Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی زمین میں جتنے انسان دفن ہیں، وہ زمین کا بوجھ ہیں، جنہیں زمین قیامت والے دن باہر نکال پھینکے گی اور اللہ کے حکم سے سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ یہ دوسرے نفخے میں ہوگا، اسی طرح زمین کے خزانے بھی باہر نکل آئیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] زمین میں تین قسم کے بوجھ جنہیں وہ باہر نکال پھینکے گی :۔ یہ زمین کے اندر بوجھ تین قسم کے ہونگے۔ (١) زمین کی معدنیات، زر و جواہر کے مدفون خزانے، اسی طرح سیال چیزوں اور گیسوں کے خزانے جن کے حصول کے لیے انسان دنیا میں مارا مارا پھرتا تھا۔ ناجائز اور حرام ذرائع استعمال کرتا تھا۔ ایک دوسرے سے لڑتا جھگڑتا تھا۔ ایک ملک دوسرے ملک سے جنگ وجدال کرتا تھا۔ اس دن زمین ایسے سب خزانے باہر نکال پھینکے گی لیکن اس دن انسان کو ان سے کچھ غرض نہ ہوگی۔ وہ نہ اس کے کسی کام آسکیں گے۔ (٢) دفن شدہ مردوں کے بوجھ یعنی سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کر تاقیام قیامت جتنے انسان زمین کے اندر مدفون ہوں گے اور ان میں سے اکثر مٹی میں مل کر مٹی بن چکے ہوں گے۔ زمین ان کے تمام اجزاء کو نکال باہر پھینکے گی۔ یہی اجزاء اللہ کے حکم سے مل جائیں گے اور ہر انسان کو جسم عطا کیا جائے گا۔ (٣) زمین کے وہ اجزاء جن پر کسی انسان نے کوئی اچھا یا برا کارنامہ سرانجام دیا ہوگا جسے عام زبان میں موقع کی شہادت یا قرینہ کی شہادت کہتے ہیں۔ زمین کے یہی حصے اللہ کی عدالت میں مجرموں کے خلاف گواہی کے لیے پیش کیے جائیں گے اور وہ شہادت دیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(واخرجت الارض اثقالھا :” اثقال “ ” ثقل “ کی جمع ہے، مسافر کا سامان اور نفیس چیزیں جن کی وہ حفاظت کرتا ہے، یعنی زمین نے جو کچھ سنبھلا کر رکھا ہوا ہے اسے باہر نکال دے گی۔” یا ” ثقل “ کی جمع ہے جو حمل کو کہتے ہیں، جیسے فرمایا :(فلما اثقلت) (الاعراف : ١٨٩)” پس جب وہ (عورت) بھاری ہوگئی۔ “ اس صورت میں زمین کو حاملہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، یعنی اتنا شدید زلزلہ ہوگا کہ زمین پھٹ اجئے گی اور اس میں جو فوت شدہ لوگ ہیں یا جو کچھ بھی زمین نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے باہر ناکل کر خلای ہوجائے گی، جیسا کہ فرمایا :(والقت ما فیھا و تخلت) (الانشقاق : ٣)” اور اس میں جو کچھ ہے باہر پھینک دے گی اور خالی ہوجائے گی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

واخرجت الارض اثقالھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس زلزلہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ زمین اپنے جگر کے ٹکڑے سونے کی بڑی چٹانوں کی صورت میں اگل دے گی اس وقت ایک شخص جس نے مال کے لئے کسی کو قتل کیا تھا وہ دیکھ کر کہ گا کہ یہ وہ چیز ہے جس کے لئے میں نے اتنا بڑا جرم کیا تھا، جس شخص نے اپنے رشتہ داروں سے مال کی وجہ سے قطع تعلق کیا تھا وہ کہے گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کے لئے میں نے یہ حرکت کی تھی۔ چور جس کا ہاتھ چوری کی سا میں کاٹا گیا تھا اس کو دیکھ کر کہے گا کہ اس کے لئے میں نے اپنا ہاتھ گنوایا تھا پھر کوئی بھی اس سونے کی طرف التفات نہ کریگا۔ (رواہ مسلم عن ابی ہریرة)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا۝ ٢ ۙ- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا ۔ ” اور زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی۔ “- یعنی اس دن زمین اپنے اندر مدفون تمام انسانوں کو ‘ وہ جس حالت میں بھی ہوں گے ‘ نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اگر ان کے ذرّات منتشر ہو کر زمین کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہوں گے تو ان کو بھی یکجا کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ جو انسان اصطلاحی مفہوم میں زمین کے اندر باقاعدہ دفن نہیں بھی ہوتے ‘ مثلاً سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں یا جلا دیے جاتے ہیں ‘ ان کے اجسام کے اجزائی ذرات بھی کسی نہ کسی شکل میں بالآخر زمین میں ہی جذب ہوتے ہیں اور وہ قیامت کے دن زمین سے ہی برآمد ہوں گے۔ سورة طٰہٰ کی یہ آیت اس لحاظ سے بہت واضح ہے : مِنْہَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ۔ ” اسی (زمین) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے ‘ اور اسی میں سے ہم تمہیں ایک مرتبہ پھر نکالیں گے ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 2 یہ وہی مضمون ہے جو سورہ انشقاق آیت 4 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وَاَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی اس کے کئی مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ مرے ہوئے انسان زمین کے اندر جہاں جس شکل اور جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے ان سب کو وہ نکال کر باہر ڈال دے گی ، اور بعد کا فقرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت ان کے جسم کے تمام بکھرے ہوئے اجزاء جمع ہوکر از سر نو اسی شکل و صورت میں زندہ ہوجائیں گے جس میں وہ پہلی زندگی کی حالت میں تھے ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ یہ کیسے کہیں گے کہ زمین کو یہ کیا ہورہا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ صرف مرے ہوئے انسانوں ہی کو وہ باہر نکال پھینکنے پر اکتفا نہ کرے گی ، بلکہ ان کو پہلی زندگی کے افعال و اقوال اور حرکات و سکنات کی شہادتوں کا جو انبار اس کی تہوں میں دبا پڑا ہے اس سب کو بھی وہ نکال کر باہر ڈال دے گی ۔ اس پر بعد کا یہ فقرہ دلالت کرتا ہے کہ زمین اپنے اوپر گزرے حالات بیان کرے گی ۔ تیسرا مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ سونا ، چاندی ، جواہر اور ہر قسم کی دولت جو زمین کے پیٹ میں ہے اس کے بھی ڈھیر کے ڈھیر وہ باہر نکال کر رکھ دے گی اور انسان دیکھے گا کہ یہی ہیں وہ چیزیں جن پر وہ دنیا میں مرا جاتا تھا ، جن کی خاطر اس نے قتل کیے ، حق داروں کے حقوق مارے ، چوریاں کیں ، ڈاکے دالے ، خشکی اور تری میں قزاقیاں کیں ، جنگ کے معرکے برپا کیے اور پوری قوموں کو تباہ کر ڈالا ۔ آج وہ سب کچھ سامنے موجود ہے اور اس کے کسی کام کا نہیں ہے بلکہ الٹا اس کے لیے عذاب کا سامان بنا ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یعنی سارے مُردے جو زمین میں دفن ہیں، وہ باہر آجائیں گے، اور زمین میں جو خز انے دفن ہیں، زمین اُن کو بھی اُگل دے گی۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس کسی نے مال کی خاطر کسی کو قتل کیا ہوگا، یا جس نے مال ودولت کی خاطر رشتہ داروں کا حق پامال کیا ہوگا، یا اس کی خاطر چوری کی ہوگی، وہ اس مال کو دیکھ کر یہ کہے گا کہ یہ ہے وہ مال جس کی وجہ سے میں نے یہ گناہ کئے تھے، پھر کوئی بھی اس سونے اور چاندی کی طرف توجہ نہیں دے گا۔