[٤] ان دو آیات میں بہ تکرار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر اس وقت آپ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں تو عنقریب مصائب کے یہ بادل چھٹ جائیں گے اور اتنی ہی آپ کو سہولتیں اور آسانیاں میسر آئیں گی۔ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ تنگی کے بعد آسانی ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت جلد یہ صورت حال بدل جانے والی ہے۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مسلمانوں کو تسلی بھی دے دی گئی کہ وہ یہ مشکل وقت حوصلہ اور صبر کے ساتھ برداشت کریں بس تھوڑی ہی دیر بعد کایا پلٹ جانے والی ہے۔
(١) فان مع العسر یسراً …: اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے لئے بشارت ہے کہ مشکلات کے دن تھوڑے ہیں، ہر مشلک کے بعد بلکہ اس کے ساتھ ہی آسانی شروع ہوجاتی ہے۔” ان مع العسر یسراً “ کا یہی مطلب ہے۔ دوسری بشارت یہ ہے کہ ایک ایک مشکل کے ساتھ دو دو آسانیاں ہیں۔ ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے ان کی سند کے ساتھ حسن بصری (رح) کا قول نقل کیا ہے، انہوں نے فرمایا :” کانوا یقولون لا یغلب عسر واحد یسرین اثنین “” وہ (صحابہ) کہا کرتے تھے کہ ایک مشکل دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی۔ “ ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ ابن کثیر نے اس کی تفصیل یہ بیان فرمیئا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دہرا کر یہ بات فرمائی ہے :(فان مع العسر یسراً ، ان مع العسر یسراً ) اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ اگر کوئی اسم دوسری دفعہ معرفہ ہو کر آئخے تو اس سے مراد پہلا اسم ہی ہوتا ہے اور اگر وہ پہلے نکرہ آئے اور دوبارہ بھی نکرہ ہو کر آئے تو وہ پہلے نکرہ سے لاگہ وتا ہے۔ یہاں دوسری دفعہ ” العسر “ معرفہ آیا ہے جب کہ ” یسراً “ دوسری دفعہ بھی نکرہ ہو کر آیا ہے، تو معنی یہ ہوا کہ ” اسی پہلی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے ۔ “ یعنی ایک مشکل کے ساتھ دو آسانیاں ہیں۔ اس قاعدے کی ایک مثال سورة مزمل میں ہے، فرمایا :(انا ارسلنا الیکم رسولاً شاھداً علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولاً فعصی فرعون الرسول) (الزمل : ١٥، ١٦)” ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو تم پر شہادت دینے والا ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا، تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی۔ “ پہلے ” رسولاً “ سے مراد ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، دوسرے سے موسیٰ (علیہ السلام) اور تیسرا ” الرسول “ معرفہ آیا ہے اور اس سے مراد وہی رسول ہے جو اس سے پہلے مذکور ہے اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔- (٢) یاد رہے کہ نکرہ کو دوبارہ نکرہ کی صورت میں لانے کا یہ قاعدہ اکثر مفسرین نے بیان کیا ہے، مگر یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ مشہور نحوی ابن ہشام نے ” مغنی اللبیب “ میں اسے خطا قرار دیا ہے، کیونکہ کئی دفعہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس لئے ابن عاشور نے ” التحریر والتنویر “ میں اور زمخشری نے ” کشاف “ میں حسن بصری اور قتادہ کے اقوال اور بعض مرسل روایات میں آنے والی بات کہ ” لن یعلب عسر یسرین “ (ایک مشکل دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آئے گی) کے متعلق فرمایا کہ آیت سے یہ بات اس کے تکرار کی وجہ سے نکلتی ہے، اس قاعدے کی وجہ سے نہیں، پھر دونوں مفسروں نے اپنے اپنے انداز سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔
فان مع العسر یسرٰ ، ان مع العسر یسراً ، عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کلمہ کے شروع میں الف لام ہوتا ہے جس کو اصطلاح میں لام تعریف کہتے ہیں۔ اگر اسی کلمہ کو الف لام ہی کیساتھ مکرر لایا جائے تو اس کا مصداق وہی ہی ہوتا ہے جو پہلے کلمہ کا تھا اور اگر بغیر الف لام تعریف کے مکرر لایا جائے تو دونوں کے مصداق الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس آیت میں العسر جب مکرر آیا تو معلوم ہوا کہ اس سے وہ پہلا ہی عسر مراد ہے کوئی نیا نہیں اور لفظ یسراً دونوں جگہ بغیر الف لام کے لایا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دوسرا یسر پہلے یسر کے علاوہ ہے تو اس آیت میں ان مع العسر یسراً کے تکرار سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایک ہی عسر و مشکل کے لئے دو آسانیوں کا وعدہ ہے اور دو سے مراد بھی خاص دو کا عدد نہیں بلکہ متعدد ہونا مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک عسر یعنی تنگی اور مشکل جو آپ کو پیش آءیا آئے گی۔ اس کے ساتھ بہت سی آسانیاں آپ کو دی جائیں گی۔- حضرت حسن بصری سے مرسلاً روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام کو اس آیت سے بشارت سنائی اور فرمایا لن یغلب عسر یسرین یعنی ایک عسر دو یسروں پر (ایک مشکل دو آسانیوں پر) غالب نہیں آسکتی۔ چناچہ تاریخ و سیرت کی سب کتابیں جو اپنوں اور غیروں مسلم و غیر مسلم نے لکھی ہیں وہ اس پر شاہد ہیں کہ جو کام مشکل سے مشکل بلکہ لوگوں کی نظر میں ناممکن نظر آتے تھے آپ کے لئے وہ سب آسان ہوتے چلے گئے۔ روایت مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس آیت میں العسر کا الف لام عہد کے لئے ہے اور مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کا عسر ہے، یعنی یہ وعدہ کہ ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں دی جائیں گی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا عسر ہے، یعنی یہ وعدہ کہ ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں دی جائیں گی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحاب کرام کا عسر ہے، یعنی یہ وعدہ کہ ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں دی جائیں گی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے لئے ہے جس کو حق تعالیٰ نے ایسا پورا فرمایا کہ دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لیا اب اگر دنیا میں کسی شخص کو عسر کے بعد یسر نصیب نہ ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں، البتہ عادة اللہ اب بھی یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور سچے دل سے اللہ پر اعتماد رکھے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اسی سے لو لگائے اور اسی کے فضل کا امیدوار رہے اور کامیابی میں دیر ہونے سے آس نہ توڑ بیٹھے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کے حق میں آسانی کر دے گا (فوائد عثمانیہ) بعض روایات حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ٥ ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ٦ ۭ- عسر - العُسْرُ : نقیض الیسر . قال تعالی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] ، والعُسْرَةُ : تَعَسُّرُ وجودِ المالِ. قال : فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] ، وقال : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] ، وأَعْسَرَ فلانٌ ، نحو : أضاق، وتَعَاسَرَ القومُ : طلبوا تَعْسِيرَ الأمرِ. وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] ، ويَوْمٌ عَسِيرٌ: يتصعّب فيه الأمر، قال : وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] ، يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] ، وعَسَّرَنِي الرّجلُ : طالبني بشیء حين العُسْرَةِ.- ( ع س ر ) العسر - کے معنی تنگی اور سختی کے ہیں یہ یسر ( آسانی فارغ البالی ) کی ضد ہے قرآن میں ہے : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ العسرۃ تنگ دستی تنگ حسالی قرآن میں ہے : ۔ فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] مشکل کی گھڑی میں ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر قرض لینے والا تندست ہو ۔ اور اضاق فلان کی طرح اعسر فلان کے معنی ہیں وہ مفلس اور تنگ حال ہوگیا تعاسر القوم لوگوں نے معاملہ کو الجھا نے کی کوشش کی قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] اور اگر باہم ضد ( اور نااتفاقی ) کرو گے تو ( بچے کو اس کے ) باپ کے ) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ یوم عسیر سخت دن ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] اور وہ دن کافروں پر ( سخت ) مشکل ہوگا ۔ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] مشکل کا دن ( یعنی ) کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔ عسر الرجل تنگدستی کے وقت کسی چیز کا مطالبہ کرنا ۔- يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] وتَيَسَّرَ كذا واسْتَيْسَرَ أي تسهّل، قال : فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] ، فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ- [ المزمل 20] أي : تسهّل وتهيّأ، ومنه : أَيْسَرَتِ المرأةُ ، وتَيَسَّرَتْ في كذا . أي : سهَّلته وهيّأته، قال تعالی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] ، فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ- [ مریم 97] واليُسْرَى: السّهل، وقوله : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] ، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] فهذا۔ وإن کان قد أعاره لفظ التَّيْسِيرِ- فهو علی حسب ما قال عزّ وجلّ : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] . واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً- [ الأحزاب 14] والمَيْسَرَةُ واليَسَارُ عبارةٌ عن الغنی. قال تعالی: فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ- [ البقرة 280] واليَسَارُ أختُ الیمین، وقیل : اليِسَارُ بالکسر، واليَسَرَاتُ : القوائمُ الخِفافُ ، ومن اليُسْرِ المَيْسِرُ.- ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ تیسر کذا واستیسرکے معنی آسان ہو نیکے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کردو ۔ فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل 20] تو جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو ۔ اسی سے الیسرت المرءۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے سہولت سے بچہ جننے کے ہیں ۔ یسرت کذا کے معنی کسی کام آسان اور سہل کردینے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ۔ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم 97] اے پیغمبر یہ قران تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ہے ۔ الیسری اسم بمعنی یسر قرآن پاک میں ہے : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] اس کو ہم آسان طریقے کی توفیقی دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] اسے سختی میں پہنچا ئنگے ۔ میں عسریٰ کے ساتھ تیسیر کا لفظ بطور تحکم لایا گیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] میں عذاب کے متعلق بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن پاک میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً
زندگی میں تنگی اور فراخی - قول باری ہے (فان مع العسریسر ان مع العسر یسرا۔ پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، بیشک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے) ہمیں عبداللہ بن محمد المروزی نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے حسن سے قول باری (ان مع العسر یسرا) کی تفسیر میں بیان کیا کہ ایک دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے (لن یغلب عسر یسرین، لن یغلب عسر یسرین ان مع العسریسرا۔ ایک تنگی دو فراخی پر غالب نہیں آسکتی، ایک تنگی دو فراخی پر غالب نہیں آسکتی۔ بیشک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے جس تنگی کا ابتداء میں ذکر کیا ہے، دوسری مرتبہ ذکر سے یہی تنگی مراد ہے کیونکہ یہ معرف باللام سے اسی بنا پر دوسری تنگی بھی اسی تنگی کی طرف راجع ہوگی جس کا ذکر ہوچکا ہے اور جو معہود یعنی معلوم ہے۔ اس کے بالمقابل فراخی کو یسر یعنی اسم نکرہ کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔- اس بنا پر پہلی فراخی دوسری فراخی سے مختلف ہوگی۔ اگر دوسری فراخی سے پہلی فراخی مراد ہوتی تو اسے معروف باللام کی صورت میں ذکر کیا جاتا ۔