ساری مخلوق سے بہتر اور بدتر کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کافروں کا انجام بیان فرماتا ہے وہ کافر خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین عرب و عجم ہوں جو بھی انبیاء اللہ کے مخالف ہوں اور کتاب اللہ کے جھٹلانے والے ہوں وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں ڈال دئیے جائیں گے اور اسی میں پڑے رہیں گے نہ وہاں سے نکلیں گے نہ رہا ہوں گے یہ لوگ تمام مخلوق سے بدتر اور کمتر ہیں پھر اپنے نیک بندوں کے انجام کی خبر دیتا ہے جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جو اپنے جسموں سے سنت کی بجا آوری میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں کہ یہ ساری مخلوق سے بہتر اور بزرگ ہیں اس آیت سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ ایمان والے انسان فرشتوں سے بھی افضل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان کا نیک بدلہ ان کے رب کے پاس ان لازوال جنتوں کی صورت میں ہے جن کے چپے چپے پر پاک صاف پانی کی نہریں بہہ رہی ہیں جن میں دوام اور ہمیشہ کی زندگی کے ساتھ رہیں گے نہ وہاں سے نکالے جائیں نہ وہ نعمتیں ان سے جدا ہوں نہ کم ہوں نہ اور کوئی کھٹکا ہے نہ غم پھر ان سب سے بڑھ چڑھ کر نعمت و رحمت یہ ہے کہ رضائے رب مرضی مولا انہیں حاصل ہو گئی ہے اور انہیں اس قدر نعمتیں جناب باری نے عطا فرمائی ہیں کہ یہ بھی دل سے راضی ہوگئے ہیں پھر ارشاد فرماتا ہے کہ یہ بہترین بدلہ یہ بہت بڑی جزاء یہ اجر عظیم دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہنے کا عوض ہے ہر وہ شخص جس کے دل میں ڈر ہو جس کی عبادت میں اخلاص ہو جو جانتا ہو کہ اللہ کی اس پر نظریں ہیں بلکہ عبادت کے وقت اس مشغولی اور دلچسپی سے عبادت کر رہا ہو کہ گویاخود وہ اپنی آنکھوں سے اپنے خالق مالک سچے رب اور حقیقی اللہ کو دیکھ رہا ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بہتر شخص کون ہے؟ لوگوں نے کہا ضرور فرمایا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگا تھامے ہوئے ہے کہ کب جہاد کی آواز بلند ہو اور کب میں کود کر اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاؤں اور گرجتا ہوا دشمن کی فوج میں گھسوں اور داد شجاعت دوں لو میں تمہیں ایک اور بہترین مخلوق کی خبر دوں وہ شخص جو اپنی بکریوں کے ریوڑ میں ہے نہ نماز کو چھوڑتا ہے نہ زکوہ سے جی چراتا ہے آؤ اب میں بدترین مخلوق بتاؤں وہ شخص کہ اللہ کے نام سے سوال کرے اور پھر نہ دیا جائے سورہ لم یکن کی تفسیر ختم ہوئی ، اللہ تعالیٰ کا شکرو احسان ہے ۔
6۔ 1 یہ اللہ کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والوں کا انجام۔ نیز انہیں تمام مخلوقات میں بدترین قرار دیا گیا۔
[٨] کفر کے درجے :۔ کفر کے سو درجے ہیں اور ہر درجہ ایک دوسرے سے کم و بیش ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ کی ذات کا سرے سے انکار کردینا بھی کفر ہے۔ نماز کو عمداً چھوڑ دینا بھی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں قسم کے کفر ایک جیسے تو نہیں ہوسکتے۔ یہود اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں حتیٰ کہ آخرت پر بھی پورا پورا ایمان رکھتے تھے۔ مگر ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے اور پیارے ہیں اور ہمیں بس چند دن ہی آگ چھوئے گی۔ تو اللہ نے ان کے اس عقیدہ کو بھی کفر سے تعبیر کیا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ ان کا کفر مشرکوں کے کفر سے کم تر درجہ کا ہے جو سرے سے انسان کی دوبارہ زندگی کے ہی قائل نہ تھے۔ اس آیت میں کفر کی سب قسمیں مراد ہیں۔
(ان الذین کفروا من اھل الکتب…:” البریۃ “ ” بر یبراً برآء و بروعاً “ (ف) (پیدا کرنا) سے ” فعلۃ “ کے وزن پر اسم مفعول کے معنی میں ہے، مخلوق یعنی یہ لوگ تمام مخلوق حتیٰ کہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں، جیسا کہ فرمایا :(اولئک کالا نعام بل ھم اضل) (الاعراف : ١٨٩)” یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ “ کیونکہ وہ جان بوجھ کر حق کی مخالفت کر رہے ہیں۔
رضی اللہ عنھم ورضواعنہ، ذلک لمن خشی ربہ، اس آیت میں اہل جنت کی سب سے بڑی نعمت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اب ناراضی کا کوئی خطرہ نہیں۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے خطاب کے لئے فرمائیں گے۔ یا اہل الجنہ، تو اہل جنت جواب دیں گے۔ لبیک ربنا وسعدیک والخیر کلہ فی یدیک یعنی اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں اور اطاعت حکم کے لے تیار ہیں اور ہر بھلائی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پھر حق تعالیٰ فرمائیں گے ھل رضیتم یعنی تم لوگ راضی اور خوش ہو وہ جواب دیں گے، اے ہمارے پروردگار، اب بھی راضی نہ ہونے کا کیا احتمال ہے جبکہ آپ نے ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما دیا جو کسی مخلوق کو نہیں ملا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ کیا میں تم کو اس سے بھی افضل اور بہتر نعمت دے دوں، پھر فرمائیں گے کہ میں نے اپنی رضا تمہارے اوپر نازل کردی اب کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا (رواہ البخاری و مسلم۔ مظہری) - اس حدیث میں بھی اہل جنت سے پوچھا گیا کہ آپ راضی بھی ہو، اور اس آیت میں خبر دی گئی کہ رضوا عنہ یعنی اہل جنت بھی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں گے، یہاں بظاہر یہ سوال ہوتا ہے کہ اللہ سے اور اس کے ہر حکم اور ہر فعل سے راضی ہونا تو فرائض بندگی اور لازمہ عبدیت ہے اس کے بغیر تو کوئی جنت میں جا ہی نہیں سکتا، پھر یہاں اہل جنت کی رضامندی ذکر کرنے کا کیا مطلب ہے، جواب یہ ہے کہ رضاء کے عام مفہوم کے اعتبار سے تو یہ صحیح ہے کہ رضاء بالقدر واجبات و فرائض عبدیت میں سے ہے لیکن رضاء کا ایک درجہ اور بھی ہے جو اس سے آگے ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی ہر مراد عطا کردیں اور کوئی تمنا و آرزو باقی نہ چھوڑیں، اس جگہ رضا سے یہی مراد ہے جیسے سورة ضحیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے آیا ہے لسوف یعطیک ربک فترضی یعنی عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو دیں گے وہ چیز جس سے آپ راضی ہوجائیں گے، یہاں بھی مراد غایت تمنا کا پورا کردینا ہے اسی لئے آیت کے نزول پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر تو میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ایک بھی مومن جہنم میں باقی رہے گا۔ (من المظہری)
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِيَّۃِ ٦ ۭ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] ، وقد تقدّم تحقیق الشّرّ مع ذکر الخیر وذکر أنواعه ورجل شَرٌّ وشِرِّيرٌ: متعاط للشّرّ ، وقوم أَشْرَارٌ ، وقد أَشْرَرْتُهُ : نسبته إلى الشّرّ ، وقیل : أَشْرَرْتُ كذا : أظهرته واحتجّ بقول الشاعر :إذا قيل : أيّ الناس شرّ قبیلة ... أشرّت كليبٌ بالأكفّ الأصابعفإن لم يكن في هذا إلّا هذا البیت فإنه يحتمل أنها نسبت الأصابع إلى الشّرّ بالإشارة إليه، فيكون من : أشررته : إذا نسبته إلى الشّرّ ، والشُّرُّ بالضّمّ خصّ بالمکروه، وشَرَارُ النّار : ما تطایر منها، وسمّيت بذلک لاعتقاد الشّرّ فيه، قال تعالی: تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] .- ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں شر کا اصل معنی اور اس کے جملہ اقسام خیر کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں ۔ رجل شریر و شریر شریر آدمی و قوم اشرار برے لوگ اشررتہ کسی کی طرف شر کی نسبت کرنا بعض نے کہا ہے کہ اشررت کذا کے معنی کسی چیز کو ظاہر کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شاعر کے اس قول سے استدلال کیا ہے ( الطویل ) ( 256 ) اذا قیل ای الناس شر قبیلۃ اشرت کلیب بالاکف الاصابعا جب یہ پوچھا جائے کہ کو نسا قبیلہ سب سے برا ہے تو ہاتھ انگلیوں سے بنی کلیب کی طرف اشارہ کردیتے مگر اس شعر کے علاوہ اس معنی پر اگر اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہاں اشرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ ساتھ انگلیوں سے ان کی طرف شر کی نسبت کردیتے ہیں الشر ( بضمہ الشین ) شر مکروہ چیز شرار النار آگ کی چنگاری ۔ آگ کی چنگاری کو شرار اسلئے کہتے ہیں کہ اس سے بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے قرآن ؎ میں ہے تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی ( اتنی اتنی بڑی ) چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل - بَرِيَّة- : الخلق، قيل : أصله الهمز فترک وقیل : بل ذلک من قولهم : بریت العود، وسمّيت بريّة لکونها مبريّة من البری أي : التراب، بدلالة قوله تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ غافر 67] ، وقوله تعالی: أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ [ البینة 7] ، وقال : شَرُّ الْبَرِيَّةِ [ البینة 6] .- البریۃ کے معنی مخلوق کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مہموز ہے لیکن ہمزہ کو ترک ( یا ادغام ) کردیا گیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ برت القوس سے مشتق ہے اور مخلوق کو بریۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ البریٰ یعنی مٹی سے پیدا کی گئی ہے ۔ جیسا کہ آیت ؛۔ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ( سورة فاطر 11) سے معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ( سورة البینة 7) یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں ۔
سورة البینہ حاشیہ نمبر : 8 یہاں کفر سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کرنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے اس رسول کے آجانے کے بعد اس کو نہیں مانا جس کا وجود خود ایک دلیل روشن ہے اور جو بالکل درست تحریروں پر مشتمل پاک صحیفے ان کو پڑھ کر سنا رہا ہے ، ان کا انجام وہ ہے جو آگے بیان کیا جارہا ہے ۔ سورة البینہ حاشیہ نمبر : 9 یعنی خدا کی مخلوقات میں ان سے بد تر کوئی مخلوق نہیں ہے حتی کہ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں ، کیونکہ جانور عقل اور اختیار نہیں رکھتے ، اور یہ عقل اور اختیار رکھتے ہوئے حق سے منہ موڑتے ہیں ۔