مرحلہ وار قیامت: زمین اپنے نیچے سے اوپر تک کپکپانے لگے گی اور جتنے مردے اس میں ہیں سب نکال پھینکے گی ۔ جیسے اور جگہ ہے ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ Ǻ ) 22- الحج:1 ) لوگو اپنے رب سے ڈرو یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ اس دن کا بھونچال بڑی چیز ہے اور جگہ ارشاد ہے ( وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ Ǽۙ ) 84- الانشقاق:3 ) جبکہ زمین کھینچ کھانچ کر برابر ہموار کر دی جائیگی اور اس میں جو کچھ ہے وہ اسے باہر ڈال دے گی اور بالکل خالی ہو جائیگی صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو اگل دے گی سونا چاندی مل ستونوں کے باہر نکل پڑے گا قاتل اسے دیکھ کر افسوس کرتا ہوا کہے گا کہ ہائے اسی مال کے لیے میں نے فلاں کو قتل کیا تھا آج یہ یوں ادھر ادھر بکھر رہا ہے کوئی آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہیں اسی طرح صلہ رحمی توڑنے والا بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں آ کر رشتہ داروں سے میں سلوک نہیں کرتا تھا چور بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں میں نے ہاتھ کٹوا دئیے تھے غرض وہ مال یونہی بکرا پھرے گا کوئی نہیں لے گا انسان اس وقت ہلکا بکا رہ جائیگا اور کہے گا یہ تو ہلنے جلنے والی نہ تھی بلکہ ٹھہیر ہوئی بوجھل اور جمی ہوئی تھی اسے کیا ہو گیا کہ یوں بید کی طرح تھرانے لگی اور ساتھ ہی جب یدکھے گا کہ تمام پہلی پچھلی لاشیں بھی زمین نے اگل دیں تو اور حیران و پریشان ہو جائیگا کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے؟ پس زمین بالکل بدل دی جائیگی اور آسمان بھی اور سب لوگ اس قہار اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے زمین کھلے طور پر صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں زیادتی اس شخص پر کی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا جانتے بھی ہو کہ زمین کی بیان کردہ خبریں کیا ہوں گی لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے تو آپ نے فرمایا جو جو اعمال بنی آدم نے زمین پر کیے ہیں وہ تمام وہ ظاہر کر دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں نیکی یا بدی فلاں جگہ فلاں وقت کی ہے ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں معجم طبرانی میں ہے کہ آپ نے فرمایا زمین سے بچو یہ تمہاری ماں ہے جو شخص جو نیکی بدی اس پر کرتا ہے یہ سب کھول کھول کر بیان کر دے گی یہاں وحی سے مراد حکم دینا ہے اوحی اور اس کے ہم معنی افعال کا صلہ حرف لام بھی آتا ہے الی بھی مطلب یہ ہے کہ اللہ اسے فرمائے گا کہ بتا اور وہ بتاتی جائیگی اس دن لوگ حساب کی جگہ سے مختلف قسموں کی جماعتیں بن بن کر لوٹیں گے کوئی بد ہو گا کوئی نیک کوئی جنتی بنا ہو گا کوئی جہنمی یہ معنی بھی ہیں کہ یہاں سے جو الگ الگ ہوں گے تو پھر اجتماع نہ ہو گا یہ اس لیے کہ وہ اپنے اعمال کو جان لیں اور بھلائی برائی کا بدلہ پا لیں گے اسی لیے آخر میں بھی بیان فرما دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ گھوڑوں والے تین قسم کے ہیں ایک اجر پانے والا ایک پردہ پوشی والا اور ایک بوجھ اور گناہ والا اجر والا تو وہ ہے جو گھوڑا پالتا ہے جہاد کی نیت سے اگر اس کے گھوڑے کی اگاڑی پچھاڑی ڈھیلی ہو گئی اور یہ ادھر ادھر سے چرتا رہا تو یہ بھی گھوڑے والے کے لیے اجر کا باعث ہے اور اگر اس کی رسی ٹوٹ گئی اور یہ ادھر ادھر چلا گیا تو اس کے نشان قدم اور لید کا بھی اسے ثواب ملتا ہے اگر یہ کسی نہر پر جا کر پانی پی لے چاہے پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی ثواب مل جاتا یہ گھوڑا تو اس کے لیے سراسر اجر و ثواب ہے دوسرا وہ شخص جس نے اس لیے پال رکھا ہے کہ دوسروں سے بےپرواہ رہے اور کسی سے سوال کی ضرورت نہ ہو لیکن اللہ کا حق نہ تو خود اس بار میں بھولتا ہے نہ اس کی سواری میں پس یہ اس کے لیے پردہ ہے تیسرا وہ شخص ہے جس نے فخر و ریا کاری اور ظلم و ستم کے لیے پال رکھا ہے پس یہ اس کے ذمہ بوجھ اور اس پر گناہ کا بر ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے آپ نے فرمایا مجھ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سوائے تنہا اور جامع آیت کے اور کچھ نازل نہیں ہوا کہ ذرہ برابر نیکی یا بدی ہر شخص دیکھ لے گا ( مسلم ) حضرت صعصعہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت سن کر کہہدیا تھا کہ صرف یہی آیت کافی ہے اور زیادہ اگر نہ بھی سنوں تو کوئی ضرورت نہیں ( مسند احمد ونسائی ) صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ آگ سے بچو اگرچہ آدھی کھجور کا صدقہ ہی ہو اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ نیکی کے کام کو ہلکا نہ سمجھو گو اتنا ہی کام ہو کہ تو اپنے ڈول میں سے ذرا سا پانی کسی پیاسے کو پلوا دے یا اپنے کسی مسلمان بھائی سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے ملاقات کر لے دوسر یایک صحیح حدیث میں ہے کہ سائل کو کچھ نہ کچھ دے دو گو جلا ہوا کھر ہی ہو مسند احمد کی حدیث میں ہے اے عائشہ گناہوں کو حقیر نہ سمجھو یاد رکھو کہ ان کا بھی حساب لینے والا ہے ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عتالی عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہیت ھے کہ یہ آیت اتری تو حضرت صدیق نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا اور پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ایک ایک ذرے برابر کا بدلہ دیا جائیگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے صدیق دنیا میں جو جو تکلیفیں تمہیں پہنچی ہیں یہ تو اس میں آ گئیں اور نیکیاں تمہارے لیے اللہ کے ہاں ذخیرہ بنی ہوئی ہیں اور ان سب کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن تمہیں دیا جائیگا ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سورت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی آپ اسے سن کر بہت روئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھے یہ سورت رلا رہی ہے آپ نے فرمایا اگر تم خطا اور گناہ نہ کرتے کہ تمہیں بخشا جائے اور معاف کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کسی اور امت کو پیدا کرتا جو خطا اور گناہ کرتے اور اللہ انہیں بخشتا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعال یعنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا مجھے اپنے سب اعمال دیکھنے پڑیں گے آپ نے فرمایا ہاں پوچھا بڑے بڑے فرمایا ہاں پوچھا اور چھوٹے چھوٹے بھی فرمایا ہاں میں نے کہا ہائے افسوس آپ نے فرمایا ابو سعید خوش ہو جاؤ نیکی تو دس گنے سے لے کر سات سوگنے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک اللہ جسے چاہے دے گا ہاں گناہ اسی کے مثل ہوں گے یا اللہ تعالیٰ اسے بھی بخش دے گا سنو کسی شخص کو صرف اس کے اعمال نجات نہ دے سکیں گے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا نہ مجھے ہی مگر یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے اس کے راویوں میں ایک ابن لہیعہ ہیں یہ روایت صرف انہی سے مروی ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب آیت ویطعمون الطعام علی حبہ الخ نازل ہوئی یعنی مال کی محبت کے باوجود مسکین یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں تو لوگ یہ سمجھ گئے کہ اگر ہم تھوڑی سی چیز راہ اللہ دینگے تو کوئی وثاب نہ ملے گا مسکین ان کے دروازے پر آتا لیکن ایک آدھ کھجور یا روٹی کا ٹکڑا وغیرہ دینے کو حقارت خیال کر کے یونہی لوٹا دیتے تھے کہ اگر دیں تو کوئی اچھی محبوب و مرغوب چیز دیں ادھر تو اس خیال کی ایک جماعت تھی دوسری جماعت وہ تھی جنہیں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ ہوگی مثلا کبھی کوئی جھوٹ بات کہہ دی کبھی ادھر ادھر نظریں ڈال لیں کبھی غیبت کر لی وغیرہ جہنم کی وعید تو کبیرہ گناہوں پر ہے تو یہ آیت فمن یعمل نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ چھوٹی سی نیکی کو حقیر نہ سمجھو یہ بڑی ہو کر ملے گی اور تھوڑے سے گناہ کو بھی بےجان نہ سمجھو کہیں تھوڑا تھوڑا مل کر بہت نہ بن جائے ذرہ کے معنی چھوٹ یچیونٹی کے ہیں یعنی نیکیوں اور برائیوں کو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا بدی تو ایک ہی لکھی جاتی ہے نیکی ایک کے بدلے دس بلکہ جس کے لیے اللہ چاہے اس سے بھی بہت زیادہ بلکہ ان نیکیوں کے بدلے برائیاں بھی معاف ہو جاتی ہیں ایک ایک کے بدل دس دس بدیاں معاف ہو جاتی ہیں پھر یہ بھی ہے کہ جس کی نیکی برائی سے ایک ذرے کے برابر بڑھ گئی وہ جنتی ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں گناہوں کو ہلکا نہ سمجھا کرو یہ سب جمع ہو کر آدمی کو ہلاک کر ڈالتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان برائیوں کی مثال باین کی کہ جیسے کچھ لوگ کسی جگہ اترے پھر ایک ایک دو دو لکڑیاں چن لائے تو لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائیگا پھر اگر انہیں سلگایا جائے تو اس وقت اس آگ پر جو چاہیں پکا سکتے ہیں ( اسی طرح تھوڑے تھوڑے گناہ بہت زیادہ ہو کر آگ کا کام کرتے ہیں اور انسان کو جلا دیتے ہیں ) سورۃ اذازلزلت کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد اللہ ۔
1۔ 1 اس کا مطلب ہے سخت بھو نچال سے ساری زمین لرز اٹھے گی اور ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، یہ اس وقت ہوگا جب پہلا نفخہ پھونکا جائے گا۔
[١] یعنی زمین پر لگاتار زلزلے آئیں گے اور یہ علاقائی قسم کے نہیں ہوں گے۔ بلکہ پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ان مسلسل اور متواتر زلزلوں کی وجہ سے زمین میں کوئی نشیب و فراز باقی نہیں رہے گا۔ اور ایسے زلزلے نفخہ صور ثانی کے وقت آئیں گے نفخہ صور اول کے وقت جو زلزلہ آئے گا اس سے قیامت برپا ہوگی اور سب جاندار مخلوق مرجائے گی۔ نفخہ صور ثانی کے وقت شدید زلزلوں سے زمین کے نشیب و فراز ختم کرکے اسے ہموار اور چٹیل میدان بنادیا جائے گا۔ دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں غرضیکہ ہر چیز کو ختم کردیا جائے گا جس سے اس زمین کی ہیئت ہی بدل جائے گی پھر اس پر میدان محشر قائم ہوگا۔
(اذا زلزلت الارض زلزالا :” زلزل یزلزل زلزلۃ و زلزالا “ (فعللہ) سخت لہانا۔ یہاں ” زلزال “ مصدر مفعول کے معنی میں ہے، یعنی سخت ہلایا جانا۔ اس سے مراد دور سے نفخہ کے ساتھ آنے والا زبردست زلزلہ ہے، کیونکہ دور سے نفخہ کے ساتھ ہی مردے قبروں سے نکلیں گے، فرمایا :(ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون) (الزمر : ٦٨) ” پھر اس میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو یک لخت وہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے۔ “ (زلزالھا “ (اپنے زلزلے ) سے مراد یہ ہے کہ زمین کو سخت ہلا دینے کے لئے جتنا زبردست زلزلہ ہونا چاہیے اس قسم کے زلزلے کے ساتھ وہ سخت ہلا دی جائے گی۔
خلاصہ تفسیر - جب زمین اپنی سخت جنبش سے ہلائی جائے گی اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی (مراد بوجھ سے دفینے اور مردے ہیں اور اگرچہ بعض روایات سے پہلے بھی دفینوں کا باہر آجانا معلوم ہوتا ہے لیکن ممکن ہی کہ قیامت سے پہلے جو دفینے باہر آگئے تھے مرورایام سے پھر ان پر مٹی آگئی ہو اور مستور ہوگئے ہوں اور قیامت کے روز پھر نکلیں اور دفائن کے ظاہر ہوجانے کی شاید یہ حکمت ہو کہ ماں کی بہت محبت کرنے والی اپنی آنکھوں اموال کا بیکار ہونا دیکھ لیں) اور (اس حالت کو دیکھ کر کافر) آدمی کہے گا کہ اس کو کیا ہوا (کہ زمین اس طرح ہل رہی ہے اور سب دفینے باہر آرہے ہیں) اس روز زمین اپنی سب (اچھی بری) خبریں بیان کرنے لگے گی اس سبب سے کہ آپ کے رب کا اس کو یہی حکم ہوگا (ترمذی وغیرہ میں اس کی تفسیر میں حدیث مرفوع آئی ہے کہ جس شخص نے روئے زمین پر جیسا عمل کیا ہوگا اچھا یا برا زمین سب کہہ دے گی یہ اس کی شہادت ہوگی) اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (موقف حساب سے) واپس ہوں گے (یعنی جو لوگ حساب محشر سے فارغ ہو کر لوٹیں گے تو کچھ جماعتیں جنتی کچھ دوزخی قرار پا کر جنت و دوزخ کی طرف چلی جاویں گی) تاکہ اپنے اعمال ( کے ثمرات) کو دیکھ لیں، سو جو شخص (دنیا میں) ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھ لیگا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لیگا (بشرطیکہ اس وقت تک وہ خیر و شر باقی رہی ہو، ورنہ اگر کفر کے سبب وہ چیز فنا ہوچکی ہو یا ایمان و توبہ کے ذریعہ بدی معاف ہوچکی ہو تو وہ اس میں داخل نہیں کیونکہ اب نہ وہ باطل شدہ خیر خیر ہے اور نہ وہ معاف کیا ہوا گناہ اور شر شر ہے اس لئے محشر میں وہ سامنے نہ آویں گی۔ ) - معارف و مسائل - اذا زلزلت الارض زلزالھا :۔ اس میں اختلا ہے کہ اس آیت میں جس زلزلہ کا ذکر ہے یہ وہ زلزلہ ہے جو نفخہ اولیٰ سے پہلے دنیا میں ہوگا جیسا کہ علامات قیامت میں اس زلزلہ کا ذکر آیا ہے یا اس زلزلہ سے مراد نفخہ ثانیہ کے بعد جب مردے زندہ کر زمین سے اٹھیں گے اس وقت کا زلزلہ ہے۔ روایات اور اقوال مفسرین کے مختلف ہیں اور اس میں کوئی بھی بعد نہیں کہ زلزلے متعدد ہوں ایک نفخہ اول سے پہلے، دوسرا نفخہ ثانیہ کے بعد مردوں کے زندہ ہونے کے وقت اور اس جگہ یہی دوسرا زلزلہ مراد ہو اور اس سورت میں جو آگے احوال قیامت حساب کتاب کا ذکر ہے وہ قرینہ اسی کا ہے کہ یہ زلزلہ دوسرا نفخہ ثانیہ کے بعد کا ہے۔ واللہ اعلم (از مظہری)
اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا ١ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- زلزل - : الاضطراب، وتكرير حروف لفظه تنبيه علی تكرير معنی الزّلل فيه، قال : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] ، وقال : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] ، وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب 11] ، أي : زعزعوا من الرّعب .- التزلزل اس کے معنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرار حروف تکرار معنی پر دال ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] جب زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ۔ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ( سخت ) مصیبت ہوگی ۔ وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب 11] اور وہ ( دشمنوں کے رعب سے ) خوب ہی جھڑ جھڑائے گئے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔
(1 ۔ 2) جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور وہ اپنی سخت جنبش سے ہلا دی جائے گی جس کی وجہ سے جو کچھ اس پر درخت اور پہاڑ اور مکانات وغیرہ ہیں سب ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور زمین اپنے خزانوں اور مالوں کو باہر نکال پھینکے گی۔
آیت ١ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا ۔ ” جب زمین ہلائی جائے گی جیسے کہ ہلائی جائے گی۔ “- یعنی تم انسان یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس زلزلے کی کیفیت کیسی ہوگی ۔ سورة الحج کے آغاز میں اس کیفیت کی شدت کا نقشہ بایں الفاظ کھینچا گیا ہے :- یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمْج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ - یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ ۔ - ” اے لوگو تقویٰ اختیار کروا پنے رب کا ‘ یقینا قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہوگا۔ جس دن تم اس کو دیکھو گے ‘ اس دن (حال یہ ہوگا کہ) بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور (دہشت کا عالم یہ ہوگا کہ) ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور تم دیکھو گے لوگوں کو جیسے وہ نشے میں ہوں ‘ حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے ‘ بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہے۔ “
سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 1 اصل الفاظ ہیں زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا ۔ زلزلہ کے معنی پے در پے زور زور سے حرکت کرنے کے ہیں ۔ پس زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو جھٹکے پر جھٹکے دے کر شدت کے ساتھ ہلا ڈالا جائے گا ۔ اور چونکہ زمین کو ہلانے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین کا کوئی مقام یا کوئی حصہ یا علاقہ نہیں بلکہ پوری کی پوری زمین ہلا ماری جائے گی ۔ پھر اس زلزلے کی مزید شدت کو ظاہر کرنے کے لیے زِلْزَالَهَا کا اس پر اضافہ کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں اس کا ہلایا جانا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایسا ہلایا جائے گا جیسا اس جیسے عظیم کرے کو ہلانے کا حق ہے ، یا جو اس کے ہلائے جانے کی انتہائی ممکن شدت ہوسکتی ہے ۔ بعض مفسرین نے اس زلزلے سے مراد وہ پہلا زلزلہ لیا ہے جس سے قیامت کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگا یعنی جب ساری مخلوق ہلاک ہوجائے گا اور دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا ۔ لیکن مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جس سے قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا ، یعنی جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے ۔ یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے کیونکہ بعد کا سارا مضمون اسی پر دلالت کرتا ہے ۔