Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] سجدہ کی فضیلت :۔ یعنی اس بدکردار شخص کی بات مان کر کعبہ میں نماز کی ادائیگی سے رکنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسی طرح نماز ادا کرتے رہو۔ جیسے پہلے ادا کرتے رہے ہو۔ واضح رہے کہ یہاں سجدہ سے مراد صرف سجدہ نہیں بلکہ نماز ہے اور عربوں کا قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزء اشرف بول کر اس سے کل یا اصل چیز مراد لیتے ہیں اور بتایا یہ جارہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس قدر نمازیں ادا کریں گے اتنا ہی زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوگا۔ لہذا نمازیں بکثرت ادا کیا کیجیے۔ سجدہ کی فضیلت سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ ربیعہ بن کعب اسلمی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں ہی رات کو رہا کرتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاجت اور وضو کے لیے پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے۔ میں نے عرض کیا جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت چاہتا ہوں آپ نے پوچھا : کچھ اور بھی ؟ میں نے عرض کیا : بس یہی کچھ چاہتا ہوں آپ نے فرمایا : اچھا تو کثرت سجود کو اپنے اوپر لازم کرلو اور اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود والحث علیہ) - ٢۔ اس سورة کے اختتام پر بھی سجدہ تلاوت کرنا چاہیے۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سورت ( اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ ۝ ۙ ) 84 ۔ الانشقاق :1) اور سورة اقراء میں سجدہ کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) کلا لاتطعہ واسجد واقترب : فرمایا : وہ آپ کو نماز سے روکتا ہے تو آپ اس کا کہنا ہرگز نہ مانیں، بلکہ آپ نماز پڑھتے، سجدہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کا رقب حاصل کرتے رہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فاکثرو الدعائ) (مسلم ، الصلاۃ ، باب ما یقال فی الرکوع و السجود ؟: ٣٨٢)” بندہ اللہ کے سب سے زیادہق ریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو تو تم (سجدے میں ) دعا زیادہ کا یک رو۔ “ صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت پر سکدہ کرتے تھے۔ (دیکھیے مسلم، المساجد، باب سجود التلاوۃ : ١٠٨ ٥٨٨)- (٢) اگرچہ ان آیات کا اولین مصداق ابوجہل ہے، مگر الفاظ عام ہونے کی وجہ سے ہر وہ شخص ان کا مصداق ہے جس میں یہ سجدہ کرتا رہے اور اس کا قرب تلاش کرتا رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

کلا لا تطعہ و اسجد و اقترب یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت ہے کہ ابوجہل کی بات پر کان نہ دھریں اور سجدہ اور نماز میں مشغول رہیں کہ یہی اللہ تعالیٰ کے قرب کا راستہ ہے۔- سجدے کی حالت میں قبولیت دعائ :۔ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اقرب مایکون العبد من ربہ وہوساجد فاکتروا الدعائ، یعنی بندہ اپنے رب سے قریب تر اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ سجدہ میں ہو اس لئے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو اور ایک دوسری صحیح حدیث میں یہ لفظ بھی آئے ہیں فانہ قمن ان یستجاب لکم، یعنی سجدے کی حالت میں دعا قبول ہونے کے لائق ہے۔- مسئلہ :۔ نفل نمازوں کے سجدہ میں دعا کرنا ثابت ہے، بعض روایات حدیث میں اس دعا کے خاص الفاظ بھی آئے ہیں وہ الفاظ ماثورہ پڑھے جائیں تو بہتر ہے۔ فرائض میں اس طرح کی دعائیں ثابت نہیں، کیونکہ فرائض میں اختصار مطلوب ہے۔- مسئلہ :۔ اس آیت کو پھڑنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت پر سجدہ تلاوت کرنا ثابت ہے۔ واللہ اعلم - تمت سورة العلق 5 رمضان سہ 1391 ھ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَلَّا۝ ٠ ۭ لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ۝ ١٩ ۧ۞- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ۔ ” کوئی بات نہیں (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کی بات نہ مانیے ‘ آپ سجدہ کیجیے اور (اللہ سے اور) قریب ہوجایئے “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جھوٹے ‘ غلط کار شخص کی ایک نہ سنیے۔ یہ اگر آپ کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے تو اس کی پروا نہ کیجیے۔ آپ اپنے پروردگار کی جناب میں سجدے کرتے رہیے اور کثرت سجود سے اس کا قرب حاصل کرتے رہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العلق حاشیہ نمبر : 16 سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے ۔ یعنی اے نبی ، تم بے خوف اسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے رہے ہو ، اور اس کے ذریعہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدہ تلاوت ادا فرماتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: یہ بڑا پیار بھرا فقرہ ہے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنسان کو سجدے کی حالت میں اﷲ تعالیٰ کا خاص قرب عطا ہوتا ہے۔ یہ آیت سجدے کی آیت ہے، اور اس کی تلاوت کرنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔