عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے ہشام بن حکیم بن جزام ؓ کو سورۃ الفرقان اس انداز سے ہٹ کر پڑھتے ہوئے سنا جس انداز سے میں اسے پڑھتا تھا اور جس طرح رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھایا تھا ، قریب تھا کہ میں فوراً اس سے تعرض و انکار کرتا ، لیکن میں نے اسے مہلت دی حتیٰ کہ وہ (قراءت سے) فارغ ہو گیا ، پھر میں نے اس کی گردن میں اس کی چادر ڈالی اور اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لا کر عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں نے اسے اس انداز سے ہٹ کر سورۃ الفرقان پڑھتے ہوئے سنا ہے جس انداز سے آپ نے اسے مجھے پڑھایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے چھوڑ دو ، (اور اسے فرمایا) پڑھو ۔‘‘ اس نے اسی قراءت سے پڑھا جو میں نے ا س سے سنی تھی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسی طرح نازل کی گئی ہے ۔‘‘ پھر مجھے فرمایا :’’ پڑھو ۔‘‘ میں نے پڑھا تو فرمایا :’’ اسی طرح نازل کی گئی ہے کیونکہ قرآن سات لہجوں میں مجھ پر اتارا گیا ہے ، ان میں سے جس لہجے میں آسانی سے پڑھ سکو پڑھو ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ اور الفاظ حدیث مسلم کے ہیں ۔ متفق علیہ ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے ایک آدمی کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا جبکہ میں نے نبی ﷺ کو اس سے مختلف پڑھتے ہوئے سنا تھا ، میں اسے نبی ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور آپ کو بتایا تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے اثرات دیکھے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم دونوں ٹھیک ہو ، باہم اختلاف نہ کرو ، کیونکہ جو لوگ تم سے پہلے تھے ، انہوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہو گئے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز پڑھنے لگا ، اس نے اس انداز سے قراءت کی کہ میں نے اس قراءت کو غیر معروف اور اجنبی سا محسوس کیا ، پھر دوسرا آدمی آیا تو اس نے اپنے ساتھی کی قراءت کے علاوہ ایک دوسرے انداز میں قراءت کی ، جب ہم نے نماز پڑھ لی تو ہم سب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے عرض کیا ، اس شخص نے قراءت کی تو میں نے اس کا انکار کیا ، پھر دوسرا شخص آیا تو اس نے اپنے ساتھی کی قراءت کے علاوہ دوسرے انداز میں قراءت کی ، نبی ﷺ نے ان دونوں کو (پڑھنے کا) حکم فرمایا تو ان دونوں نے قراءت کی تو آپ نے ان کی حالت (قراءت) کو سراہا تو میرے دل میں تکذیب کا ایسا شبہ پیدا ہو گیا جو کہ میرے دور جاہلیت میں بھی نہیں تھا ، جب رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر طاری کیفیت دیکھی تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں پسینے سے شرابور ہو گیا اور مجھ پر ایسا خوف طاری ہوا کہ گویا میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں ، آپ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ ابی ! مجھے پیغام بھیجا گیا کہ میں ایک لہجے پر قرآن پڑھوں ، لیکن میں نے اس (قاصد) کو اللہ تعالیٰ کی طرف واپس بھیجا کہ میری امت پر آسانی کی جائے ، دوسری مرتبہ یہ پیغام آیا کہ میں اسے دو لہجوں میں پڑھوں ، میں نے پھر اسے واپس بھیجا کہ میری امت پر آسانی کی جائے ، تیسری مرتبہ یہ پیغام آیا کہ میں اسے سات لہجوں میں پڑھوں ، اور آپ کے ہر بار لوٹانے کے بدلے ایک مقبول دعا ہے لہذا آپ دعا کریں ، میں نے عرض کیا ، اے اللہ ! میری امت کو بخش دے ، اے اللہ ! میری امت کو بخش دے ، اور میں نے تیسری مرتبہ کو اس روز کے لیے مؤخر کر لیا جس روز تمام لوگ حتیٰ کہ ابراہیم ؑ میری طرف رغبت و رجوع کریں گے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جبریل ؑ نے مجھے ایک لہجے پر پڑھایا تو میں نے اسے واپس بھیجا میں ان سے مزید (لہجوں) کی درخواست کرتا رہا اور وہ مجھے مزید (لہجے) عطا فرماتے رہے حتیٰ کہ سات لہجے مکمل ہوئے ۔‘‘ ابن شہاب بیان کرتے ہیں ، مجھے یہ بات پہنچی کہ وہ سات لہجے دین کے معاملے میں ایک ہی ہیں ، وہ حلال و حرام میں مختلف نہیں ۔ متفق علیہ ۔
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ جبریل ؑ سے ملے فرمایا :’’ جبریل ! مجھے ایک ان پڑھ امت کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ، ان میں سے کچھ بوڑھی عورتیں ہیں ، کچھ بوڑھے آدمی ہیں ، چھوٹے بچے اور بچیاں ہیں ، اور ایسے آدمی بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ۔‘‘ انہوں نے فرمایا :’’ محمد (ﷺ)! قرآن سات لہجوں پر اتارا گیا ہے ۔ ترمذی ، احمد اور ابوداؤد کی روایت میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان میں سے ہر ایک (لہجہ) شافی و کافی ہے ۔‘‘ اور نسائی کی روایت ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جبریل و میکائیل میرے پاس آئے تو جبریل ؑ میرے دائیں جبکہ میکائیلؑ میرے بائیں طرف بیٹھ گئے ، تو جبریل ؑ نے فرمایا : قرآن کو ایک لہجے پر پڑھو ، میکائیل ؑ نے فرمایا : ان سے زیادہ طلب کریں ، حتیٰ کہ وہ سات لہجوں پر پہنچے ، اور ہر لہجہ شافی و کافی ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و احمد و ابوداؤد و النسائی ۔
عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک واعظ کے پاس سے گزرے جو کہ قرآن پڑھتا ، پھر کچھ طلب کرتا ، اس پر انہوں نے (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص قرآن پڑھے تو وہ اللہ سے طلب کرے ، کیونکہ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور اس کے عوض لوگوں سے سوال کریں گے ۔‘‘ سندہ ضعیف ۔
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں سے مال (کھاتا) ہے تو وہ روز قیامت آئے گا تو اس کا چہرہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گا اس پر گوشت نہیں ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کو (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے نازل ہونے کے بعد سورت کے فرق کا پتہ چلتا تھا ۔ (کہ پہلی سورت مکمل ہو گئی ہے) صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
علقمہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم حمص (ملک شام) میں تھے ، تو ابن مسعود ؓ نے سورۂ یوسف تلاوت فرمائی تو کسی آدمی نے کہا : اس طرح تو نازل نہیں ہوئی ، تو عبداللہ ؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں پڑھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا :’’ تم نے بہت خوب پڑھا ۔‘‘ اس اثنا میں کہ وہ شخص ان سے باتیں کر رہا تھا تو انہوں نے اس سے شراب کی بو محسوس کی تو انہوں نے فرمایا : کیا تم شراب پیتے ہو اور قرآن کی تکذیب کرتے ہو ؟ پس انہوں نے اس پر حد قائم کی ۔ متفق علیہ ۔ علقمہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم حمص (ملک شام) میں تھے ، تو ابن مسعود ؓ نے سورۂ یوسف تلاوت فرمائی تو کسی آدمی نے کہا : اس طرح تو نازل نہیں ہوئی ، تو عبداللہ ؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں پڑھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا :’’ تم نے بہت خوب پڑھا ۔‘‘ اس اثنا میں کہ وہ شخص ان سے باتیں کر رہا تھا تو انہوں نے اس سے شراب کی بو محسوس کی تو انہوں نے فرمایا : کیا تم شراب پیتے ہو اور قرآن کی تکذیب کرتے ہو ؟ پس انہوں نے اس پر حد قائم کی ۔ متفق علیہ ۔
زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں ، معرکہ یمامہ کے بعد ابوبکر ؓ نے میری طرف پیغام بھیجا ، عمر بن خطاب ؓ ان کے پاس موجود تھے ۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا : عمر میرے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : معرکہ یمامہ میں بہت سے قاری شہید ہو گئے ، اور مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر کسی اور معرکہ میں قاری شہید ہو گئے تو اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ جاتا رہے گا ، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ جمع قرآن کا حکم فرمائیں ، لیکن میں نے عمر ؓ سے فرمایا : آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ؟ تو عمر ؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم! یہ (جمع قرآن) بہتر ہے ، عمر ؓ مسلسل مجھے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور اب اس میں میرا وہی موقف ہے جو عمر ؓ کا ہے ۔
زید ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوبکر ؓ نے فرمایا : آپ عقل مند نوجوان ہیں اور آپ پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ، اور آپ رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے ، آپ قرآن اکٹھا کریں اور اسے ایک جگہ جمع کریں ، اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے پر مامور فرماتے تو وہ مجھ پر اس جمع قرآن کے حکم سے زیادہ آسان تھا ، وہ (زید ؓ) بیان کرتے ہیں ۔ میں نے کہا : تم وہ کام کیسے کرتے ہو جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ؟ تو انہوں (ابوبکر ؓ) نے فرمایا : اللہ کی قسم! وہ بہتر ہے ، پس ابوبکر ؓ مسلسل مجھے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا جس کے لیے اس نے ابوبکر ؓ و عمر ؓ کا سینہ کھول دیا تھا ، میں نے قرآن تلاش کرنا شروع کیا اور میں نے کھجور کی شاخوں ، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں (حافظوں) سے قرآن اکٹھا کیا حتیٰ کہ میں نے سورۃ التوبہ کا آخری حصہ (لقد جاءکم رسول من انفسکم ،،،،،) آخر تک صرف ابوخزیمہ انصاری ؓ کے ہاں پایا ، وہ صحیفہ (قرآن کریم کا نسخہ) ابوبکر ؓ کے پاس رہا حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فوت کر دیا ، پھر عمر ؓ کی زندگی میں ان کے پاس رہا ، اور پھر عمر ؓ کی بیٹی حفصہ ؓ کے پاس ۔ رواہ البخاری ۔
انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حذیفہ بن یمان ؓ عثمان ؓ کے پاس آئے جبکہ وہ (حضرت عثمان ؓ) آرمینیہ اور آذر بائیجان سے لڑائی اور فتح کے سلسلہ میں اہل شام اور اہل عراق کو تیار کر رہے تھے ، حذیفہ ؓ ان (اہل شام و عراق) کے اختلاف قراءت کی وجہ سے پریشان تھے ، حذیفہ ؓ نے عثمان ؓ سے کہا : امیرالمومنین ! اس سے پہلے کہ یہ امت یہود و نصاریٰ کی طرح قرآن کریم کے بارے میں اختلاف کا شکار ہو جائے آپ اس کا تدراک فرما لیں ، عثمان ؓ نے حفصہ ؓ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ ہمیں مصحف بھیجیں ، ہم اس کی نقلیں تیار کر کے واپس دے دیں گے ، حفصہ ؓ نے وہ نسخہ عثمان ؓ کے پاس بھیج دیا تو انہوں نے زید بن ثابت ؓ ، عبداللہ بن زبیر ؓ ، سعید بن العاص ؓ اور عبداللہ بن حارث بن ہشام ؓ کو مامور فرمایا تو انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں ، اور عثمان ؓ نے تینوں قریشیوں سے فرمایا : جب قرآ ن کی کسی چیز کے بارے میں تمہارے اور زید بن ثابت ؓ کے مابین کوئی اختلاف ہو جائے تو اسے زبان قریش کے مطابق لکھنا ، کیونکہ قرآن ان کی زبان میں اترا ہے ، انہوں نے ایسے ہی کیا ، حتیٰ کہ جب انہوں نے مصحف سے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان ؓ نے وہ مصحف ، حفصہ ؓ کو واپس کر دیا ، اور تمام علاقوں میں وہ نقول بھیج دیں اور حکم جاری کر دیا کہ اس کے علاوہ کسی کے پاس قرآن کا جو نسخہ ہے اسے جلا دیا جائے ، ابن شہاب بیان کرتے ہیں ، خارجہ بن زید بن ثابت نے مجھے بتایا کہ زید بن ثابت ؓ نے بتایا کہ جب ہم نے مصحف کی نقل تیار کی تو سورۂ احزاب کی وہ آیت ، جو میں رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا ، نہ ملی تو ہم نے اسے تلاش کیا تو ہم نے اسے خزیمہ بن ثابت انصاری ؓ کے ہاں پایا ، وہ آیت یہ تھی (من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ) پس ہم نے اسے مصحف میں اس کی سورت (الاحزاب) میں ملا دیا ۔ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عثمان ؓ سے کہا : تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا ہے کہ تم نے سورۂ انفال کا قصد کیا جبکہ وہ مثانی (سورتوں میں سے) ہے ، اور سورۂ براءت (توبہ) کا قصدکیا جبکہ وہ میٔن (دو سو آیتوں والی سورتوں) میں سے ہے ، اور تم نے ان دونوں سورتوں کو ملایا اور تم نے ان کے درمیان (بسم اللہ الرحمن الرحیم) بھی نہیں لکھی ، اور تم نے اسے سات لمبی سورتوں میں رکھ دیا ، ایسا کرنے پر کس چیز نے تمہیں ابھارا ؟ عثمان ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کی یہ صورت حال تھی کہ کبھی طویل وقت گزر جاتا اور آپ پر کوئی سورت نازل نہ ہوتی اور متعدد آیات والی سورتیں نازل ہوتیں ، اور جب آپ پر کچھ حصہ نازل ہوتا تو آپ کسی کاتب وحی کو بلاتے اور اسے فرماتے :’’ ان آیات کو ، فلاں سورت میں جہاں فلاں فلاں تذکرہ ہے ، شامل کر دو ۔‘‘ سورۂ انفال وہ سورت ہے جو قیام مدینہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی ، جبکہ سورۂ براءت (توبہ) نزول کے لحاظ سے ، نزول قرآن کے آخری دور میں نازل ہوئی ، اور بلحاظ مضمون دونوں ایک دوسرے کے مشابہ تھیں ، رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے اور آپ نے وضاحت نہ فرمائی کہ وہ (سورۂ توبہ) اس (سورۂ انفال) میں سے ہے ، اسی لیے میں نے ان دونوں کو ملا لیا اور (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نہ لکھی ، اور میں نے اسے سات لمبی سورتوں میں شامل کیا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر نبی کی (اپنی امت کے بارے میں) ایک دعا قبول ہوتی ہے ، پس ہر نبی نے دعا کرنے میں جلدی کی ، جبکہ میں نے اپنی دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لیے روز قیامت کے لیے چھپا رکھا ہے ، اور وہ (شفاعت) ان شاء اللہ ہر اس شخص کو پہنچے گی جو اس حال میں فوت ہوا ہو گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا ۔‘‘ مسلم ۔ اور بخاری کی روایت اس سے مختصر ہے ۔ متفق علیہ، رواہ مسلم ، و البخاری (۶۳۰۴) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! میں نے تجھ سے ایک عہد لیا ہے بے شک جس کا تو خلاف نہیں کرے گا ، میں بھی ایک انسان ہوں ، میں نے جس کسی مومن کو اذیت پہنچائی ہو ، میں نے اسے برا بھلا کہا ہو ، لعن طعن کی ہو ، اسے مارا ہو تو اس (اذیت) کو اس کے لیے باعثِ رحمت و طہارت اور باعث قربت بنا دے اور روز قیامت اس قربت کی وجہ سے تو اسے اپنا مقرب بنا لے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۶۳۶۱) و مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یوں نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے ، اگر تُو چاہے تو مجھ پر رحم فرما ، اگر تُو چاہے تو مجھے رزق عطا فرما ، بلکہ اسے چاہیے کہ وہ پورے عزم کے ساتھ دعا کرے ، کیونکہ وہ جیسے چاہے کرتا ہے ، اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں ۔‘‘ رواہ البخاری (۷۴۷۷) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یوں نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے ، بلکہ اسے پختہ عزم کے ساتھ اور بڑی رغبت کے ساتھ دعا کرنی چاہیے ، کیونکہ کسی بھی چیز کا عطا کرنا اللہ کے لیے کوئی گراں نہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بندہ جب تک کسی گناہ یا قطع رحمی کے بارے میں دعا نہ کرے اس کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ جلد بازی نہ کرے ۔‘‘ عرض کیا گیا ، اللہ کے رسول ! جلد بازی سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ کہتا ہے : میں تو بہت دعائیں کر چکا لیکن میری دعا قبول ہی نہیں ہوتی ، اس صورت حال میں وہ مایوس ہو جاتا ہے اور دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم و البخاری (۶۳۴۰) ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مسلمان شخص کی اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہ دعا قبول ہوتی ہے جو اس کی غیر موجودگی میں کی جاتی ہے ، اور (دعا کرنے والے) کے پاس ایک فرشتہ مامور ہوتا ہے ، جب وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو وہ مامور فرشتہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے : اسی مثل تمہارے لیے بھی ہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنی اولاد اور اپنے اموال کے لیے بددعا نہ کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایسی گھڑی میں اللہ سے دعا کر بیٹھو جس میں دعا قبول ہو جاتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
اور ابن عباس ؓ سے مروی حدیث :’’ مظلوم کی بددعا سے بچو ‘‘ کتاب الزکوۃ میں ذکر کی گئی ہے ۔
نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دعا ہی عبادت ہے ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :’’ تمہارے رب نے فرمایا : مجھ سے دعائیں کرو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد (۴ / ۲۶۷ ح ۱۸۵۴۲ ، ۲۷۶ ح ۱۸۶۲۳) و الترمذی (۲۹۶۹) و ابوداؤد (۱۴۷۹) و النسائی (فی الکبری : ۱۱۴۶۴) و ابن ماجہ (۳۸۲۸) و صححہ ابن حبان (۲۳۹۶) و الحاکم (۱ / ۴۹۰ ، ۴۹۱) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے ہاں دعا سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۳۳۷۰) و ابن ماجہ (۳۸۲۹) ۔
سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ صرف دعا ہی قضا کو ٹال سکتی ہے ۔ اور صرف نیکی و اطاعت ہی عمر دراز کر سکتی ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۱۳۹) و ابن ماجہ (۹۰ ، ۴۰۲۲) ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دعا ان مصائب کے لیے نفع مند ہے جو نازل ہو چکے اور ان کے لیے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے ، اللہ کے بندو ! دعائیں کیا کرو ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۳۵۱۵ ، ۳۵۴۸) و ابن ماجہ (۳۵۵۱) ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی شخص دعا کرتا ہے ۔ جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو ، تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس کی مطلوبہ چیز ہی عطا فرما دیتا ہے یا پھر اس کی مثل تکلیف اس سے دور کر دیتا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی (۳۳۸۱ ، ۳۵۷۳) ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ سے اس کا فضل طلب کیا کرو کیونکہ اللہ پسند کرتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور کشائش و خوشحالی کا انتظار افضل عبادت ہے ۔‘‘ ترمذی ۔ اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف رواہ الترمذی (۳۵۷۱) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا تو وہ اس پر ناراض ہوتا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف رواہ الترمذی (۳۳۷۳) و ابن ماجہ (۳۸۲۷) ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا تو اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے ، اور اللہ کو یہ بہت پسند ہے کہ اس سے عافیت کا سوال کیا جائے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی (۳۵۴۸) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کو پسند ہو کہ مشکلات و مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے تو پھر اسے چاہیے کہ وہ خوشحالی میں کثرت سے دعائیں کرے ۔‘‘ ترمذی ۔ اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی (۳۳۸۲) ۔