और उस बस्ती पर से तो वे हो आए हैं जिस पर बुरी वर्षा बरसी; तो क्या वे उसे देखते नहीं रहे हैं? नहीं, बल्कि वे दोबारा जीवित होकर उठने की आशा ही नहीं रखते रहे हैं
اوربلاشبہ یقینایہ لوگ اس بستی پرسے آئے ہیں جس پر بدترین بارش برسائی گئی تو کیا وہ اسے دیکھانہیں کرتے تھے؟بلکہ وہ دوبارہ اُٹھائے جانے کی اُمیدہی نہیں رکھتے۔
اور یہ لوگ تو اس بستی پر سے گذرے بھی ہیں ، جس پر تباہی کی بارش برسائی گئی ، کیا یہ اس کو دیکھتے نہیں رہے ہیں؟ بلکہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے متوقع نہیں رہے ہیں ۔
اور ( یہ لوگ ) اس بستی سے گزرے ہیں! جس پر ( پتھروں کی ) بڑی بارش برسائی گئی تھی کیا ( وہاں سے گزرتے ہوئے ) اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ ( دراصل بات یہ ہے کہ ) یہ حشر و نشر کی امید ہی نہیں رکھتے ۔
اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہو چکا ہے جس پر بد ترین بارش برسائی گئی 53 تھی ۔ کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہوگا ؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے ۔ 54
اور تحقیق یہ لوگ ( کفار مکہ ) اس بستی پر بھی گزرچکے ہیں جس پر بُری طرح ( عذاب کے پتھروں کی ) بارش برسائی گئی تھی ، تو کیا یہ اسے دیکھتے نہیں رہتے؟ ( کہ عبرت حاصل کریں ) بلکہ ان کو ( مرنے کے بعد ) دوبارہ زندہ کیے جانے کی امید ( یقین ) بھی نہیں ۔
اور یہ ( کفار مکہ ) اس بستی سے ہو کر گذرتے رہے ہیں جس پر بری طرح ( پتھروں کی ) بارش برسائی گئی تھی ( ١٤ ) بھلا کیا یہ اس بستی کو دیکھتے نہیں رہے؟ ( پھر بھی انہیں عبرت نہیں ہوئی ) بلکہ ان کے دل میں دوسری زندگی کا اندیشہ تک پیدا نہیں ہوا ۔
اور اہل قریش کا گزر اس بستی ( یعنی قوم لوط کی بستیاں سدوم وعمورہ ) سے ہوچکا ہے جس پر پتھروں کی بدترین بارش کردی گئی تھی ، کیا وہ لوگ اسے دیکھتے نہیں ؟لیکن ( معاملہ یہ ہے کہ ) یہ حشرنشرکی توقع نہیں رکھتے
اور ضرور یہ ( ف۷۱ ) ہو آئے ہیں اس بستی پر جس پر برا برساؤ برسا تھا ( ف۷۲ ) تو کیا یہ اسے دیکھتے نہ تھے ( ف۷۳ ) بلکہ انھیں جی اٹھنے کی امید تھی ہی نہیں ( ف۷٤ )
اور بیشک یہ ( کفار ) اس بستی پر سے گزرے ہیں جس پر بری طرح ( پتھروں کی ) بارش برسائی گئی تھی ، تو کیا یہ اس ( تباہ شدہ بستی ) کو دیکھتے نہ تھے بلکہ یہ تو ( مرنے کے بعد ) اٹھائے جانے کی امید ہی نہیں رکھتے