عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ، آپ کے احرام باندھنے سے پہلے ، خوشبو لگایا کرتی تھی ، اور اسی طرح جب طواف (افاضہ) سے پہلے احرام کھول دیتے تو آپ ﷺ کو کستوری کی خوشبو لگایا کرتی تھی گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں جبکہ آپ حالت احرام میں تھے ، خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو تلبیہ کہتے ہوئے سنا ، جبکہ آپ بال جمائے ہوئے تھے ، آپ ﷺ فرما رہے تھے :’’ میں حاضر ہوں ، اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، آپ کا کوئی شریک نہیں ، بے شک ہر قسم کی تعریف ، تمام نعمتیں اور بادشاہت تیرے ہی لیے ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘ آپ ﷺ ان کلمات میں کوئی اضافہ نہیں کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ اپنا پاؤں رکاب میں رکھ لیتے اور آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو جاتی تو آپ ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس تلبیہ پکارتے ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ ہم میں سے کسی نے عمرہ کا تلبیہ پکارا ، کسی نے حج اور عمرہ کا اور کسی نے حج کا تلبیہ پکارا ، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا تلبیہ پکارا ۔ جس نے عمرے کا تلبیہ پکارا تھا اس نے احرام کھول دیا ، اور جنہوں نے حج یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا تو انہوں نے دس ذوالحجہ تک احرام نہ کھولا ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ ملایا تھا ، آپ ﷺ نے پہلے عمرے کے لیے تلبیہ کہا اور پھر حج کے لیے ۔ متفق علیہ ۔
زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لیے اپنا لباس اتارا اور غسل کیا (پھر احرام باندھا) ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
خلاد بن صائب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جبریل ؑ میرے پاس تشریف لائے تو انہوں نے مجھے فرمایا کہ میں اپنے صحابہ کو بلند آواز سے تلبیہ پکارنے کا حکم دوں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ مالک و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی ۔
سہل بن سعد بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی مسلمان تلبیہ پکارتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں زمین کے آخری کناروں تک تمام پتھر ، تمام درخت اور مٹی کے تمام ڈھیلے تلبیہ پکارتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ ذوالحلیفہ کے مقام پر دو رکعتیں پڑھتے ، پھر ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو جاتی تو آپ ان کلمات کے ساتھ تلبیہ پکارتے :’’ میں حاضر ہوں ، اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، تمام سعادتیں اور بھلائیاں تیرے ہاتھوں میں ہیں ، میں حاضر ہوں ، رغبت اور طلب خیر تیری ہی طرف ہے اور عمل تیرے ہی لیے ہیں ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ اور الفاظ حدیث مسلم کے ہیں ۔ متفق علیہ ۔
عُمارہ بن خزیمہ بن ثابت اپنے والد سے اور وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اللہ سے اس کی رضا مندی اور جنت کا سوال کرتے اور اس کی رحمت کے ذریعے جہنم سے بچاؤ کی درخواست کرتے تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الشافعی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں میں اعلان کیا ، وہ اکٹھے ہو گئے ، جب آپ ﷺ ’’ بَیْدَاء ‘‘ کے مقام پر تشریف لائے تو احرام باندھا ۔ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، مشرک کہا کرتے تھے : ہم حاضر ہیں ، تیرا کوئی شریک نہیں ، تو رسول اللہ ﷺ فرماتے :’’ تم پر افسوس ہے ، بس بس اتنا ہی کہو ۔‘‘ (پھر وہ مشرک کہتے) مگر تیرا وہ شریک ہے جس کا تو مالک ہے اور (اس چیز کا بھی تو مالک ہے) جس کا وہ مالک ہے ۔ اور وہ بیت اللہ کا طواف کرتے وقت یہ کہا کرتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔