فَلْيَدْعُ نَادِيَہٗ ١٧ ۙ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - نادِيَ- وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔
(17 ۔ 19) ۔ سو یہ ابوجہل اپنی قوم اور اپنے ساتھیوں کو بلالے ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلالیں گے۔ آپ کو ابوجہل جو نماز سے روکتا ہے آپ اس کا کہنا نہ مانیے اور نماز پڑھیے اور سجدہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے رہیے۔- شان نزول فلیدع نادیہ الخ۔- اور ترمذی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے تو ابوجہل آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کیا میں نے آپ کو اس سے منع نہیں کیا تھا حضور نے اس کو جھڑک دیا تو کہنے لگا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میرے سے بڑا مجمع اور کسی کے ساتھ نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔ فلیدع نادیہ الخ۔- امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
سورة العلق حاشیہ نمبر : 14 جیسا کہ ہم نے دیباچہ میں بیان کیا ہے ابو جہل کے دھمکی دینے پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جھڑک دیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ اے محمد ، تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو ، خدا کی قسم اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ یہ بلا لے اپنے حمایتیوں کو ۔