دشمن اور آپ کی ہستی کو دنیا سے ختم کردینے پر تلے ہوئے تھے۔ قرآن کی یہ پیشینگوئی خود قرآن کی صداقت پر کھلا ہوا ثبوت ہے۔ اس وقت کون یہ اندازہ کرسکتا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر اس شان کے ساتھ اور اتنے وسیع پیمانے پر ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ورفعنا لک ذکرک : یعنی دنیا اور آخرت میں اپ کا نام بلند کیا، زمین کے مشرق و مغرب تک آپ کی امت کی حکومت پھیلا دی، کلمہ شہادت، اذان، اقامت اور خطبہ و تشہد وغیرہ میں اللہ کے نا م کے ساتھ آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ اللہ کی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت فرض ہے، کوئی وقت ایسا نہیں جس میں کہیں نہ کہیں آپ کا ذکر خیر نہ ہو رہا ہے۔ قیامت کو اولاد آدم کی سیادت ، کوثر، لواء الحمد، مقام محمود اور شفاعت کبریٰ کے ساتھ آپ کا ذکر بلند ہوگا۔- (٢) یہاں تین نعمتوں کا ذکر ہے، شرح صدر، وضع وزر اور رفع ذکر، تینوں کو بیان کرتے ہوئے ” لک “ یا ” عنک “ فرمایا، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت افزائی کا اظہار ہو رہا ہے کہ یہ سب کچھ آپ کی خاطر کیا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ورفعنا لک ذکر ک، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع ذکر یہ ہے کہ تمام اسلامی شعائر میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک لیا جاتا ہے جو ساری دنیا میں مناروں اور منبروں پر اشھد ان لا الہ الہ اللہ کے ساتھ اشھد ان محمداً رسول اللہ پکارا جاتا ہے اور دنیا میں کوئی سمجھدار انسان آپ کا نام بغیر تعظیم کے نہی لیتا اگرچہ وہ مسلمان بھی نہ ہو۔ - فائدہ :۔ یہاں تین نعمتوں کا ذکر ہے شرح صدر، وضع وزر، رفع ذکر، ان تینوں کو تین جملوں میں ذکر فرمایا ہے اور سب میں فعل اور مفعول کے درمیان ایک حرف لک یا عنک لایا گیا ہے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت اور خاص عظمت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب کام آپ کی خاطرکئے گئے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ۝ ٤ ۭ- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :3 یہ بات اس زمانہ میں فرمائی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس فرد فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں اس کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہو گا اور کیسی ناموری اس کو حاصل ہو گی ۔ لیکن اللہ تعالی نے ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اس کو پورا کیا ۔ سب سے پہلے آپ کے رفع ذکر کا کام اس نے خود آپ کے دشمنوں سے لیا ۔ کفار مکہ نے آپ کو زک دینے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ کھچ کھچ کر ان کے شہر میں آتے تھے ، اس زمانہ میں کفار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نامی ہے جو لوگوں پر ایسا جادو کرتا ہے کہ باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے ، اس لیے ذرا اس سے بچ کر رہنا ۔ یہی باتیں وہ ان سب لوگوں سے بھی کہتے تھے جو حج کے سوا دوسرے دنوں میں زیادرت ، یا کسی کاروبار کے سلسلے میں مکہ آتے تھے ۔ اس طرح اگرچہ وہ حضور کو بدنام کر رہے تھے ، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے میں آپ کا نام پہنچ گیا اور مکہ کے گوشہ گمنامی سے نکال کر خود دشمنوں نے آپ کو تمام ملک کے قبائل سے متعارف کرا دیا ۔ اس کے بعد یہ بالکل فطری امر تھا کہ لوگ یہ معلوم کریں کہ وہ شخص ہے کون؟ کیا کہتا ہے؟ کیسا آدمی ہے؟ اس کے جادو سے متاثر ہونے والے کون لوگ ہیں اور ان پر اس کے جادو کا آخر کیا اثر پڑا ہے؟ کفار مکہ کا پروپیگنڈا جتنا جتنا بڑھتا چلا گیا لوگوں میں یہ جستجو بڑھتی چلی گئی ۔ پھر جب اس جستجو کے نتیجے میں لوگوں کو آپ کے اخلاق اور آپ کی سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا ، جب لوگوں نے قرآن سنا اور انہیں پتہ چلا کہ وہ تعلیمات کیا ہیں جو آپ پیش فرما رہے ہیں ، اور جب دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جس چیز کو جادو کہا جا رہا ہے اس سے متاثر ہونے والوں کی زندگیاں عرب کے عام لوگوں کی زندگیوں سے کس قدر مختلف ہو گئی ہیں ، تو وہی بد نامی نیک نامی سے بدلتی شروع ہو گئی ۔ حتی کہ ہجرت کا زمانہ آنے تک نوبت یہ پہنچ گئی کہ دور و نزدیک کے عرب قبائل میں شاید ہی کوئی قبلیہ ایسا رہ گیا ہو جس میں کسی نہ کسی شخص یا کنبے نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو ، اور جس میں کچھ نہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کی دعوت سے ہمدردی و دلچسپی رکھنے والے پیدا نہ ہو گئے ہوں ۔ یہ حضور کے رفع ذکر کا پہلا مرحلہ تھا ۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں ایک طرف منافقین یہود اور تمام عرب کے اکابر مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے میں سرگرم تھے ، اور دوسری طرف مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست خدا پرستی و خدا ترسی ، زہد و تقوی ، طہارت اخلاق ، حسن معاشرت ، عدل و انصاف ، انسانی مساوات ، مالداروں کی فیاضی ، غریبوں کی خبر گیری ، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں راستبازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا رہا تھا ۔ دشمنوں نے جنگ کے ذریعہ سے حضور کے اس بڑھتے ہوئے اثر کو مٹانے کی کوشش کی مگر آپ کی قیادت میں اہل ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی اس نے ا پنے نظم و ضبط ، اپنی شجاعت ، اپنی موت سے بے خوفی ، اور حالت جنگ تک میں اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری اس طرح ثابت کر دی کہ سا رے عرب نے ان کا لوہا مان لیا ۔ 10 سال کے اندر حضور کا رفع ذکر اس طرح ہوا کہ وہی ملک جس میں آپ کو بدنام کرنے کے لیے مخالفین نے اپنا سارا زور لگایا تھا اس کا گوشہ گوشہ اشھد ان محمداً رسول اللہ کی صدا سے گونج اٹھا ۔ پھر تیسرے مرحلے کا افتتاح خلافت راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ کا نام مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہو گیا ۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتاجا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا ۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں بآواز بلند محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو ، نمازوں میں حضور پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو ، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جا رہا ہو ، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضور کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو ۔ قرآن کی صداقت کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ و رفعنا لک ذکرک اس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ رفع ذکر اس شان سے اور اتنے بڑے پیمانے پر ہو گا ۔ حدیث میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جبریل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رفع ذکر کیا ؟ میں نے عرض کیا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جا ئے گا ۔ ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، مسند ابو یعلی ، ابن المنذر ، ابن حبان ، ابن مردویہ ، ابو نعیم ۔ بعد کی پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اﷲ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک نام کو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ دُنیا کے ہر خطے میں پانچ وقت آپ کا مبارک نام اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مسجدوں سے بلند ہوتا ہے۔ نیز آپ کے مبارک تذکرے دُنیا بھر میں انتہائی عقیدت کے ساتھ ہوتے ہیں، اور اُنہیں ایک عظیم عبادت قرار دیا جاتا ہے۔ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَ بَارَکَ وَسَلَّمَ۔