ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا : میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ فوت ہو چکی ہیں ، تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، جی ہاں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پھر اللہ کا قرض بھی ادا کرو ، وہ تو ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرے نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے ۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! فلاں فلاں غزوہ میں میرا نام لکھ لیا گیا ہے جبکہ میری اہلیہ حج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جاؤ اور اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ ، اہل شام کے لئے جحفہ ، اہل نجد کے لئے قرن منازل اور اہل یمن کے لئے یلملم کو میقات مقرر کیا ، وہ ان کے لئے ہیں اور ان کے علاوہ ان راستوں سے آنے والوں کے لئے ہیں جبکہ وہ حج اور عمرہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ، اور جو ان مواقیت کے اندر کی جانب رہتا ہے تو وہ اپنے گھر سے احرام باندھے گا ، اور اس طرح اور اس طرح حتیٰ کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھیں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اور اہل مدینہ ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھیں گے ، جبکہ دوسرے راستوں والے جحفہ سے ، اہل عراق ذات عرق سے ، اہل نجد قرن سے اور اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں گے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کیے ہیں وہ سب ذوالقعدہ میں کیے ، بجز اس عمرہ کے جو آپ نے حج کے ساتھ کیا ، آپ ﷺ نے ایک عمرہ حدیبیہ سے ذوالقعدہ میں کیا ، ایک عمرہ اگلے سال ذوالقعدہ میں کیا ، ایک عمرہ جعرانہ سے جہاں آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا وہ بھی ذوالقعدہ میں اور ایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ کیا ۔ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگو ! اللہ نے تم پر حج کرنا فرض قرار دیا ہے ۔‘‘ تو اقرع بن حابس ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہر سال ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال حج کرنا) واجب ہو جاتا ، اور اگر واجب ہو جاتا تو تم عمل کرتے نہ تم استطاعت رکھتے ، اور حج کرنا ایک مرتبہ فرض ہے ، اور جو شخص زیادہ مرتبہ کرے تو وہ نفلی ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و النسائی و الدارمی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کے پاس بیت اللہ تک پہنچنے کے لئے زادراہ اور سواری ہو وہ پھر بھی حج نہ کرے تو پھر اس پر کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر فوت ہو یا نصرانی ، اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اور جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس پر بیت اللہ کا حج کرنا واجب ہے ۔‘‘ ترمذی ۔ اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد پر کلام کیا گیا ہے ، جبکہ ہلال بن عبداللہ مجہول ہے اور حارث کو حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلام میں ’’ صرورہ ‘‘ (گوشہ نشینی اختیار کرنا ، شادی نہ کرنا ، استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا وغیرہ) نہیں ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ حج اور عمرہ پے در پے (ایک کے بعد دوسرا) کرو ، کیونکہ وہ فقر اور گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی کی میل دور کر دیتی ہے ۔ اور حج مقبول کی جزا صرف جنت ہی ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! وجوبِ حج کی شرط کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ زادراہ اور سواری ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
2527 : ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا : حاجی کی صفت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پراگندہ ، بکھرے ہوئے بال اور میل کچیل ۔‘‘ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کون سا حج افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بلند آواز سے تکبیریں کہنا اور قربانی کا خون بہانا ۔‘‘ پھر ایک اور کھڑا ہوا تو اس نے عرض کیا ، راستے سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ زادراہ اور سواری ۔‘‘ شرح السنہ ، اور امام ابن ماجہ نے اسے اپنی سنن میں روایت کیا لیکن انہوں نے آخری بات (راستے سے کیا مراد ہے ؟) ذکر نہیں کی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البغوی شرح السنہ و ابن ماجہ ۔
ابورزین عقیلی ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں ، وہ حج و عمرے کی استطاعت رکھتے ہیں نہ سواری کر سکتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے والد کی طرف سے حج و عمرہ کر ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی آدمی کو شُبرمہ کی طرف سے تلبیہ (لبیک) کہتے ہوئے سنا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ شبرمہ کون ہے ؟‘‘ اس نے کہا : میرا بھائی ہے یا میرا کوئی قریبی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم نے خود حج کیا ہوا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پہلے اپنی طرف سے حج کرو ، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا ۔‘‘ حسن ، رواہ الشافعی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام کے لیے حج یا عمرہ کا احرام باندھے تو اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں یا اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، اہل یمن حج کرتے تو وہ زادراہ ساتھ نہیں لیتے تھے اور وہ کہتے تھے ہم توکل کرنے والے ہیں ۔ لیکن جب وہ مکہ پہنچ جاتے تو پھر لوگوں سے سوال کرتے ، تب اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی :’’ زادراہ لے لیا کرو ، اور بہترین زادراہ تقویٰ ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، ان پر جہاد فرض ہے لیکن ان میں قتال نہیں ، اور وہ جہاد حج و عمرہ ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابن ماجہ ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کو کوئی ظاہری حاجت (زادِراہ اور سواری کی عدم دستیابی) یا ظالم بادشاہ یا (سفر سے) روکنے والا مرض ، حج سے نہ روکے اور وہ پھر بھی حج کیے بغیر فوت ہو جائے تو پھر اگر وہ چاہے تو یہودی ہو کر مرے اور اگر چاہے تو نصرانی ہو کر ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ حج اور عمرہ کرنے والے ، اللہ کے تقرب کا قصد کرنے والے ہیں ۔ اگر وہ اس سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ انہیں بخش دے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابن ماجہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ تین قسم کے لوگ ، مجاہد ، حاجی اور عمرہ کرنے والے ، اللہ کے تقرب کا قصد کرنے والے ہیں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ النسائی و البیھقی ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام کرو ، اس سے مصافحہ کرو اور اس سے پہلے کے وہ اپنے گھر میں داخل ہو ۔ اس سے درخواست کرو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت طلب کرے ، کیونکہ اس کی مغفرت ہو چکی ہے (اور ایسے شخص کی دعا قبول ہوتی ہے) ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ احمد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کرنے کے لیے روانہ ہو ، پھر وہ اس کے راستے میں (عمل کرنے سے پہلے) فوت ہو جائے تو اللہ اس کے لیے جہاد کرنے والے ، حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے کا اجر عطا فرماتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔