(6) حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل گزرا تو کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے تجھے نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا ؟ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت دھمکی آمیز باتیں کیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کڑا جواب دیا تو کہنے لگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو مجھے کس چیز سے ڈراتا ہے ؟ اللہ کی قسم، اس وادی میں سب سے زیادہ میرے حمایتی اور مجسل والے ہیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابن عباس (رض) عنھما فرماتے ہیں، اگر وہ اپنے حمایتیوں کو بلاتا تو اسی وقت ملائکہ عذاب اسے پکڑ لیتے۔ (ترمذی، تفسیر سورة اقرأ مسند أحمد 329 1 و تفسیر ابن جریر) اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں کہ اس نے آگے بڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن پر پیر رکھنے کا رادہ کیا کہ ایک دم الٹے پاؤں پیچھے ہٹا اور اپنے ہاتھوں سے اپنا بچاؤ کرنے لگا، اس سے کہا گیا، کیا بات ہے ؟ اس نے کہا کہ " میرے اور محمد (صلی اللہ علیہ صلم) کے درمیان آگ کی خندق، ہولناک منظر اور بہت سارے پر ہیں " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اگر یہ میرے قریب ہوتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتے (کتاب صفۃ القیامۃ، باب ان الأنسان لیطغیٰ ) الزبانیۃ، داروغے اور پولیس۔ یعنی طاقتو لشکر، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
[١٢] اس آیت کا سبب نزول درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کعبہ میں) نماز پڑھا کرتے تھے۔ ابو جہل آیا اور کہنے لگا : کیا میں تمہیں اس کام سے منع نہیں کرچکا۔ تین بار اس نے یہ الفاظ دہرائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوئے تو اسے سخت سست کہا۔ ابو جہل کہنے لگا : یہ تو تم جانتے ہو کہ کسی کے ہم نشین مجھ سے زیادہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وہ اپنے ہم نشین بلا لے، ہم دوزخ کے فرشتے بلاتے ہیں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم اگر وہ اپنے ہم نشین بلاتا تو اللہ کے فرشتے اسے پکڑ لیتے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) - خ زبانیہ کا لغوی مفہوم :۔ الزبانیۃ۔ زبانیہ سے مراد بالاتفاق دوزخ کے عذاب دینے والے فرشتے ہیں۔ زبانی العقرب بمعنی بچھو کا ڈنگ۔ اس لحاظ سے ایسے فرشتے مراد ہیں جو سخت دکھ دینے والے اور بےرحم ہونگے۔ نیز زبانیۃ سے مراد پولیس بھی ہے اور یہ قتادۃ کا قول ہے اور زبن کے معنی دھکے دے کر نکال دینا بھی ہے۔ جیسے بادشاہوں اور بڑے لوگوں کے ہاں چوبدار ہوتے ہیں جو اس غرض سے رکھے جاتے ہیں کہ جس سے سرکار ناراض ہو اسے دھکے مار کر نکال دیں۔ مراد یہ ہے کہ ابو جہل اپنی مجلس کے لوگوں کو جس پر اسے بڑا ناز ہے بلاکر دیکھ لے ہم عذاب دینے والے فرشتوں سے ان کی بری طرح گت بنادیں گے۔
سَـنَدْعُ الزَّبَانِيَۃَ ١٨ ۙ- سندع : حذف منه حرف العلّة۔ لام الفعل۔ من رسم المصحف بسبب قراءة الوصل - ( الزبانية)- ، جمع زبنية، بکسر أوّله وسکون ثانيه وکسر ثالثة وتخفیف الیاء، وهو من الزبن أي الدفع أو هو جمع زبنيّ علی النسب وأصله زبانيّ بتشدید الیاء ثمّ جاءت التاء عوضا من الیاء .. وجاء في القاموس : الزبنية كهبرية، متمرّد الجنّ والإنس والشدید والشرطيّ ، جمعه زبانية أو واحدها زبنيّ.( اعراب القرآن)
سورة العلق حاشیہ نمبر : 15 اصل میں زبانیہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو قتادہ کی تشریح کے مطابق کلام عرب میں پولیس کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اور زبن کے اصل معنی دھکا دینے کے ہیں ۔ بادشاہوں کے ہاں چوبدار بھی اسی غرض کے لیے ہوتے تھے کہ جس پر بادشاہ ناراض ہو اسے وہ دھکے دے کر نکال دیں ۔ پس اللہ تعالی کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنے حمایتیوں کو بلا لے ، ہم اپنی پولیس ، یعنی ملائکہ عذاب کو بلا لیں گے کہ وہ اس کی اور اس کے حمایتیوں کی خبر لیں ۔
5: شروع میں جب ابوجہل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نماز سے روکا تھا تو آپ نے اسے جھڑک دیا تھا۔ اُس پر ابوجہل نے کہا تھا کہ مکہ میں میری مجلس میں بڑا مجمع ہوتا ہے، وہ سب میرے ساتھ ہیں، اُس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے لئے اپنی مجلس والوں کو بلائے گا تو ہم دوزخ کے فرشتوں کو بلالیں گے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ ابوجہل آپ کو تکلیف پہنچانے کے لئے بڑھا تو تھا لیکن پھر رک گیا۔ ورنہ فرشتے اسکی بوٹیاں بوٹیاں نوچ ڈالتے (الدرلمنثور)